سو برس سے جاری جنگ قسط سوم

انیس سو آٹھ کے بعد سے عثمانی دربار میں جدیدیت کے حامی اصلاح پسندوں المعروف ینگ ٹرکس کا غلبہ بڑھتا گیا۔

پہلی عالمی جنگ کے اثرات کے بارے میں بات کرتے کرتے گزشتہ قسط میں یہ سوال بھی اٹھا کہ خلافتِ عثمانیہ چار سو برس تک مسلم سنی اکثریت کی سیاسی و روحانی ترجمانی کی دعوے دار رہی تو پھر جرمنی کے ساتھ اس کی قربت کا کیا راز تھا اور دیگر یورپی طاقتوں سے اس قدر مخاصمت کیوں تھی جب کہ جرمنی سمیت سب ہی یورپی طاقتیں غیر مسلمان تھیں۔

اٹھارہ سو تیس تک خطہِ بلقان ( جنوبی یورپ ) اور میسو پوٹامیا ( عراق ) سے الجزائر تک چاند ستارے والا سرخ عثمانی پرچم لہراتا رہا۔ لیکن اگلے نوے برس کے دوران بلقان کو روسی زاروں کے حمایت یافتہ سلاوک قوم پرستوں نے ترکوں سے واگزار کروا لیا اور شمالی افریقہ ترکی کے ہاتھ سے نکل کر برطانیہ، فرانس، اسپین اور اٹلی میں بٹ بٹا گیا۔ چنانچہ اٹھارہ سو چھہتر سے انیس سو نو تک تخت آرا سلطان عبدالحمید اول کا یہ خدشہ یکسر بے بنیاد نہ تھا کہ یورپی نوآبادیاتی قوتیں اگلے مرحلے میں غیر ترک عثمانی رعایا کو ورغلا کر بچی کھچی عثمانی سلطنت کا بھی تیا پانچا کرنا چاہتی ہیں۔

مگر جرمنی واحد یورپی طاقت تھا جس نے دیگر یورپی طاقتوں سے عسکری و نوآبادیاتی مخاصمت کے سبب ترکی سے بنا کے رکھنے میں دلچسپی لی۔ اپنی نوآبادیاتی قبضے کی پالیسی مشرقی اور جنوب ہائے افریقہ تک محدود رکھی اور عثمانیوں کے زیرِ نگیں علاقوں پر نگاہِ ہوس رکھنے سے گریز کیا اور ترکی سے اسٹرٹیجک، سیاسی و تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی مثبت پالیسی اپنائی۔

کیسر ولیہلم نے اٹھارہ سو نواسی میں استنبول کا اور اٹھارہ سو اٹھانوے میں فلسطین و دمشق کا دورہ کیا۔ حیفہ کی بندرگاہ سے انھیں یروشلم تک جلوس کی شکل میں لایا گیا اور دمشق میں کیسر نے صلاح الدین ایوبی کے مزار پر حاضری دینے کے بعد اعلان کیا کہ میں اپنی جیب سے مزار کی مرمت و تزئین و آرائش کراؤں گا۔ عرب جذباتی ہو گئے اور انھوں نے ولیہلم کو حاجی ولیہلم کا لقب دے دیا۔ یوں عالمِ اسلام میں سلطنتِ عثمانیہ کے اکثر عقیدت مندوں کو جرمنی سے بھی انسیت ہوتی چلی گئی۔ ویسے بھی دونوں کے مشترکہ دشمن انھیں فطری اتحادی بنانے کے لیے کافی تھے۔ حریف یورپی طاقتوں کے مقابلے میں جرمنی جیسی صنعتی و عسکری قوت کی مدد سے ترکی کو اپنے معاشی و فوجی ادارے کسی حد تک جدیدیانے کا موقع ملا اور جرمنی کو بھی علاقائی توازنِ طاقت برقرار رکھنے کے لیے ترک سلطنت کی اسٹرٹیجک اہمیت کا مسلسل احساس رہا۔

کیسر ویلہلم کے نزدیک یورپ میں ایک ہی طاقت جرمنی کے ہم پلہ تھی۔ یعنی عظیم بحری قوت کا مالک آدھی دنیا کا حکمران برطانیہ۔ جرمن خارجہ پالیسی کا محور بھی برطانوی عزائم کو لگام دینا تھا اور عثمانیوں سے بہتر تعلقات اس پالیسی کا بنیادی پتھر تھا۔ کیسر ویلہلم نے عثمانیوں اور ان کے زیرِ نگیں عربوں کے دل جیتنے کا کام تجربہ کار سفارتکار، قانون داں، مشرقِ وسطی کے سرکردہ محقق اور آرکیالوجسٹ میکسویل اوپن ہائم کے سپرد کیا۔

اوپن ہائم نے سلطنتِ عثمانیہ کے مختلف علاقوں کا بطور سیاح وسیع سفر کیا اور پھر شمالی شام میں چھ ہزار قبلِ مسیح کی بستی طل احلاف کے کھنڈرات دریافت کر کے عثمانیوں کو اپنے علمی و تحقیقی وقار کا قائل کیا۔ اوپن ہائم نے برلن تا بغداد ریلوے کا نہ صرف نقشہ بنایا بلکہ جرمن کمپنی سیمنز کو اس منصوبے پر سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کیا۔ جرمن بھانپ چکے تھے کہ انیس سو آٹھ میں ایران میں تیل کی دریافت کے بعد بلادِ شام و عراق میں بھی تیل ملنے کے امکانات روشن ہیں اور برطانیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقبل کے ایندھن سے ممکنہ طور پر مالامال اس علاقے پر سیاسی و اسٹرٹیجک اثر و رسوخ پکا کرنا کتنا ضروری ہے۔ برلن بغداد ریلوے منصوبہ سینتیس برس میں مکمل ہوا مگر جنگ شروع ہو گئی اور دنیا ہی بدل گئی۔

انیس سو آٹھ کے بعد سے عثمانی دربار میں جدیدیت کے حامی اصلاح پسندوں المعروف ینگ ٹرکس کا غلبہ بڑھتا گیا۔ بظاہر تو سلطان کا سکہ چلتا تھا لیکن سب جانتے تھے کہ اصل اختیارات جواں سال وزیرِ جنگ انور پاشا اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ انور پاشا کی فوجی تربیت جرمنی میں ہوئی۔ وہ بسمارک کا مداح تھا اور روانی سے جرمن بول سکتا تھا۔ انور پاشا کے نزدیک اقتصادی، سائنسی اور عسکری ترقی کا دوسرا نام جرمنی تھا۔


اٹھائیس جولائی انیس سو چودہ کو جنگ شروع ہوئی تو جرمنوں سے انور پاشا کی بات چیت شروع ہو گئی اور صرف چار دن میں دو طرفہ تعاون کا معاہدہ طے پا گیا۔ مگر اس معاہدے کو ترکی کی جانب سے رسمی اعلانِ جنگ تک خفیہ رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ترک قیادت کا خیال تھا کہ ہماری افرادی قوت اور جرمن عسکری طاقت کے مشترکہ استعمال سے جنگ مختصر رہے گی۔ جرمنوں کا بھی یہی خیال تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت چونکہ سلطنت ِ عثمانیہ کو سیاسی و روحانی مرکز مانتی ہے لہذا یورپی نوآبادیات کے مسلمان جہاد کی اپیل کے نتیجے میں اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور برطانیہ و فرانس کی توجہ اپنی نوآبادیات سنبھالنے میں بٹ جائے گی۔ یوں جنگ آسانی سے جیت لی جائے گی۔

مگر برطانیہ نے جنگ چھڑتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اٹھارہ سو بیاسی سے اپنے زیرِ اثر نیم خود مختار عثمانی صوبے مصر پر قبضہ کیا اور وہاں جبری بھرتی کا آغاز کر دیا۔ لگ بھگ بارہ لاکھ مصریوں کو برطانیہ نے اگلے چار برس یورپ، شمالی افریقہ اور بلادِ شام کی فوجی مہمات میں خوب استعمال کیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جرمن جنرل ایرک لوڈنڈوف کے بقول عثمانیوں کی جنگ میں شمولیت کے بعد ہی وسطی یورپی طاقتیں ( آسٹریا اور جرمنی ) جنگ کو طول دینے کے قابل ہو سکیں ورنہ تو دو برس میں ہی خاتمہ ہو جاتا۔

مگر جنگ شروع ہونے تک مغربی مورخین کی رائے کے برعکس عام عربوں کے دل میں عمومی طور پر سلطنتِ عثمانیہ کے لیے معاندانہ جذبات نہیں تھے۔ عرب مورخ عواد حلابی کہتے ہیں کہ اگر عثمانی اقتدار سے عرب اتنے ہی بیزار ہوتے جیسا کے اکثر مغربی مورخین بتاتے ہیں تو جنگ سے پہلے بلادِ شام ( جدید شام، لبنان، اردن، فلسطین ) اور بلادِ موصل و بغداد کے تین لاکھ عرب سپاہی عثمانی افواج میں خدمات انجام نہ دے رہے ہوتے۔ نو سینئر عثمانی فوجی کمانڈروں میں سے دو البانوی، دو کاکیشیائی، دو عرب اور ترک صرف تین تھے۔ سلطان کا وزیرِ اعظم سعید حلیم پاشا بھی عرب نژاد تھا۔

البتہ جب ترکی جنگ میں کود پڑا تو اس پر برطانیہ و فرانس اور ان کی نوآبادیوں کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کے سبب عربوں کی روزمرہ زندگی اجیرن ہونے لگی اور راشننگ نے اشیائے خور و نوش و ایندھن کی قلت اور بڑھا دی۔ چنانچہ اردنی مورخ علی محافظ کے بقول شریفِ مکہ و مدینہ حسین بن علی نے عثمانی وزیرِ اعظم کو لکھا کہ جنگ میں شمولیت کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی جائے۔ یہ جنگ ترکی، بالخصوص عربوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔

جنگ سے پہلے تک سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے والے جدت پسند ینگ ٹرکس اختیارات کی غیر مرکزیت، عثمانی صوبوں کو مرحلہ وار آئینی خود مختاری دینے اور سماجی جدت کاری کے پرزور حامی تھے۔ اس بارے میں پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچا جا رہا تھا۔ مگر جنگ چھڑتے ہی سب منصوبے ملتوی ہو گئے اور عرب صوبوں کے قوم پرست حلقوں میں مایوسی بڑھنے لگی۔

ینگ ٹرکس کو جنگ سے پہلے ہی شبہ ہونے لگا کہ عرب قوم پرستوں کو برطانیہ اور فرانس کی جانب سے خفیہ شہہ مل رہی ہے۔ چنانچہ جنگِ شروع ہوتے ہی قوم پرستوں اور ان کے حامیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ مرکزی حکومت نے سخت گیر جنرل جمال پاشا کو بلادِ شام کا گورنر مقرر کیا۔ اسے یہ ذمے داری بھی سونپی گئی کہ مصر کو برطانیہ سے چھڑوایا جائے۔ چنانچہ جنوری انیس سو پندرہ میں ترک دستوں نے صحرائے سینا پار کرتے ہوئے نہر سویز عبور کرنے کی کوشش کی۔ لیکن برطانوی دستوں نے حملہ پسپا کر دیا اور پانچ سو ترک سپاہیوں نے بغیر لڑے ہتھیار بھی ڈال دیے۔ ان میں اکثریت عرب سپاہیوں کی تھی۔

یہی وقت تھا جب برطانیہ اور فرانس نے عام عربوں کو خلافتِ عثمانیہ سے عمومی سطح پر برگشتہ کرنے کے لیے مناسب متبادل کی تلاش شروع کر دی اور ان کی نگاہِ انتخاب حسین ابن علی عرف شریفِ مکہ پر پڑی جن کا شجرہ اہلِ بیت تک جاتا تھا اور مکہ اور مدینہ کی کلید برداری بھی دورِ عباسیہ سے ان ھی کے خاندان کے پاس تھی۔ برطانوی و فرانسیسی منصوبہ ساز سمجھتے تھے کہ ایک عام عرب کو خلافت سے برگشتہ کرنے کے لیے بطور روحانی متبادل شریفِ مکہ کا پروفائیل چاروں خانے فٹ ہے۔ اگر یہ جوا کامیاب ہو گیا تو پھر جنگی میدان میں کامیابی بچوں کا کھیل ہے۔ اور پھر برطانیہ اور فرانس کا غیر اعلانیہ جنگی پلان بی حرکت میں آ گیا۔ ( داستان جاری ہے)۔
Load Next Story