کیا قصوروار صرف سیاستدان ہی ہیں
ہر کوئی اپنے لفظوں کا پاس رکھنے کے لیے وہ دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے سے بھی گریزاں ہے۔
منتقم جمہوریت والے اس وقت لفظوں کے بوجھ تلے دبے بیٹھے ہیں۔ اب لفظوں سے اتھل پتھل ہونے والے معاملات کو سلجھانے میں یقیناً اک عرصہ لگے گا۔ جب کہا گیا کہ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے'' تو ہر ذی شعور سمجھ چکا تھا کہ اب عوام سے ایسا انتقام لیا جائے گا کہ وہ واویلا بھی نہیں کر پائیں گے اور وقت نے ثابت کیا کہ ''معائدہ مری'' سے جمہوریت کو انتقام بنانے کی بنیاد رکھ دی گئی اور پھر ایسا انتقام لیا گیا کہ چوراہوں پر بھسم ہوتے لوگ نظر آئے۔ لوڈشیڈنگ نے زندگی میں اندھیروں کے ڈیرے ڈال دیے، غربت اور بے روزگاری سے لوگوں کی زندگی تنگ پڑگئی اور اگر بچنے کے جو امکانات بچے تھے وہ ٹارگٹ کلنگ نے ختم کردیے، اور اِس سب کے باوجود انتقام جاری رہا۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی قوم پہلے شخصیت پرست (زندہ) تھی، اب مردہ پرست بھی ہے۔ آج تک ہم ان سیاستدانوں کو مردہ ماننے پر تیار نہیں جن کی ہڈیاں بھی خاک ہوچکی ہیں۔ لیکن ہم بضد ہیں کہ ''وہ کل بھی زندہ تھے، وہ آج بھی زندہ ہیں'' اور شاید تب تک زندہ رہیں گے جب تک عوام کی جیبوں میں ایک دھیلا بھی باقی ہے۔ مرتے تو صرف عوام ہیں۔ وہ بھی ایسی موت کہ کسی اخبار کی صرف یک کالمی خبر ہی بنتی ہے۔ اور بس۔
دوسری جانب 80 کی دہائی کے ابتدائی حصے میں خزانہ، دوسرے حصے یعنی 85 سے 90 تک وزارت اعلیٰ، 90ء کی دہائی میں میوزیکل چیئر کے نتیجے میں دو دفعہ وزارت عظمیٰ، 10-2009 میں وفاق کا حصہ، 2013 کے عام انتخابات کے بعد وفاق میں حکومت، پنجاب میں حکومت، بلوچستان میں مخلوط حکومت، اس کے علاوہ کم و بیش وسائل کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے پچھلے 30 سالوں میں آدھے سے زیادہ وقت مطلق العنان حاکم رہنے والے بھی دوبارہ سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر انہیں مزید وقت دیا جائے تو تبدیلی لے آئیں گے۔ معلوم نہیں وہ کیسی تبدیلی ہوگی جو وہ پچھلے 35 سالوں کے اختیار میں نہیں لا سکے اور اب لائیں گے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کریں۔ دو سال میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے کے دعوے داروں نے لفظوں کے ایسے تیر چلائے کہ یہ بیوقوف قوم سمجھ بیٹھی کہ شاید ان کے آتے ہی کرپشن کے بڑے گرو واقعی چاک گریباں لئے سڑکوں پر رُل رہے ہوں گے۔ کیوںکہ ''مائیک توڑ دعویٰ'' جو تھا کہ سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ لیکن جب اقتدار کا ہما سر بیٹھ گیا تو عوام کو ٹھینگا دکھایا گیا اور سیاسی گرو (خود ساختہ) کے گھر جا کر نہ صرف معافی تلافی کی گئی بلکہ یہ تاثر دیا گیا کہ وہ تو بس جذبات کی رو میں کہہ دیا گیا تھا اور مقصد صرف عوام کو بیوقوف بنانا تھا۔ ورنہ ہماری یہ جرات کہ آپ کو سڑکوں پر گھسیٹیں۔ آپ تو جیسے چاہیں اس ملک کو نوچیں۔ ایک حصہ آپ نوچیے اور دوسرا حصہ ہم نوچتے ہیں۔ حساب برابر۔ لفظوں کی مار دونوں نے ایک دوسرے کو دی اور دونوں نے ہی اپنے لفظوں کا پاس بھی نہیں رکھا۔ جھوٹے لفظوں کا ان دیکھا بوجھ ہمارے سیاستدانوں کے سرچڑھتا جا رہا ہے۔ اب دیکھیں کون اس بوجھ کے نیچے دبتا ہے اور کون بوجھ اتارنے کی ہمت کرتا ہے۔
معاملہ صرف اِن دونوں کا نہیں بلکہ مہاجروں کے نمائندے بھی زیرعتا ب ہیں اور اب تو پڑوسی ملک کے سابق را چیف نے بھی بلند بانگ و دہل کہہ دیا ہے کہ جناب ہم تو فنڈنگ کرتے رہے ہیں اور ہر ملک میں فنڈنگ ہوتی ہے۔ یعنی حالات ایک ہی رخ پر جا رہے ہیں۔ ان تمام معروضی حالات میں ایک سیاسی خلاء سا پیدا ہوگیا ہے۔ کپتان صاحب کبھی کوئی بہت فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کبھی ایسے راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ گلی محلے کے کونسلرز بھی خود کو اُن سے بہتر سیاستدان تصور کرنے لگتے ہیں۔ ہوتیوں اور اچکزیوں کے تو کیا ہی کہنے بس اقتدار کی موزیکل چیئر میں گم ہیں اور اپنی اپنی باری کے منتظر ہیں۔ قادری صاحب امیدوں کے محور ٹھہرے لیکن وہ بھی اُمیدوں پر پورا اُترے بغیر دیار غیر سدھار جاتے ہیں۔
موجودہ سیاسی خلاء نہ صرف عام آدمی کے لیے فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سبب بن رہی ہے بلکہ مجموعی طور پر وطن عزیز کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔ اس وقت پاکستان کو کوئی بھی قومی سیاسی پارٹی میسر نہیں جو یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ پورے ملک کی نمائندہ جماعت ہے اور یہ رجحان ایک خطرناک کھائی کی طرف لے جا رہا ہے۔ قوم پرست بلوچستان تک محدود ہیں۔ خان لوگ خیبر پختونواہ کو کل کائنات سمجھے بیٹھے ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تو صرف سندھ کا نعرہ بن کے رہ گیا ہے۔ میاں برادران پنجاب کو فتح کرکے پورے ملک کے حکمران بننے پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ ہر کوئی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے۔ عملی طور پر ہر صوبے میں ایک مکمل الگ حکومت ہے۔ صوبائی خود مختاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ اچھا شگون ہے۔ لیکن داخلی سلامتی، جرائم، فیصلوں کے اختیار کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ہرگز بھی سود مند نہیں ہے۔ کوئی صوبہ اگر غلط ڈگر پر بھی جارہا ہو تو وفاق اس لیے مداخلت سے ہچکچاتا ہے کہ اسے جمہوریت کی نفی سمجھا جائے گا۔ در حقیقت تیسری سیاسی قوت کا نہ ہونا وطن عزیز کے لیے ایک المیے کی سی کیفیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
ہر کوئی اپنے لفظوں میں جمہوریت کی مضبوطی کا دعوے دار ہے اور اپنے لفظوں کا پاس رکھنے کے لیے وہ دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ مبادا اسے جمہوریت کی نفی نہ گردانا جائے کہ ہر کوئی اپنے لفظوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ وہ اس حد تک دب جائیں کہ ان کے لفظوں کے بوجھ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے۔
[poll id="527"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی قوم پہلے شخصیت پرست (زندہ) تھی، اب مردہ پرست بھی ہے۔ آج تک ہم ان سیاستدانوں کو مردہ ماننے پر تیار نہیں جن کی ہڈیاں بھی خاک ہوچکی ہیں۔ لیکن ہم بضد ہیں کہ ''وہ کل بھی زندہ تھے، وہ آج بھی زندہ ہیں'' اور شاید تب تک زندہ رہیں گے جب تک عوام کی جیبوں میں ایک دھیلا بھی باقی ہے۔ مرتے تو صرف عوام ہیں۔ وہ بھی ایسی موت کہ کسی اخبار کی صرف یک کالمی خبر ہی بنتی ہے۔ اور بس۔
دوسری جانب 80 کی دہائی کے ابتدائی حصے میں خزانہ، دوسرے حصے یعنی 85 سے 90 تک وزارت اعلیٰ، 90ء کی دہائی میں میوزیکل چیئر کے نتیجے میں دو دفعہ وزارت عظمیٰ، 10-2009 میں وفاق کا حصہ، 2013 کے عام انتخابات کے بعد وفاق میں حکومت، پنجاب میں حکومت، بلوچستان میں مخلوط حکومت، اس کے علاوہ کم و بیش وسائل کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے پچھلے 30 سالوں میں آدھے سے زیادہ وقت مطلق العنان حاکم رہنے والے بھی دوبارہ سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر انہیں مزید وقت دیا جائے تو تبدیلی لے آئیں گے۔ معلوم نہیں وہ کیسی تبدیلی ہوگی جو وہ پچھلے 35 سالوں کے اختیار میں نہیں لا سکے اور اب لائیں گے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کریں۔ دو سال میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے کے دعوے داروں نے لفظوں کے ایسے تیر چلائے کہ یہ بیوقوف قوم سمجھ بیٹھی کہ شاید ان کے آتے ہی کرپشن کے بڑے گرو واقعی چاک گریباں لئے سڑکوں پر رُل رہے ہوں گے۔ کیوںکہ ''مائیک توڑ دعویٰ'' جو تھا کہ سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ لیکن جب اقتدار کا ہما سر بیٹھ گیا تو عوام کو ٹھینگا دکھایا گیا اور سیاسی گرو (خود ساختہ) کے گھر جا کر نہ صرف معافی تلافی کی گئی بلکہ یہ تاثر دیا گیا کہ وہ تو بس جذبات کی رو میں کہہ دیا گیا تھا اور مقصد صرف عوام کو بیوقوف بنانا تھا۔ ورنہ ہماری یہ جرات کہ آپ کو سڑکوں پر گھسیٹیں۔ آپ تو جیسے چاہیں اس ملک کو نوچیں۔ ایک حصہ آپ نوچیے اور دوسرا حصہ ہم نوچتے ہیں۔ حساب برابر۔ لفظوں کی مار دونوں نے ایک دوسرے کو دی اور دونوں نے ہی اپنے لفظوں کا پاس بھی نہیں رکھا۔ جھوٹے لفظوں کا ان دیکھا بوجھ ہمارے سیاستدانوں کے سرچڑھتا جا رہا ہے۔ اب دیکھیں کون اس بوجھ کے نیچے دبتا ہے اور کون بوجھ اتارنے کی ہمت کرتا ہے۔
معاملہ صرف اِن دونوں کا نہیں بلکہ مہاجروں کے نمائندے بھی زیرعتا ب ہیں اور اب تو پڑوسی ملک کے سابق را چیف نے بھی بلند بانگ و دہل کہہ دیا ہے کہ جناب ہم تو فنڈنگ کرتے رہے ہیں اور ہر ملک میں فنڈنگ ہوتی ہے۔ یعنی حالات ایک ہی رخ پر جا رہے ہیں۔ ان تمام معروضی حالات میں ایک سیاسی خلاء سا پیدا ہوگیا ہے۔ کپتان صاحب کبھی کوئی بہت فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کبھی ایسے راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ گلی محلے کے کونسلرز بھی خود کو اُن سے بہتر سیاستدان تصور کرنے لگتے ہیں۔ ہوتیوں اور اچکزیوں کے تو کیا ہی کہنے بس اقتدار کی موزیکل چیئر میں گم ہیں اور اپنی اپنی باری کے منتظر ہیں۔ قادری صاحب امیدوں کے محور ٹھہرے لیکن وہ بھی اُمیدوں پر پورا اُترے بغیر دیار غیر سدھار جاتے ہیں۔
موجودہ سیاسی خلاء نہ صرف عام آدمی کے لیے فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سبب بن رہی ہے بلکہ مجموعی طور پر وطن عزیز کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔ اس وقت پاکستان کو کوئی بھی قومی سیاسی پارٹی میسر نہیں جو یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ پورے ملک کی نمائندہ جماعت ہے اور یہ رجحان ایک خطرناک کھائی کی طرف لے جا رہا ہے۔ قوم پرست بلوچستان تک محدود ہیں۔ خان لوگ خیبر پختونواہ کو کل کائنات سمجھے بیٹھے ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تو صرف سندھ کا نعرہ بن کے رہ گیا ہے۔ میاں برادران پنجاب کو فتح کرکے پورے ملک کے حکمران بننے پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ ہر کوئی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے۔ عملی طور پر ہر صوبے میں ایک مکمل الگ حکومت ہے۔ صوبائی خود مختاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ اچھا شگون ہے۔ لیکن داخلی سلامتی، جرائم، فیصلوں کے اختیار کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ہرگز بھی سود مند نہیں ہے۔ کوئی صوبہ اگر غلط ڈگر پر بھی جارہا ہو تو وفاق اس لیے مداخلت سے ہچکچاتا ہے کہ اسے جمہوریت کی نفی سمجھا جائے گا۔ در حقیقت تیسری سیاسی قوت کا نہ ہونا وطن عزیز کے لیے ایک المیے کی سی کیفیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
ہر کوئی اپنے لفظوں میں جمہوریت کی مضبوطی کا دعوے دار ہے اور اپنے لفظوں کا پاس رکھنے کے لیے وہ دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ مبادا اسے جمہوریت کی نفی نہ گردانا جائے کہ ہر کوئی اپنے لفظوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ وہ اس حد تک دب جائیں کہ ان کے لفظوں کے بوجھ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے۔
[poll id="527"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس