وزارت اطلاعات نے وزیراعظم کو ’’چکر‘‘ دیکر 37 کروڑ روپے منظورکرالیے
پیپلزپارٹی دورکے اشتہارات کی ادائیگی کی مد میں سیکریٹری اطلاعات نے پی آئی ڈی کے اعتراضات مسترد کردیے
وفاقی وزارت اطلاعات نے وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھ کر پیپلزپارٹی کے دور حکومت کے اشتہارات کی ادائیگی کی مد میں 37 کروڑ روپے منظور کرالیے۔
سیکریٹری اطلاعات اعظم چوہدری نے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کی طرف سے کیے گئے اعتراضات پر اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھ کرکہا کہ اس طرح تو وزیراعظم کوسمری نہیں بھجوائی جاسکتی جس کے بعد سیکریٹری اطلاعات نے پی آئی ڈی کو اعتراضات والا خط واپس کرکے صرف رقم دینے کیلیے نیا نوٹ بھجوانے پر مجبور کیا۔ پی آئی ڈی نے نئے خط میں صرف رقم کا لکھ کرنیا نوٹ بھیج دیا جس پر وزیراعظم سے سمری منظورکرالی گئی۔ اب پی آئی ڈی کے ماتحت عملے نے ریکارڈکی چھان بین شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے بھی تمام ضابطے پورے کرکے ادائیگی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تمام تر ذمے داری سیکریٹری اطلاعات اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر (پی آئی او) پر ڈالی ہے۔37 کروڑ کے کلیم پر بھی پی آئی ڈی نے خدشات ظاہرکیے کہ اصل دستاویزات نہیں ہیں اور کئی جگہ پر دستخط بھی مختلف ہیں۔
پی آئی ڈی اسلام آبادکا مؤقف ہے کہ یہ مشتبہ ہے اور ادائیگی کرنے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔ پی آئی ڈی کے لیٹرمیں لکھا گیا ہے کہ انوائس کے علاوہ تمام دستاویزات کی فوٹوکاپی دی گئی ہے۔ انوائس پر آر آئی او اور پی آئی ڈی لاہور کے دستخط مختلف ہیں۔ پے منٹ کیلیے جو آرڈر دیا گیا ہے اس پر لاہور آر آئی او، پی آئی ڈی ڈارئنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفیسر سے تصدیق شدہ نہیں۔ متعدد ٹیرز شیٹ پی آئی ڈی کے نمبرزکے بغیر ہیں۔ کچھ کیسز میں غیر ضروری ٹیرز شیٹ لگائی گئی ہیں۔ تمام کیسزمیں آر آئی او اور پی آئی ڈی کی جانب سے جاری ڈی آر او لیٹرز نہیں لگائے گئے۔ چند انوائس اصل نہیں۔ ایجنسی کی جانب سے کچھ انوائس ٹیمپرڈ ہیں اور کچھ میں پی آئی ڈی کے سنگل نمبر کے ساتھ ڈبل انوائس لگائی گئی ہیں اور90 فیصد پے منٹ کیلیے مطلوبہ این او سی بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
لیٹر میں کہاگیا ہے کہ پی آئی ڈی کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے کہ یہ چیک کیا جاسکے رقم کی ادائیگی ان کلیمز کی روشنی میں کی گئی ہے کہ نہیں جوایجنسی کے ہر کلیم کیلیے ضروری ہے۔ علاوہ ازیں ادارے کے ایس او پی کے مطابق داخل کیے گئے کلیمز کے اصل دو سیٹ فراہم کرنا ضروری ہیں۔ ایک سیٹ اے جی پی آر کو فراہم کیا جائے گا جبکہ دوسرا سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا۔ اگر ایجنسی نے یہ ریکارڈ فراہم نہ کیا تو ادارہ یہ کلیمز پراسیس کرنے کی پورزیشن میں نہیں ہوگا۔ ایک ایجنسی کے علاوہ9ایجسنیوں نے کہا ہے کہ ہم اتنی قلیل مدت میں اصل کاغذات فراہم نہیں کرسکتے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بل کلائنٹ کے پاس ہیں اور ان کے حصول کیلیے وقت درکار ہے۔ ذرائع کے مطابق اسی ایک ایجنسی کے ماضی میں روکے گئے 13کروڑ روپے بھی آج ریلیز کیے جارہے ہیں۔
سیکریٹری اطلاعات نے وزیراعظم کو یہ سب اعتراضات نہیں بتائے اور سمری منظور کرالی۔ دوسری طرف پی آئی ڈی لاہور نے سب کلیم ادا کرنے کی تصدیق کردی۔ اب پی آئی ڈی اسلام آباد ان بلز کو چیک کے حصول کیلیے اے جی پی آر کو بھیج رہا ہے۔ اے جی پی آر پر لازم ہے کہ وہ ان کو قواعد و ضوابط کے مطابق مکمل طور پر جانچے اور پھر ادائیگی کرے۔ ماضی میں بھی اس کی طرح کی ایک پے منٹ یوسف رضا گیلانی نے کی اورگرانٹ ان ایڈ کے طور پر دے دی۔ اس کیس کی ابھی تک نیب انکوائری کررہا ہے۔ اب یہ ایک نیا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ آزاد میڈیا اس خبرکو نیب اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کیلیے سامنے لایا ہے کہ اس کو وہ بھی چیک کرلیں۔
سیکریٹری اطلاعات اعظم چوہدری نے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کی طرف سے کیے گئے اعتراضات پر اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھ کرکہا کہ اس طرح تو وزیراعظم کوسمری نہیں بھجوائی جاسکتی جس کے بعد سیکریٹری اطلاعات نے پی آئی ڈی کو اعتراضات والا خط واپس کرکے صرف رقم دینے کیلیے نیا نوٹ بھجوانے پر مجبور کیا۔ پی آئی ڈی نے نئے خط میں صرف رقم کا لکھ کرنیا نوٹ بھیج دیا جس پر وزیراعظم سے سمری منظورکرالی گئی۔ اب پی آئی ڈی کے ماتحت عملے نے ریکارڈکی چھان بین شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے بھی تمام ضابطے پورے کرکے ادائیگی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تمام تر ذمے داری سیکریٹری اطلاعات اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر (پی آئی او) پر ڈالی ہے۔37 کروڑ کے کلیم پر بھی پی آئی ڈی نے خدشات ظاہرکیے کہ اصل دستاویزات نہیں ہیں اور کئی جگہ پر دستخط بھی مختلف ہیں۔
پی آئی ڈی اسلام آبادکا مؤقف ہے کہ یہ مشتبہ ہے اور ادائیگی کرنے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔ پی آئی ڈی کے لیٹرمیں لکھا گیا ہے کہ انوائس کے علاوہ تمام دستاویزات کی فوٹوکاپی دی گئی ہے۔ انوائس پر آر آئی او اور پی آئی ڈی لاہور کے دستخط مختلف ہیں۔ پے منٹ کیلیے جو آرڈر دیا گیا ہے اس پر لاہور آر آئی او، پی آئی ڈی ڈارئنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفیسر سے تصدیق شدہ نہیں۔ متعدد ٹیرز شیٹ پی آئی ڈی کے نمبرزکے بغیر ہیں۔ کچھ کیسز میں غیر ضروری ٹیرز شیٹ لگائی گئی ہیں۔ تمام کیسزمیں آر آئی او اور پی آئی ڈی کی جانب سے جاری ڈی آر او لیٹرز نہیں لگائے گئے۔ چند انوائس اصل نہیں۔ ایجنسی کی جانب سے کچھ انوائس ٹیمپرڈ ہیں اور کچھ میں پی آئی ڈی کے سنگل نمبر کے ساتھ ڈبل انوائس لگائی گئی ہیں اور90 فیصد پے منٹ کیلیے مطلوبہ این او سی بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
لیٹر میں کہاگیا ہے کہ پی آئی ڈی کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے کہ یہ چیک کیا جاسکے رقم کی ادائیگی ان کلیمز کی روشنی میں کی گئی ہے کہ نہیں جوایجنسی کے ہر کلیم کیلیے ضروری ہے۔ علاوہ ازیں ادارے کے ایس او پی کے مطابق داخل کیے گئے کلیمز کے اصل دو سیٹ فراہم کرنا ضروری ہیں۔ ایک سیٹ اے جی پی آر کو فراہم کیا جائے گا جبکہ دوسرا سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا۔ اگر ایجنسی نے یہ ریکارڈ فراہم نہ کیا تو ادارہ یہ کلیمز پراسیس کرنے کی پورزیشن میں نہیں ہوگا۔ ایک ایجنسی کے علاوہ9ایجسنیوں نے کہا ہے کہ ہم اتنی قلیل مدت میں اصل کاغذات فراہم نہیں کرسکتے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بل کلائنٹ کے پاس ہیں اور ان کے حصول کیلیے وقت درکار ہے۔ ذرائع کے مطابق اسی ایک ایجنسی کے ماضی میں روکے گئے 13کروڑ روپے بھی آج ریلیز کیے جارہے ہیں۔
سیکریٹری اطلاعات نے وزیراعظم کو یہ سب اعتراضات نہیں بتائے اور سمری منظور کرالی۔ دوسری طرف پی آئی ڈی لاہور نے سب کلیم ادا کرنے کی تصدیق کردی۔ اب پی آئی ڈی اسلام آباد ان بلز کو چیک کے حصول کیلیے اے جی پی آر کو بھیج رہا ہے۔ اے جی پی آر پر لازم ہے کہ وہ ان کو قواعد و ضوابط کے مطابق مکمل طور پر جانچے اور پھر ادائیگی کرے۔ ماضی میں بھی اس کی طرح کی ایک پے منٹ یوسف رضا گیلانی نے کی اورگرانٹ ان ایڈ کے طور پر دے دی۔ اس کیس کی ابھی تک نیب انکوائری کررہا ہے۔ اب یہ ایک نیا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ آزاد میڈیا اس خبرکو نیب اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کیلیے سامنے لایا ہے کہ اس کو وہ بھی چیک کرلیں۔