مستنگ سے منگوچر تک
بعض شہروں کا اپنا ایک سحرہوتا ہے ،ہاں، زیادہ ٹھیک بات تو یہ ہوگی کہ بعض مقامات کا اپنا ایک سحر ہوتا ہے۔
بعض شہروں کا اپنا ایک سحرہوتا ہے ،ہاں، زیادہ ٹھیک بات تو یہ ہوگی کہ بعض مقامات کا اپنا ایک سحر ہوتا ہے۔ یہاں شہر سے مراد محض آج کے میٹرو اورکاسمو پولیٹن نہیں، بلکہ وہ مقامات ہیں جنھوں نے اپنی معمولی سہولیات اور انسانی آبادی کے باوصف دیہات سے شہرکی صورت اختیار کر لی۔ جیسے بلوچستان کے پس منظر میں دیکھیے تو ہر وہ قصبہ جہاں معمولی سا بازار قائم ہوگیا، شہر کہلایا۔ تو یہ جو شہروں کا سحر ہے، یہ محض سہولیات اور بڑی بڑی عمارات سے منسلک نہیں، نہ اس کا تعلق محض سبزے اور چند قدرتی مناظر سے ہے۔
حسن ،دیکھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی شے ہے اوراگر آپ کی یہ حس بیدار ہے تو سبزے سے بھرے پہاڑ ہوں، پتھروں سے ڈھکے اہرام، یا تاحد نظر ریتیلے صحرا، مختلف مناظر میں بکھرا قدرتی حسن آپ ہر جا محسوس کر سکتے ہیں۔ اوراگر آپ نے قدرتی حسن کے تمام مناظر ایک ہی دھرتی پر یک جا دیکھنے ہوں تو بلوچستان تشریف لائیے۔ سبزے سے لہراتے، چشموں کی آوازکو سنتے، جھیلوں کے حسن سے محصور ہوتے بولان سے شروع کیجیے، کوئٹہ کی پیالہ نما، کوہساروں میں گھری سرد وادی میں پہنچیں۔ مغرب کی جانب نکلیں، نوشکی کے صحراؤں کا حسن محسوس کیجیے، آگے خاران کے پتھر آپ کا استقبال کریں گے۔ چاغی اور دالبندین' پہاڑ اور صحرا کا امتزاج لیے نظر آئیں گے۔
اُس طرف پنجگور باغات کا حسین منظر لیے کھڑا ہو گا۔ کیچ کی پُرپیچ وادیاں،اہرامِ مصر کی یاد دلادیں گی۔ ایک طرف ہنگلاج کا حسن خیرہ کردے گا تو دوسری طرف اسی ہنگلاج اورکُنڈ ملیر کے سنگم سے شروع ہوتا بحر ِبلوچ جیونی اور پسنی سے ہوتا گوادر کے ساحلوں تک آپ کو ایک ہی اور دنیا میں لے جائے گا۔ حسن کا مرکز ہے بلوچستان، عشق کا محور ہے بلوچستان۔
اس کی سحرانگیزکشش اور قوت کا اندازہ آپ کو تب ہو گا، جب اپنی نمایاں خصوصیات والے ان علاقوں سے نکل کر آپ اُن خطوں کی طرف آئیں گے، جہاں بظاہر آنکھ کو نظر آنے والا کوئی حسن وجود نہیں رکھتا، مگر ایک نامعلوم اور ناقابلِ اظہارکشش آپ کو اپنی اور کھینچتی رہتی ہے۔ کوئٹہ کے شمال مغرب میں ذرا سے فاصلے پر واقع مَستُنگ کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
جدید شہروں کی نسبت کسی قدیم قصبے کی صورت رکھنے والا یہ علاقہ، بلوچستان کے قدیم اور اولین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ بظاہر بلوچستان کی شناختی علامت اور ہر دوسرے قصبے میں موجود بلند و بالا پہاڑوں کے سوا ،یہاں اور ایسا کچھ نہیں جو اسے نمایاں کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود، مستنگ ایک طرف اپنی قدامت تو دوسری طرف ایک نامعلوم اور انجانی کشش کے باعث بلوچوں کے لیے سدا پُرکشش رہا ہے۔ بلوچستان میں شہریت کے ابتدائی نقوش ہمیں یہیں کہیں ملتے ہیں۔
براہوی بولنے والے بلوچوں کے اسی قدیم مسکن کے قرب وجوارمیں نہ صرف براہوی کی اولین تحریر 'ایجاد' ہوئی، بلکہ ایک باضابطہ علمی و قلمی مہم شروع ہوئی جسے مکتبہ دُرخانی کے نام سے جانا جاتا ہے ،ڈھاڈر کے مقام سے شروع ہونے والی اس علمی تحریک کو نمایاں نام اسی مستنگ سے میسر آئے۔ پھر یوں ہوا کہ اس کے بعد جب بھی بلوچوں کی کوئی علمی، سماجی و سیاسی تحریک شروع ہوئی تو اس کا نقطہ آغاز مستنگ ٹھہرا۔ بلوچوں کے اولین سیاسی امام یوسف عزیز مگسی کی انگریزوں کے پٹھو،گجرات سے درآمد شدہ 'آباد کار'وزیراعظم شمس شاہ کے خلاف شروع کردہ ایجی ٹیشن جب انگریزوں کے لیے دردِ سر بن گئی اور انھوں نے یوسف عزیزکی اونچی پروازکے پرکترنا چاہے تو اسے گرفتار کرکے مستنگ جیل میں لا پھینکا، جہاں بعدازاں ان کے دستِ راست اور ہم نوا بننے والے عبدالعزیزکرد پہلے ہی سیاسی قید کاٹ رہے تھے۔
ان دونوں کامریڈز کو یک جا قید کرنا، چالاک انگریز کی سب سے بڑی غلطی اور بلوچوں کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی خوش نصیبی ثابت ہوئی۔ عزیز کرد یہیں کچھ عرصہ قبل 'انجمنِ بلوچاں' کی داغ بیل ڈال چکے تھے، جیل میں ان دونوں ہم نواؤں کے نظریاتی مباحث اور' اسٹڈی سرکل' کے نتیجے میں 'انجمن اتحادِ بلوچاں' قائم ہوئی، جو بلوچ تاریخ کی پہلی باضابطہ سیاسی تنظیم قرار پائی۔
اسی کے تسلسل میں بعدازاں جب میرغوث بخش بزنجو اور ان کے رفقا نے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی بنیاد ڈالی، تو اس کی جائے پیدائش بھی یہی مستنگ ٹھہرا۔ اور پھر ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ اسی مستنگ میں نیشنل پارٹی کے قبائلیت، سرداریت، خانیت و جاگیرداریت کے خلاف ہونے والے قومی سطح کے جلسے میںمقامی سرداروں نے کیسے بدحواس ہوکرہلہ بول دیا تھا۔ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور سرداروں کی یہ پہلی باضابطہ سیاسی لڑائی تھی، جس کی بنیادیوسف عزیز اور ان کے احباب' مگسی ایجی ٹیشن'کی خشت ِ اول کی صورت میں رکھ کے گئے تھے۔ گزشتہ ایک صدی سے ہم، اسی تسلسل میں زندہ ہیں۔
پھر ان سب سے بڑھ کر ایک اور تاریخی واقعہ، مستنگ کی پیشانی پہ جگمگا رہا ہے۔ یہ اٹھارویں صدی کے وسط میں بلوچوں کے سب سے بڑے حکمران، نوری نصیرخان اور افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کے درمیان ہونے والا وہ تاریخی معاہدہ ہے، جس کے نتیجے میں پہلی بار افغانستان اور بلوچستان کے مابین باضابطہ سرحد بندی طے ہوئی، بلکہ وہ سماجی 'سیاسی اور اخلاقی اصول طے پائے ، جنھوں نے ہر دو اقوام کو کشت و خون کے پنجے سے نکال کر برادر اقوام کی پُرامن راہ پر ڈال دیا۔ انگریز جاتے جاتے اس مثالی ہمسایہ گیری میں ایک دائمی دراڑ ڈال کرگیا۔
اس نے بلوچوں اور پشتونوں کی تاریخی سرزمین کے حصے بخرے کچھ یوں کیے کہ یہ برادر اقوام ایک دوسرے سے ہمیشہ دست و گریباں رہیں۔ بلوچستان کا ایک حصہ افغانستان میں ڈال دیا تو افغانستان کا ایک حصہ بلوچستان میں۔ لیکن یہ نصیرخان اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے اثرات کے ثمرات تھے کہ جنھوں نے ہر دو اقوام کے تاریخی تعلق کے احترام کو پامال نہ ہونے دیا۔اس کے بعد افغانستان میں خواہ پر امن حکومت رہی ہو کہ خانہ جنگی، ثور انقلاب کا زمانہ ہوکہ طالبان کا عہد، وہاں روسی فوجوں کا بسیرا رہا ہو کہ نیٹو افواج کا ٹھکانہ، ہر عہد میں غیور افغانوں کی یہ زمین محکوم بلوچوں کے لیے سائباں بنی رہی۔
بلوچستان میںجب کبھی حالات کے جبر نے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پہ دھرتی تنگ کی، پڑوس کی افغان سرزمین ان کے لیے گوشہ عافیت ثابت ہوئی۔بلوچوں اور پشتونوں کے دو قابلِ احترام رہنماؤں کے درمیان ہونے والا یہ وہی قابلِ احترام معاہدہ تھا، جس کے نتیجے میں احمد شاہ ابدالی نے خیر سگالی کے طور پر نصیر خان کو 'کوٹ'(قلعہ، موجودہ کوئٹہ) اور ان کی والدہ کو شال عطا کی تھی، جس سے 'کوٹ' ،شال کوٹ بن گیا،انگریزوں نے پھر جسے کوئٹہ بنا ڈالا۔
سو،وہ مستنگ جو بلوچوں کی علمی، سیاسی اور سماجی زندگی کا محور رہا ،آج مذہبی اور جنگی جنونیت کے شکنجے میں ہے۔ پہلے یہاں نسلی عصبیت کا راکھشش آیا۔ بلوچستان میں پہلا پریس لگانے والے، نیپ کی سیاسی جدوجہد میں ہمارے رہنماؤں کے ہم قدم ، زمرد حسین کے گھر پر حملہ ہوا، مستنگ کے کیک کو بلوچستان کی سوغات بنانے والے مکہ بیکری کا مالک دربدر ہوا، مستنگ کو آباد کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے والے، جدی پشتی وہاں آباد، اپنے مردے اسی زمین میں دفن کرنے والے پنجابی،'آباد کار' کے جگر برد طعنے کے ساتھ وطن بدر ہوئے۔ پھر مذہبی جنونیت کا اندھا دیو آیا، نوخیز بچیوں کے معصوم چہروں پہ تیزاب پھینکنے کی خبریں آنے لگیں اور پھر مُسے ٹُنگ (تین سوراخ/تین راستے) والے اس علاقے سے 'ہزارہ' نامی مخلوق کے گزرنے کا ایک بھی راستہ نہ رہا۔
اب جب اسی مستنگ کے پہلو میں واقع کھڈ کوچہ میں بے گناہ پشتونوں کو خون میں نہلا دیا گیا، تو یوں لگا جیسے نوری نصیر خان اور احمد شاہ ابدالی کے مابین ہونے والے معاہدے پر لکیر پھیر دی گئی ہو۔ بلوچوں کی سیاسی تنظیموں سمیت تمام حلقوں کی جانب سے اس کی قابلِ تحسین 'مذمت کے باوجود یہ داغ بہرحال مستنگ کے دامن پہ موجود رہے گا...روشن فکر، علمی'سیاسی و سماجی مرکز والا وہ مستنگ جس کا دامن پہلے ہی نسلی عصبیت اور مذہبی جنونیت نے تارتار کر دیا ہے۔
'کھڈ کوچہ' کے معنی ہیں ،گہری کھائی۔ اس علاقے کا حالیہ تعارف بتاتا ہے کہ گویایہاں کی اجتماعی دانش کسی گہری کھائی میں جا گری ہے۔مستونگ سے لے کر، کھڈکوچہ، منگوچر اور قلات تک ہونے والی تازہ تر اور تیز ترین عسکری کارروائیاں اس کھائی کو مزید گہرا کرتی چلی جا رہی ہیں۔
حسن ،دیکھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی شے ہے اوراگر آپ کی یہ حس بیدار ہے تو سبزے سے بھرے پہاڑ ہوں، پتھروں سے ڈھکے اہرام، یا تاحد نظر ریتیلے صحرا، مختلف مناظر میں بکھرا قدرتی حسن آپ ہر جا محسوس کر سکتے ہیں۔ اوراگر آپ نے قدرتی حسن کے تمام مناظر ایک ہی دھرتی پر یک جا دیکھنے ہوں تو بلوچستان تشریف لائیے۔ سبزے سے لہراتے، چشموں کی آوازکو سنتے، جھیلوں کے حسن سے محصور ہوتے بولان سے شروع کیجیے، کوئٹہ کی پیالہ نما، کوہساروں میں گھری سرد وادی میں پہنچیں۔ مغرب کی جانب نکلیں، نوشکی کے صحراؤں کا حسن محسوس کیجیے، آگے خاران کے پتھر آپ کا استقبال کریں گے۔ چاغی اور دالبندین' پہاڑ اور صحرا کا امتزاج لیے نظر آئیں گے۔
اُس طرف پنجگور باغات کا حسین منظر لیے کھڑا ہو گا۔ کیچ کی پُرپیچ وادیاں،اہرامِ مصر کی یاد دلادیں گی۔ ایک طرف ہنگلاج کا حسن خیرہ کردے گا تو دوسری طرف اسی ہنگلاج اورکُنڈ ملیر کے سنگم سے شروع ہوتا بحر ِبلوچ جیونی اور پسنی سے ہوتا گوادر کے ساحلوں تک آپ کو ایک ہی اور دنیا میں لے جائے گا۔ حسن کا مرکز ہے بلوچستان، عشق کا محور ہے بلوچستان۔
اس کی سحرانگیزکشش اور قوت کا اندازہ آپ کو تب ہو گا، جب اپنی نمایاں خصوصیات والے ان علاقوں سے نکل کر آپ اُن خطوں کی طرف آئیں گے، جہاں بظاہر آنکھ کو نظر آنے والا کوئی حسن وجود نہیں رکھتا، مگر ایک نامعلوم اور ناقابلِ اظہارکشش آپ کو اپنی اور کھینچتی رہتی ہے۔ کوئٹہ کے شمال مغرب میں ذرا سے فاصلے پر واقع مَستُنگ کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
جدید شہروں کی نسبت کسی قدیم قصبے کی صورت رکھنے والا یہ علاقہ، بلوچستان کے قدیم اور اولین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ بظاہر بلوچستان کی شناختی علامت اور ہر دوسرے قصبے میں موجود بلند و بالا پہاڑوں کے سوا ،یہاں اور ایسا کچھ نہیں جو اسے نمایاں کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود، مستنگ ایک طرف اپنی قدامت تو دوسری طرف ایک نامعلوم اور انجانی کشش کے باعث بلوچوں کے لیے سدا پُرکشش رہا ہے۔ بلوچستان میں شہریت کے ابتدائی نقوش ہمیں یہیں کہیں ملتے ہیں۔
براہوی بولنے والے بلوچوں کے اسی قدیم مسکن کے قرب وجوارمیں نہ صرف براہوی کی اولین تحریر 'ایجاد' ہوئی، بلکہ ایک باضابطہ علمی و قلمی مہم شروع ہوئی جسے مکتبہ دُرخانی کے نام سے جانا جاتا ہے ،ڈھاڈر کے مقام سے شروع ہونے والی اس علمی تحریک کو نمایاں نام اسی مستنگ سے میسر آئے۔ پھر یوں ہوا کہ اس کے بعد جب بھی بلوچوں کی کوئی علمی، سماجی و سیاسی تحریک شروع ہوئی تو اس کا نقطہ آغاز مستنگ ٹھہرا۔ بلوچوں کے اولین سیاسی امام یوسف عزیز مگسی کی انگریزوں کے پٹھو،گجرات سے درآمد شدہ 'آباد کار'وزیراعظم شمس شاہ کے خلاف شروع کردہ ایجی ٹیشن جب انگریزوں کے لیے دردِ سر بن گئی اور انھوں نے یوسف عزیزکی اونچی پروازکے پرکترنا چاہے تو اسے گرفتار کرکے مستنگ جیل میں لا پھینکا، جہاں بعدازاں ان کے دستِ راست اور ہم نوا بننے والے عبدالعزیزکرد پہلے ہی سیاسی قید کاٹ رہے تھے۔
ان دونوں کامریڈز کو یک جا قید کرنا، چالاک انگریز کی سب سے بڑی غلطی اور بلوچوں کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی خوش نصیبی ثابت ہوئی۔ عزیز کرد یہیں کچھ عرصہ قبل 'انجمنِ بلوچاں' کی داغ بیل ڈال چکے تھے، جیل میں ان دونوں ہم نواؤں کے نظریاتی مباحث اور' اسٹڈی سرکل' کے نتیجے میں 'انجمن اتحادِ بلوچاں' قائم ہوئی، جو بلوچ تاریخ کی پہلی باضابطہ سیاسی تنظیم قرار پائی۔
اسی کے تسلسل میں بعدازاں جب میرغوث بخش بزنجو اور ان کے رفقا نے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی بنیاد ڈالی، تو اس کی جائے پیدائش بھی یہی مستنگ ٹھہرا۔ اور پھر ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ اسی مستنگ میں نیشنل پارٹی کے قبائلیت، سرداریت، خانیت و جاگیرداریت کے خلاف ہونے والے قومی سطح کے جلسے میںمقامی سرداروں نے کیسے بدحواس ہوکرہلہ بول دیا تھا۔ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور سرداروں کی یہ پہلی باضابطہ سیاسی لڑائی تھی، جس کی بنیادیوسف عزیز اور ان کے احباب' مگسی ایجی ٹیشن'کی خشت ِ اول کی صورت میں رکھ کے گئے تھے۔ گزشتہ ایک صدی سے ہم، اسی تسلسل میں زندہ ہیں۔
پھر ان سب سے بڑھ کر ایک اور تاریخی واقعہ، مستنگ کی پیشانی پہ جگمگا رہا ہے۔ یہ اٹھارویں صدی کے وسط میں بلوچوں کے سب سے بڑے حکمران، نوری نصیرخان اور افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کے درمیان ہونے والا وہ تاریخی معاہدہ ہے، جس کے نتیجے میں پہلی بار افغانستان اور بلوچستان کے مابین باضابطہ سرحد بندی طے ہوئی، بلکہ وہ سماجی 'سیاسی اور اخلاقی اصول طے پائے ، جنھوں نے ہر دو اقوام کو کشت و خون کے پنجے سے نکال کر برادر اقوام کی پُرامن راہ پر ڈال دیا۔ انگریز جاتے جاتے اس مثالی ہمسایہ گیری میں ایک دائمی دراڑ ڈال کرگیا۔
اس نے بلوچوں اور پشتونوں کی تاریخی سرزمین کے حصے بخرے کچھ یوں کیے کہ یہ برادر اقوام ایک دوسرے سے ہمیشہ دست و گریباں رہیں۔ بلوچستان کا ایک حصہ افغانستان میں ڈال دیا تو افغانستان کا ایک حصہ بلوچستان میں۔ لیکن یہ نصیرخان اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے اثرات کے ثمرات تھے کہ جنھوں نے ہر دو اقوام کے تاریخی تعلق کے احترام کو پامال نہ ہونے دیا۔اس کے بعد افغانستان میں خواہ پر امن حکومت رہی ہو کہ خانہ جنگی، ثور انقلاب کا زمانہ ہوکہ طالبان کا عہد، وہاں روسی فوجوں کا بسیرا رہا ہو کہ نیٹو افواج کا ٹھکانہ، ہر عہد میں غیور افغانوں کی یہ زمین محکوم بلوچوں کے لیے سائباں بنی رہی۔
بلوچستان میںجب کبھی حالات کے جبر نے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پہ دھرتی تنگ کی، پڑوس کی افغان سرزمین ان کے لیے گوشہ عافیت ثابت ہوئی۔بلوچوں اور پشتونوں کے دو قابلِ احترام رہنماؤں کے درمیان ہونے والا یہ وہی قابلِ احترام معاہدہ تھا، جس کے نتیجے میں احمد شاہ ابدالی نے خیر سگالی کے طور پر نصیر خان کو 'کوٹ'(قلعہ، موجودہ کوئٹہ) اور ان کی والدہ کو شال عطا کی تھی، جس سے 'کوٹ' ،شال کوٹ بن گیا،انگریزوں نے پھر جسے کوئٹہ بنا ڈالا۔
سو،وہ مستنگ جو بلوچوں کی علمی، سیاسی اور سماجی زندگی کا محور رہا ،آج مذہبی اور جنگی جنونیت کے شکنجے میں ہے۔ پہلے یہاں نسلی عصبیت کا راکھشش آیا۔ بلوچستان میں پہلا پریس لگانے والے، نیپ کی سیاسی جدوجہد میں ہمارے رہنماؤں کے ہم قدم ، زمرد حسین کے گھر پر حملہ ہوا، مستنگ کے کیک کو بلوچستان کی سوغات بنانے والے مکہ بیکری کا مالک دربدر ہوا، مستنگ کو آباد کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے والے، جدی پشتی وہاں آباد، اپنے مردے اسی زمین میں دفن کرنے والے پنجابی،'آباد کار' کے جگر برد طعنے کے ساتھ وطن بدر ہوئے۔ پھر مذہبی جنونیت کا اندھا دیو آیا، نوخیز بچیوں کے معصوم چہروں پہ تیزاب پھینکنے کی خبریں آنے لگیں اور پھر مُسے ٹُنگ (تین سوراخ/تین راستے) والے اس علاقے سے 'ہزارہ' نامی مخلوق کے گزرنے کا ایک بھی راستہ نہ رہا۔
اب جب اسی مستنگ کے پہلو میں واقع کھڈ کوچہ میں بے گناہ پشتونوں کو خون میں نہلا دیا گیا، تو یوں لگا جیسے نوری نصیر خان اور احمد شاہ ابدالی کے مابین ہونے والے معاہدے پر لکیر پھیر دی گئی ہو۔ بلوچوں کی سیاسی تنظیموں سمیت تمام حلقوں کی جانب سے اس کی قابلِ تحسین 'مذمت کے باوجود یہ داغ بہرحال مستنگ کے دامن پہ موجود رہے گا...روشن فکر، علمی'سیاسی و سماجی مرکز والا وہ مستنگ جس کا دامن پہلے ہی نسلی عصبیت اور مذہبی جنونیت نے تارتار کر دیا ہے۔
'کھڈ کوچہ' کے معنی ہیں ،گہری کھائی۔ اس علاقے کا حالیہ تعارف بتاتا ہے کہ گویایہاں کی اجتماعی دانش کسی گہری کھائی میں جا گری ہے۔مستونگ سے لے کر، کھڈکوچہ، منگوچر اور قلات تک ہونے والی تازہ تر اور تیز ترین عسکری کارروائیاں اس کھائی کو مزید گہرا کرتی چلی جا رہی ہیں۔