ہاتھ میں گلاب آنکھ میں آنسو
چاکر اعظم کی پوری شخصیت بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، ایثار و قربانی ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔
''بہادروںکا انتقام بھی مجھے پیارا ہے، جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔'' یہ قول بلوچ قوم کے ہیرو میر چاکر خان کا ہے۔ میر چاکر رند کو ایک شخصیت یا ایک نام کے طور پر یاد نہیں رکھا جاتا بلکہ چاکر اعظم کی پوری شخصیت بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جواں مردی، جوش و گفتار و کردار، ایثار و قربانی ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔
میر چاکر کے بعد بلوچ قوم میں یکجہتی کا مظاہرہ کم دیکھنے میں آیا ہے، میر چاکر خان رند بلوچ کا دور بلوچوں کے عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہی ہے۔ چاکر اعظم کے متعدد قول بڑے مشہور ہیں، جیسے ''سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری ہے۔'' ایک قول یہ بھی بہت مشہور ہوا کہ ''مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے۔''
ہم کسی بھی قوم کی ثقافت کو اس کے اسلاف کے کارناموں سے بخوبی جان سکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی تشکیل چند سالوں میں وجود میں نہیں آتی بلکہ اس کے لیے سیکڑوں، ہزاروں سال کا ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ تاریخ میں بلوچ خود کو حضرت امیر حمزہ کی اولاد سے قرار دیتے ہیں جو عرب میں ایک بہادر اور جری شخص کے طور پر جانے جاتے تھے جب کہ ان کا خاندان بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔
شاید یہی ہے کہ عربی النسل ہونے کے ناتے بلوچوں میں بہادری اور شجاعت کا عنصر ہونے ساتھ ساتھ عربوں کے رسم و رواج بھی موجود ہیں۔ بعض محقق بلوچ کو آریائی نسل سے قرار دیتے ہیں جو کوہ البرز کے شمالی علاقوں میں رہتے تھے، بعض اسکالرز کے مطابق بلوچ کیسپیئن کے ساحلی علاقے سے ایران منتقل ہوئے، فردوسی کے شاہنامہ میں بلوچوں کا نمایاں ذکر ملتا ہے۔ بلوچ لفظ کے بارے میں بھی مختلف آراء ہیں۔ ممتاز تاریخ دان ہزرفیلڈ کی رائے ہے کہ یہ لفظ مدین کے علاقے کا لفظ ہے جو برزاوک سے نکلا ہے جس کے معنی بلند چیخ ہے۔
جب کہ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ بلوچ لفظ بابل کے مشہور بادشاہ بیلوس سے مناسبت رکھتا ہے جب کہ بعض تاریخ دان لفظ بلوچ کو سنسکرت کے دو الفاظ سے مل کر بننے کو مانتے ہیں بل یعنی طاقت اور اچ یعنی بلند۔ اس کے علاوہ بھی مختلف تاریخ دانوں کی آرا ہیں جس کے لیے یہ صفحات کم ہیں۔ تمام آرا میں بلوچوں کی ایک قدیم نظم کے مواد کو معتبر مانا جاتا ہے کہ بلوچ امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد سے ہیں اور حلب سے آئے انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔
وادی حلب سے چلنے والی یہ قوم جب سیستان سے ہوتی ہوئی یہاں وارد ہوئی تو ماحول اور علاقائی صورتحال میں یہ دو شاخوں میں تقسیم ہو گئی جن میں سے ایک سیلمانی اور ایک مکرانی کہلواتے ہیں۔ بلوچستان میں تین بڑی قومیں، بلوچ، پشتون اور براہوی آباد ہیں۔ بلوچی زبان بولنے والے بڑے قبائل میں رند، لاشار، مری، جاموٹ، احمد زئی، بگٹی، ڈومکی، مگسی، کھوسہ، پاک پاشانی، دشتی، عمرانی، نوشروانی، گچکی، بلیدی، سنجرانی اور خیدائی شامل ہیں جب کہ یہ قبائل مزید چھوٹے قبائل میں بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔ براہوی زبان بولنے والے بلوچوں میں ریئسانی، شاہوانی، سومولائی، بنگزائی، محمد شاہی، لہری، بزنجو، محمد حسنی، زارکزئی یا زہری، مینگل اور لینگو قبائل شامل ہیں۔
یہ قبائل براہوی بولتے ہیں مگر ان میں بیشتر بیک وقت بلوچی اور براہوی بھی بولتے ہیں۔ پشتو زبان بولنے والے بلوچوں میں کا کڑ، گلزائی، ترین، مموخیل، شیرانی، لیونی اور اچکزئی بڑے قبائل ہیں۔ بلوچ قوم بھی پختونوں کی طرح اپنے فیصلوں کے لیے ایک جرگے کا نظام رکھتی ہے۔ بلوچستان میں بھی عمومی فیصلے شریعت کے مطابق طے کیے جاتے رہے ہیں۔ اس نظام عدل کو 1970ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیی خان نے منسوخ کر دیا لیکن اس کے باوجود بھی قبائل میں نوے فیصد فیصلے جرگے کے مطابق ہوتے رہے۔
بلوچستان میں حکومت کی جانب سے علیحدگی پسندوں کو عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے پہاڑوں سے واپس آ کر معاشرے کا با مقصد فرد بننے کی پیش کش کی گئی۔ بلوچستان کی اپیکس کمیٹی نے کہا کہ جو نوجوان ریاست کے خلاف مسلح کارروائی ترک کرنے کا یقین دلائیں ان کو عام معافی دی جائے گی۔ بلوچ قوم کی اپنی ایک تاریخ و ثقافت ہے اور آج کل بلوچستان جن مسائل سے گزر رہا ہے اس سے ملک دشمن قوتیں بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں جہاں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی سازش کی کوشش کی جاتی رہی ہے تو دوسری جانب ایسے اقدامات بھی ہوتے رہے ہیں کہ عوام میں سیکیورٹی اداروں کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
لاپتہ افراد کے مقدمات سمیت پاکستان سے باہر بیٹھے بلوچ رہنماؤں پر سنگین الزامات اور بھارت کی دخل اندازی نے بلوچستان کے مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ اپیکس کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں امن کے لیے ایک فارمولہ ترتیب تو دیا گیا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن، محکمہ تعلیم کے توسط سے مکمل کی جائے گی، جب کہ اہم مسئلہ افغان مہاجرین کا ہے جن کی تیسری نسل بلوچستان میں پروان چڑھ رہی ہے۔ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کا اثر و رسوخ اور پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات بھی اہم سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔
اپیکس کمیٹی کی جانب سے مدارس کی رجسٹریشن کے لیے محکمہ تعلیم کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز دی گئی ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی فراموش نہیں کر سکتا کہ بلوچستان میں کام کرنے والے اساتذہ، طلبا کو مختلف حملوں میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اپنی ایک رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ بلوچستان میں انارکی کا شکار علاقوں کی ابتر صورتحال کے سبب اساتذہ اور پروفیسرز یا تو صوبے کے نسبتاََ محفوظ مقامات پر اپنا تبادلہ کروا چکے ہیں یا پھر انھوں نے صوبہ ہی چھوڑ دیا ہے۔ دیکھا جائے تو 1947ء سے آج تک بلوچستان میں آپریشن کیا جا رہا ہے.
ریاست قلات کی شمولیت کے بعد سے کیے جانے والوں معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث حالات مسلسل ابتری کی جانب رواں ہیں۔ 15 جولائی1960ء میں سردار نوروز خان، ان کے بیٹوں، بھیتجوں اور ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ ایف سی پاک فوج کا معتبر ادارہ ہے اور پاک فوج کے ساتھ سیکیورٹی ایشوز پر مسلسل رابطے میں ہے لیکن ماضی میں سیاسی بنیادوں پر بلوچستان کی مسئلے کو حل کرنے کی ہر کوشش کسی نہ کسی وجہ سے ناکام ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ڈی جی ایف سی، وزیر اعلیٰ سے زیادہ طاقتور مانے جاتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو برملا کہتے ہیں کہ بلوچستان میں آج کے جمہوری دور میں بھی احکامات صرف فوج کے مانے جاتے ہیں۔ میر حاصل بزنجو کے مطابق ''اسٹبلشمنٹ نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ اگر صوبوں کو آئینی حقوق اورخود مختاری دی گئی تو پاکستانی وفاق باقی نہیں رہے گا۔''
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن بلوچستان کے وسائل اور دولت کے بارے میں کماحقہ آگاہ ہیں لیکن بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں کی انتہائی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جب بھارت پاکستان میں کھلے عام دخل اندازی کر کے شرپسندوں کے ہاتھوں پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کی جانب سے کشمیر ی تنظیموں کو بھارت کی جانب راغب کرنے کے لیے فنڈز دینے کا اعتراف سامنے آ چکا ہے۔ پاکستان کے بے امن علاقوں میں را کی شر انگیز مسلح مداخلت اب کوئی راز نہیں۔ سندھ سے لے کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے افغانستان تک بھارت کی شر انگیز سازشیں پردہ راز نہیں رہی۔ اس تمام صورتحال میں بلوچوں کی ثقافت و روایات اور خاص طور جرگوں کے فیصلوں کی اہمیت کے پیش نظر بلوچستان کے بعض شورش زدہ علاقوں میں امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں ہی پاک، چائنا اقتصادی راہدری منصوبے کو کامیاب بنا سکتی ہیں۔
بلوچ قوم اور پشتون قوم بلوچستان میں مستقل قیام کے لیے اپنی ثقافت اور روایات کے پیش نظر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مسخ شدہ لاشیں، اغوا برائے تاوان، پنجابیوں اور دیگر قومیتوں و مسالک کے افراد کے خلاف نفرتیں، بلوچستان کے وسائل پر ان کے باسیوں کا حق، فوری اور سستا انصاف مہیا کرنے سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے ہمیں ہزاروں سال پر محیط ان قوموں کی راویات و ثقافت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ عسکری قیادت بخوبی جانتی ہے کہ ہر جنگ کے بعد مسئلے کا حل مذاکرات سے ہی نکلتا ہے لہذا وہ نوجوان جو ریاست کے خلاف مسلح کارروائی ترک کرنا چاہتے ہیں انھیں عام معافی کے اعلان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انھیں قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنی قوم کی خدمت کے لیے از سر نو نئے بلوچستان کی بنیاد پاکستان کی اندر رہتے ہوئے ہی رکھنی ہو گی۔ پاکستان کے حصار میں ہی بلوچستان کی بقا اور ان کی عوام کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔
میر چاکر کے بعد بلوچ قوم میں یکجہتی کا مظاہرہ کم دیکھنے میں آیا ہے، میر چاکر خان رند بلوچ کا دور بلوچوں کے عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہی ہے۔ چاکر اعظم کے متعدد قول بڑے مشہور ہیں، جیسے ''سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری ہے۔'' ایک قول یہ بھی بہت مشہور ہوا کہ ''مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے۔''
ہم کسی بھی قوم کی ثقافت کو اس کے اسلاف کے کارناموں سے بخوبی جان سکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی تشکیل چند سالوں میں وجود میں نہیں آتی بلکہ اس کے لیے سیکڑوں، ہزاروں سال کا ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ تاریخ میں بلوچ خود کو حضرت امیر حمزہ کی اولاد سے قرار دیتے ہیں جو عرب میں ایک بہادر اور جری شخص کے طور پر جانے جاتے تھے جب کہ ان کا خاندان بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔
شاید یہی ہے کہ عربی النسل ہونے کے ناتے بلوچوں میں بہادری اور شجاعت کا عنصر ہونے ساتھ ساتھ عربوں کے رسم و رواج بھی موجود ہیں۔ بعض محقق بلوچ کو آریائی نسل سے قرار دیتے ہیں جو کوہ البرز کے شمالی علاقوں میں رہتے تھے، بعض اسکالرز کے مطابق بلوچ کیسپیئن کے ساحلی علاقے سے ایران منتقل ہوئے، فردوسی کے شاہنامہ میں بلوچوں کا نمایاں ذکر ملتا ہے۔ بلوچ لفظ کے بارے میں بھی مختلف آراء ہیں۔ ممتاز تاریخ دان ہزرفیلڈ کی رائے ہے کہ یہ لفظ مدین کے علاقے کا لفظ ہے جو برزاوک سے نکلا ہے جس کے معنی بلند چیخ ہے۔
جب کہ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ بلوچ لفظ بابل کے مشہور بادشاہ بیلوس سے مناسبت رکھتا ہے جب کہ بعض تاریخ دان لفظ بلوچ کو سنسکرت کے دو الفاظ سے مل کر بننے کو مانتے ہیں بل یعنی طاقت اور اچ یعنی بلند۔ اس کے علاوہ بھی مختلف تاریخ دانوں کی آرا ہیں جس کے لیے یہ صفحات کم ہیں۔ تمام آرا میں بلوچوں کی ایک قدیم نظم کے مواد کو معتبر مانا جاتا ہے کہ بلوچ امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد سے ہیں اور حلب سے آئے انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔
وادی حلب سے چلنے والی یہ قوم جب سیستان سے ہوتی ہوئی یہاں وارد ہوئی تو ماحول اور علاقائی صورتحال میں یہ دو شاخوں میں تقسیم ہو گئی جن میں سے ایک سیلمانی اور ایک مکرانی کہلواتے ہیں۔ بلوچستان میں تین بڑی قومیں، بلوچ، پشتون اور براہوی آباد ہیں۔ بلوچی زبان بولنے والے بڑے قبائل میں رند، لاشار، مری، جاموٹ، احمد زئی، بگٹی، ڈومکی، مگسی، کھوسہ، پاک پاشانی، دشتی، عمرانی، نوشروانی، گچکی، بلیدی، سنجرانی اور خیدائی شامل ہیں جب کہ یہ قبائل مزید چھوٹے قبائل میں بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔ براہوی زبان بولنے والے بلوچوں میں ریئسانی، شاہوانی، سومولائی، بنگزائی، محمد شاہی، لہری، بزنجو، محمد حسنی، زارکزئی یا زہری، مینگل اور لینگو قبائل شامل ہیں۔
یہ قبائل براہوی بولتے ہیں مگر ان میں بیشتر بیک وقت بلوچی اور براہوی بھی بولتے ہیں۔ پشتو زبان بولنے والے بلوچوں میں کا کڑ، گلزائی، ترین، مموخیل، شیرانی، لیونی اور اچکزئی بڑے قبائل ہیں۔ بلوچ قوم بھی پختونوں کی طرح اپنے فیصلوں کے لیے ایک جرگے کا نظام رکھتی ہے۔ بلوچستان میں بھی عمومی فیصلے شریعت کے مطابق طے کیے جاتے رہے ہیں۔ اس نظام عدل کو 1970ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیی خان نے منسوخ کر دیا لیکن اس کے باوجود بھی قبائل میں نوے فیصد فیصلے جرگے کے مطابق ہوتے رہے۔
بلوچستان میں حکومت کی جانب سے علیحدگی پسندوں کو عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے پہاڑوں سے واپس آ کر معاشرے کا با مقصد فرد بننے کی پیش کش کی گئی۔ بلوچستان کی اپیکس کمیٹی نے کہا کہ جو نوجوان ریاست کے خلاف مسلح کارروائی ترک کرنے کا یقین دلائیں ان کو عام معافی دی جائے گی۔ بلوچ قوم کی اپنی ایک تاریخ و ثقافت ہے اور آج کل بلوچستان جن مسائل سے گزر رہا ہے اس سے ملک دشمن قوتیں بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں جہاں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی سازش کی کوشش کی جاتی رہی ہے تو دوسری جانب ایسے اقدامات بھی ہوتے رہے ہیں کہ عوام میں سیکیورٹی اداروں کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
لاپتہ افراد کے مقدمات سمیت پاکستان سے باہر بیٹھے بلوچ رہنماؤں پر سنگین الزامات اور بھارت کی دخل اندازی نے بلوچستان کے مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ اپیکس کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں امن کے لیے ایک فارمولہ ترتیب تو دیا گیا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن، محکمہ تعلیم کے توسط سے مکمل کی جائے گی، جب کہ اہم مسئلہ افغان مہاجرین کا ہے جن کی تیسری نسل بلوچستان میں پروان چڑھ رہی ہے۔ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کا اثر و رسوخ اور پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات بھی اہم سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔
اپیکس کمیٹی کی جانب سے مدارس کی رجسٹریشن کے لیے محکمہ تعلیم کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز دی گئی ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی فراموش نہیں کر سکتا کہ بلوچستان میں کام کرنے والے اساتذہ، طلبا کو مختلف حملوں میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اپنی ایک رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ بلوچستان میں انارکی کا شکار علاقوں کی ابتر صورتحال کے سبب اساتذہ اور پروفیسرز یا تو صوبے کے نسبتاََ محفوظ مقامات پر اپنا تبادلہ کروا چکے ہیں یا پھر انھوں نے صوبہ ہی چھوڑ دیا ہے۔ دیکھا جائے تو 1947ء سے آج تک بلوچستان میں آپریشن کیا جا رہا ہے.
ریاست قلات کی شمولیت کے بعد سے کیے جانے والوں معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث حالات مسلسل ابتری کی جانب رواں ہیں۔ 15 جولائی1960ء میں سردار نوروز خان، ان کے بیٹوں، بھیتجوں اور ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ ایف سی پاک فوج کا معتبر ادارہ ہے اور پاک فوج کے ساتھ سیکیورٹی ایشوز پر مسلسل رابطے میں ہے لیکن ماضی میں سیاسی بنیادوں پر بلوچستان کی مسئلے کو حل کرنے کی ہر کوشش کسی نہ کسی وجہ سے ناکام ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ڈی جی ایف سی، وزیر اعلیٰ سے زیادہ طاقتور مانے جاتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو برملا کہتے ہیں کہ بلوچستان میں آج کے جمہوری دور میں بھی احکامات صرف فوج کے مانے جاتے ہیں۔ میر حاصل بزنجو کے مطابق ''اسٹبلشمنٹ نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ اگر صوبوں کو آئینی حقوق اورخود مختاری دی گئی تو پاکستانی وفاق باقی نہیں رہے گا۔''
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن بلوچستان کے وسائل اور دولت کے بارے میں کماحقہ آگاہ ہیں لیکن بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں کی انتہائی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جب بھارت پاکستان میں کھلے عام دخل اندازی کر کے شرپسندوں کے ہاتھوں پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کی جانب سے کشمیر ی تنظیموں کو بھارت کی جانب راغب کرنے کے لیے فنڈز دینے کا اعتراف سامنے آ چکا ہے۔ پاکستان کے بے امن علاقوں میں را کی شر انگیز مسلح مداخلت اب کوئی راز نہیں۔ سندھ سے لے کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے افغانستان تک بھارت کی شر انگیز سازشیں پردہ راز نہیں رہی۔ اس تمام صورتحال میں بلوچوں کی ثقافت و روایات اور خاص طور جرگوں کے فیصلوں کی اہمیت کے پیش نظر بلوچستان کے بعض شورش زدہ علاقوں میں امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں ہی پاک، چائنا اقتصادی راہدری منصوبے کو کامیاب بنا سکتی ہیں۔
بلوچ قوم اور پشتون قوم بلوچستان میں مستقل قیام کے لیے اپنی ثقافت اور روایات کے پیش نظر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مسخ شدہ لاشیں، اغوا برائے تاوان، پنجابیوں اور دیگر قومیتوں و مسالک کے افراد کے خلاف نفرتیں، بلوچستان کے وسائل پر ان کے باسیوں کا حق، فوری اور سستا انصاف مہیا کرنے سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے ہمیں ہزاروں سال پر محیط ان قوموں کی راویات و ثقافت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ عسکری قیادت بخوبی جانتی ہے کہ ہر جنگ کے بعد مسئلے کا حل مذاکرات سے ہی نکلتا ہے لہذا وہ نوجوان جو ریاست کے خلاف مسلح کارروائی ترک کرنا چاہتے ہیں انھیں عام معافی کے اعلان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انھیں قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنی قوم کی خدمت کے لیے از سر نو نئے بلوچستان کی بنیاد پاکستان کی اندر رہتے ہوئے ہی رکھنی ہو گی۔ پاکستان کے حصار میں ہی بلوچستان کی بقا اور ان کی عوام کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔