لوڈ شیڈنگ ریلیف کی راہ میں رکاوٹ
لوڈ شیڈنگ کا دی اینڈ درحقیقت جمہوری عمل کی کامیابی اور عوام کو ملنے والے ثمرات کی ضمانت ہے
وزیراعظم نواز شریف نے ملک کو درپیش بجلی بحران کے حوالے سے کہا ہے کہ بجلی نہ آئے تو عوام صبروبرداشت سے کام لیں۔ لوڈ شیڈنگ راتوں رات ختم کرنے کا کبھی نہیں کہا اور نہ 2سال کا وقت دیا ہے۔ یہ کہا تھا کہ اپنے دور حکومت میں لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے۔ مسئلہ ہوتے ہی لوگ ڈنڈے لے کر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ اسلام آباد ایکسپریس وے سگنل فری منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ یکم جولائی سے پٹرول کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اگرچہ ارباب اختیار کے لیے طلسم ہوشربا بن چکا ہے تاہم عصر حاضر کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ تیل اور تیل کی مصنوعات نے زندگی کا عالمی اسلوب بدل کر رکھ دیا ہے، کئی عشرے قبل علامہ اقبال کا یہ شعر ملک کے سیاسی حلقوں میں ارتعاش پیدا کرتا رہا کہ :
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت، احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اب بھی یہ سب سے بڑی عصری حقیقت تسلیم کی گئی ہے کہ تیل زندگی کے تبدیل شدہ سسٹم کا التباس پیدا کرتا ہے، ایسی زندگی کا جس میں ہنر مند انسان کے پاس بھی کام نہیں ، سیال وسیلہ جدید عہد کے انسان کو مدہوش کیے ہوئے ہے، اس کی بصارت دھندلا گئی ہے، اور بعض ترقی پذیر ملکوں میں کرپٹ نظام حکومت آئل پالیٹکس کی دلدل میں اتر چکا ہے۔
چنانچہ وطن عزیز دیگر ملکوں کی طرح تیل کی جزوی پیداوار تو دے رہا ہے مگر پوری ملکی معیشت اور صنعتی و کاروباری معمولات برقی ایندھن سے منسلک ہیں ، بجلی ترقی یا جمود کے درمیان واضح فرق ہے اور ہماری حکومت کے لیے بقا کا مسئلہ اور زبردست چیلنج، اس لیے عوام کو صرف صبر کی تلقین کافی نہیں، وہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے ضمن میں پچھلی حکومتوں کے اسی طرح کے وعدوں پر اعتبار کرتے آئے ہیں اور قیامت خیز گرمی اور لوڈ شیڈنگ کا اذیت ناک تسلسل برداشت کررہے ہیں، لوڈ شیڈنگ عوامی ریلیف کی راہ میں رکاوٹ ہے، یوں بھی ارباب اقتدار کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ایک ایٹمی ملک کے شہریوں کی پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محرومی ستم ظریفی ہے۔
لوڈ شیڈنگ کا دی اینڈ درحقیقت جمہوری عمل کی کامیابی اور عوام کو ملنے والے ثمرات کی ضمانت ہے، روشنی ہوگی تو ملک تاریکیوں سے باہر نکلے گا،جب کہ بجلی اور پانی کی قلت سے سماجی و معاشی نظام میں مضمر ریاستی و حکومتی پالیسیوں میں خرابیوں اور بدانتظامی کی نشاندہی ہوتی ہے، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہمارے دور میں بجلی 5.25 روپے سستی ہوئی یہ معمولی بات نہیں۔
بجلی کے منصوبے لگ رہے ہیں جلد توانائی کا بحران ختم ہو جائے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ رمضان المبارک کے دوران عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالیں گے، یہ خیر سگالی خوش آیند ہے تاہم حکومت کا موقف ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود حکومت قیمتوں میں اضافہ نہیں کر رہی جب کہ بھارت دوسری مرتبہ پٹرول مصنوعات میں کمی کے اقدامات کررہا ہے۔ یہ معمہ یا تضاد ہے کہ بھارت جسے تیل کی قیمتوں میں کمی کہتا ہے ہم اسے عالمی منڈی میں اضافہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے، بہر کیف وزیراعظم نے صائب فیصلہ کرتے ہوئے اوگرا کی جانب سے پٹرول کی قیمت میں 4 روپے 26 پیسے اور ہائی اوکٹین کی قیمت میں7 روپے 30 پیسے بڑھانے کی تجویز کو مسترد کردیا جس کے باعث حکومت کو ڈھائی ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت نیلم جہلم منصوبے پر مزید کام کر رہی ہے۔
وہاں سے 900میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی جب کہ ایل این جی سے 3600 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایکسپریس ہائی وے سگنل فری منصوبہ بہت بڑا منصوبہ ہے، اسے بہت پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ کشمیر ہائی وے منصوبہ کئی سال سے تاخیر کا شکار ہے۔ منصوبے میں ہونے والے گھپلوں کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ جنہوں نے قومی منصوبوں کو نقصان پہنچایا ان کا احتساب کیا جائے گا۔ کشمیر تک سڑکوں کا جال بچھا دیں گے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے خطے کی تقدیر سنورے گی۔
وزیراعظم بدھ کو کراچی آئے ، اپنے مختصر قیام میں ان کا ہنگامی دورہ شہر قائد کے گراں بار مسائل کے حل کی جستجو ہے جس میں انھوں نے لاء اینڈ آرڈر پر روایتی اجلاس کے بجائے کراچی میں منصوبہ آب رسانی K4 کی دو سال میں تکمیل کی ہدایت کی، مانیٹرنگ کمیٹی کو فعال کردار ادا کرنے پر زور دیا جب کہ کثیر الاگت گرین لائن ٹرانسپورٹ پروجیکٹ پر فوکس کیا اور شدید گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں پر دلی رنج کا اظہار کیا۔ بلاشبہ شہر قائد کو موسمی تبدیلی کے ہاتھوں شدید گرمی کے تھپیڑے ملے ، سیکڑوں افراد بے بسی کی موت مرے ۔ کسی صاحب اختیار کا بال تک بیکا نہ ہوا۔
بہتر یہی تھا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے وزیراعظم متاثرین کی مالی امداد کا اعلان کر کے جاتے ، سندھ حکومت نے اس بڑے سانحہ پر صرف وضاحتوں اور اپنی صفائی پیش کرنے کا سامان کیا، نہ کوئی امدادی فنڈ قائم ہوا نہ ہلاک شدگان کے ورثا سے جاکر تعزیت کی گئی، یہ بھی تو حادثہ تھا۔ تاہم کشتۂ موسم گرما کے لواحقین ابھی تک چشم براہ ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اگرچہ ارباب اختیار کے لیے طلسم ہوشربا بن چکا ہے تاہم عصر حاضر کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ تیل اور تیل کی مصنوعات نے زندگی کا عالمی اسلوب بدل کر رکھ دیا ہے، کئی عشرے قبل علامہ اقبال کا یہ شعر ملک کے سیاسی حلقوں میں ارتعاش پیدا کرتا رہا کہ :
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت، احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اب بھی یہ سب سے بڑی عصری حقیقت تسلیم کی گئی ہے کہ تیل زندگی کے تبدیل شدہ سسٹم کا التباس پیدا کرتا ہے، ایسی زندگی کا جس میں ہنر مند انسان کے پاس بھی کام نہیں ، سیال وسیلہ جدید عہد کے انسان کو مدہوش کیے ہوئے ہے، اس کی بصارت دھندلا گئی ہے، اور بعض ترقی پذیر ملکوں میں کرپٹ نظام حکومت آئل پالیٹکس کی دلدل میں اتر چکا ہے۔
چنانچہ وطن عزیز دیگر ملکوں کی طرح تیل کی جزوی پیداوار تو دے رہا ہے مگر پوری ملکی معیشت اور صنعتی و کاروباری معمولات برقی ایندھن سے منسلک ہیں ، بجلی ترقی یا جمود کے درمیان واضح فرق ہے اور ہماری حکومت کے لیے بقا کا مسئلہ اور زبردست چیلنج، اس لیے عوام کو صرف صبر کی تلقین کافی نہیں، وہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے ضمن میں پچھلی حکومتوں کے اسی طرح کے وعدوں پر اعتبار کرتے آئے ہیں اور قیامت خیز گرمی اور لوڈ شیڈنگ کا اذیت ناک تسلسل برداشت کررہے ہیں، لوڈ شیڈنگ عوامی ریلیف کی راہ میں رکاوٹ ہے، یوں بھی ارباب اقتدار کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ایک ایٹمی ملک کے شہریوں کی پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محرومی ستم ظریفی ہے۔
لوڈ شیڈنگ کا دی اینڈ درحقیقت جمہوری عمل کی کامیابی اور عوام کو ملنے والے ثمرات کی ضمانت ہے، روشنی ہوگی تو ملک تاریکیوں سے باہر نکلے گا،جب کہ بجلی اور پانی کی قلت سے سماجی و معاشی نظام میں مضمر ریاستی و حکومتی پالیسیوں میں خرابیوں اور بدانتظامی کی نشاندہی ہوتی ہے، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہمارے دور میں بجلی 5.25 روپے سستی ہوئی یہ معمولی بات نہیں۔
بجلی کے منصوبے لگ رہے ہیں جلد توانائی کا بحران ختم ہو جائے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ رمضان المبارک کے دوران عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالیں گے، یہ خیر سگالی خوش آیند ہے تاہم حکومت کا موقف ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود حکومت قیمتوں میں اضافہ نہیں کر رہی جب کہ بھارت دوسری مرتبہ پٹرول مصنوعات میں کمی کے اقدامات کررہا ہے۔ یہ معمہ یا تضاد ہے کہ بھارت جسے تیل کی قیمتوں میں کمی کہتا ہے ہم اسے عالمی منڈی میں اضافہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے، بہر کیف وزیراعظم نے صائب فیصلہ کرتے ہوئے اوگرا کی جانب سے پٹرول کی قیمت میں 4 روپے 26 پیسے اور ہائی اوکٹین کی قیمت میں7 روپے 30 پیسے بڑھانے کی تجویز کو مسترد کردیا جس کے باعث حکومت کو ڈھائی ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت نیلم جہلم منصوبے پر مزید کام کر رہی ہے۔
وہاں سے 900میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی جب کہ ایل این جی سے 3600 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایکسپریس ہائی وے سگنل فری منصوبہ بہت بڑا منصوبہ ہے، اسے بہت پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ کشمیر ہائی وے منصوبہ کئی سال سے تاخیر کا شکار ہے۔ منصوبے میں ہونے والے گھپلوں کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ جنہوں نے قومی منصوبوں کو نقصان پہنچایا ان کا احتساب کیا جائے گا۔ کشمیر تک سڑکوں کا جال بچھا دیں گے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے خطے کی تقدیر سنورے گی۔
وزیراعظم بدھ کو کراچی آئے ، اپنے مختصر قیام میں ان کا ہنگامی دورہ شہر قائد کے گراں بار مسائل کے حل کی جستجو ہے جس میں انھوں نے لاء اینڈ آرڈر پر روایتی اجلاس کے بجائے کراچی میں منصوبہ آب رسانی K4 کی دو سال میں تکمیل کی ہدایت کی، مانیٹرنگ کمیٹی کو فعال کردار ادا کرنے پر زور دیا جب کہ کثیر الاگت گرین لائن ٹرانسپورٹ پروجیکٹ پر فوکس کیا اور شدید گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں پر دلی رنج کا اظہار کیا۔ بلاشبہ شہر قائد کو موسمی تبدیلی کے ہاتھوں شدید گرمی کے تھپیڑے ملے ، سیکڑوں افراد بے بسی کی موت مرے ۔ کسی صاحب اختیار کا بال تک بیکا نہ ہوا۔
بہتر یہی تھا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے وزیراعظم متاثرین کی مالی امداد کا اعلان کر کے جاتے ، سندھ حکومت نے اس بڑے سانحہ پر صرف وضاحتوں اور اپنی صفائی پیش کرنے کا سامان کیا، نہ کوئی امدادی فنڈ قائم ہوا نہ ہلاک شدگان کے ورثا سے جاکر تعزیت کی گئی، یہ بھی تو حادثہ تھا۔ تاہم کشتۂ موسم گرما کے لواحقین ابھی تک چشم براہ ہیں۔