گرمی کی سرگرمیاں حکمرانوں کی سرد مہریاں
کاش ہمارے عوام کی چیخیں ہمارے حکمرانوں کا سکون غارت کرنے کے لائق بن جائیں۔
ISLAMABAD/لاہور:
برٹرینڈ رسل نے کہا تھا ''مظلوم کچھ بھی نہ کرے تو بھی وہ چیخ ضرورمارتا ہے اور یہ چیخ ظالم کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔''
کاش ہمارے عوام کی چیخیں ہمارے حکمرانوں کا سکون غارت کرنے کے لائق بن جائیں۔کراچی میں گرمی کی شدت سے 1500 کے لگ بھگ لوگوں کی ہلاکت اور ساڑھے تین ہزار سے زائد لوگوں کا لب دم اسپتالوں میں پہنچنا، بجلی اور پانی کی بندش ہی کا شاخسانہ کہا جاسکتا ہے۔
اسپتالوں کے مردہ خانے لاشوں سے بھرگئے، پرائیویٹ سرد خانوں میں لاشیں رکھنے کی جگہ نہیں بچی،لاشوں سے تعفن اٹھنے لگے، شہر بھر میں برف کی شدید قلت ہوگئی، منہ مانگے داموں برف بکی، شہر کے قبرستانوں میں گرمی سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لیے قبریں ملنی مشکل ہوگئیں، گورکن فی قبر کے دس سے تیس ہزار تک وصول کرتے پائے گئے، مساجد تک میں وضو کا پانی میسر نہیں آ پایا۔
پانی اور بجلی کی قلت نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے لیکن یہ تعین نہیں ہو پا رہا کہ اس صورتحال کا ذمے دارکون ہے؟ جن کے ہاتھوں میں معاملات کی باگ ڈور ہے وہ سب ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرکے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کے الیکٹرک ملک کے دوکروڑ آبادی کے شہر میں بجلی کی فراہمی کی ذمے دار ہے، لہٰذا شہریوں کے مفاد میں اس کی کارکردگی پر نظر رکھنا وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کا فرض ہے جس میں وہ یقینا کوتاہی کی مرتکب ہوئی ہیں۔
اس تناظر میں وفاقی وزیر مملکت برائے پانی وبجلی کی جانب سے کراچی میں ہلاکتوں کا ذمے دار محض کے الیکٹرک کو قرار دینا درست نہیں اس کے معاملات کو خرابی کی اس انتہا تک جانے سے پہلے ہی وفاقی اور صوبائی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کا اس حوالے سے اختلاف رائے حکومتی حلقوں میں پائی جانے والی افراتفری کا کھلا اظہار ہے جس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ بجلی کی ترسیل کے نظام کی بہتری کے لیے سرگرمیاں شروع ہونے سے پہلے جو اقدامات ضروری تھے۔
ان میں متعلقہ اداروں نے کوتاہی برتی۔کراچی میں موسم کی شدت بھی یکایک واقع نہیں ہوئی، اس بارے میں موسمی پیش گوئی کی جا چکی تھی جس کے بعد صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کو شہریوں کو تمام احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جانا چاہیے تھا لیکن حکومتی حلقوں میں 1500 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد بھی حالات پر قابو پانے کے لیے کچھ زیادہ سنجیدگی اور فکر مندی نظر نہیں آسکی اور ساری کوشش اس پر رہی کہ ذمے داری کا بوجھ اپنے بجائے دوسروں کے کندھوں پر ڈال دیا جائے، اور ایسا ہی کیا گیا۔
پہلے کہا جا رہا تھا کہ ملک کے اکثر بجلی گھر تھرمل ہیں اور ڈیزل سے چلتے ہیں۔ چونکہ ڈیزل کی قیمتیں بہت اوپر چلی گئیں، اس لیے ان بجلی گھروں کو چلانا معاشی پہلو سے ناممکن ہوتا چلا گیا۔ لیکن پچھلے سال سے تو ڈیزل کی قیمتیں بہت ہی نیچے آگئی تھیں اور بجلی گھروں کو اپنی پوری استعداد کے مطابق چلنا چاہیے تھا۔اگرچہ وجہ ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں تھیں تو اس کی قیمتوں کے ایک تہائی ہونے کے بعد لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور لوڈ شیڈنگ میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کا تعلق گورننس یا ریاست کی انتظامی صلاحیتوں سے جڑا ہوا ہے۔
توانائی کے عالمی ماہرین کا یہ بیان چشم کشا ہے کہ ''پاکستان میں بجلی زیادہ پیدا کرنے سے بھی لوڈ شیڈنگ کم نہیں ہوگی کیونکہ اس کی ترسیل کا نظام (ٹرانسمیشن) اتنا ختم ہوچکا ہے کہ وہ موجودہ حد سے زیادہ بجلی کی ترسیل کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔یہی وجہ ہے کہ جب حکومت زیادہ بجلی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کی ٹرانسمیشن لائنیں بریک ڈاؤن کر جاتی ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ٹرانسمیشن کے نظام میں نئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور اب اس کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں جوکہ پاکستان کے پاس نہیں، لہٰذا یہ مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔''
پاکستان کے توانائی کے شعبے سے متعلق عالمی اداروں کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی نہ کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل طے کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھاشا اور داسو جیسے بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبوں کا ذکر بھی بہت زور و شور سے کیا جاتا ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بھاشا ڈیم کے لیے جتنے بڑے سرمائے کی ضرورت ہے وہ کوئی ادارہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان کے اپنے وسائل ہیں نہیں کہ وہ یہ سرمایہ کاری کرسکے۔
پاکستان کے لوگوں کو پاکستان کے مایہ ناز سائنس داں ڈاکٹر ثمر مبارک کا یہ بیان اچھی طرح یاد ہوگا کہ ''تھرپارکر میں کوئلے کے اتنے ذخائر ہیں کہ حکومت میرے تعاون سے وہاں سے اتنا کوئلہ نکال کر بجلی پیدا کرسکتی ہے جس سے کئی سالوں تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔''اسی طرح کے اعلانات ڈاکٹرعبدالقدیر خان بھی متعدد بار اپنے بیانات میں کرچکے ہیں کہ ''پاکستان میں اتنے قدرتی وسائل اور اذہان ہیں کہ جن سے استفادہ کرکے ہم لوڈ شیڈنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرسکتے ہیں۔''
ان بیانات کی روشنی میں انامور کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جو ممالک پاکستان کے بعد آزاد ہوئے وہاں بجلی سے ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہمارے گھروں میں لالٹینیں جل رہی ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ''منصفانہ نظام'' کی راہ میں امریکا، افغانستان اور بھارت نہیں بلکہ ہمارے حکمران اور ہمارے ارباب اختیار رکاوٹ ہیں یہی ہزار سچائیوں پر بھاری وہ سچ ہے جسے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی ہر بدصورتی، بدعملی، بد نیتی کو یہود و ہنود کے کھاتے میں ڈال کر اپنے وطن کے ''بدکاروں'' کو کلین چٹ دے دینا جہالت ہے۔
ہمیں ہر خطرہ دراصل اپنے ملک کے اندر اور اپنوں سے ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی مفلوک الحالی اور سیاسی، معاشی و معاشرتی زبوں حالی کی ایک عام وجہ اس کے بدعنوان، نااہل افراد اور ادارے ہیں جنھیں اس بات سے قطعی طور پر کوئی واسطہ نہیں کہ ملک و عوام کی بہبود کو مقدم سمجھا جائے یا نہیں؟
حکومتی مشینری کی عدم توجہی، فرائض سے چشم پوشی، پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتیں عوام پیسے خرچ کرکے (بل ادا کرکے) بھی اس سے دور کردیے جائیں اور نتیجے میں ہلاکتیں اتنی تعداد میں ہوجائیں غیر ممالک میں ایسا ہو تو متعلقہ وزارت کے کرتا دھرتا اصولی طور پر استعفیٰ دے دیتے ہیں لیکن ہمارے وزیر، ہمارے حکمراں سب کے سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں۔
عوام ضروریات زندگی سے روز بروز دور کیے جا رہے ہیں۔ مہنگائی، غربت، بے روزگاری، پانی، بجلی کی قلت اور بدترین گرمی سے عوام الناس موت کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں اپوزیشن اسمبلی سے واک آؤٹ کر رہی ہے، یوم احتجاج ہو رہے ہیں، دھرنے دیے جا رہے ہیں لیکن ہمارے حکمراں، ہمارے ارباب اختیار اپنی موج مستیوں میں مست ہیں۔
ان گھروں کے لواحقین سے پوچھیں جن کی عید چھین لی گئی، جن کے پیارے، جن کے سروں کے سائے حکومتی نااہلی نے چھین لیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ان خاندانوں کی مالی معاونت یا داد رسی کی جاتی کہ یہ بہرطور ایک نہایت سنگین معاملہ ہے اس سے تمام ''متعلقہ اتھارٹیز'' کو اس حوالے سے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف میڈیا پر عوام سے کرنا چاہیے تھا اور ان کے ازالے کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ سنجیدہ اور موثر فوری اور طویل مدتی اقدامات بھی باہمی عمل میں لائے جاتے لیکن افسوس ایسا کچھ نہ کیا گیا۔
ان حالات اور ان سرکاری معمولات میں گزرتے شب و روزکو دیکھتے ہوئے ہم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ وہ ''کون سے پاکستانی ہیں'' جن کے 1کھرب، 51 ارب روپے سوئس بینکوں میں موجود ہیں اور کھربوں کے اثاثے ان کے علیحدہ ہیں۔ افسوس صد افسوس دو ڈالر یومیہ پر زندگی گھسیٹنے والے تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ 1 کھرب51 ارب روپے ہوتے کتنے ہیں۔
کہتے ہیں ہر شو، ہر فلم، ہر ڈرامے اور ہر پروگرام کا اختتام (اینڈ) لازمی ہوتا ہے۔ ان لوٹ کھسوٹ کرنے والے سیاستدانوں کا انجام کب اور کیسے ہوگا یہ ہے سوالیہ نشان؟
برٹرینڈ رسل نے کہا تھا ''مظلوم کچھ بھی نہ کرے تو بھی وہ چیخ ضرورمارتا ہے اور یہ چیخ ظالم کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔''
کاش ہمارے عوام کی چیخیں ہمارے حکمرانوں کا سکون غارت کرنے کے لائق بن جائیں۔کراچی میں گرمی کی شدت سے 1500 کے لگ بھگ لوگوں کی ہلاکت اور ساڑھے تین ہزار سے زائد لوگوں کا لب دم اسپتالوں میں پہنچنا، بجلی اور پانی کی بندش ہی کا شاخسانہ کہا جاسکتا ہے۔
اسپتالوں کے مردہ خانے لاشوں سے بھرگئے، پرائیویٹ سرد خانوں میں لاشیں رکھنے کی جگہ نہیں بچی،لاشوں سے تعفن اٹھنے لگے، شہر بھر میں برف کی شدید قلت ہوگئی، منہ مانگے داموں برف بکی، شہر کے قبرستانوں میں گرمی سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لیے قبریں ملنی مشکل ہوگئیں، گورکن فی قبر کے دس سے تیس ہزار تک وصول کرتے پائے گئے، مساجد تک میں وضو کا پانی میسر نہیں آ پایا۔
پانی اور بجلی کی قلت نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے لیکن یہ تعین نہیں ہو پا رہا کہ اس صورتحال کا ذمے دارکون ہے؟ جن کے ہاتھوں میں معاملات کی باگ ڈور ہے وہ سب ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرکے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کے الیکٹرک ملک کے دوکروڑ آبادی کے شہر میں بجلی کی فراہمی کی ذمے دار ہے، لہٰذا شہریوں کے مفاد میں اس کی کارکردگی پر نظر رکھنا وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کا فرض ہے جس میں وہ یقینا کوتاہی کی مرتکب ہوئی ہیں۔
اس تناظر میں وفاقی وزیر مملکت برائے پانی وبجلی کی جانب سے کراچی میں ہلاکتوں کا ذمے دار محض کے الیکٹرک کو قرار دینا درست نہیں اس کے معاملات کو خرابی کی اس انتہا تک جانے سے پہلے ہی وفاقی اور صوبائی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کا اس حوالے سے اختلاف رائے حکومتی حلقوں میں پائی جانے والی افراتفری کا کھلا اظہار ہے جس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ بجلی کی ترسیل کے نظام کی بہتری کے لیے سرگرمیاں شروع ہونے سے پہلے جو اقدامات ضروری تھے۔
ان میں متعلقہ اداروں نے کوتاہی برتی۔کراچی میں موسم کی شدت بھی یکایک واقع نہیں ہوئی، اس بارے میں موسمی پیش گوئی کی جا چکی تھی جس کے بعد صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کو شہریوں کو تمام احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جانا چاہیے تھا لیکن حکومتی حلقوں میں 1500 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد بھی حالات پر قابو پانے کے لیے کچھ زیادہ سنجیدگی اور فکر مندی نظر نہیں آسکی اور ساری کوشش اس پر رہی کہ ذمے داری کا بوجھ اپنے بجائے دوسروں کے کندھوں پر ڈال دیا جائے، اور ایسا ہی کیا گیا۔
پہلے کہا جا رہا تھا کہ ملک کے اکثر بجلی گھر تھرمل ہیں اور ڈیزل سے چلتے ہیں۔ چونکہ ڈیزل کی قیمتیں بہت اوپر چلی گئیں، اس لیے ان بجلی گھروں کو چلانا معاشی پہلو سے ناممکن ہوتا چلا گیا۔ لیکن پچھلے سال سے تو ڈیزل کی قیمتیں بہت ہی نیچے آگئی تھیں اور بجلی گھروں کو اپنی پوری استعداد کے مطابق چلنا چاہیے تھا۔اگرچہ وجہ ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں تھیں تو اس کی قیمتوں کے ایک تہائی ہونے کے بعد لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور لوڈ شیڈنگ میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کا تعلق گورننس یا ریاست کی انتظامی صلاحیتوں سے جڑا ہوا ہے۔
توانائی کے عالمی ماہرین کا یہ بیان چشم کشا ہے کہ ''پاکستان میں بجلی زیادہ پیدا کرنے سے بھی لوڈ شیڈنگ کم نہیں ہوگی کیونکہ اس کی ترسیل کا نظام (ٹرانسمیشن) اتنا ختم ہوچکا ہے کہ وہ موجودہ حد سے زیادہ بجلی کی ترسیل کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔یہی وجہ ہے کہ جب حکومت زیادہ بجلی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کی ٹرانسمیشن لائنیں بریک ڈاؤن کر جاتی ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ٹرانسمیشن کے نظام میں نئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور اب اس کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں جوکہ پاکستان کے پاس نہیں، لہٰذا یہ مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔''
پاکستان کے توانائی کے شعبے سے متعلق عالمی اداروں کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی نہ کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل طے کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھاشا اور داسو جیسے بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبوں کا ذکر بھی بہت زور و شور سے کیا جاتا ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بھاشا ڈیم کے لیے جتنے بڑے سرمائے کی ضرورت ہے وہ کوئی ادارہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان کے اپنے وسائل ہیں نہیں کہ وہ یہ سرمایہ کاری کرسکے۔
پاکستان کے لوگوں کو پاکستان کے مایہ ناز سائنس داں ڈاکٹر ثمر مبارک کا یہ بیان اچھی طرح یاد ہوگا کہ ''تھرپارکر میں کوئلے کے اتنے ذخائر ہیں کہ حکومت میرے تعاون سے وہاں سے اتنا کوئلہ نکال کر بجلی پیدا کرسکتی ہے جس سے کئی سالوں تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔''اسی طرح کے اعلانات ڈاکٹرعبدالقدیر خان بھی متعدد بار اپنے بیانات میں کرچکے ہیں کہ ''پاکستان میں اتنے قدرتی وسائل اور اذہان ہیں کہ جن سے استفادہ کرکے ہم لوڈ شیڈنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرسکتے ہیں۔''
ان بیانات کی روشنی میں انامور کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جو ممالک پاکستان کے بعد آزاد ہوئے وہاں بجلی سے ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہمارے گھروں میں لالٹینیں جل رہی ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ''منصفانہ نظام'' کی راہ میں امریکا، افغانستان اور بھارت نہیں بلکہ ہمارے حکمران اور ہمارے ارباب اختیار رکاوٹ ہیں یہی ہزار سچائیوں پر بھاری وہ سچ ہے جسے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی ہر بدصورتی، بدعملی، بد نیتی کو یہود و ہنود کے کھاتے میں ڈال کر اپنے وطن کے ''بدکاروں'' کو کلین چٹ دے دینا جہالت ہے۔
ہمیں ہر خطرہ دراصل اپنے ملک کے اندر اور اپنوں سے ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی مفلوک الحالی اور سیاسی، معاشی و معاشرتی زبوں حالی کی ایک عام وجہ اس کے بدعنوان، نااہل افراد اور ادارے ہیں جنھیں اس بات سے قطعی طور پر کوئی واسطہ نہیں کہ ملک و عوام کی بہبود کو مقدم سمجھا جائے یا نہیں؟
حکومتی مشینری کی عدم توجہی، فرائض سے چشم پوشی، پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتیں عوام پیسے خرچ کرکے (بل ادا کرکے) بھی اس سے دور کردیے جائیں اور نتیجے میں ہلاکتیں اتنی تعداد میں ہوجائیں غیر ممالک میں ایسا ہو تو متعلقہ وزارت کے کرتا دھرتا اصولی طور پر استعفیٰ دے دیتے ہیں لیکن ہمارے وزیر، ہمارے حکمراں سب کے سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں۔
عوام ضروریات زندگی سے روز بروز دور کیے جا رہے ہیں۔ مہنگائی، غربت، بے روزگاری، پانی، بجلی کی قلت اور بدترین گرمی سے عوام الناس موت کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں اپوزیشن اسمبلی سے واک آؤٹ کر رہی ہے، یوم احتجاج ہو رہے ہیں، دھرنے دیے جا رہے ہیں لیکن ہمارے حکمراں، ہمارے ارباب اختیار اپنی موج مستیوں میں مست ہیں۔
ان گھروں کے لواحقین سے پوچھیں جن کی عید چھین لی گئی، جن کے پیارے، جن کے سروں کے سائے حکومتی نااہلی نے چھین لیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ان خاندانوں کی مالی معاونت یا داد رسی کی جاتی کہ یہ بہرطور ایک نہایت سنگین معاملہ ہے اس سے تمام ''متعلقہ اتھارٹیز'' کو اس حوالے سے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف میڈیا پر عوام سے کرنا چاہیے تھا اور ان کے ازالے کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ سنجیدہ اور موثر فوری اور طویل مدتی اقدامات بھی باہمی عمل میں لائے جاتے لیکن افسوس ایسا کچھ نہ کیا گیا۔
ان حالات اور ان سرکاری معمولات میں گزرتے شب و روزکو دیکھتے ہوئے ہم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ وہ ''کون سے پاکستانی ہیں'' جن کے 1کھرب، 51 ارب روپے سوئس بینکوں میں موجود ہیں اور کھربوں کے اثاثے ان کے علیحدہ ہیں۔ افسوس صد افسوس دو ڈالر یومیہ پر زندگی گھسیٹنے والے تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ 1 کھرب51 ارب روپے ہوتے کتنے ہیں۔
کہتے ہیں ہر شو، ہر فلم، ہر ڈرامے اور ہر پروگرام کا اختتام (اینڈ) لازمی ہوتا ہے۔ ان لوٹ کھسوٹ کرنے والے سیاستدانوں کا انجام کب اور کیسے ہوگا یہ ہے سوالیہ نشان؟