گیلانی کا ’’ ہار‘‘ اور ہمارا سسٹم

ایک روایت ہے کہ دوسرے ملکوں سے آنے والے تحائف قومی ملکیت تصور ہوتے ہیں۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ ''ہار'' بالآخر نادراکے آفس تک پہنچ گیا، خوشی اس بات کی ہے کہ زیادہ شور مچنے سے پہلے ہی گیلانی ہار مان گئے اور حیرت اس بات کی ہے کہ وہ مان کیسے گئے۔۔۔؟ یہ بات چل نکلی ہے تو اسے دور تک جانا چاہیے صرف ہار اور یوسف رضا گیلانی تک محدود کیوں رکھا جائے، نہ جانے کتنے وزراء اعظم اور سربراہان ہیں جو قومی تحائف گھر لے گئے ہوں گے۔

شوکت عزیز کے بارے میں بھی ایسی ہی خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ وہ ساڑھے 4 کروڑ روپے مالیت کے قیمتی تحائف ملک سے لے کر بیرون ملک گئے ہیں، جس میں سعودی عرب سے ملنے والے جیولری سیٹ اور اس طرح کے کئی تحفے شامل ہیں۔ یہ کہانی بھی گردش میں رہی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی اہلیہ کو بھی سعودی عرب میں ہیروں کا سیٹ، زیور، نیکلس اور سونے کی چوڑیاں تحفے میںملے، وہ کہاں ہیں،اس حوالے سے بھی سچ سامنے آنا چاہیے۔

محترمہ بینظیر بھٹو پر الزام لگا کہ انھوں نے ایک لاکھ اسی ہزار ڈالر کا ہار تحفے میں لیا، سابق صدر جناب زرداری نے کچھ ماہ قبل سوئس حکومت سے کہا، وہ ہار جو اس کے قبضے میں ہے واپس کیا جائے کیونکہ وہ اس کے قانونی مالک ہیں۔ حالانکہ یہ ایک روایت ہے کہ دوسرے ملکوں سے آنے والے تحائف لاتے ہیں اور ہمارے میزبانوں کو پیش کرتے ہیں، یہ قومی ملکیت تصور ہوتے ہیں۔

ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم ہائوس میں ایک کمرہ مخصوص کردیا تھا جسے آپ عجائب گھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو تحائف بالکل ذاتی نہ ہوتے وہ اس میں رکھے جاتے تھے۔ سابق وزیر اعظم اور ان کی فیملی کے ہار اپنے پاس رکھنے کی بات اتنی بڑی بھی نہ تھی، لیکن میڈیا میں آگئی تو سمجھو بڑی بن گئی۔ آخر یہ میڈیا والے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کسی نے غلطی کر ہی لی تو ڈھنڈورا پیٹنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ انسان ہے، فرشتہ تھوڑی ہے کہ غلطی، جرم، اور گناہ اس سے نہ ہو۔ میں تو کانوں کو ہاتھ لگا لوں کہ ملتان کے اس سید خانوادے کے متعلق کچھ کہوں 'کچھ سنوں 'لکھوں گا وہی جو پڑھا'باقی

دروغ برگردن راوی...!!!

2010 میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے بستیوں کی بستیاں تباہ ہوگئیں، انسان، جانور، فصلیں اور گھر مٹ گئے، ایسے میں اس وقت کے ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی اہلیہ محترمہ کی بھی آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی اور انھوں نے اپنی شادی کا قیمتی ہار حکومتِ پاکستان کو اس شرط کے ساتھ عطیہ کردیا کہ اسے نیلام کر کے رقم سیلاب زدگان کو دے دیں۔ اب موصوفہ کو کیا پتہ کہ انھوں نے کس قوم کے حکمرانوں کے سامنے کیا بات کہہ ڈالی ہے۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ترک خاتون اول نے ہار ہی کیوں تحفے میں دیا وہ نقد رقم بھی دے سکتی تھیں، دراصل ترک قوم کو درسی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ جب خلافت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا اور ترکوں کی حالت بہت خراب ہوئی اور وہ دربدر ہوئے تو اس وقت برصغیر کی مسلم خواتین نے اپنے زیور ترکی بھیجے تھے۔ عورت ہونے کے ناطے عورت کے لیے اپنے بچوں کے بعد دنیا کی سب سے قیمتی چیز زیور ہوتے ہیں۔ ترک خواتین آج تک پاکستانی خواتین کے اس جذبے سے متاثر ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ترک خاتون اول نے پاکستانیوں کی مدد کرنے کے لیے ایسا ہی شاندار اقدام کیا جو اس وقت کی ہندوستان مسلم خواتین نے کیا تھا۔


اس مسئلے میں پڑے بغیر واپس آتے ہیں کہ ایک سابق وزیر اعظم سے قومی امانت یعنی ہار برآمد ہوا ہے۔۔۔!!! یہ ایک قومی المیہ ہے۔گیلانی صاحب ویسے تو 1978سے سیاست میں موجود ہیں اور ان پرکئی کرپشن کے مقدمات درج ہوئے، سیاسی کیرئر کے دوران یوسف رضا گیلانی کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات میں ریفرنس دائر ہوا اور راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت نے ستمبر 2004میں انھیں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تین سو ملازمین غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کے الزام میں دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔

تاہم 2006 میں یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم پر رہائی مل گئی۔ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ 2008 سے 2013 تک حکومت کا یہ ریکارڈ ہے کہ اس کے قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے چند سیکنڈ کی سزا کے بعد نہ صرف وزارت عظمیٰ بلکہ پانچ سال کے لیے الیکشن لڑنے سے بھی نا اہل قرار دے دیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں سے چار سال وزیراعظم رہنے والے یوسف رضا گیلانی کا ایک ریکارڈ یہ بھی رہا ہے کہ اْن کے دور حکومت میں بدعنوانی کے لگ بھگ 65 مقدمات دائر کیے گئے جن میں سے 12 مقدمات میں انھیں بھی نامزد کیا گیا۔جھوٹے ہیں یا سچے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔بہر حال اب چونکہ انھوں نے زرداری سے دوری اختیار کر لی ہے تو میری ناقص رائے میں لگتا یہی ہے کہ اب ان پر مقدمات نہیں کھلیں گے اور وہ سیاست کو انجوائے کریں گے۔

ہار والا معاملہ تو ایک جھلک تھی لیکن آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب ایف آئی اے کی ٹیم تحقیق کرے گی کہ ترک خاتون اول کا ہار سابق وزیراعظم گیلانی نے اپنے پاس کیوں رکھا؟۔ کہاں ہے ہمارا قانون؟ کہاں ہے ہمارا سسٹم؟ کہاں ہے ہماری متحرک پولیس؟ کہاں ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ؟ اگر یہی کام کسی عام آدمی نے کیا ہوتا تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ وہ شخص حوالات میں ہوتا، اور پولیس افسران اسے مہرہ بنا کر اپنے کاندھوں پر ترقی کے پھول سجوا رہے ہوتے اور اس کا 'ریمانڈ' کیا جارہا ہوتا،،، نہ جانے ہمارا سسٹم کب ٹھیک ہوگا؟ پاکستان کو اگر کسی چیز نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، عوام کا بیڑہ غرق کیا ہے تو وہ سسٹم کا ہی کمال ہے، سسٹم یا نظام کی یہ خرابی ہم پر مسلط کر دی گئی ہے۔

ایک طرف جہاں یہ نظام عوام کے لیے بدتر ہے وہیں یہ ایک مخصوص طبقے کے لیے جنت نظیرہے، اس سسٹم کی ساری ذلالت صرف عوام کے لیے ہے، یہ سسٹم یہ نظام لوٹ مار کرنے اورملک کا بیڑہ غرق کرنے والوں کی مرضی و منشا کے عین مطابق ہے اس نظام بے نام میں عام آدمی کہیں فٹ نہیں ہوتا اور ہوتا ہے تو اس کا مقدر ذلت، رسوائی، بھوک ،ننگ،غلامی،پولیس گردی اور دہشت گردی ہیں،سب مراعات اور عیاشیاں صرف حکمران طبقے ان کے عزیزوں دوستوں اور سرمایہ داروں کے لیے ہیں۔

ہمیں نہ تو ن لیگ چاہیے، نہ پیپلز پارٹی، نہ تحریک انصاف، نہ اے این پی، نہ ایم کیو ایم، نہ ق لیگ اور نہ ہی کوئی اور لیگ۔۔۔ ہمیں ان سب سے پہلے کچھ چاہیے تو وہ ہے سسٹم،،، ایسا نظام جس میں سیاستدان، پولیس، بیوروکریٹ اور عام آدمی ایک کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو سب کے لیے ایک ہی قانون ہو، سب قانون کی پاسداری کریں، اگر کوئی کرپشن کرے تو اسے علم ہو کہ اگر وہ پکڑا گیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔

جب تک یہ سسٹم یکسر تبدیل نہیں ہو گا نہ معاشرہ ٹھیک ہوگا نہ عدل و انصاف اور نہ ہی لوٹ مارکی لوٹ سیل کے سیلاب کو روکا جا سکے گا،یہ نظام ہر گز وہ نہیں ہے جس میں عام آدمی کے لیے کچھ بھی ہو۔۔کچھ بھی تو نہیں ہے اس زندہ مردہ مخلوق۔عوام۔ کے لیے،،، رہی بات ''ہار'' کی توحکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ سب کچھ پیسہ نہیں ہوتا۔ کتنے بڑے بڑے امیر لوگ مر گئے، مٹی میں مٹی ہو گئے آج انھیں کوئی جانتا نہیں۔ تاریخ بڑی بے رحم چیز ہے۔ یہ کسی کو نہیں بخشتی۔ مرنے کے بعد عزت زندہ رہتی ہے، دولت نہیں۔۔۔!!!
Load Next Story