دینی سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات
بقول ایک اسلامی اسکالر ’’اسلام کے ابتدائی دور میں جو لوگ مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ گئے تھے
KARACHI:
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ابتدائی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس وقت بچے آپس میں کھیل ہی کھیل میں ایک سوال کیا کرتے تھے کہ بتائیے دنیا میں پہلے مرغی آئی ہے یا انڈہ، یہ سوال سن کر میرا ذہن الجھن کا شکار ہوجاتا تھا۔یہ سوال اب بھی ایک معمہ ہے جو حل طلب ہے۔ ایسا ہی ایک اور سوال ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے پہلے افراد کی اصلاح کی جائے یا پہلے سیاسی عمل میں شریک ہوکر اقتدار کی طاقت کے ذریعے معاشرے کو تبدیل کیا جائے؟
یہ وہ سوال ہے جس نے برسوں سے ہماری دینی اور دینی سیاسی جماعتوں کو ایک فکری انتشار سے دوچار کر رکھا ہے۔ یہ سوال ان جماعتوں کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے اور اب تک حل طلب ہے۔
ماضی میں اس سوال پر ایک بڑی دینی سیاسی جماعت اپنے دورکے ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہوچکی ہے اور اس جماعت میں گروپ بندی کے باعث اسے اپنے وقت میں ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔پاکستان کی سیاست میں سائنسی اصول کی طرح ایک رجحان عموماً دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں دینی جماعت ہو یا دینی سیاسی جماعت۔سیکولر ہوں یا قوم پرست جب بھی اس جماعت یا اس کی لیڈرشپ سے کسی بھی بنیاد پرکسی شخصیت نے علیحدگی اختیار کی اور اپنی نئی جماعت تشکیل دی یہ شخصیت اور نئی جماعت کبھی بھی اس جماعت کے ہم پلہ یا متوازی حیثیت اختیار نہ کرسکی۔
ایسا کیوں ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار سیاست کے طالب علم ہی کرسکتے ہیں۔یہ رجحان اس بڑی دینی جماعت کے لیے نیک شگون ثابت ہوا۔اس سے علیحدہ ہونے والے گروپ آج بھی موجود ہیں اور اپنے محدود دائرہ عمل کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ ہم پلہ حیثیت اختیار نہ کرسکے۔پہلے معاشرے کی اصلاح کی جائے یا سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار حاصل کرکے معاشرے کو تبدیل کردیا جائے۔ اس سوال نے ہماری دینی اور دینی سیاسی جماعتوں کو آج بھی دو واضح حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
جو جماعتیں پہلے نقطے سے اتفاق کرتی ہیں ان کا اس ضمن میں واضح نقطہ نظر ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی ہدایت کے لیے جو بھی پیغمبر دنیا میں بھیجے انھوں نے اقتدار کے حصول کے بجائے دعوت اور تبلیغ کا راستہ اختیار کیا اور پہلے معاشرے کی اصلاح کا کام انجام دیا۔ خود رسول اللہ ﷺکی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مکہ میں آپ کو حکومت کی پیش کش بھی کی گئی مگر آپ نے اس کو قبول نہیں فرمایا۔
اگر اصل مقصد اقتدار ہوتا تو آپؐ فوراً اس کو قبول کرلیتے اس کے بعد حکومتی زور پر اسلامی قانون نافذ فرما دیتے لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اسلامی دعوت کا نشانہ اصلاح قلب نہ کہ اصلاح سیاست۔ سیاست کی اصلاح بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے۔ جو دینی سیاسی جماعتیں سیاست میں حصہ لیتی ہیں ان کا سارا زور اور توانائیاں جلسے جلوسوں، احتجاج اور سیاست کی دیگر گتھیوں کو سلجھانے میں سارا وقت صرف ہوجاتا ہے۔
جس کی وجہ سے فرد کی اصلاح کا کام پس پشت چلا جاتا ہے جو دین کا اولین تقاضا ہے۔ اسلام نے سیاست کا کوئی واضح تصور پیش نہیں کیا البتہ چند اصول و ضابطے پیش کیے ہیںیہ اصول و ضابطے موجودہ نظام سیاست سے ہم آہنگ نہیں، موجودہ سیاسی نظام میں سیاست حالات کے تابع ہوتی ہے۔ اس میں فیصلے حالات کے تناظر میں کیے جاتے ہیں جب کہ ایک عالم دین کو وہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے جو قرآن و سنت کے مطابق درست اورصحیح ہوں۔ایسے حالات میں دینی قوتوں کا دائرہ عمل علیحدہ ہوجاتا ہے اور وہ سیاسی میدان میں شکست سے دوچار ہوجاتی ہیں۔
بار بار کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ سیاست کی لائبریری میں جتنی بار یہ تجربہ کیا جائے گا اس کے ایک جیسے ہی نتائج برآمد ہوں گے اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا بقراط، سقراط، ارسطو اورافلاطون ہونا ضروری نہیں۔وہ قوتیں جو دوسرے نقطہ نظرکی حامی ہیں ان کا بھی ایک واضح نقطہ نظر ہے ان کے نزدیک اسلام کا اپنے ماننے والوں سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کیا جانا چاہیے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کو اللہ کی زمین پر نافذ کرے۔
حضورؐ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں آپؐ کی حیات مبارکہ میں جہاں دعوت وتبلیغ ہے وہاں جلاوطنی (ہجرت) سماجی بائیکاٹ (شعب ابی طالب کی گواہی کا واقعہ) جنگ بدر بھی ہے جنگ احد بھی یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی ہے ۔ ایک کامل مسلمان آپؐ کی زندگی کے ان پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔تبلیغی جماعتوں کا سارا زورعقائد کی درستگی، عبادات کی ادائیگی اور وظائف جیسے امور پر زیادہ رہا ہے۔ اجتماعی معاملات کی درستگی کو جو اولین حیثیت حاصل ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔
دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایک فرد کو دوسرے فرد کی غربت کے خاتمے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے لیکن وہ نظام جو غریب کو غریب تر بنا رہا ہے اس کی اصلاح نظام سیاست کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔سیکولر قوتیں دینی جماعتوں کی سیاست میں شمولیت کے خلاف ہیں۔ وہ ریاست کو مذہبی روک ٹوک سے آزاد کرکے معاشرے کے ہر فرد کو نفسانی خواہشات کا غلام بنانا چاہتی ہیں تاکہ معاشرے سے اخلاقی اقتدار کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس بنیاد پر سیکولر عناصرکی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے دینی جماعتوں کا دینی سیاسی جماعتوں کی سیاست میں شمولیت اعتراض فہم سے بالاتر ہے۔
دینی اور دینی سیاسی جماعتوں کا جو موقف ہے وہ آپ کے سامنے آیا اس حوالے سے سیکولر اور لبرل جماعتیں بھی اپنا ایک نقطہ نظر رکھتی ہیں جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے نزدیک پاکستان کی دینی جماعتوں پر اپنے اپنے مسلک یا فرقہ کی چھاپ ہے ہر فرقہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں دوسرا فرقہ اس پر بالادستی حاصل نہ کرلے۔
لہٰذا ہر مسلک اور فرقے کے ماننے والوں نے اپنے مسلک اور فرقے کی بقا اور تحفظ کے لیے تبلیغی ونگ، سیاسی ونگ اور عسکری ونگ تشکیل دیے ہیں تاکہ کوئی میدان دشمن کے لیے کھلا نہ رہے اور وہ ان تینوں میدانوں کے ذریعے نہ صرف اپنے نظریات کو فروغ دیں بلکہ اس کے ذریعے اپنے مسلک اور فرقے کے تحفظ کو یقینی بنائیں یہی ان کی تقسیم کا اصل محرک ہے۔یہ ہے تینوں جانب کا نقطہ نظرکون درست ہے اور کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ دینی اور دینی سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ان کی جانب سے متعین کی گئی ترجیحات کا ہے۔
بقول ایک اسلامی اسکالر ''اسلام کے ابتدائی دور میں جو لوگ مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ گئے تھے وہ موجودہ مسلمانوں سے زیادہ مظالم کا شکار تھے۔ مگر نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیارؓ نے جو تقریر کی اس میں وہ کھونے کا شکوہ نہیں کرتے بلکہ اعلیٰ انسانی اوصاف پانے کا ذکر کرتے ہیں لیکن آج کے مسلمان کا مسئلہ پانے کا نہیں ہے بلکہ اعلیٰ انسانی اوصاف جو اعلیٰ انسانیت کی تشکیل کرتے ہیں ان کے کھونے کا ہے۔ اگر آج کے مسلمان دوبارہ اٹھنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے انداز فکر میں تبدیلی لانی ہوگی اور اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لے کر انھیں متعین کرنا ہوگا۔ اس صورت میں ہی وہ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ابتدائی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس وقت بچے آپس میں کھیل ہی کھیل میں ایک سوال کیا کرتے تھے کہ بتائیے دنیا میں پہلے مرغی آئی ہے یا انڈہ، یہ سوال سن کر میرا ذہن الجھن کا شکار ہوجاتا تھا۔یہ سوال اب بھی ایک معمہ ہے جو حل طلب ہے۔ ایسا ہی ایک اور سوال ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے پہلے افراد کی اصلاح کی جائے یا پہلے سیاسی عمل میں شریک ہوکر اقتدار کی طاقت کے ذریعے معاشرے کو تبدیل کیا جائے؟
یہ وہ سوال ہے جس نے برسوں سے ہماری دینی اور دینی سیاسی جماعتوں کو ایک فکری انتشار سے دوچار کر رکھا ہے۔ یہ سوال ان جماعتوں کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے اور اب تک حل طلب ہے۔
ماضی میں اس سوال پر ایک بڑی دینی سیاسی جماعت اپنے دورکے ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہوچکی ہے اور اس جماعت میں گروپ بندی کے باعث اسے اپنے وقت میں ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔پاکستان کی سیاست میں سائنسی اصول کی طرح ایک رجحان عموماً دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں دینی جماعت ہو یا دینی سیاسی جماعت۔سیکولر ہوں یا قوم پرست جب بھی اس جماعت یا اس کی لیڈرشپ سے کسی بھی بنیاد پرکسی شخصیت نے علیحدگی اختیار کی اور اپنی نئی جماعت تشکیل دی یہ شخصیت اور نئی جماعت کبھی بھی اس جماعت کے ہم پلہ یا متوازی حیثیت اختیار نہ کرسکی۔
ایسا کیوں ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار سیاست کے طالب علم ہی کرسکتے ہیں۔یہ رجحان اس بڑی دینی جماعت کے لیے نیک شگون ثابت ہوا۔اس سے علیحدہ ہونے والے گروپ آج بھی موجود ہیں اور اپنے محدود دائرہ عمل کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ ہم پلہ حیثیت اختیار نہ کرسکے۔پہلے معاشرے کی اصلاح کی جائے یا سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار حاصل کرکے معاشرے کو تبدیل کردیا جائے۔ اس سوال نے ہماری دینی اور دینی سیاسی جماعتوں کو آج بھی دو واضح حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
جو جماعتیں پہلے نقطے سے اتفاق کرتی ہیں ان کا اس ضمن میں واضح نقطہ نظر ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی ہدایت کے لیے جو بھی پیغمبر دنیا میں بھیجے انھوں نے اقتدار کے حصول کے بجائے دعوت اور تبلیغ کا راستہ اختیار کیا اور پہلے معاشرے کی اصلاح کا کام انجام دیا۔ خود رسول اللہ ﷺکی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مکہ میں آپ کو حکومت کی پیش کش بھی کی گئی مگر آپ نے اس کو قبول نہیں فرمایا۔
اگر اصل مقصد اقتدار ہوتا تو آپؐ فوراً اس کو قبول کرلیتے اس کے بعد حکومتی زور پر اسلامی قانون نافذ فرما دیتے لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اسلامی دعوت کا نشانہ اصلاح قلب نہ کہ اصلاح سیاست۔ سیاست کی اصلاح بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے۔ جو دینی سیاسی جماعتیں سیاست میں حصہ لیتی ہیں ان کا سارا زور اور توانائیاں جلسے جلوسوں، احتجاج اور سیاست کی دیگر گتھیوں کو سلجھانے میں سارا وقت صرف ہوجاتا ہے۔
جس کی وجہ سے فرد کی اصلاح کا کام پس پشت چلا جاتا ہے جو دین کا اولین تقاضا ہے۔ اسلام نے سیاست کا کوئی واضح تصور پیش نہیں کیا البتہ چند اصول و ضابطے پیش کیے ہیںیہ اصول و ضابطے موجودہ نظام سیاست سے ہم آہنگ نہیں، موجودہ سیاسی نظام میں سیاست حالات کے تابع ہوتی ہے۔ اس میں فیصلے حالات کے تناظر میں کیے جاتے ہیں جب کہ ایک عالم دین کو وہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے جو قرآن و سنت کے مطابق درست اورصحیح ہوں۔ایسے حالات میں دینی قوتوں کا دائرہ عمل علیحدہ ہوجاتا ہے اور وہ سیاسی میدان میں شکست سے دوچار ہوجاتی ہیں۔
بار بار کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ سیاست کی لائبریری میں جتنی بار یہ تجربہ کیا جائے گا اس کے ایک جیسے ہی نتائج برآمد ہوں گے اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا بقراط، سقراط، ارسطو اورافلاطون ہونا ضروری نہیں۔وہ قوتیں جو دوسرے نقطہ نظرکی حامی ہیں ان کا بھی ایک واضح نقطہ نظر ہے ان کے نزدیک اسلام کا اپنے ماننے والوں سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کیا جانا چاہیے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کو اللہ کی زمین پر نافذ کرے۔
حضورؐ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں آپؐ کی حیات مبارکہ میں جہاں دعوت وتبلیغ ہے وہاں جلاوطنی (ہجرت) سماجی بائیکاٹ (شعب ابی طالب کی گواہی کا واقعہ) جنگ بدر بھی ہے جنگ احد بھی یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی ہے ۔ ایک کامل مسلمان آپؐ کی زندگی کے ان پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔تبلیغی جماعتوں کا سارا زورعقائد کی درستگی، عبادات کی ادائیگی اور وظائف جیسے امور پر زیادہ رہا ہے۔ اجتماعی معاملات کی درستگی کو جو اولین حیثیت حاصل ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔
دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایک فرد کو دوسرے فرد کی غربت کے خاتمے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے لیکن وہ نظام جو غریب کو غریب تر بنا رہا ہے اس کی اصلاح نظام سیاست کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔سیکولر قوتیں دینی جماعتوں کی سیاست میں شمولیت کے خلاف ہیں۔ وہ ریاست کو مذہبی روک ٹوک سے آزاد کرکے معاشرے کے ہر فرد کو نفسانی خواہشات کا غلام بنانا چاہتی ہیں تاکہ معاشرے سے اخلاقی اقتدار کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس بنیاد پر سیکولر عناصرکی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے دینی جماعتوں کا دینی سیاسی جماعتوں کی سیاست میں شمولیت اعتراض فہم سے بالاتر ہے۔
دینی اور دینی سیاسی جماعتوں کا جو موقف ہے وہ آپ کے سامنے آیا اس حوالے سے سیکولر اور لبرل جماعتیں بھی اپنا ایک نقطہ نظر رکھتی ہیں جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے نزدیک پاکستان کی دینی جماعتوں پر اپنے اپنے مسلک یا فرقہ کی چھاپ ہے ہر فرقہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں دوسرا فرقہ اس پر بالادستی حاصل نہ کرلے۔
لہٰذا ہر مسلک اور فرقے کے ماننے والوں نے اپنے مسلک اور فرقے کی بقا اور تحفظ کے لیے تبلیغی ونگ، سیاسی ونگ اور عسکری ونگ تشکیل دیے ہیں تاکہ کوئی میدان دشمن کے لیے کھلا نہ رہے اور وہ ان تینوں میدانوں کے ذریعے نہ صرف اپنے نظریات کو فروغ دیں بلکہ اس کے ذریعے اپنے مسلک اور فرقے کے تحفظ کو یقینی بنائیں یہی ان کی تقسیم کا اصل محرک ہے۔یہ ہے تینوں جانب کا نقطہ نظرکون درست ہے اور کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ دینی اور دینی سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ان کی جانب سے متعین کی گئی ترجیحات کا ہے۔
بقول ایک اسلامی اسکالر ''اسلام کے ابتدائی دور میں جو لوگ مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ گئے تھے وہ موجودہ مسلمانوں سے زیادہ مظالم کا شکار تھے۔ مگر نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیارؓ نے جو تقریر کی اس میں وہ کھونے کا شکوہ نہیں کرتے بلکہ اعلیٰ انسانی اوصاف پانے کا ذکر کرتے ہیں لیکن آج کے مسلمان کا مسئلہ پانے کا نہیں ہے بلکہ اعلیٰ انسانی اوصاف جو اعلیٰ انسانیت کی تشکیل کرتے ہیں ان کے کھونے کا ہے۔ اگر آج کے مسلمان دوبارہ اٹھنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے انداز فکر میں تبدیلی لانی ہوگی اور اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لے کر انھیں متعین کرنا ہوگا۔ اس صورت میں ہی وہ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔