سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
ماہ رمضان المبارک جو برکت، رحمت، مغفرت اور اللہ کا مہینہ ہے، اس مبارک ماہ کے آغاز ہی سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا۔
ماہ رمضان المبارک جو برکت، رحمت، مغفرت اور اللہ کا مہینہ ہے، اس مبارک ماہ کے آغاز ہی سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ دو ہفتے کے اخبارات گرمی میں اضافے لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت نے جو روزہ داروں پر قیامت ڈھائی، اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں۔ عام آدمی سے لے کر سرکاری ملازمین اور رپورٹر سے لے کر تجزیہ کار،کالم نگار اور مبصرین اسی صورتحال پر نوحہ کناں ہیں۔
زیر مطالعہ کئی اخبارات میں شہ سرخی، خبروں کے علاوہ پورے ادارتی صفحات پر زیادہ تر کالم نگاروں نے اسی مسئلے پر اظہار خیال کیا ہے۔ کسی نے اس صورتحال کا نفسیاتی، کسی نے سائنسی، کسی نے معاشرتی اور اخلاقی کے علاوہ قومی بے حسی کے پہلو سے اس کو موضوع بنایا ہے۔
اس سارے المیے میں حکمرانوں (وفاقی و صوبائی) اور ذمے داروں کا رویہ ناقابل فہم ہے کہ سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اتنا بڑا المیہ ہوگیا اور اموات میں کمی ضرور ہوئی مگر ختم نہیں ہوئیں (تادم تحریر) آج بھی 25/24 اموات کی اطلاع ہے جب کہ آیندہ موسم مزید گرم رہنے کی پیشگوئی بھی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آفات سماوی و ارضی تو دنیا بھر میں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ مہذب، ترقی یافتہ اور آزاد ممالک کے حکمران ہر وقت ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے ہر طرح تیار رہتے ہیں۔
لیکن ایک ایسا شہر جو ملک کا سب سے بڑا اور میٹرو پولیٹن شہر ہے، جو گزشتہ 25/24 سال سے غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ جس میں ایک سیاسی پارٹی کی حکومت خاصے عرصے سے قائم ہے اور جہاں ہر وقت دہشت گردی کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ کئی ہولناک واقعات ماضی قریب میں پیش آچکے ہیں (ایئرپورٹ حملہ، ٹمبر مارکیٹ میں آتشزدگی، پی آئی ڈی سی بم دھماکا غیر ملکیوں پر حملہ وغیرہ) اس آتش زدہ شہر میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے معقول انتظامات نہ ہونا حیرت انگیز ہی نہیں کاہلی، نااہلی اور بے حسی کی ناقابل یقین مثال ہے۔
کراچی جیسے بڑے اور گنجان آبادی والے شہر میں حکومتی سطح پر باضابطہ ایمبولینسز کی سہولت کا نہ ہونا حیرت کی بات نہیں؟ پھر سرکاری و نیم سرکاری اسپتالوں میں سرد خانے یا تو نہ ہونا یا ناکافی گنجائش کے علاوہ نااہلی و بدعنوانی کے بے شمار ثبوت فائلوں اور اخبارات میں موجود ہیں۔ مثلاً سرکاری اور بلدیاتی اسپتالوں میں ادویات نہ ہونا۔ ایکسرے اور دیگر ضروری مشینوں اور آلات کا غائب ہونا یا ناکارہ ہونا وغیرہ۔ کچھ عرصہ قبل سرکاری و بلدیاتی شفا خانوں میں غریبوں کا علاج بلامعاوضہ ہوتا تھا۔
مگر اب علاج کے لیے آنے والوں کے نام ایک اخباری اطلاع کے مطابق 25 تا 50 روپے تک محض پرچی بنانے (نام درج کرنے) کے لیے جاتے ہیں جب نوبت ڈاکٹر کو دکھانے کی آتی ہے تو معائنے کے بعد مختلف ٹیسٹ و ایکسرے وغیرہ کے علاوہ ادویات بھی باہر سے خریدنے کی ہدایت کی جاتی ہے، بعض اسپتالوں میں مخصوص تجربہ گاہوں سے ٹیسٹ کرانے پر اصرار کیا جاتا ہے کسی اور تجربہ گاہ کے ٹیسٹ کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔
اس کے پس پردہ کمیشن کا چکر کار فرما ہے۔ انسانی زندگی سے زیادہ دولت بٹورنا اہم ہے یہ صورتحال تو ہے عوامی خدمت کے اداروں کی۔ ڈینگی، ملیریا اور نگلیریا سے بچاؤ کے لیے حکومت بالخصوص محکمہ صحت کیا اقدام کر رہا ہے؟ صرف کلورین پانی میں شامل کرنے سے ہی کئی امراض سے بچا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے مختص ہزاروں روپے بچانے کے لیے شہریوں کو نگلیریا جیسے موذی مرض کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ آہستہ آہستہ اس مرض سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ دنوں محکمہ صحت کی بالخصوص (علاوہ تمام ہی محکموں کے) بڑی تعریف کی ان کی خدمت وکارکردگی کو خوب سراہا ادویات کے نہ ہونے اور اسپتالوں میں ضروری سہولیات کے فقدان پر حسب معمول کسی اور کو ذمے دار قرار دینا اس محکمے کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ادھر واٹر بورڈ کے حکام عوام سے فرماتے ہیں کہ زیر زمین اور اوپری ذخیرہ آب میں آپ خود کلورین کی گولیاں خرید کر ڈالیے۔ اگر یہ سب کچھ عوام کو خود کرنا ہے تو پھر پانی کے بل بھی عوام کو نہ بھیجے جائیں۔ کلورین کی مد میں ہزاروں کے بل تو پاس ہوتے ہیں لیکن ان کا استعمال کہاں ہوتا ہے کہ شہر میں مہیا کیے گئے پانی کے نمونوں میں کلورین کی مقدار صفر بتائی جاتی ہے۔
صرف یہی نہیں عوامی خدمت کا ہر محکمہ اسی طرح ملک اور عوام کو لوٹ رہا ہے۔ عوامی خدمت تو فی زمانہ دیوانے کا خواب ہوکر رہ گئی ہے۔ چلیے اگر اس لوٹ کھسوٹ میں ان اداروں کے نچلے ملازمین کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ بھی ''محدود سطح پر خدمت خلق'' کے زمرے میں آجائے۔ مگر یہاں کئی ایسے ادارے ہیں جن کے افسران اعلیٰ کروڑوں کے گھپلے کر رہے ہیں اور نچلے درجے کے ملازمین جو اپنا کام بروقت نہ کریں تو شہرکی جو حالت ہے اس سے کہیں بدتر ہوجائے بلکہ اہل کراچی کا جینا محال ہوجائے۔ غضب خدا کا ان ہی کام کرنے والوں کو، محنت کش غریبوں کو کئی کئی ماہ ان کی جائز تنخواہوں تک سے محروم رکھا جاتا ہے تو اس شہر بلکہ پورے صوبے پر قہر خداوندی نازل نہ ہو۔
رمضان کا مہینہ جس کو قرآن کی بہار کا مہینہ بھی کہا گیا ہے۔ اگر اس ماہ مبارک میں بھی پیغام قرآن مجید کو نہ سمجھا جائے تو اس کی تلاوت کا مکمل فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس مہینے میں اگر ترجمہ و تفسیر کے مطالعے کی سعادت بھی حاصل کرلی جائے تو اس لوٹ کھسوٹ اور مظلوم و بے بس افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کے عذاب، خلق خدا کو ان کے حقوق سے محروم کرنے اور حکم خداوندی سے روگردانی کے عذاب کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکتی ہے پھر شاید یہ جو دل پر گناہوں کی تہہ جم گئی ہے، دل خوف خدا سے عاری ہوگیا ہے کچھ اس کا تدارک ہوجائے کیونکہ اللہ کسی کی محنت کو اکارت نہیں فرماتا۔ ورنہ روزے رکھنا، عبادت کرنا، خیرات تقسیم کرنا اور دل میں اپنے غریبوں و نادار بہن بھائیوں کی مشکلات کا احساس نہ ہونا بے فیض مشقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جب قوم کے دل میں خوف خدا نہ رہے تو بے حسی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ دولت کے پجاری اپنی تجوریاں بھرتی رہتے ہیں اور خلق خدا یوں ہی لقمہ اجل بنتی رہتی ہے۔ مگر دولت جمع کرنے والے کا سامنا جب فرشتہ اجل سے ہوتا ہے تو پھر سب ٹھاٹ پڑا رہ جاتا ہے اربوں جمع کرنے والا بھی خالی ہاتھ ہی اگلے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔
زیر مطالعہ کئی اخبارات میں شہ سرخی، خبروں کے علاوہ پورے ادارتی صفحات پر زیادہ تر کالم نگاروں نے اسی مسئلے پر اظہار خیال کیا ہے۔ کسی نے اس صورتحال کا نفسیاتی، کسی نے سائنسی، کسی نے معاشرتی اور اخلاقی کے علاوہ قومی بے حسی کے پہلو سے اس کو موضوع بنایا ہے۔
اس سارے المیے میں حکمرانوں (وفاقی و صوبائی) اور ذمے داروں کا رویہ ناقابل فہم ہے کہ سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اتنا بڑا المیہ ہوگیا اور اموات میں کمی ضرور ہوئی مگر ختم نہیں ہوئیں (تادم تحریر) آج بھی 25/24 اموات کی اطلاع ہے جب کہ آیندہ موسم مزید گرم رہنے کی پیشگوئی بھی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آفات سماوی و ارضی تو دنیا بھر میں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ مہذب، ترقی یافتہ اور آزاد ممالک کے حکمران ہر وقت ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے ہر طرح تیار رہتے ہیں۔
لیکن ایک ایسا شہر جو ملک کا سب سے بڑا اور میٹرو پولیٹن شہر ہے، جو گزشتہ 25/24 سال سے غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ جس میں ایک سیاسی پارٹی کی حکومت خاصے عرصے سے قائم ہے اور جہاں ہر وقت دہشت گردی کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ کئی ہولناک واقعات ماضی قریب میں پیش آچکے ہیں (ایئرپورٹ حملہ، ٹمبر مارکیٹ میں آتشزدگی، پی آئی ڈی سی بم دھماکا غیر ملکیوں پر حملہ وغیرہ) اس آتش زدہ شہر میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے معقول انتظامات نہ ہونا حیرت انگیز ہی نہیں کاہلی، نااہلی اور بے حسی کی ناقابل یقین مثال ہے۔
کراچی جیسے بڑے اور گنجان آبادی والے شہر میں حکومتی سطح پر باضابطہ ایمبولینسز کی سہولت کا نہ ہونا حیرت کی بات نہیں؟ پھر سرکاری و نیم سرکاری اسپتالوں میں سرد خانے یا تو نہ ہونا یا ناکافی گنجائش کے علاوہ نااہلی و بدعنوانی کے بے شمار ثبوت فائلوں اور اخبارات میں موجود ہیں۔ مثلاً سرکاری اور بلدیاتی اسپتالوں میں ادویات نہ ہونا۔ ایکسرے اور دیگر ضروری مشینوں اور آلات کا غائب ہونا یا ناکارہ ہونا وغیرہ۔ کچھ عرصہ قبل سرکاری و بلدیاتی شفا خانوں میں غریبوں کا علاج بلامعاوضہ ہوتا تھا۔
مگر اب علاج کے لیے آنے والوں کے نام ایک اخباری اطلاع کے مطابق 25 تا 50 روپے تک محض پرچی بنانے (نام درج کرنے) کے لیے جاتے ہیں جب نوبت ڈاکٹر کو دکھانے کی آتی ہے تو معائنے کے بعد مختلف ٹیسٹ و ایکسرے وغیرہ کے علاوہ ادویات بھی باہر سے خریدنے کی ہدایت کی جاتی ہے، بعض اسپتالوں میں مخصوص تجربہ گاہوں سے ٹیسٹ کرانے پر اصرار کیا جاتا ہے کسی اور تجربہ گاہ کے ٹیسٹ کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔
اس کے پس پردہ کمیشن کا چکر کار فرما ہے۔ انسانی زندگی سے زیادہ دولت بٹورنا اہم ہے یہ صورتحال تو ہے عوامی خدمت کے اداروں کی۔ ڈینگی، ملیریا اور نگلیریا سے بچاؤ کے لیے حکومت بالخصوص محکمہ صحت کیا اقدام کر رہا ہے؟ صرف کلورین پانی میں شامل کرنے سے ہی کئی امراض سے بچا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے مختص ہزاروں روپے بچانے کے لیے شہریوں کو نگلیریا جیسے موذی مرض کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ آہستہ آہستہ اس مرض سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ دنوں محکمہ صحت کی بالخصوص (علاوہ تمام ہی محکموں کے) بڑی تعریف کی ان کی خدمت وکارکردگی کو خوب سراہا ادویات کے نہ ہونے اور اسپتالوں میں ضروری سہولیات کے فقدان پر حسب معمول کسی اور کو ذمے دار قرار دینا اس محکمے کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ادھر واٹر بورڈ کے حکام عوام سے فرماتے ہیں کہ زیر زمین اور اوپری ذخیرہ آب میں آپ خود کلورین کی گولیاں خرید کر ڈالیے۔ اگر یہ سب کچھ عوام کو خود کرنا ہے تو پھر پانی کے بل بھی عوام کو نہ بھیجے جائیں۔ کلورین کی مد میں ہزاروں کے بل تو پاس ہوتے ہیں لیکن ان کا استعمال کہاں ہوتا ہے کہ شہر میں مہیا کیے گئے پانی کے نمونوں میں کلورین کی مقدار صفر بتائی جاتی ہے۔
صرف یہی نہیں عوامی خدمت کا ہر محکمہ اسی طرح ملک اور عوام کو لوٹ رہا ہے۔ عوامی خدمت تو فی زمانہ دیوانے کا خواب ہوکر رہ گئی ہے۔ چلیے اگر اس لوٹ کھسوٹ میں ان اداروں کے نچلے ملازمین کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ بھی ''محدود سطح پر خدمت خلق'' کے زمرے میں آجائے۔ مگر یہاں کئی ایسے ادارے ہیں جن کے افسران اعلیٰ کروڑوں کے گھپلے کر رہے ہیں اور نچلے درجے کے ملازمین جو اپنا کام بروقت نہ کریں تو شہرکی جو حالت ہے اس سے کہیں بدتر ہوجائے بلکہ اہل کراچی کا جینا محال ہوجائے۔ غضب خدا کا ان ہی کام کرنے والوں کو، محنت کش غریبوں کو کئی کئی ماہ ان کی جائز تنخواہوں تک سے محروم رکھا جاتا ہے تو اس شہر بلکہ پورے صوبے پر قہر خداوندی نازل نہ ہو۔
رمضان کا مہینہ جس کو قرآن کی بہار کا مہینہ بھی کہا گیا ہے۔ اگر اس ماہ مبارک میں بھی پیغام قرآن مجید کو نہ سمجھا جائے تو اس کی تلاوت کا مکمل فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس مہینے میں اگر ترجمہ و تفسیر کے مطالعے کی سعادت بھی حاصل کرلی جائے تو اس لوٹ کھسوٹ اور مظلوم و بے بس افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کے عذاب، خلق خدا کو ان کے حقوق سے محروم کرنے اور حکم خداوندی سے روگردانی کے عذاب کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکتی ہے پھر شاید یہ جو دل پر گناہوں کی تہہ جم گئی ہے، دل خوف خدا سے عاری ہوگیا ہے کچھ اس کا تدارک ہوجائے کیونکہ اللہ کسی کی محنت کو اکارت نہیں فرماتا۔ ورنہ روزے رکھنا، عبادت کرنا، خیرات تقسیم کرنا اور دل میں اپنے غریبوں و نادار بہن بھائیوں کی مشکلات کا احساس نہ ہونا بے فیض مشقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جب قوم کے دل میں خوف خدا نہ رہے تو بے حسی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ دولت کے پجاری اپنی تجوریاں بھرتی رہتے ہیں اور خلق خدا یوں ہی لقمہ اجل بنتی رہتی ہے۔ مگر دولت جمع کرنے والے کا سامنا جب فرشتہ اجل سے ہوتا ہے تو پھر سب ٹھاٹ پڑا رہ جاتا ہے اربوں جمع کرنے والا بھی خالی ہاتھ ہی اگلے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔