ہمارے شہر کا موسم
محبت اور نفرت دونوں ہی کی کوئی حد متعین نہیں، دونوں ہی شدید اور لازوال ہوسکتے ہیں۔
محبت اور نفرت دونوں ہی کی کوئی حد متعین نہیں، دونوں ہی شدید اور لازوال ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ جذبے ہیں جوکبھی یکدم اور کبھی آہستہ آہستہ پروان چڑھتے ہیں اور دونوں میں ہی انسان بے بس ہوسکتا ہے۔
انسانی تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جو کہیں محبت کی لازوال تصویر ہیں اور کبھی نفرت کی انتہا نظر آتے ہیں۔ کبھی حالات اور واقعات کی وجہ سے یہ جذبے پروان چڑھتے ہیں تو کہیں اپنی پسند اور ناپسند بھی وجہ ہوسکتی ہے۔انسان کیونکہ اشرف المخلوقات ہے اور اسے تمام مخلوق پر فضیلت حاصل ہے، اس لیے اللہ عالیٰ شان نے انسان کو اختیارات سے نوازا ہے۔ بے شک تمام حکم اللہ کے ہی ہیں مگر پھر بھی انسان اپنے فیصلے کرنے میں کسی قدر آزاد بھی ہے، اب یہ فیصلے محبت کے ہوں یا نفرت کے۔
جیسے پچھلے دنوں آصف زرداری نے اپنی تقریر کے ذریعے بہت سارے لوگوں کو بہت ساری باتیں سمجھانے کی کوشش کی، اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی، پاکستان فاٹا سے کراچی تک بند کرنے کی بات کی۔ اس تقریر کے بعد سے اب شاید وہ خود اپنی تقریر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، انھوں نے دبنگ باتیں کیں پھر انھیں دبنگ ایکشن بھی دیکھنے کو ملے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
پیپلز پارٹی کا مطلب ہے بھٹو خاندان۔ بھٹو خاندان کی قربانیاں سیاست کے لیے تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کوکوئی پسند کرے یا نہ کرے مگر ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ بھٹو کے بعد آج تک اس پائے کا لیڈر ہمارے پاس نہیں۔ بے نظیر بھٹو نے ایک خاتون ہوتے ہوئے گریس فل جدوجہد اور سیاست کی، بھٹو کی موت کے بعد سے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور اپنی سوجھ بوجھ سے دوبارہ اپنے لیے پارٹی کو بنایا اپنے آخری ایام کی تقاریر میں بے نظیر بھٹو ایک تجربہ کار، ذہین بین الاقوامی سیاستدان کے روپ میں نظر آتی ہیں۔ لاڑکانہ کی تقریر ہو یا باغ لیاقت کی ان کی آخری تقریر، سیاسی قدوقامت کی بلندی پر نظر آتی ہے۔
بھٹو خاندان کا المیہ یہ رہا ہے کہ سیاسی جال اور یقینا ان کے اپنے کچھ ذاتی فیصلے، ان کے لیے بہت زیادہ تباہی کا باعث بنے۔ آج کی پیپلز پارٹی مختلف شکل اور مختلف ایجنڈا رکھتی ہے۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو کے تینوں بچے بڑے اور سمجھدار ہیں مگر وہ کیوں اپنی والدہ اور بھٹو خاندان کی قربانیوں سے بھری پیپلز پارٹی کو سنبھال نہیں پا رہے؟ کہنے والے کہتے ہیں سندھ تقریباً 25 سال پنجاب سے پیچھے چلا گیا ہے جب کہ کراچی جیسا بڑا شہر تمام ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے جس طرح پیپلز پارٹی تباہی کی طرف جا رہی ہے نہ صرف وہ خود پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے بلکہ صوبے اور پورے ملک میں پیپلزپارٹی تتر بتر ہے۔ ''جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے'' کے محاورے کو پیپلز پارٹی کے ارکان نے پورا کرنے کی ٹھانی ہے اور کرائسس نظر آنے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیا ہے۔ کچھ نے PTI میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے اور یقینا جہاں جہاں ان لوگوں کو زیادہ فائدہ نظر آئے گا یہ وہیں جائیں گے۔
اس پارٹی کا نظریہ ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ جس طرح کے کرپشن کے الزامات نظر آرہے ہیں اور جس طرح لوگوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ پارٹی کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی جنھوں نے کبھی اس پارٹی کے لیے کوئی قربانی نہیں دی۔ ایک بڑی پارٹی کی طاقت بھی بڑی ہوتی ہے۔
اسی طاقت کا بے جا استعمال، کیونکہ جو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے لہو سے اس پارٹی کو سینچتے رہے ایک لازوال جدوجہد کی تاریخ رقم کرگئے اسی طرح کے بے لوث پارٹی ورکروں کو اوپر آنے کی بہت ضرورت ہے۔ ذوالفقار مرزا نے کھلے لفظوں کے ساتھ تمام ڈھکی چھپی کرپشن کو بیان کردیا یہاں تک کہ ان ناموں کو بھی عیاں کردیا جو اس ملک اور ملک کے لوگوں کے ساتھ کبھی بھی وفادار نہیں۔ یہ صرف عیاشیاں اور دولت کے انباروں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
عمران خان اگر پیپلز پارٹی کے لوگوں کو اپنی پارٹی میں جگہ دیتے رہے تو پھر عمران خان کا نظریہ اور PTIکے لیے وہ تمام لوگ جو شروع دن سے جدوجہد کرتے رہے ہیں ان کی اپنی جگہ کیا ہوگی؟ فوزیہ قصوری کی جگہ شیری مزاری، کیا اسی طرح کی سیاست ہوگی، عمران خان لوٹوں کو ہمیشہ برا بھلا کہتے رہے ہیں۔ Status Quo کے لیے واشگاف انداز میں چیختے چلاتے رہے ہیں، اب اگر پیپلز پارٹی یا کسی اور پارٹی کے لوگ مشکل وقت میں اپنی پارٹی کو چھوڑ کر PTIکے مزے لینا چاہتے ہیں تو یہ ٹھیک فیصلہ ہوگا عمران خان کا؟
مجھے لگتا ہے کہ انگلینڈ کی طرح ہمارے پورے ملک میں بھی صرف 2 پارٹیز اہم ہونی چاہئیں اور ان کے Rules & Law بھی بہت اسٹرونگ ہوں۔ ادھر سے ادھر یہ جو پارٹی ممبران گھومتے پھرتے ہیں اور مشکل وقتوں میں فوراً اپنی پارٹیز کو الوداع کہتے ہیں، جاوید ہاشمی جیسے منجھے ہوئے سیاستدان اگر اپنی سیاست کی وجہ سے کنٹروورشل Controversial ہوسکتے ہیں اور انھیں اپنی پوزیشن مل سکتی ہے تو بہت سارے ممبران کو گہری نظر سے تمام حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔
پاکستان سے سچی محبت اور اس کی ترقی و کامرانی کی خواہش ہی ایک سیاستدان کو سیاستدان بنا سکتی ہے ورنہ یہ تمام پارٹیز بھی بس ایک ''نیلام گھر'' کی حیثیت والی ہیں۔
نظریات اور ان کے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد، صحیح سمت اور بہتر کارکردگی، اب پاکستان بدل رہا ہے اور یہاں کے لوگ بھی سفرکرتے کرتے لہولہان ہوگئے ہیں۔ کبھی کسی پر اعتبار کبھی کسی پر بھروسہ، مگر نتیجہ بالکل صفر۔ ضیا الحق کا دور ہو یا نواز شریف کا۔ پرویز مشرف ہوں یا بے نظیر بھٹو، بہت سی تلخ یادیں تلخ واقعات پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ بنے اور عوام کو ایسے ایسے زخم ملے کہ شاید جن کا مداوا بھی ممکن نہ ہو۔
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے، قوم ان کو قائد ملت کے نام سے یاد کرتی ہے اور ان کا تاریخی ''مکا'' بھی۔ راولپنڈی 1951 میں ان کو شہید کردیا گیا اور ان کے آخری الفاظ بھی یہی تھے کہ ''خدا پاکستان کی حفاظت کرے'' ۔ مشرف صاحب جب اقتدار سے الوداع ہوئے تو کہا ''پاکستان کا اللہ ہی حافظ''۔
آصف زرداری، بے نظیرکے وقت سیاست کا فعال حصہ نہیں تھے نہ کوئی عہدہ تھا بلکہ ان کے دور میں ہی کرپشن کے الزامات پر جیل کاٹی، پھر بے نظیر کی شہادت کے بعد تمام پارٹی پاور ان کے ہاتھ میں آگئی پھر صدر پاکستان کے عہدے تک براجمان۔ ابھی موجودہ صدر پاکستان ممنون صاحب، کس وجہ اور کس قابلیت سے وہ صدر پاکستان بنے ہوئے ہیں، کسی کو نہیں پتہ؟ کیا بڑے بڑے سیاسی کردار ایک وقت میں اندھے ہوجاتے ہیں؟
اور ملک کے بڑے بڑے عہدے جو انٹرنیشنل طور پر بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا کیا ملک کو کمزور کرنے کے مترادف نہیں؟ تمام دنیا میں موسمی تغیرات اپنے عروج پر ہیں، کراچی میں گرمی کی لہر کے بعد یورپ میں بھی گرمی کی لہر چھا رہی ہے تمام موسم ہمیں کچھ نہ کچھ سبق دے کر جاتے ہیں اس لیے اللہ پاک نے سال میں چار موسم رکھے ہیں تاکہ توازن برقرار رہے اور زندگیاں ہنستی، روتی رہیں، ہم نے کیا پایا، کیا کھویا، کہاں گرے، کہاں سنبھلے، کہاں غلطی کی اور کہاں کچھ حاصل کیا، یہ موسم سب کچھ سکھا دینے والے ہوتے ہیں، سال کے 365 دن و رات ہر پل ہر لمحہ کچھ نہ کچھ ہمیں سکھا رہے ہوتے ہیں۔
اللہ جانے ہم کب سیکھیں گے؟ وہ کون سے موسم ہوں گے جو ہماری زندگیوں میں توازن قائم کریں گے، ہمارے شہروں کے موسم کیا ہمارے دلوں کے موسموں کو بدل سکیں گے کیا ہم رونے والوں کے ساتھ مل کے روئیں گے اور ہنسنے والوں کے ساتھ مل کر ہنسیں گے؟ ہماری ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں کیا دوریوں کو ختم کریں گی یا ہم سب کو ایک ہی صف میں کھڑا ہوجانا ہوگا۔
وقت تیزی سے اپنے راستے بدلتا بھی ہے اور بناتا بھی ہے اور ہر عمل کا حساب وکتاب لازم ہوگا۔ جو ہم بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ توکیوں نہ وہ فصلیں بوئیں جو ہرے بھرے سبزوں والی ہوں جو بہار کے موسموں کی طرح خوش رنگ اورخوشبودار ہوں۔
انسانی تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جو کہیں محبت کی لازوال تصویر ہیں اور کبھی نفرت کی انتہا نظر آتے ہیں۔ کبھی حالات اور واقعات کی وجہ سے یہ جذبے پروان چڑھتے ہیں تو کہیں اپنی پسند اور ناپسند بھی وجہ ہوسکتی ہے۔انسان کیونکہ اشرف المخلوقات ہے اور اسے تمام مخلوق پر فضیلت حاصل ہے، اس لیے اللہ عالیٰ شان نے انسان کو اختیارات سے نوازا ہے۔ بے شک تمام حکم اللہ کے ہی ہیں مگر پھر بھی انسان اپنے فیصلے کرنے میں کسی قدر آزاد بھی ہے، اب یہ فیصلے محبت کے ہوں یا نفرت کے۔
جیسے پچھلے دنوں آصف زرداری نے اپنی تقریر کے ذریعے بہت سارے لوگوں کو بہت ساری باتیں سمجھانے کی کوشش کی، اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی، پاکستان فاٹا سے کراچی تک بند کرنے کی بات کی۔ اس تقریر کے بعد سے اب شاید وہ خود اپنی تقریر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، انھوں نے دبنگ باتیں کیں پھر انھیں دبنگ ایکشن بھی دیکھنے کو ملے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
پیپلز پارٹی کا مطلب ہے بھٹو خاندان۔ بھٹو خاندان کی قربانیاں سیاست کے لیے تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کوکوئی پسند کرے یا نہ کرے مگر ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ بھٹو کے بعد آج تک اس پائے کا لیڈر ہمارے پاس نہیں۔ بے نظیر بھٹو نے ایک خاتون ہوتے ہوئے گریس فل جدوجہد اور سیاست کی، بھٹو کی موت کے بعد سے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور اپنی سوجھ بوجھ سے دوبارہ اپنے لیے پارٹی کو بنایا اپنے آخری ایام کی تقاریر میں بے نظیر بھٹو ایک تجربہ کار، ذہین بین الاقوامی سیاستدان کے روپ میں نظر آتی ہیں۔ لاڑکانہ کی تقریر ہو یا باغ لیاقت کی ان کی آخری تقریر، سیاسی قدوقامت کی بلندی پر نظر آتی ہے۔
بھٹو خاندان کا المیہ یہ رہا ہے کہ سیاسی جال اور یقینا ان کے اپنے کچھ ذاتی فیصلے، ان کے لیے بہت زیادہ تباہی کا باعث بنے۔ آج کی پیپلز پارٹی مختلف شکل اور مختلف ایجنڈا رکھتی ہے۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو کے تینوں بچے بڑے اور سمجھدار ہیں مگر وہ کیوں اپنی والدہ اور بھٹو خاندان کی قربانیوں سے بھری پیپلز پارٹی کو سنبھال نہیں پا رہے؟ کہنے والے کہتے ہیں سندھ تقریباً 25 سال پنجاب سے پیچھے چلا گیا ہے جب کہ کراچی جیسا بڑا شہر تمام ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے جس طرح پیپلز پارٹی تباہی کی طرف جا رہی ہے نہ صرف وہ خود پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے بلکہ صوبے اور پورے ملک میں پیپلزپارٹی تتر بتر ہے۔ ''جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے'' کے محاورے کو پیپلز پارٹی کے ارکان نے پورا کرنے کی ٹھانی ہے اور کرائسس نظر آنے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیا ہے۔ کچھ نے PTI میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے اور یقینا جہاں جہاں ان لوگوں کو زیادہ فائدہ نظر آئے گا یہ وہیں جائیں گے۔
اس پارٹی کا نظریہ ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ جس طرح کے کرپشن کے الزامات نظر آرہے ہیں اور جس طرح لوگوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ پارٹی کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی جنھوں نے کبھی اس پارٹی کے لیے کوئی قربانی نہیں دی۔ ایک بڑی پارٹی کی طاقت بھی بڑی ہوتی ہے۔
اسی طاقت کا بے جا استعمال، کیونکہ جو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے لہو سے اس پارٹی کو سینچتے رہے ایک لازوال جدوجہد کی تاریخ رقم کرگئے اسی طرح کے بے لوث پارٹی ورکروں کو اوپر آنے کی بہت ضرورت ہے۔ ذوالفقار مرزا نے کھلے لفظوں کے ساتھ تمام ڈھکی چھپی کرپشن کو بیان کردیا یہاں تک کہ ان ناموں کو بھی عیاں کردیا جو اس ملک اور ملک کے لوگوں کے ساتھ کبھی بھی وفادار نہیں۔ یہ صرف عیاشیاں اور دولت کے انباروں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
عمران خان اگر پیپلز پارٹی کے لوگوں کو اپنی پارٹی میں جگہ دیتے رہے تو پھر عمران خان کا نظریہ اور PTIکے لیے وہ تمام لوگ جو شروع دن سے جدوجہد کرتے رہے ہیں ان کی اپنی جگہ کیا ہوگی؟ فوزیہ قصوری کی جگہ شیری مزاری، کیا اسی طرح کی سیاست ہوگی، عمران خان لوٹوں کو ہمیشہ برا بھلا کہتے رہے ہیں۔ Status Quo کے لیے واشگاف انداز میں چیختے چلاتے رہے ہیں، اب اگر پیپلز پارٹی یا کسی اور پارٹی کے لوگ مشکل وقت میں اپنی پارٹی کو چھوڑ کر PTIکے مزے لینا چاہتے ہیں تو یہ ٹھیک فیصلہ ہوگا عمران خان کا؟
مجھے لگتا ہے کہ انگلینڈ کی طرح ہمارے پورے ملک میں بھی صرف 2 پارٹیز اہم ہونی چاہئیں اور ان کے Rules & Law بھی بہت اسٹرونگ ہوں۔ ادھر سے ادھر یہ جو پارٹی ممبران گھومتے پھرتے ہیں اور مشکل وقتوں میں فوراً اپنی پارٹیز کو الوداع کہتے ہیں، جاوید ہاشمی جیسے منجھے ہوئے سیاستدان اگر اپنی سیاست کی وجہ سے کنٹروورشل Controversial ہوسکتے ہیں اور انھیں اپنی پوزیشن مل سکتی ہے تو بہت سارے ممبران کو گہری نظر سے تمام حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔
پاکستان سے سچی محبت اور اس کی ترقی و کامرانی کی خواہش ہی ایک سیاستدان کو سیاستدان بنا سکتی ہے ورنہ یہ تمام پارٹیز بھی بس ایک ''نیلام گھر'' کی حیثیت والی ہیں۔
نظریات اور ان کے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد، صحیح سمت اور بہتر کارکردگی، اب پاکستان بدل رہا ہے اور یہاں کے لوگ بھی سفرکرتے کرتے لہولہان ہوگئے ہیں۔ کبھی کسی پر اعتبار کبھی کسی پر بھروسہ، مگر نتیجہ بالکل صفر۔ ضیا الحق کا دور ہو یا نواز شریف کا۔ پرویز مشرف ہوں یا بے نظیر بھٹو، بہت سی تلخ یادیں تلخ واقعات پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ بنے اور عوام کو ایسے ایسے زخم ملے کہ شاید جن کا مداوا بھی ممکن نہ ہو۔
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے، قوم ان کو قائد ملت کے نام سے یاد کرتی ہے اور ان کا تاریخی ''مکا'' بھی۔ راولپنڈی 1951 میں ان کو شہید کردیا گیا اور ان کے آخری الفاظ بھی یہی تھے کہ ''خدا پاکستان کی حفاظت کرے'' ۔ مشرف صاحب جب اقتدار سے الوداع ہوئے تو کہا ''پاکستان کا اللہ ہی حافظ''۔
آصف زرداری، بے نظیرکے وقت سیاست کا فعال حصہ نہیں تھے نہ کوئی عہدہ تھا بلکہ ان کے دور میں ہی کرپشن کے الزامات پر جیل کاٹی، پھر بے نظیر کی شہادت کے بعد تمام پارٹی پاور ان کے ہاتھ میں آگئی پھر صدر پاکستان کے عہدے تک براجمان۔ ابھی موجودہ صدر پاکستان ممنون صاحب، کس وجہ اور کس قابلیت سے وہ صدر پاکستان بنے ہوئے ہیں، کسی کو نہیں پتہ؟ کیا بڑے بڑے سیاسی کردار ایک وقت میں اندھے ہوجاتے ہیں؟
اور ملک کے بڑے بڑے عہدے جو انٹرنیشنل طور پر بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا کیا ملک کو کمزور کرنے کے مترادف نہیں؟ تمام دنیا میں موسمی تغیرات اپنے عروج پر ہیں، کراچی میں گرمی کی لہر کے بعد یورپ میں بھی گرمی کی لہر چھا رہی ہے تمام موسم ہمیں کچھ نہ کچھ سبق دے کر جاتے ہیں اس لیے اللہ پاک نے سال میں چار موسم رکھے ہیں تاکہ توازن برقرار رہے اور زندگیاں ہنستی، روتی رہیں، ہم نے کیا پایا، کیا کھویا، کہاں گرے، کہاں سنبھلے، کہاں غلطی کی اور کہاں کچھ حاصل کیا، یہ موسم سب کچھ سکھا دینے والے ہوتے ہیں، سال کے 365 دن و رات ہر پل ہر لمحہ کچھ نہ کچھ ہمیں سکھا رہے ہوتے ہیں۔
اللہ جانے ہم کب سیکھیں گے؟ وہ کون سے موسم ہوں گے جو ہماری زندگیوں میں توازن قائم کریں گے، ہمارے شہروں کے موسم کیا ہمارے دلوں کے موسموں کو بدل سکیں گے کیا ہم رونے والوں کے ساتھ مل کے روئیں گے اور ہنسنے والوں کے ساتھ مل کر ہنسیں گے؟ ہماری ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں کیا دوریوں کو ختم کریں گی یا ہم سب کو ایک ہی صف میں کھڑا ہوجانا ہوگا۔
وقت تیزی سے اپنے راستے بدلتا بھی ہے اور بناتا بھی ہے اور ہر عمل کا حساب وکتاب لازم ہوگا۔ جو ہم بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ توکیوں نہ وہ فصلیں بوئیں جو ہرے بھرے سبزوں والی ہوں جو بہار کے موسموں کی طرح خوش رنگ اورخوشبودار ہوں۔