جوڈیشل کمیشن نے الیکشن کمیشن سے اضافی بیلٹ پیپرز کی پالیسی نہ ہونے پر وضاحت طلب کرلی
انتظامی غلطیاں ہوئیں لیكن اس میں بد نیتی شامل نہیں اور نہ ہی اضافی بیلٹ پیپرز كا غلط استعمال ہوا، وکیل مسلم لیگ (ن)
QUETTA:
عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی كی تحقیقات كرنے والے انكوائری كمیشن نے الیكشن كمیشن سے اضافی بیلٹ پیپرز كی چھپائی كے حوالے سے یكساں پالیسی نہ ہونے كے بارے وضاحت طلب كرلی جب کہ مسلم لیگ (ن) كے وكیل نے الیکشن کے دوران ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسران نے ہونے والی انتظامی غلطیوں کا اعتراف کرلیا ہے۔
عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے انكوائری كمیشن نے سوال اٹھایا كہ پورے ملك میں اضافی بیلٹ پیپرز كے لیے یكساں پالیسی كیوں نہیں تھی؟جب تین صوبوں میں اضافی بیلٹ پیپرز كا تعین صوبائی الیكشن كمیشن نے كیا تو پنجاب میں ریٹرننگ افسران كو یہ اختیار كیسے ملا؟ تین ركنی انكوائری كمیشن كے سربراہ چیف جسٹس ناصر الملك نے كہا كہ اضافی بیلٹ پیپرز كے حوالے سے ہر ریٹرننگ افسر نے اپنا اپنا فیصلہ كیا، ایك حلقہ میں ایك لاكھ 25 ہزار اضافی بیلٹ پیپرز اپنے پاس ركھے گئے تو دوسرے میں 70 ہزار، اس سے ثابت ہوتا ہے كہ كوئی یونیفارم پالیسی نہیں تھی۔ انہوں نے الیكشن كمیشن كے وكیل سلمان راجہ كو كہا كہ وہ اپنے دلائل كے دوران اس كی وضاحت كریں۔
دوران کارروائی مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد نے موقف اپنایا كہ گزشتہ عام انتخابات ملك كی تاریخ كا شفاف ترین انتخاب تھا تاہم ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسران سے غلطیاں ہوئیں لیكن یہ انتظامی غلطیاں جان بوجھ كر نہیں كی گئیں اور نہ ہی اضافی بیلیٹ پیپرز اپنے پاس ركھنے یا فام 15كی اہمیت نظر انداز كرنے میں ریٹرننگ اور پریزائڈنگ افسران كی بدنیتی شامل ہے، اضافی بیلیٹ پیپرز كا غلط استعمال نہیں ہوا اور نہ ہی كہیں پر غلط استعمال ثابت ہے اس لیے محض انتظامی غلطی پر الیكشن كو كالعدم نہیں كیا جاسكتا۔ انہوں نے اپنی دلیل كے حق میں مختلف عدالتی فیصلوں كے حوالے دیئے اور كہا كہ مستقبل میں پیش بندی كے لیے الیكشن كمیشن كو ہدایات جاری كی جاسكتی ہیں۔ شاہد حامد كے دلائل پر چیف جسٹس نے كہا كہ اضافی بیلیٹ پیپرز كاتنازعہ صرف پنجاب كی حد تک موجود ہے جس پر شاہد حامد نے كہا كہ فی پولنگ اسٹیشن صرف 66 اضافی بیلٹ پیپرز چھپے ہیں تناسب كے لحاظ سے اضافی بیلٹ پیپرز كی شرح كل ووٹوں كا 5.35 فیصد ہے۔
شاہد حامد نے مزید بتایا كہ قومی اسمبلی كی 272 نشستوں میں سے 137 كے نتائج چیلنج ہوئے 112 درخواستیں خارج ہوئیں اور 15 منظور ہوئیں جب كہ 12 مقدمات ابھی تك زیر التواہیں۔ انہوں نے كہا كہ الیكشن ٹربیونلز كے فیصلوں كے خلاف صرف 20 اپیلیں سپریم كورٹ میں دائر ہوئیں جن میں 6 كا فیصلہ ہو گیا اور 14 زیر سماعت ہیں ،47 حلقوں كے نتائج تسلیم شدہ ہیں، صوبائی اسمبلیوں كی 577 نشستوں میں سے 270 كے نتائج چیلنج ہوئے 216 درخواستیں خارج ہوئیں، 26 كا فیصلہ درخواست گزاروں كے حق میں ہوا جب كہ 17 زیر سماعت ہیں ان فیصلوں كے خلاف 28 اپیلوں كا سپریم كورٹ نے فیصلہ كیا اور 44 زیر سماعت ہیں۔ شاہد حامد نے كہا كہ اضافی بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسران نے اپنے پاس ركھے اور رسید لے كر واپس كیے گئے جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ ریٹرننگ افسران نے یہ نہیں كہا كہ اضافی بیلٹ پیپر اپنے پاس ركھے بلكہ انہوں نے كہا كہ اتنے بیلٹ پیپرز اپنے پاس ركھے اورباقی تقسیم كیے۔
شاہد حامد نے تسلیم كیا كہ انتظامی غلطیاں تو ہوئی ہیں لیكن اس میں بد نیتی شامل نہیں ہے اور نہ ہی ان اضافی بیلٹ پیپرز كا غلط استعمال ہوا ہے،انتظامی غلطی كی وجہ سے پراسس كوكالعدم نہیں كیا جا سكتا، مستقبل كے لیے الیكشن كمیشن كو گائیڈ لائنز دی جا سكتی ہیں كہ وہ بیلٹ پیپرز كی چھپائی اور تقسیم كے بارے میں رہنما اصول وضع كرے اور عملے كی تربیت كرے۔ انہوں نے كہاكہ فارم 15 كے حوالے سے پنجاب كے پریزائیڈنگ افسران كی كاركردگی سب سے بہتر ہے۔ چیف جسٹس نے كہا كہ فارم 15 پورے ملك میں غائب پائے گئے ہیں اصولاً تو مال خانوں اور ریٹرننگ افسران سے 100،100 فیصد فارم 15 آنے چاہیں تھے لیكن یہاں كچھ فارم 15 مال خانوں اور كچھ ریٹرننگ افسران سے ملے۔ شاہد حامد نے تسلیم كیا كہ فارم 15 كی اہمیت كو محسوس نہیں كیا گیا جو پریزائیڈنگ افسران كی غلطی ہے لیكن اس بنیاد پر نہیں كہا جا سكتا كہ دھاندلی ہوئی ہے اس میں مسلم لیگ(ن) كے امیدواروں كا بھی كوئی كردار نہیں ہے۔
مسلم لیگ ( ن ) كے وكیل شاہد حامد نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی كے انكوائری كمیشن كو بتایا كہ ثبوت تو دور كی بات ہے الزامات لگانے والے تو یہ نہیں بتا سكے كہ دھاندلی ہوئی كیسے، اگر اضافی ووٹ ڈالے گئے تو كس نے ڈالے،انہوں نے عدلیہ پر الزامات لگانے كی مذمت كی اور كہا كہ یہ عدلیہ كو بدنام كرنے كے علاوہ اور كچھ نہیں، دھاندلی كے الزامات لگانے والوں كی ذمہ داری تھی كہ وہ ثبوت بھی پیش كرتے لیكن ایسا نہیں ہوا، دكھ كی بات یہ ہے كہ عدلیہ كو متنازعہ بنایا گیا۔
قبل ازیں مسلم لیگ ( ق ) كے خالد رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا كہ انہوں نے بحیثیت ایك شہری حقائق سامنے ركھے ہیں، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی كے وكیل شاہ خاور نے كہا كہ نگران وزیر اعلی تسلیم كرچكے ہیں كہ الیكشن میں استادی ہوئی جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ وہ منتظم اعلیٰ تھے ان كا كام شكایت كرنا نہیں بلكہ انتظام چلانا تھا اگر بد انتظامی ہوئی تو اس كے لیے وہ خود ذمہ دار ہیں انہیں كسی نے ذمہ داریاں نبھانے سے روكا تو نہیں تھا انہیں كابینہ بنانے سے كس نے روكا چیف سیكرٹری كو زیادہ اختیارات كیوں دئیے۔ جماعت اسلامی كے وكیل عبد الرحمن صدیقی نے پیش ہوكر كہا كہ سپریم كورٹ كے فیصلے كے باوجود انتخابی فہرستوں كا جائزہ نہیں لیا گیا، فہرستیں قانون كے مطابق نہیں بنائی گئیں، جماعت اسلامی سمیت 18 جماعتوں نے فوج كی نگرانی میں الیكشن كی تجویز دی تھی لیكن ایم كیو ایم نے اس كی حمایت نہیں كی۔ بی این پی مینگل كے وكیل منیر پراچہ نے اپنے دلائل مكمل كرلیے جب كہ ایم كیوایم اور الیكشن كمیشن كے وكلا کل دلائل دیں گے اور کل انكوائری كمیشن كی كارروائی مكمل ہونے كا امكان ہے۔
عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی كی تحقیقات كرنے والے انكوائری كمیشن نے الیكشن كمیشن سے اضافی بیلٹ پیپرز كی چھپائی كے حوالے سے یكساں پالیسی نہ ہونے كے بارے وضاحت طلب كرلی جب کہ مسلم لیگ (ن) كے وكیل نے الیکشن کے دوران ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسران نے ہونے والی انتظامی غلطیوں کا اعتراف کرلیا ہے۔
عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے انكوائری كمیشن نے سوال اٹھایا كہ پورے ملك میں اضافی بیلٹ پیپرز كے لیے یكساں پالیسی كیوں نہیں تھی؟جب تین صوبوں میں اضافی بیلٹ پیپرز كا تعین صوبائی الیكشن كمیشن نے كیا تو پنجاب میں ریٹرننگ افسران كو یہ اختیار كیسے ملا؟ تین ركنی انكوائری كمیشن كے سربراہ چیف جسٹس ناصر الملك نے كہا كہ اضافی بیلٹ پیپرز كے حوالے سے ہر ریٹرننگ افسر نے اپنا اپنا فیصلہ كیا، ایك حلقہ میں ایك لاكھ 25 ہزار اضافی بیلٹ پیپرز اپنے پاس ركھے گئے تو دوسرے میں 70 ہزار، اس سے ثابت ہوتا ہے كہ كوئی یونیفارم پالیسی نہیں تھی۔ انہوں نے الیكشن كمیشن كے وكیل سلمان راجہ كو كہا كہ وہ اپنے دلائل كے دوران اس كی وضاحت كریں۔
دوران کارروائی مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد نے موقف اپنایا كہ گزشتہ عام انتخابات ملك كی تاریخ كا شفاف ترین انتخاب تھا تاہم ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسران سے غلطیاں ہوئیں لیكن یہ انتظامی غلطیاں جان بوجھ كر نہیں كی گئیں اور نہ ہی اضافی بیلیٹ پیپرز اپنے پاس ركھنے یا فام 15كی اہمیت نظر انداز كرنے میں ریٹرننگ اور پریزائڈنگ افسران كی بدنیتی شامل ہے، اضافی بیلیٹ پیپرز كا غلط استعمال نہیں ہوا اور نہ ہی كہیں پر غلط استعمال ثابت ہے اس لیے محض انتظامی غلطی پر الیكشن كو كالعدم نہیں كیا جاسكتا۔ انہوں نے اپنی دلیل كے حق میں مختلف عدالتی فیصلوں كے حوالے دیئے اور كہا كہ مستقبل میں پیش بندی كے لیے الیكشن كمیشن كو ہدایات جاری كی جاسكتی ہیں۔ شاہد حامد كے دلائل پر چیف جسٹس نے كہا كہ اضافی بیلیٹ پیپرز كاتنازعہ صرف پنجاب كی حد تک موجود ہے جس پر شاہد حامد نے كہا كہ فی پولنگ اسٹیشن صرف 66 اضافی بیلٹ پیپرز چھپے ہیں تناسب كے لحاظ سے اضافی بیلٹ پیپرز كی شرح كل ووٹوں كا 5.35 فیصد ہے۔
شاہد حامد نے مزید بتایا كہ قومی اسمبلی كی 272 نشستوں میں سے 137 كے نتائج چیلنج ہوئے 112 درخواستیں خارج ہوئیں اور 15 منظور ہوئیں جب كہ 12 مقدمات ابھی تك زیر التواہیں۔ انہوں نے كہا كہ الیكشن ٹربیونلز كے فیصلوں كے خلاف صرف 20 اپیلیں سپریم كورٹ میں دائر ہوئیں جن میں 6 كا فیصلہ ہو گیا اور 14 زیر سماعت ہیں ،47 حلقوں كے نتائج تسلیم شدہ ہیں، صوبائی اسمبلیوں كی 577 نشستوں میں سے 270 كے نتائج چیلنج ہوئے 216 درخواستیں خارج ہوئیں، 26 كا فیصلہ درخواست گزاروں كے حق میں ہوا جب كہ 17 زیر سماعت ہیں ان فیصلوں كے خلاف 28 اپیلوں كا سپریم كورٹ نے فیصلہ كیا اور 44 زیر سماعت ہیں۔ شاہد حامد نے كہا كہ اضافی بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسران نے اپنے پاس ركھے اور رسید لے كر واپس كیے گئے جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ ریٹرننگ افسران نے یہ نہیں كہا كہ اضافی بیلٹ پیپر اپنے پاس ركھے بلكہ انہوں نے كہا كہ اتنے بیلٹ پیپرز اپنے پاس ركھے اورباقی تقسیم كیے۔
شاہد حامد نے تسلیم كیا كہ انتظامی غلطیاں تو ہوئی ہیں لیكن اس میں بد نیتی شامل نہیں ہے اور نہ ہی ان اضافی بیلٹ پیپرز كا غلط استعمال ہوا ہے،انتظامی غلطی كی وجہ سے پراسس كوكالعدم نہیں كیا جا سكتا، مستقبل كے لیے الیكشن كمیشن كو گائیڈ لائنز دی جا سكتی ہیں كہ وہ بیلٹ پیپرز كی چھپائی اور تقسیم كے بارے میں رہنما اصول وضع كرے اور عملے كی تربیت كرے۔ انہوں نے كہاكہ فارم 15 كے حوالے سے پنجاب كے پریزائیڈنگ افسران كی كاركردگی سب سے بہتر ہے۔ چیف جسٹس نے كہا كہ فارم 15 پورے ملك میں غائب پائے گئے ہیں اصولاً تو مال خانوں اور ریٹرننگ افسران سے 100،100 فیصد فارم 15 آنے چاہیں تھے لیكن یہاں كچھ فارم 15 مال خانوں اور كچھ ریٹرننگ افسران سے ملے۔ شاہد حامد نے تسلیم كیا كہ فارم 15 كی اہمیت كو محسوس نہیں كیا گیا جو پریزائیڈنگ افسران كی غلطی ہے لیكن اس بنیاد پر نہیں كہا جا سكتا كہ دھاندلی ہوئی ہے اس میں مسلم لیگ(ن) كے امیدواروں كا بھی كوئی كردار نہیں ہے۔
مسلم لیگ ( ن ) كے وكیل شاہد حامد نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی كے انكوائری كمیشن كو بتایا كہ ثبوت تو دور كی بات ہے الزامات لگانے والے تو یہ نہیں بتا سكے كہ دھاندلی ہوئی كیسے، اگر اضافی ووٹ ڈالے گئے تو كس نے ڈالے،انہوں نے عدلیہ پر الزامات لگانے كی مذمت كی اور كہا كہ یہ عدلیہ كو بدنام كرنے كے علاوہ اور كچھ نہیں، دھاندلی كے الزامات لگانے والوں كی ذمہ داری تھی كہ وہ ثبوت بھی پیش كرتے لیكن ایسا نہیں ہوا، دكھ كی بات یہ ہے كہ عدلیہ كو متنازعہ بنایا گیا۔
قبل ازیں مسلم لیگ ( ق ) كے خالد رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا كہ انہوں نے بحیثیت ایك شہری حقائق سامنے ركھے ہیں، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی كے وكیل شاہ خاور نے كہا كہ نگران وزیر اعلی تسلیم كرچكے ہیں كہ الیكشن میں استادی ہوئی جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ وہ منتظم اعلیٰ تھے ان كا كام شكایت كرنا نہیں بلكہ انتظام چلانا تھا اگر بد انتظامی ہوئی تو اس كے لیے وہ خود ذمہ دار ہیں انہیں كسی نے ذمہ داریاں نبھانے سے روكا تو نہیں تھا انہیں كابینہ بنانے سے كس نے روكا چیف سیكرٹری كو زیادہ اختیارات كیوں دئیے۔ جماعت اسلامی كے وكیل عبد الرحمن صدیقی نے پیش ہوكر كہا كہ سپریم كورٹ كے فیصلے كے باوجود انتخابی فہرستوں كا جائزہ نہیں لیا گیا، فہرستیں قانون كے مطابق نہیں بنائی گئیں، جماعت اسلامی سمیت 18 جماعتوں نے فوج كی نگرانی میں الیكشن كی تجویز دی تھی لیكن ایم كیو ایم نے اس كی حمایت نہیں كی۔ بی این پی مینگل كے وكیل منیر پراچہ نے اپنے دلائل مكمل كرلیے جب كہ ایم كیوایم اور الیكشن كمیشن كے وكلا کل دلائل دیں گے اور کل انكوائری كمیشن كی كارروائی مكمل ہونے كا امكان ہے۔