قدرتی آفت یا انتظامی غفلت
پاکستان کی تاریخ میں گرمی سے ہلاکتوں کا اس طرح کا سانحہ اس سے قبل پیش نہیں آیا
وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے اپنے دورہ کراچی میں درست تجزیہ پیش کیا کہ کہ ملک میں گرمی کی لہر سے غیر معمولی صورت حال پیدا ہوئی، پاکستان کی تاریخ میں گرمی سے ہلاکتوں کا اس طرح کا سانحہ اس سے قبل پیش نہیں آیا، ملک میں اس طرح اموات کی مثال نہیں ملتی، دکھ کی اس گھڑی میں حکومت متاثرہ افراد کے ساتھ ہے، اس سانحے پر تمام متعلقہ ادارے جوابدہ ہیں اور اس کے ذمے داروں کا شفاف طریقے سے تعین کیا جانا چاہیے، انھوں نے یقین دلایا کہ غفلت برتنے والے محکموں کا کڑا احتساب ہوگا، وزیراعلیٰ سندھ اس حوالے سے فوری تحقیقات کرائیں اور جامع رپورٹ مرتب کریں ۔
وزیر اعظم نے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان مسائل کے حل اور رابطے کے نظام کو موثر بنانے کے لیے وفاقی وزرا پر مشتمل3رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جب کہ کمیٹی میں وفاقی وزیر سرحدی و ریاستی امور عبدالقادر بلوچ ، وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف شامل ہوں گی ، کمیٹی سندھ میں لوڈ شیڈنگ، بجلی کے واجبات کے تنازع ، مالی امور ، فنڈز کے اجرا، وفاقی حکومت کے تحت کراچی سمیت سندھ بھر میں جاری میگا پروجیکٹس کی تکمیل اور دیگر مسائل کے حوالے سے سندھ حکومت سے رابطے میں رہے گی ۔
لیکن اصل مسئلہ وفاق کی سنجیدہ تحقیقات کی ہدایت جب کہ سندھ حکومت کی طرف سے سانحہ کی شدت ، سنگینی اور ناتدبیری کے عدم اعتراف کا ہے ، وزیراعظم غفلت برتنے والوں کے کڑے احتساب کی بات کرتے ہیں جب کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا موقف ہے کہ کراچی میں اموات قدرتی آفت تھی ، کوئی انسانی غلطی یا کسی ادارے کی کوتاہی نہیں، جب کہ حکام کے استدلال و منطق کی رو سے اس ''آفت'' کی ذمے داری انتظامی طور پر کسی حکومتی ادارے پر نہیں ڈالی جاسکتی تو تحقیقاتی رپورٹ کیسے تیار ہوگی اور کوئی جوابدہ ہی نہیں تو کس کے خلاف کڑا احتساب ہوگا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ عالمی ادارہ صحت نے پہلی بار وارننگ دی ہے کہ ہیٹ ویو الرٹ سسٹم قائم کیے جائیں ،ایک رپورٹ کے مطابق فرانس سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں الرٹ اور الارمنگ سسٹم موجود ہے جو 2003ء کی شدید گرمی کی لہر سے یورپ بھر میں ہزاروں افراد کی ہلاکتوں کے نتیجہ میں متعارف کرایا گیا۔ عالمی برادری نے خبردار کیا ہے کہ ہیٹ ویو انسانی صحت کے لیے خطرہ ہے ، گرمی کی لہریں شدت پذیر ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں ۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اجلاس کو بتایا کہ کراچی میں گرمی کی حالیہ لہر کے باعث 1250 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے،65 ہزار مریضوں کو مختلف اسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی گئی، اسی اجلاس میں سندھ کے سینئر وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے وزیر اعظم سے شکایت کی کہ اندرون سندھ میں بے انتہا لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے اور بار بار وفاقی وزارت پانی و بجلی سے رابطہ کرنے کے باوجود مسائل حل نہیں کیے جاتے ۔
شکایت بلاجواز بھی نہیں کہی جاسکتی کیونکہ لوڈ شیڈنگ نے کراچی سمیت سندھ کی سماجی ،کاروباری اور صنعتی ترقی کو شدید متاثر کیا ہے ، اب اگر وزیر اعظم وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایت دیتے بھی ہیں کہ جاں بحق افراد کے اعداد و شمار مکمل جمع کیے جائیں اور متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لیے کوئی پالیسی وضع کی جائے تو سندھ حکومت اپنی آفت تھیوری سے کیسے پیچھے ہٹے گی اس طرح مرتب ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ اس ملک میں وقوع پذیر ہونے والی ان گنت درد انگیز سانحات سے متعلق ''ایک اور رپورٹ سہی'' کے مصداق ہوگی ، ساتھ ہی وزیر اعظم نے چیئرمین این ڈی ایم اے کو بھی ہدایت کی کہ وہ حالیہ صورت حال کے مکمل خاتمے تک کراچی میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں ۔
سوال یہ ہے کہ اگر شدید گرمی قدرتی آفت تھی تو محکمہ موسمیات کے انتباہ اور اسٹیلائٹ تصویروں سے حاصل ہونے والی تشویش ناک صورتحال سے بچا جاسکتا تھا ، صوبائی وزیر بلدیات کا کہنا بھی یہی ہے کہ قدرتی آفت تھی ، وزیر اعلیٰ نے نواز شریف سے گلہ کیا کہ وہ کے الیکٹرک کی حامی ہیں جو بالائی سطح پر سندھ و وفاق میں روادارانہ مراسم ، رابطہ اور ڈائیلاگ کی اچھی کوشش نظر آتی ہے مگر زیریں سطح پر دو طرفہ عدم اتفاق ، اضطراب اور بد گمانی واضح ہے۔
جس میں عوام کا کوئی فائدہ نہیں ، انھیں تو اس بات سے دلچسپی ہے کہ وزیراعظم نے کراچی آنے کے بعد ان کے دکھ شیئر کیے یا نہیں، متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے اسے وزیراعظم کی کراچی سے عدم دلچسپی قراردیا۔ ادھر کراچی اور اندرون سندھ بجلی کے شارٹ فال سے نافذ ہونے والی لوڈ شیڈنگ اذیت ناک بن چکی ہے۔سندھ کے کئی ادارے ڈیفالٹر ہیں، اور بقایاجات کی ادائیگی کے تنازع پر سندھ و وفاق کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے ، اس کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔
ارباب اختیار یاد رکھیں کہ بحران اور ایمرجنسی صورتحال یا قدرتی آفات کسی حکومت کو انسانی اموات پر واک اوور نہیں دے سکتیں ، قیادت کے جوہر بحرانوں میں ہی کھلتے ہیں، تندیٔ باد مخالف سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، گرمی کی لہر قدرتی آفت تھی تو بھی سندھ حکومت کا فرض تھا کہ اس سے نمٹنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتی ۔ پہلو تہی کی گنجائش نہیں۔
وزیر اعظم نے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان مسائل کے حل اور رابطے کے نظام کو موثر بنانے کے لیے وفاقی وزرا پر مشتمل3رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جب کہ کمیٹی میں وفاقی وزیر سرحدی و ریاستی امور عبدالقادر بلوچ ، وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف شامل ہوں گی ، کمیٹی سندھ میں لوڈ شیڈنگ، بجلی کے واجبات کے تنازع ، مالی امور ، فنڈز کے اجرا، وفاقی حکومت کے تحت کراچی سمیت سندھ بھر میں جاری میگا پروجیکٹس کی تکمیل اور دیگر مسائل کے حوالے سے سندھ حکومت سے رابطے میں رہے گی ۔
لیکن اصل مسئلہ وفاق کی سنجیدہ تحقیقات کی ہدایت جب کہ سندھ حکومت کی طرف سے سانحہ کی شدت ، سنگینی اور ناتدبیری کے عدم اعتراف کا ہے ، وزیراعظم غفلت برتنے والوں کے کڑے احتساب کی بات کرتے ہیں جب کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا موقف ہے کہ کراچی میں اموات قدرتی آفت تھی ، کوئی انسانی غلطی یا کسی ادارے کی کوتاہی نہیں، جب کہ حکام کے استدلال و منطق کی رو سے اس ''آفت'' کی ذمے داری انتظامی طور پر کسی حکومتی ادارے پر نہیں ڈالی جاسکتی تو تحقیقاتی رپورٹ کیسے تیار ہوگی اور کوئی جوابدہ ہی نہیں تو کس کے خلاف کڑا احتساب ہوگا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ عالمی ادارہ صحت نے پہلی بار وارننگ دی ہے کہ ہیٹ ویو الرٹ سسٹم قائم کیے جائیں ،ایک رپورٹ کے مطابق فرانس سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں الرٹ اور الارمنگ سسٹم موجود ہے جو 2003ء کی شدید گرمی کی لہر سے یورپ بھر میں ہزاروں افراد کی ہلاکتوں کے نتیجہ میں متعارف کرایا گیا۔ عالمی برادری نے خبردار کیا ہے کہ ہیٹ ویو انسانی صحت کے لیے خطرہ ہے ، گرمی کی لہریں شدت پذیر ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں ۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اجلاس کو بتایا کہ کراچی میں گرمی کی حالیہ لہر کے باعث 1250 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے،65 ہزار مریضوں کو مختلف اسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی گئی، اسی اجلاس میں سندھ کے سینئر وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے وزیر اعظم سے شکایت کی کہ اندرون سندھ میں بے انتہا لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے اور بار بار وفاقی وزارت پانی و بجلی سے رابطہ کرنے کے باوجود مسائل حل نہیں کیے جاتے ۔
شکایت بلاجواز بھی نہیں کہی جاسکتی کیونکہ لوڈ شیڈنگ نے کراچی سمیت سندھ کی سماجی ،کاروباری اور صنعتی ترقی کو شدید متاثر کیا ہے ، اب اگر وزیر اعظم وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایت دیتے بھی ہیں کہ جاں بحق افراد کے اعداد و شمار مکمل جمع کیے جائیں اور متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لیے کوئی پالیسی وضع کی جائے تو سندھ حکومت اپنی آفت تھیوری سے کیسے پیچھے ہٹے گی اس طرح مرتب ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ اس ملک میں وقوع پذیر ہونے والی ان گنت درد انگیز سانحات سے متعلق ''ایک اور رپورٹ سہی'' کے مصداق ہوگی ، ساتھ ہی وزیر اعظم نے چیئرمین این ڈی ایم اے کو بھی ہدایت کی کہ وہ حالیہ صورت حال کے مکمل خاتمے تک کراچی میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں ۔
سوال یہ ہے کہ اگر شدید گرمی قدرتی آفت تھی تو محکمہ موسمیات کے انتباہ اور اسٹیلائٹ تصویروں سے حاصل ہونے والی تشویش ناک صورتحال سے بچا جاسکتا تھا ، صوبائی وزیر بلدیات کا کہنا بھی یہی ہے کہ قدرتی آفت تھی ، وزیر اعلیٰ نے نواز شریف سے گلہ کیا کہ وہ کے الیکٹرک کی حامی ہیں جو بالائی سطح پر سندھ و وفاق میں روادارانہ مراسم ، رابطہ اور ڈائیلاگ کی اچھی کوشش نظر آتی ہے مگر زیریں سطح پر دو طرفہ عدم اتفاق ، اضطراب اور بد گمانی واضح ہے۔
جس میں عوام کا کوئی فائدہ نہیں ، انھیں تو اس بات سے دلچسپی ہے کہ وزیراعظم نے کراچی آنے کے بعد ان کے دکھ شیئر کیے یا نہیں، متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے اسے وزیراعظم کی کراچی سے عدم دلچسپی قراردیا۔ ادھر کراچی اور اندرون سندھ بجلی کے شارٹ فال سے نافذ ہونے والی لوڈ شیڈنگ اذیت ناک بن چکی ہے۔سندھ کے کئی ادارے ڈیفالٹر ہیں، اور بقایاجات کی ادائیگی کے تنازع پر سندھ و وفاق کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے ، اس کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔
ارباب اختیار یاد رکھیں کہ بحران اور ایمرجنسی صورتحال یا قدرتی آفات کسی حکومت کو انسانی اموات پر واک اوور نہیں دے سکتیں ، قیادت کے جوہر بحرانوں میں ہی کھلتے ہیں، تندیٔ باد مخالف سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، گرمی کی لہر قدرتی آفت تھی تو بھی سندھ حکومت کا فرض تھا کہ اس سے نمٹنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتی ۔ پہلو تہی کی گنجائش نہیں۔