شیخ چلی ہم اور ہماری زمین

سائنسدان ہمیں سمجھا رہے تھے کہ دنیا میں فیکٹریوں اور صنعتوں کی بہتات اچھی نہیں

apro_ku@yahoo.com

ایک مرتبہ شیخ چلی کسی درخت پر بیٹھا درخت کی شاخ کاٹ رہا تھا، ایک شخص کا گزر ادھر سے ہوا، تو اس نے شیخ چلی سے کہا کہ تم جس شاخ پر بیٹھے ہو اس ہی شاخ کو کاٹ رہے ہو، اس طرح تو تم نیچے گرجاؤ گے۔ شیخ چلی نے اس کی ایک نہ سنی اور شاخ کو کاٹتا گیا، حتیٰ کہ شاخ سمیت زمین پر آگرا۔ اب کی بار شہر کراچی میں گرمی پڑی تو خیال آیا کہ ایک میں ہی کیا ہر شخص ہی شیخ چلی ہے، اس لیے کہ سائنسدان ہمیں ایک عرصے سے جو بات سمجھا رہے تھے اور ہم اسے فضول سمجھ رہے تھے وہ اب حقیقت بن کر ہمارے سامنے آگئی تھی۔

سائنسدان ہمیں سمجھا رہے تھے کہ دنیا میں فیکٹریوں اور صنعتوں کی بہتات اچھی نہیں کیونکہ اس کے پہیے چلتے ہیں تو فضا میں آلودگی بڑھتی ہے، جس سے اوزون کی سطح متاثر ہورہی ہے اور اس سطح میں دراڑ پڑنے سے سورج کی شعاعیں براہ راست زمین پر آئیں گی، جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا، موسم میں خطرناک تبدیلیاں آئیں گی، جس سے طوفان بھی آئیں گے اور انسان کو سخت تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سائنسدان ہمیں یہ بھی بتاتے رہے کہ زمین سے سبزہ نہ ختم کرو، درخت نہ کاٹو، مگر ہم نہ مانے اور ہم نے خوبصورت فرنیچر اور مال کمانے کے لیے برازیل میں ایسے جنگلات بھی کاٹ ڈالے جو اس زمین کے پھیپھڑے کہلاتے تھے۔

سائنسدان ہمیں آج بھی خبردار کررہے ہیں کہ ہماری جانب سے مسلسل پھیلائی جانے والی آلودگی کے باعث موسم بدل رہے ہیں، گلیشیر پگھل رہے ہیں، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے، بے شمار علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے۔ (مالدیب جیسے ملک کو ایسا خطرہ محسوس ہوا تو وہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے آسٹریلیا میں زمین خریدنے کے لیے کوششیں کرنے لگا)۔ سائنسدان انیس سو پچاسی میں یہ بات جان گئے تھے کہ دنیا میں استعمال ہونے والی گاڑیاں، کارخانے، ہوائی جہاز اور گھروں میں استعمال ہونے والی اشیاء فریج و ایئرکنڈیشنڈ وغیرہ سے خارج ہونے والی 'سی ایف سی' گیسیں اوزون کی سطح کو تباہ کررہی ہیں۔ صرف اے سی کی پیدا شدہ گرمی سے کروڑوں لوگ اس صدی کے آخر تک بے گھر ہوجائیں گے۔


سائنسدانوں کے خبردار کرنے کے باوجود بڑی بڑی ایسی فیکٹریاں، کارخانے دن رات دھواں اور خطرناک گیسیں خارج کر رہے ہیں جو صرف سامان تعیشات تیار کر رہے ہیں لیکن کوئی بھی (سرمایہ دارانہ ماحول کے تحفظ کی خاطر) فیکٹریوں میں چلتے پہیوں کو روکنا نہیں چاہتا کہ اس سے اس کو موصول ہوتا ہوا مال و دولت کا عمل بھی رک جائے گا۔ اس عمل میں دنیا بھر کی ریاستیں بھی ان کے سا تھ ہیں کیونکہ دولت کی طاقت یہاں بھی اثر دکھاتی ہے، چنانچہ امریکا میں تو سائنسدانوں پر یہ پابندی بھی عائد کردی گئی ہے کہ وہ اپنی کوئی بھی ایسی ریسرچ حکومت کی مرضی کے بغیر منظر عام پر نہیں لاسکتے جو عوام الناس کو یہ بتا سکے کہ ماحول کو کس قدر سنگین خطرات لاحق ہیں اور دنیا کو کیا کیا نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ہر سرمایہ دار اور حکومت کے اپنے مفادات ہوتے ہیں لہٰذا وہ دنیا کی فکر کیوں کریں گے۔ البتہ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم بحیثیت صارف ایسا عمل کیوں کریں کہ یہ دنیا کل کی تباہ ہوتی آج ہی تباہ ہوجائے؟ آئیے غور کیجیے کہ ہم کس طرح اپنی دنیا کی تباہی میں ساتھ دے رہے ہیں۔ کراچی شہر میں گرمی بڑھی تو دکانوں پر اے سی کی مانگ بڑھ گئی، وہ بھی اس حد تک کہ اے سی دکانوں سے غائب ہوگئے۔ گھروں میں اے سی کا استعمال بڑھ گیا، کاروں میں اے سی آن ہوگئے، فریج کا استعمال بڑھ گیا۔ جب کہ سائنسدان ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ ان کے استعمال سے اوزون کی سطح میں سوراخ بڑھ رہا ہے، جس سے درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ گویا ہم لوگوں نے گرمی سے بچنے کے لیے گرمی بڑھانے کے اسباب مزید بڑھا دیے۔

انٹرنیٹ کے ڈیٹا سینٹرز اور سرور بجلی سے چلتے ہیں، یہ صرف امریکا میں جتنی بجلی خرچ کرتے ہیں وہ برطانیہ کی دو ماہ کی بجلی کی کھپت کے برابر ہے، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں زیادہ تر بجلی کوئلے سے حاصل کی جاتی ہے اور اس سے بھی آلودگی پھیلتی ہے۔ چلیے یہ تو معاملہ سرمایہ دار کے ہاتھ میں ہے لیکن کیا ہمیں کچھ اندازہ ہے کہ بحیثیت صارف ہم کیا کچھ کر رہے ہیں؟ خود برطانوی جریدہ کہتا ہے کہ آپ گوگل پر صرف دو عدد سرچ کریں تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کسی کیتلی میں پکنے والی چائے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک ای میل پچاس گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ کا باعث ہوتی ہے، جب کہ ایک گھنٹہ لیپ ٹاپ استعمال کرنے سے بارہ گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی ہے۔ ذرا غور کیجیے آپ اور ہم کس قدر نیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور دنیا کی کل آبادی کس قدر استعمال کرتی ہے؟ صرف فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک ارب سے کہیں زائد ہے۔

آئیے غور کریں، بحثیت صارف ہم اس زمین پر کس قدر گرمی پیدا کر رہے ہیں؟ ہم کس قدر گاڑی، اے سی، اور دیگر برقی آلات کی اشیا کا استعمال ختم یا کم کرکے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ مختصراً یہ کہ جس قدر ہم کم صارف بنیں گے، یعنی کوئی بھی شے کم سے کم خریدیں گے، کم سے کم استعمال کریںگے، باالفاظ دیگر سادگی اختیار کریں گے، اتنا ہی اپنی زمین کو تحفظ دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے، دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جس قدر اشیا خریدیں گے، اشیا استعمال کریں گے، یعنی صارف کا کردار جتنا زیادہ ادا کریں گے، اتنی ہی آلودگی بڑھے گی، زمین پر گرمی بڑھے گی، کیونکہ اس طرح کارخانوں کا پیہہ چلتا جائے گا اور اس کے نتیجے میں آلودگی بڑھے گی۔ اور آسانی سے بات اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر دنیا کے ایک ارب انسانوں کے پاس دو اختیار ہوں کہ وہ جوتوں کے دو نئے جوڑے بھی خرید کر اپنا گزارا کر سکتے ہیں اور ایک جوڑے سے بھی تو ایسے میں دو نئے جوڑے خریدنے کے فیصلے کا مطلب کارخانے میں دو ارب نئے جوتے کے جوڑے کی تیاری، جب کہ ایک جوڑے خریدنے کا مطلب صرف ایک ارب نئے جوتے کے جوڑے کی تیاری ہوگی۔ اب خود اندازہ کریں کہ ایک ارب جوڑوں کی تیاری سے کارخانے کتنی دیر تک چلیں گے، کتنا فیول استعمال ہوگا اور اس سے کتنی آلودگی پھیلے گی؟ حالانکہ انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو جوتے کے ایک جوڑے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
Load Next Story