وزیر آباد میں افسوسناک ٹرین حادثہ
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ریلوے کا نظام جدید ٹیکنالوجی سے محروم ہے
پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد کے قریب فوجیوں کو لے جانے والی خصوصی ٹرین کی چار بوگیاں نہر میں گرنے سے چار فوجی افسروں سمیت 14 افراد شہید' پانچ لاپتہ اور 85 زخمی ہوگئے۔
شہید ہونے والوں میں لیفٹیننٹ کرنل عامر جدون' ان کی اہلیہ اوردو بچے' میجر عادل' کیپٹن کاشف' لیفٹیننٹ عباس' سی او عامر' جی ڈی کمانڈر کا بیٹا اور بیٹی' صوبیدار میجر اسلم اور ڈرائیور ٹرین محمد ریاض بھی شامل ہیں۔صدر ممنون حسین' وزیراعظم نوازشریف' گورنر پنجاب رفیق رجوانہ' عمران خان' سابق صدر آصف زرداری' بلاول بھٹو اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ پل کے خستہ ہونے کی باتیں بے بنیاد ہیں' ڈیڑھ گھنٹہ قبل پاکستان ایکسپریس اسی جگہ سے گزری تھی' واقعہ میں دہشت گردی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا' گریڈ21 اور 20 کے افسران پر مشتمل 4 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے' ٹوٹنے والے پل کا جنوری اور دسمبر میں معائنہ ہوا تھا' ٹریک کی جانچ پڑتال کا عمل بھی روزانہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
یہ افسوسناک حادثہ کیسے پیش آیا اس کی کیا وجوہات تھیں اس کے بارے میں حقائق تو تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد معلوم ہوں گے البتہ ریلوے ماہرین نے الزام لگایا ہے کہ پنوں عاقل چھاؤنی سے کھاریاں جانے والی اسپیشل ٹرین کو گوجرانوالہ میں نہر پر بنے پل پر حادثہ ممکنہ طور پر ریلوے کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
انھوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ریلوے کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے عملے نے ریلوے کی پٹری کو جوڑنے والی فش پلیٹ کی تنصیب میں غلطی کی ہوگی اور ممکنہ طور پر یا تو نٹ مناسب انداز میں لگائے ہی نہیں تھے اور اگر لگائے بھی گئے تھے تو انھیں ٹائٹ نہیں کیا گیا ہوگا' جس سے ٹرین کے گزرنے پر فش پلیٹ الگ ہوگئی ہو گی اور پٹری اپنی جگہ سے ہٹ گئی اور ٹرین کا ڈبہ پل کی زمین سے ٹکرایا اور اس کے پیچھے مزید ڈبے اس ڈبے پر چڑھتے چلے گئے جس سے پل وزن پڑنے سے ٹوٹ گیا اور ڈبے نہر میں جا گرے۔
اخبارات میں ایسی خبریں بھی شایع ہوئی ہیں جن کے مطابق حادثہ کی ابتدائی انسپکشن میں ریلوے انجینئرز کے مطابق ٹرین کے نیچے کوئی بھاری چیز لٹک رہی تھی جو ریلوے پل سے قبل ٹریک میں ڈالے گئے سلیپرز کے ساتھ ٹکرائی جس کے نشان موجود ہیں' ریلوے انجینئرز خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس چیز کے ٹکرانے سے ریلوے انجن پٹری سے اتر گیا اور نہر میں گر گیا۔
دنیا بھر میں ٹرین حادثات کا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ ان حادثات کی تعداد ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں زیادہ ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں شاذونادر ہی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جب بھی ان ممالک میں کوئی ایسا حادثہ ہوتا ہے تو فوراً اس کی تحقیقات کی جاتی اور ان نقائص کو دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے تاکہ ایسے حادثات مستقبل میں دوبارہ رونما نہ ہوں' ان ممالک نے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ان حادثات پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ بھارتی ریلوے کی مثال سب کے سامنے ہے اس کی حالت کبھی پاکستان سے بھی بدتر تھی مگر گزشتہ چند دہائیوں میں اس نے جتنی تیزی سے ترقی کی ہے اس نے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ریلوے کا نظام جدید ٹیکنالوجی سے محروم ہے اور ابھی تک وہ پرانے اور روایتی انداز سے چلایا جا رہا ہے' عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں زیادہ تر ریلوے ٹریک اور پل انگریزوں کے زمانے کے بنائے ہوئے ہیں جو اب اپنی مدت پوری کر چکے ہیں خواہ ان کی کتنی ہی دیکھ بھال اور مرمت کیوں نہ کی جائے مگر اب وہ اس قابل نہیں رہے کہ مزید بوجھ سہار سکیں۔ ان پرانے ٹریکس اور پلوں کی جگہ نئی تعمیرات نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات کو روکنے کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے کہ ریلوے کے پرانے نظام کو جدید نظام میں بدل دیا جائے اگرچہ اس کے لیے خطیر سرمائے اور ایک طویل عرصہ درکار ہے لہٰذا ناگزیر ہے کہ ابھی سے اس پر کام شروع کر دیا جائے تاکہ ریلوے کا نظام بہتری کی جانب گامزن ہو سکے۔
تجزیہ نگار یہ الزام لگاتے ہیں کہ کسی بھی حادثے کے بعد حکومت وقتی طور پر عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی کا ڈھونگ رچاتی ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ان تحقیقاتی کمیٹیوں کی پیش کردہ رپورٹ پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا لہٰذا یہ کمیٹیاں وقت کا ضیاع ہی ثابت ہوئیں اور معاملات کو بہتر بنانے کی کبھی سعی نہیں کی گئی۔ اب وزیر آباد کے قریب ہونے والے اس ٹرین حادثے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ ہی سے یہ واضح ہو گا کہ یہ حادثہ کیوں پیش آیا مگر یہ وقت کا تقاضا ہے کہ پرانے ریلوے نظام کو جلد از جلد تبدیل کیا جائے ورنہ مستقبل میں ایسے حادثات کے رونما ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
شہید ہونے والوں میں لیفٹیننٹ کرنل عامر جدون' ان کی اہلیہ اوردو بچے' میجر عادل' کیپٹن کاشف' لیفٹیننٹ عباس' سی او عامر' جی ڈی کمانڈر کا بیٹا اور بیٹی' صوبیدار میجر اسلم اور ڈرائیور ٹرین محمد ریاض بھی شامل ہیں۔صدر ممنون حسین' وزیراعظم نوازشریف' گورنر پنجاب رفیق رجوانہ' عمران خان' سابق صدر آصف زرداری' بلاول بھٹو اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ پل کے خستہ ہونے کی باتیں بے بنیاد ہیں' ڈیڑھ گھنٹہ قبل پاکستان ایکسپریس اسی جگہ سے گزری تھی' واقعہ میں دہشت گردی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا' گریڈ21 اور 20 کے افسران پر مشتمل 4 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے' ٹوٹنے والے پل کا جنوری اور دسمبر میں معائنہ ہوا تھا' ٹریک کی جانچ پڑتال کا عمل بھی روزانہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
یہ افسوسناک حادثہ کیسے پیش آیا اس کی کیا وجوہات تھیں اس کے بارے میں حقائق تو تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد معلوم ہوں گے البتہ ریلوے ماہرین نے الزام لگایا ہے کہ پنوں عاقل چھاؤنی سے کھاریاں جانے والی اسپیشل ٹرین کو گوجرانوالہ میں نہر پر بنے پل پر حادثہ ممکنہ طور پر ریلوے کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
انھوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ریلوے کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے عملے نے ریلوے کی پٹری کو جوڑنے والی فش پلیٹ کی تنصیب میں غلطی کی ہوگی اور ممکنہ طور پر یا تو نٹ مناسب انداز میں لگائے ہی نہیں تھے اور اگر لگائے بھی گئے تھے تو انھیں ٹائٹ نہیں کیا گیا ہوگا' جس سے ٹرین کے گزرنے پر فش پلیٹ الگ ہوگئی ہو گی اور پٹری اپنی جگہ سے ہٹ گئی اور ٹرین کا ڈبہ پل کی زمین سے ٹکرایا اور اس کے پیچھے مزید ڈبے اس ڈبے پر چڑھتے چلے گئے جس سے پل وزن پڑنے سے ٹوٹ گیا اور ڈبے نہر میں جا گرے۔
اخبارات میں ایسی خبریں بھی شایع ہوئی ہیں جن کے مطابق حادثہ کی ابتدائی انسپکشن میں ریلوے انجینئرز کے مطابق ٹرین کے نیچے کوئی بھاری چیز لٹک رہی تھی جو ریلوے پل سے قبل ٹریک میں ڈالے گئے سلیپرز کے ساتھ ٹکرائی جس کے نشان موجود ہیں' ریلوے انجینئرز خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس چیز کے ٹکرانے سے ریلوے انجن پٹری سے اتر گیا اور نہر میں گر گیا۔
دنیا بھر میں ٹرین حادثات کا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ ان حادثات کی تعداد ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں زیادہ ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں شاذونادر ہی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جب بھی ان ممالک میں کوئی ایسا حادثہ ہوتا ہے تو فوراً اس کی تحقیقات کی جاتی اور ان نقائص کو دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے تاکہ ایسے حادثات مستقبل میں دوبارہ رونما نہ ہوں' ان ممالک نے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ان حادثات پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ بھارتی ریلوے کی مثال سب کے سامنے ہے اس کی حالت کبھی پاکستان سے بھی بدتر تھی مگر گزشتہ چند دہائیوں میں اس نے جتنی تیزی سے ترقی کی ہے اس نے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ریلوے کا نظام جدید ٹیکنالوجی سے محروم ہے اور ابھی تک وہ پرانے اور روایتی انداز سے چلایا جا رہا ہے' عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں زیادہ تر ریلوے ٹریک اور پل انگریزوں کے زمانے کے بنائے ہوئے ہیں جو اب اپنی مدت پوری کر چکے ہیں خواہ ان کی کتنی ہی دیکھ بھال اور مرمت کیوں نہ کی جائے مگر اب وہ اس قابل نہیں رہے کہ مزید بوجھ سہار سکیں۔ ان پرانے ٹریکس اور پلوں کی جگہ نئی تعمیرات نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات کو روکنے کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے کہ ریلوے کے پرانے نظام کو جدید نظام میں بدل دیا جائے اگرچہ اس کے لیے خطیر سرمائے اور ایک طویل عرصہ درکار ہے لہٰذا ناگزیر ہے کہ ابھی سے اس پر کام شروع کر دیا جائے تاکہ ریلوے کا نظام بہتری کی جانب گامزن ہو سکے۔
تجزیہ نگار یہ الزام لگاتے ہیں کہ کسی بھی حادثے کے بعد حکومت وقتی طور پر عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی کا ڈھونگ رچاتی ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ان تحقیقاتی کمیٹیوں کی پیش کردہ رپورٹ پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا لہٰذا یہ کمیٹیاں وقت کا ضیاع ہی ثابت ہوئیں اور معاملات کو بہتر بنانے کی کبھی سعی نہیں کی گئی۔ اب وزیر آباد کے قریب ہونے والے اس ٹرین حادثے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ ہی سے یہ واضح ہو گا کہ یہ حادثہ کیوں پیش آیا مگر یہ وقت کا تقاضا ہے کہ پرانے ریلوے نظام کو جلد از جلد تبدیل کیا جائے ورنہ مستقبل میں ایسے حادثات کے رونما ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔