رفعت ِ اسلام کی تمہید جنگ بدر

وقت کا سرچشمہ اسلحہ نہیں، اﷲ ہے۔ فتح و کامرانی، افرادی قوت کی کثرت اور اسلحے کی فراوانی سے نہیں

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

KARACHI:
وقت کا سرچشمہ اسلحہ نہیں، اﷲ ہے۔ فتح و کامرانی، افرادی قوت کی کثرت اور اسلحے کی فراوانی سے نہیں، ایمانی قوت کی حرارت اور جذبہ و ولولہ پر جوش روانی سے حاصل ہوتی ہے۔ غزوۂ بدر نے یہ ثابت کر دیا کہ جنگ سامانِ اسلحے سے نہیں اﷲ پر ایمان پختہ سے جیتی جاتی ہے۔

حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اور اہل ایمان، اﷲ پر بھروسہ کیے ہوئے تھے وہی ان کا اول وآخر آرا اور سہارا تھا جس کے نام پاک کی خاطر وہ سر پرکفن باندھ کر میدان جنگ میں اترآئے تھے۔ صداقت، ایمان کے کٹھن امتحان میں کامیاب و کامران ہونے پر غزوۂ بدر کے ہر فرد بشر مرد مومن، مرد حق کو اﷲ ذوالجلال و الاکرام نے خوش ہو کر جنت کی سند بطور انعام و اکرام عطا کی، یہ جنگ در اصل اہل ایمان کے لیے اﷲ کی مہر اور کفار کے حق میں مہر قہر تھی۔

اسلام زندہ اور کفر مردہ ہو گیا، اسلام افق سے طلوع ہوا اورکفر شفق میں ڈوب گیا، بقول ایک مغربی محقق ''بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا مگر بدر کے بعد وہ مذہب ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا۔''کہاں افراد کی تعداد 3/1 کی نسبت سامانِ حرب و ضرب کی 100/1 کی نسبت، کہاں آزمودہ اور توانا کیل کانٹے سے لیس لشکر اور کہاں غمزدہ ناتواں بے سر و سامان تین سو تیرا کا کمزور لشکر مگر کفار کے اس کروفر کے باوصف، کمزور کے ہاتھوں زیر و زبر ہو جانا ایک ہزار کا تین سو تیرہ کے ہاتھوں تین تیرا بارہ باٹ، تباہ و برباد ہو جانا معجزہ نہیں تو معجزہ نما ضرور ہے۔ جنگ بدر میں قوت ایمان کا رنگ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دیدہ بینا کے لیے غزوۂ بدر سبق آموز بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔

جنگ سے قبل جب رسولِ خدا نے رائے اور مشورہ طلب کیا تو دین حق کی شرط اول، یعنی محمدؐ کی محبت، عقیدت اور اطاعت کا اہل ایمان نے برملا اس طرح اظہار کیا ''ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں، آپؐ کو رسول برحق صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کا رسول کفار کے مقابلے کو جائے اور ہم گھروں پر بیٹھے رہیں۔ اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود پڑنے کا حکم دینگے تو بلا تامل کود پڑینگے، ہمیں جہاں چاہیں لے چلیں ہم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑیں گے ہم موسیٰؑ کی امت نہیں جس نے کہا ''موسیٰ جاؤ تم لڑو اور تمہارا رب لڑے، ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔''اﷲ رب العزت نے اپنی حمایت و نصرت کے دروازے اہل ایمان کے لیے کھول دیے۔

جنگ شروع ہونے سے پہلے آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اﷲ کے حضور بصد عاجزی دعا کی۔''خدایا، یہ ہیں قریش، اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تا کہ تیرے رسولؐ کو جھوٹا ثابت کر دیں یا اﷲ اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہو گی۔ اﷲ سے اپنے محبوبؐ کا رونا اور گڑگڑانا دیکھا نہ گیا فوراً فرشتوں کو اشارہ کیا، بزبان قرآن ''میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں بس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ۔'' (سورۂ انفال آیت 12)پہلے فرداً فرداً مقابلہ ہوا، دونوں طرف سے ایک ایک جوان میدان میں آیا، حضرت علیؓ ، حضرت حمزہؓ اور حضرت عبیدہؓ مئے رضا سے مست، مردان حق پرست کی ایک ضرب سے بت پرست کے پروانے عتبہ، ولید اور شیبہ چشم زدن میں زمین میں پڑے ہوئے تڑپ رہے تھے۔


کرب سے اس کے بعد عام جنگ شروع ہوئی حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر اور اس پر کچھ پڑھ کر شاھت الوجوہ کہہ کر کفار کی طرف پھینکی اور اس کے ساتھ ہی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اشارے سے اﷲ کے متوالے شمع رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پروانے کفار پر حملہ آور ہوئے ہر فرد شجاعت و شہامت میں شیر مرد تھا جن کے رعب و دبدبے سے دشمنوں کا رنگ زرد تھا، یہ اﷲ کی قدرت اور نصرت کی بات تھی کہ تین سو تیرہ کے کمال فن حرب سے ہزار کا حصولہ شکست تھا یہ دلوں کا بڑا ہی سخت امتحان تھا ایک طرف مسلمانوں کی تلواروں کے سامنے خود ان کے پیر مرد اور قلب و جگر کے ٹکڑے تھے۔

دوسری طرف اسلام کی محبت میں تمام خونی رشتوں کو بھلا دینے کا حکم خدا تھا، لہو کا رنگ ایک تھا مگر عقائد کے رنگ میں فرق تھا اس لیے حضرت ابو بکرؓ کی تلوار اپنے لخت جگر عبدالرحمن کے مقابلے میں بے نیام ہوئی، حضرت عمرؓ کی تلوار اپنے ماموں کے خون سے رنگین ہوئی، حذیفہؓ کو اپنے والد عتبہ کے مقابلے میں آنا پڑا، دیکھتے ہی دیکھتے کفار کے بڑے بڑے سردار عتبہ ولید شیبہ زمعہ ابوجہل، عقبہ، امیہ، ابوالبختری، عبیدہ وغیرہ کے گلہائے سر سبد اور تحریک عداوت اسلام کے روح رواں تھے جہنم کی طرف رواں ہوگئے۔

چلے تھے شکار کرنے، خود شکار ہو گئے، چلے تھے چراغ مصطفیؐ بجھانے خود ان کی زندگی کے چراغ بجھ گئے۔ غزوہ بدر حقیقت میں طلوع شوکت اسلام کی پہلی روشن کرن تھی، پہلی رسم وفا تھی، عظمت اسلام کا سنگ بنیاد تھی اسلام کے حقیقی عروج کی راہ ہموار تھی رفعت اسلام کی تمہید تھی، اہل ایمان کی آزمائش اور امتحان کی سخت گھڑی تھی گو کہ موت سر پر کھڑا تھی مگر جس جذبہ عشق کے ساتھ ہر مرد مومن، مرد حق نے جنگ لڑی تھی اس سے خوش ہو کر اﷲ نے دنیا میں ہی ہم فرد حق پرست کو جنت کی سند عطا کی کیونکہ ہر ایک نے جنگ میں ثابت قدم رہنے اور قدم قدم حبیب خدا کے سنگ چلنے کی قسم کھائی تھی۔ جنگ بدر میں آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے عطا کردہ علم غیب کے مناظر دیکھنے میں آئے۔

مقام بدر میں صلوٰۃ و دعا سے فارغ ہو کر مسکراتے ہوئے چھپر سے باہر آتے ہوئے فرمایا: ''کفار کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا'' نیز آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے دشمن اسلام سے متعلق بتایا کہ وہ کون کس جگہ جہنم رسید ہو گا آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ''کل یہاں فلاں کافر کی لاش ہو گی اور یہاں فلاں کافر کی لاش ہو گی اور یہاں فلاں کافر کی'' آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جملہ دشمنان اسلام کے نام گنوائے اور ہر ایک بعینہ اسی جنگی خاک و خون میں لت پت پائے گئے۔

جنگ بدر کے اختتام پر اسلام کا سخت ترین دشمن جو قریشی میں عمیر بن وہب کے نام سے مشہور تھا ذلت آمیز شکست اس سے دیکھی نہ گئی اور صفوان کا مشورہ مانتے ہوئے زہر میں بجھی ہوئی تلوار لے کر رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ناپاک ارادہ لیے مدینے پہنچا۔ حضرت عمرؓ اس کے تیور بھانپ گئے اور پکڑ کر دربار رسولؐ میں لائے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''عمرؓ اسے چھوڑدو'' پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمیر کو قریب بلاتے ہوئے پوچھا کس ارادے سے آئے ہو''جواب دیا ''اپنے نور نظر کو چھڑوانے آیا ہوں'' آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن یہ گلے میں تلوار کس مقصد کے لیے لٹکا رکھی ہے؟'' عمیر نے کہا آخر تلواریں بدر میں کس کام آئیں؟''

اس پر رسول اکرم، محبوب خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''کیا تم نے اور صفوان نے حجرے میں بیٹھ کر میرے قتل کی سازش نہیں کی تھی؟'' آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر عمیر کا راز فاش ہونے کی بنا پر رنگ زرد پڑ گیا، حواس باختہ ہو گیا، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنا بولا ''محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بے شک، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے رسول برق ہیں، بخدا میرے اور صفوان کے علاوہ اس معاملے کی کسی کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی اور کلمہ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زلفوں کا اسیر ہو گیا۔
Load Next Story