اضطراب بے چینیمایوسی
ہم سب بے چین، مضطرب، پریشان اور کرب زدہ ہیں، ہم سے مسکراہٹیں روٹھ گئی ہیں اور ہماری نیندیں چھن چکی ہیں۔
چہروں پر کرب، ماتھے سلوٹوں سے بھرے ہوئے، مضطرب، پریشان، کوئی ناخنوں کو دانتوں سے کاٹ رہا ہے تو کوئی مسلسل اپنی ٹانگیں ہلائے چلے جا رہا ہے، اچھا خاصا ذہین اور بذلہ سنج آدمی لیکن بھری محفل میں بیٹھے ہوئے خود سے باتیں کرنے لگ جاتا ہے، کسی جگہ آرام سے چل رہا ہو گا تو اچانک دوڑ پڑے گا۔ آپ کو یہ سب اس اضطراب کے دور میں عام نظر آ رہا ہو گا۔ یہ تو وہ علامتیں ہیں جو آپ دیکھ پاتے ہیں۔
یہ ان انسانوں کو پریشانیوں سے پیدا ہونے والی کیفیت کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔ لیکن اگر آپ کو ان کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کا اتفاق ہو جائے تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ لوگ پریشانی اور اضطراب کے عالم میں کس قدر خوفناک زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی نیند ٹوٹی پھوٹی اور بہت کم ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو ہزار کوشش سے انھیں نیند آتی ہی نہیں، بلاوجہ غصہ اور چڑچڑاہٹ، ایسے شخص سے لڑ پڑتے ہیں جس کا کوئی قصور تک نہ ہو یا ایسی بات پر غصہ کر جاتے ہیں جسے ہنس کر ٹال دینا چاہیے تھا۔ کوئی پریشانی کے عالم میں معدے کی تیزابیت کا شکار ہو جاتا ہے تو کسی کو اپھارے کی ایسی شکایت ہوتی ہے کہ سانس حلق میں اٹک جاتا ہے۔
کسی کے ہاتھوں اور پاؤں میں مستقل پسینہ آنے لگتا ہے تو کوئی شدید بلڈ پریشر یا فشار خون کے ہاتھوں پریشان۔ یہ تو صرف چند علامات ہیں جو انھیں پریشانیوں کی وجہ سے لاحق ہیں ورنہ امراض کی ایک فہرست ہے جو نفسیاتی اضطراب، بے چینی اور پریشانی سے جنم لیتی ہیں۔ یہ موجودہ دور کا المیہ ہے۔ موجودہ صدی جسے ''اضطراب کی صدی،، کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اضطراب ہمارے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ ہم پریشان ہیں، مضطرب ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے چہروں سے عیاں ہے۔
آپ بس، ٹرین یا رکشہ میں سفر کرتے لوگوں کو دیکھیں، دفتروں میں کام کرتے بابوؤں یا دفتروں کے باہر عرضیاں ہاتھ میں لیے سائلوں کو دیکھیں، اسپتال کے ہجوم یا عدالتوں کی راہداریاں۔ ان تمام جگہوں پر جو خلقت آپ کو نظر آئے گی اس کے چہرے سے اضطراب، پریشانی اور ہیجان نمایاں ہے۔ یہاں تک کہ تفریح گاہوں میں موجود لوگ یوں تو سیر کر رہے ہوتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سیر بھی ان کی پریشانی کم نہیں کر سکی۔ بلند قہقہے اور مسکراتے چہرے اب اس ملک میں خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اضطراب اور بے چینی ہمیں حالات نے تحفے میں دی ہے۔ ہم روز اپنے پیاروں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن ان کی زندگی بچانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہمارے سامنے حادثے ہوتے ہیں، بم پھٹتے، جسموں کے پرخچے اڑتے ہیں، ہم کسی لچے، لفنگے اور بدمعاش کی آمد کے خوف سے بھی کانپتے رہتے ہیں کہ وہ کس وقت آن دھمکے اور بھتے کا مطالبہ کر دے۔ ہم یا ہمارے پیارے بیمار ہیں۔
بیروز گار ہیں، بے سروسامان ہیں۔ ہم یہ سب بھی خاموشی سے سہہ لیتے اگر ہمیں یقین ہوتا کہ سب کچھ بدلا ہی نہیں جا سکتا یا یہ ہمارا مستقل مقدر ہے۔ لیکن ہمارے سامنے اربوں روپے کی خوبصورت چمکتی گاڑیاں ان لوٹنے والے کے نیچے آ جاتی ہیں جن کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ انھوں نے ہمارا مال لوٹا ہے۔ ہماری دولت صرف ووٹ لینے کے لیے، چمکتی موٹروے یا مغربی دنیا کی ہم پلہ میٹرو بس پر خرچ کر دی جاتی ہے اور ہماری حالت یہ ہوتی ہے کہ ہمیں دنیا بھر کے دکھوں کے درمیان بیس روپے کی ایک شاندار چیئر لفٹ کی طرح کا جھولا مل جاتا ہے۔
اس سے ہمارے دکھ، بے چینی اور اضطراب تو ختم نہیں ہوتا۔ ہمارے چہروں پر لٹے جانے اور غربت و افلاس کا اضطراب ہے اور اعلیٰ طبقات کے چہروں پر جرم اور بددیانتی سے جنم لینے والی اضطرابی حالت ہے۔ ہم سب بے چین، مضطرب، پریشان اور کرب زدہ ہیں، ہم سے مسکراہٹیں روٹھ گئی ہیں اور ہماری نیندیں چھن چکی ہیں۔
لیکن اس ساری بے چینی نے ہم سے ہمارا ایک رویہ ہم سے چھین لیا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے جسمانی طور پر بھی علیحدہ ہوتے جا رہے ہیں ہم بحیثیت قوم اب مصافحہ بہت کم کرتے ہیں، گلے بہت کم ملتے ہیں، ہمارے بچے لمس سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے بزرگوں کا حال احوال بھی دور سے کرتے ہیں، انھیں چھوتے تک نہیں۔ ہم لوگوں کو مصیبت میں گلے لگا کر ان کے غم کو کم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم ایک دوسرے سے جسمانی طور پر یوں دورہیں جیسے کسی چھوت کے مریض سے خوفزدہ ہوں۔ سید الانبیاءﷺ کی اس حدیث پر غور کرتا ہوں تو موجودہ دور کے اس المیے کا حل معلوم ہو جاتا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا ''جب دو مسلمان ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں تو جب تک وہ ہاتھ ملائے رکھتے ہیں ان کے گناہ جھڑتے رہتے ہیں،،۔ میں مدتوں اس حدیث پر غور کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ انسانوں کا لمس انسان کو کس قدر سکون اور اطمینان پہنچا سکتا ہے۔ ہاتھ ملانے سے بھی زیادہ اہم چیز معانقہ یعنی گلے ملنا ہے جو ہم عید کے روز بھی بہت کم کرتے ہیں۔ کسی کو دکھ میں گلے مل کر دلاسہ بھی نہیں دیتے۔ ہم اپنے بچوں کو بھی اپنی محبت سے اس لیے محروم رکھتے ہیں کہ ہم ان کو بار بار گلے نہیں لگاتے، نہ وہ ہمیں جوش محبت میں چمٹتے ہیں۔ میڈیکل سائنس نے گلے ملنے کے جو فوائد بتائے ہیں اس کی تفصیل اس قدر طویل اور اس کے انسانی صحت پر اثرات اسقدر زیادہ ہیں کہ اس دور اضطراب میں ہمیں صرف ایک دوسرے کو اس انسانی جذبے کو عام کرنا چاہیے۔ نفسیاتی معالج کہتے ہیں کہ ہمیں زندہ رہنے کے لیے دن میں ایک بار گلے ملنا ضروری ہے، صحت کو برقرار رکھنے کے لیے کم از کم آٹھ بار اور صحت کی بہتری کے لیے کم از کم 12 بار گلے ملنا چاہیے۔
ایک ہارمون جس کا نام Oxytocin ہے جو ذہن کے جذباتی مراکز سے جنم لیتا ہے جس سے پریشانی، اضطراب اور بے چینی کا خاتمہ ہوتا ہے اور آدمی میں قناعت آتی ہے۔ عورت جب بچہ پیدا کر رہی ہوتی ہے تو یہ ہارمون تھوڑی سی تعداد میں نکلتا ہے اور وہ تمام دکھ درد بھول کر بچے کو پیار کرنے لگتی ہے۔ جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ جب محبت میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں گلے ملتے ہیں تو یہ ہارمون نکلتا ہے اور ہمیں سکون ملتا ہے۔ اس ہارمون کی وجہ سے ہم میں صبر کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے، اس سے ہم میں امراض سے مدافعت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہمارے Thymus Gland کو بہتر کارکردگی پر مجبور کرتا ہے اور بلڈ پریشر کم کرتا ہے۔
نفسیات دان کہتے ہیں کہ بچوں کو گلے لگانے سے ان میں عزت نفس پیدا ہوتی ہے۔ گلے ملنے سے DOPAHIN ہارمون کو تحریک ملتی ہے اور وہ ہمیں ہر طرح کی نفسیاتی امراض سے نجات دیتا ہے۔ یہ قوم جو ایک دوسرے سے اتنی دور ہو چکی ہے، اتنی پریشان اور مضطرب ہے۔ کیا وہ سید الانبیاء ﷺ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے محبت سے ایک دوسرے کا ہاتھ بار بار نہیں تھام سکتی کہ دنیا میں وہ بہتر زندگی گزارے اور آخرت میں اس کے گناہ کم ہوں۔
یہ ان انسانوں کو پریشانیوں سے پیدا ہونے والی کیفیت کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔ لیکن اگر آپ کو ان کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کا اتفاق ہو جائے تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ لوگ پریشانی اور اضطراب کے عالم میں کس قدر خوفناک زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی نیند ٹوٹی پھوٹی اور بہت کم ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو ہزار کوشش سے انھیں نیند آتی ہی نہیں، بلاوجہ غصہ اور چڑچڑاہٹ، ایسے شخص سے لڑ پڑتے ہیں جس کا کوئی قصور تک نہ ہو یا ایسی بات پر غصہ کر جاتے ہیں جسے ہنس کر ٹال دینا چاہیے تھا۔ کوئی پریشانی کے عالم میں معدے کی تیزابیت کا شکار ہو جاتا ہے تو کسی کو اپھارے کی ایسی شکایت ہوتی ہے کہ سانس حلق میں اٹک جاتا ہے۔
کسی کے ہاتھوں اور پاؤں میں مستقل پسینہ آنے لگتا ہے تو کوئی شدید بلڈ پریشر یا فشار خون کے ہاتھوں پریشان۔ یہ تو صرف چند علامات ہیں جو انھیں پریشانیوں کی وجہ سے لاحق ہیں ورنہ امراض کی ایک فہرست ہے جو نفسیاتی اضطراب، بے چینی اور پریشانی سے جنم لیتی ہیں۔ یہ موجودہ دور کا المیہ ہے۔ موجودہ صدی جسے ''اضطراب کی صدی،، کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اضطراب ہمارے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ ہم پریشان ہیں، مضطرب ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے چہروں سے عیاں ہے۔
آپ بس، ٹرین یا رکشہ میں سفر کرتے لوگوں کو دیکھیں، دفتروں میں کام کرتے بابوؤں یا دفتروں کے باہر عرضیاں ہاتھ میں لیے سائلوں کو دیکھیں، اسپتال کے ہجوم یا عدالتوں کی راہداریاں۔ ان تمام جگہوں پر جو خلقت آپ کو نظر آئے گی اس کے چہرے سے اضطراب، پریشانی اور ہیجان نمایاں ہے۔ یہاں تک کہ تفریح گاہوں میں موجود لوگ یوں تو سیر کر رہے ہوتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سیر بھی ان کی پریشانی کم نہیں کر سکی۔ بلند قہقہے اور مسکراتے چہرے اب اس ملک میں خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اضطراب اور بے چینی ہمیں حالات نے تحفے میں دی ہے۔ ہم روز اپنے پیاروں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن ان کی زندگی بچانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہمارے سامنے حادثے ہوتے ہیں، بم پھٹتے، جسموں کے پرخچے اڑتے ہیں، ہم کسی لچے، لفنگے اور بدمعاش کی آمد کے خوف سے بھی کانپتے رہتے ہیں کہ وہ کس وقت آن دھمکے اور بھتے کا مطالبہ کر دے۔ ہم یا ہمارے پیارے بیمار ہیں۔
بیروز گار ہیں، بے سروسامان ہیں۔ ہم یہ سب بھی خاموشی سے سہہ لیتے اگر ہمیں یقین ہوتا کہ سب کچھ بدلا ہی نہیں جا سکتا یا یہ ہمارا مستقل مقدر ہے۔ لیکن ہمارے سامنے اربوں روپے کی خوبصورت چمکتی گاڑیاں ان لوٹنے والے کے نیچے آ جاتی ہیں جن کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ انھوں نے ہمارا مال لوٹا ہے۔ ہماری دولت صرف ووٹ لینے کے لیے، چمکتی موٹروے یا مغربی دنیا کی ہم پلہ میٹرو بس پر خرچ کر دی جاتی ہے اور ہماری حالت یہ ہوتی ہے کہ ہمیں دنیا بھر کے دکھوں کے درمیان بیس روپے کی ایک شاندار چیئر لفٹ کی طرح کا جھولا مل جاتا ہے۔
اس سے ہمارے دکھ، بے چینی اور اضطراب تو ختم نہیں ہوتا۔ ہمارے چہروں پر لٹے جانے اور غربت و افلاس کا اضطراب ہے اور اعلیٰ طبقات کے چہروں پر جرم اور بددیانتی سے جنم لینے والی اضطرابی حالت ہے۔ ہم سب بے چین، مضطرب، پریشان اور کرب زدہ ہیں، ہم سے مسکراہٹیں روٹھ گئی ہیں اور ہماری نیندیں چھن چکی ہیں۔
لیکن اس ساری بے چینی نے ہم سے ہمارا ایک رویہ ہم سے چھین لیا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے جسمانی طور پر بھی علیحدہ ہوتے جا رہے ہیں ہم بحیثیت قوم اب مصافحہ بہت کم کرتے ہیں، گلے بہت کم ملتے ہیں، ہمارے بچے لمس سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے بزرگوں کا حال احوال بھی دور سے کرتے ہیں، انھیں چھوتے تک نہیں۔ ہم لوگوں کو مصیبت میں گلے لگا کر ان کے غم کو کم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم ایک دوسرے سے جسمانی طور پر یوں دورہیں جیسے کسی چھوت کے مریض سے خوفزدہ ہوں۔ سید الانبیاءﷺ کی اس حدیث پر غور کرتا ہوں تو موجودہ دور کے اس المیے کا حل معلوم ہو جاتا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا ''جب دو مسلمان ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں تو جب تک وہ ہاتھ ملائے رکھتے ہیں ان کے گناہ جھڑتے رہتے ہیں،،۔ میں مدتوں اس حدیث پر غور کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ انسانوں کا لمس انسان کو کس قدر سکون اور اطمینان پہنچا سکتا ہے۔ ہاتھ ملانے سے بھی زیادہ اہم چیز معانقہ یعنی گلے ملنا ہے جو ہم عید کے روز بھی بہت کم کرتے ہیں۔ کسی کو دکھ میں گلے مل کر دلاسہ بھی نہیں دیتے۔ ہم اپنے بچوں کو بھی اپنی محبت سے اس لیے محروم رکھتے ہیں کہ ہم ان کو بار بار گلے نہیں لگاتے، نہ وہ ہمیں جوش محبت میں چمٹتے ہیں۔ میڈیکل سائنس نے گلے ملنے کے جو فوائد بتائے ہیں اس کی تفصیل اس قدر طویل اور اس کے انسانی صحت پر اثرات اسقدر زیادہ ہیں کہ اس دور اضطراب میں ہمیں صرف ایک دوسرے کو اس انسانی جذبے کو عام کرنا چاہیے۔ نفسیاتی معالج کہتے ہیں کہ ہمیں زندہ رہنے کے لیے دن میں ایک بار گلے ملنا ضروری ہے، صحت کو برقرار رکھنے کے لیے کم از کم آٹھ بار اور صحت کی بہتری کے لیے کم از کم 12 بار گلے ملنا چاہیے۔
ایک ہارمون جس کا نام Oxytocin ہے جو ذہن کے جذباتی مراکز سے جنم لیتا ہے جس سے پریشانی، اضطراب اور بے چینی کا خاتمہ ہوتا ہے اور آدمی میں قناعت آتی ہے۔ عورت جب بچہ پیدا کر رہی ہوتی ہے تو یہ ہارمون تھوڑی سی تعداد میں نکلتا ہے اور وہ تمام دکھ درد بھول کر بچے کو پیار کرنے لگتی ہے۔ جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ جب محبت میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں گلے ملتے ہیں تو یہ ہارمون نکلتا ہے اور ہمیں سکون ملتا ہے۔ اس ہارمون کی وجہ سے ہم میں صبر کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے، اس سے ہم میں امراض سے مدافعت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہمارے Thymus Gland کو بہتر کارکردگی پر مجبور کرتا ہے اور بلڈ پریشر کم کرتا ہے۔
نفسیات دان کہتے ہیں کہ بچوں کو گلے لگانے سے ان میں عزت نفس پیدا ہوتی ہے۔ گلے ملنے سے DOPAHIN ہارمون کو تحریک ملتی ہے اور وہ ہمیں ہر طرح کی نفسیاتی امراض سے نجات دیتا ہے۔ یہ قوم جو ایک دوسرے سے اتنی دور ہو چکی ہے، اتنی پریشان اور مضطرب ہے۔ کیا وہ سید الانبیاء ﷺ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے محبت سے ایک دوسرے کا ہاتھ بار بار نہیں تھام سکتی کہ دنیا میں وہ بہتر زندگی گزارے اور آخرت میں اس کے گناہ کم ہوں۔