نوے کی دہائی کی کچھ یادیں
نوے کی دہائی سے مجھے کچھ اور نہیں صرف چار چیزیں چاہیں۔ بجلی، امن، کھیل اور بسنت۔
مس جلدی جلدی چھٹی دے دیں ۔۔۔ باقی کا ہوم ورک گھر جا کر کرلیں گے ''عینک والا جن'' آنے والا ہے۔ یہ وہ خواہش تھی جو ہر جمعرات کو اکیڈمی میں پڑھنے والے بچوں کے دل میں ہوتی تھی۔ بچے تو بچے، ٹیوشن کی مس بھی عینک والا جن کبھی مس نہیں کرتی تھی۔
1990 کی دہائی وہ شاندار دہائی تھی کہ جس کا بھی بچپن اس دہائی میں گزرا وہ پچپن تک نہیں بھولے گا۔ یہ وہ دور تھا، جب وسائل تو کم تھے لیکن مزہ آج سے کہیں زیادہ تھا۔ امیر ہو یا غریب ہر بچے کے شوق سانجھے تھے۔ صبح صبح پی ٹی وی پر مستنصڑ حسین تاڑر کے مارننگ شو میں پانچ منٹ کے کارٹونز کی وہ اہمیت تھی جو آج کل 24 گھنٹے کے کارٹون نیٹ ورک کی بھی نہیں۔ اسکول کا بستہ پہن کر امی کے ہاتھ سے ناشتا کارٹون اسکرین کے سامنے ہوتا تھا۔ جیسے ہی کارٹون ختم ہوتے، اسکول کا سفر شروع ہوجاتا وہ بھی پاپیادہ ۔۔۔
1994 کی بات ہے۔ جب سینہ فخر سے چوڑا تھا۔ پاکستان کے پاس 4 ورلڈ کپ تھے۔ کرکٹ، ہاکی، اسنوکر اور اسکواش۔ لیکن آج ہاکی اور کرکٹ کا حال دیکھ کر زمانہ حال سے کود کر واپس ماضی میں جانے کو دل کرتا ہے۔ آج ہمارے پاس چوائس تو بہت ہیں لیکن وقت نہیں۔ ٹی وی اسکرین پر سو سے زیادہ چینل موجود ہیں، ٹی وی کو اپنے اشاروں پر نچانے کے لئے ریموٹ بھی ہے لیکن ''انفارمیشن پلوشن'' اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ سمجھ نہیں آتا کیا دیکھیں اور کیا چھوڑیں۔ لیکن نوے کی دہائی میں صرف ایک پی ٹی وی اور ایس ٹی این تھا اور یہاں چلنے والا ہر پروگرام، ہر ڈرامہ ہر کارٹون، ہر کسی کی زبان پر عام تھا۔ ڈرامہ شہباز، انگار وادی، الفا براوو چارلی، ہوائیں تو ایک طرف ۔۔۔کارٹون میں ننجا ٹرٹلز، تھنڈر کیٹس، سلور ہاکس اور چینل ایس ٹی این پر لگنے والی آدھے گھنٹے کی ریسلنگ، فلم مینیمل، آٹومین اور ہائی وے مین ہر کوئی دیکھتا تھا۔
نوے کی دہائی میں نہ تو موبائل فون عام تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ۔ لیکن سماجی رابطے آج سے زیادہ مضبوط تھے۔ ذرا غور کریں۔ آج ایک ہی گھر میں ایک ہی کمرے میں بیٹھے والدین اور بچے آپس میں گفتگو کرنے کے بجائے موبائل پر سات سمندر پار سوشل میڈیا پر حاضر ہوتے ہیں اور ٹینکنالوجی کی وجہ سے کمیونیکیشن جہاں تیز اور آسان ہوا ہے وہیں روایتی کمیونیکیشن کا گیپ بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ اب رات کے وقت لاہور کے تھروں اور پھٹوں پر چوپال کم ہی لگتی ہے۔ جہاں محلے میں آنے والے ہر نئے شخص کا پتہ چلتا تھا وہاں اب پڑوسی بھی انجان لگتا ہے۔ ڈیجیٹل دور کا انسان بھی اب ڈیجیٹل ہی ہوتا جا رہا ہے۔
بُرا ہو اُس کیمیکل والی ڈور کا جس نے بسنت جیسے رنگین تہوار کی ڈور ہی کاٹ ڈالی۔ اب چھتوں پر ''بوکاٹا بوکاٹا'' کی آوازیں گونجتی ہیں اور نہ ہی پیچے لڑتے ہیں۔ اڑتی پتنگوں پر کمندیں، جھاڑیاں لگے بانس سے کٹی پتنگ پکڑنے کا جو مزہ تھا وہ اب شاید ہی کبھی واپس آئے۔
نوے کی دہائی میں جدید وسائل تو نہ تھے لیکن سکون کی دولت عام تھی۔ خود کش دھماکوں کا کبھی نام تک نہیں سنا تھا۔ راوی چین لکھ رہا تھا۔ افغانستان پاکستان کا جڑواں بھائی تھا۔ سڑکوں پر سیکیورٹی کے نام پر ناکے نہیں تھے، جگہ جگہ تلاشیاں نہیں دینا پڑتی تھیں، سینماوں میں رونقیں تھیں، دودھ خالص اور بھییس کا ملتا تھا وہ بھی دس روپے کلو، روٹی ایک روپے میں ملتی تھی اور گوشت ہر کسی کی پہنچ میں تھا۔
لیکن اب جانے کہاں گئے وہ دن۔ لوگ رہتے دور دور تھے لیکن دل بہت قریب تھے۔ پی ٹی سی ایل فون محلے میں اکا دکا لوگوں کے گھر لگا ہوتا تھا اور پورا محلہ اسی گھر میں ضروری فون سننے جاتا تھا۔ کمپیوٹر، کیبل اور ڈی وی ڈی کا وجود نہ تھا لیکن وی سی آر میں ویڈیو کیسٹ ڈال کر فلم پوری فیملی دیکھتی تھی۔ وی سی آر کا ہیڈ صاف کرنا عام سی بات تھی۔
بڑی عیاشیوں میں ایک عیاشی پولکا کی آئس کریم تھی۔ ایک روپے کے ٹوکن والے ویڈیو گیم تھے۔ سنوبروس عرف چیچی میچی، اسٹریٹ فائیٹر، ڈبل ڈریگن اور آرٹ آف فائیٹنگ جیسی گیمز کی آخری سٹیجز پر پہنچنے پر دیکھنے والوں کا مجمع لگ جاتا۔ اسٹریٹ فائیٹر میں جب کوئی پلیئر ون پلیئر ٹو کو چیلنج کرتا تو ہار جیت کی اس دوڑ میں ٹوکن پر ٹوکن چلنے سے دکان مالک کی عید ہوجاتی۔ آج کل ایسے گیمز سے ہزار گنا بہتر گیمز کمپیوٹر اور اینڈرائیڈ فونز میں آچکی ہیں لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ آج کل کے اینڈرائیڈ بچے جتنے فرینڈلی ہیں اتنے ہی جسمانی ورزش سے دور۔ روایتی کھیل چھپن چھپائی، کبڈی کبڈی، باندر قلا، گلی ڈنڈا، سٹاپو، باڈی باڈی، پٹھو گول گرم وغیرہ تو اب ناپید ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ آج کل کی نسل موبائل فون اور ٹیبلٹ سے جتنی پاس اتنی ہی آوٹ ڈور کھیلوں سے دور ہے۔
ڈینٹونک کا اشتہار آج بھی دیکھو تو بچپن آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ پی ٹی وی پر چلنے والے نو بجے کے خبرنامے کو دیکھ کر ملک میں امن اور ترقی کا سچا یا جھوٹا احساس ضرور ہوتا تھا۔ کمرشل نیوز چینل اپنا اپنا منجن بیچنے کے چکر میں لوگوں کا چین نہیں خریدتے تھے۔
سڑکوں پر لاریاں بھی تھیں اور سواریاں بھی لیکن زیادہ تر سائیکلیں چلتی تھیں۔ اے سی کسی کسی کے پاس تھا لیکن گرمی نہیں لگتی تھی۔اس دور میں تو لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہیں تھا۔ کبھی گرمیوں میں رات آٹھ بجے سے نو بجے تک بجلی جاتی تو ایک گھنٹہ گزارنا مشکل ہوجاتا۔ پوری فیملی چھت پر جا کر گپ شپ لگاتی اور بجلی آنے کا انتظار کرتی اور بجلی آنے پر پورے محلے میں شور ایسے مچتا جیسے پاکستان نے میچ جیت لیا ہو ۔۔ لیکن اب تو عوام لوڈ شیڈنگ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب بجلی ہی ماضی کی بات لگتی ہے۔
لیکن اب تو وہ دور بھی گزر گیا اور وقت بھی۔ اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف یادیں۔ اب تو اتنی تیزی سے ترقی ہوچکی ہے کہ نوے کی دہائی ایک صدی پرانی لگتی ہے۔ آج کے پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کلچر میں تبدیلی پر گلے شکوے کے بجائے اسے گلے لگانا چاہییے۔ مجھے نوے کی دہائی کا نہ تو پی ٹی وی چاہیے اور نہ وہ پرانے کارٹون اور نہ ہی وی سی آر، نوے کی دہائی سے مجھے صرف چار چیزیں چاہیں۔ بجلی، امن، کھیل اور بسنت۔
حکمران روشن مستقبل کے وعدے بے شک نہ کریں۔ کم از کم ماضی کی یہ چارچیزیں ہی لوٹا دیں تو قوم آپ کی شکر گزار ہوگی اور نوجوان نسل بھی نوے کی دہائی کامزہ اپنے مستقبل میں چکھ ہی لے گی۔
[poll id="533"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
1990 کی دہائی وہ شاندار دہائی تھی کہ جس کا بھی بچپن اس دہائی میں گزرا وہ پچپن تک نہیں بھولے گا۔ یہ وہ دور تھا، جب وسائل تو کم تھے لیکن مزہ آج سے کہیں زیادہ تھا۔ امیر ہو یا غریب ہر بچے کے شوق سانجھے تھے۔ صبح صبح پی ٹی وی پر مستنصڑ حسین تاڑر کے مارننگ شو میں پانچ منٹ کے کارٹونز کی وہ اہمیت تھی جو آج کل 24 گھنٹے کے کارٹون نیٹ ورک کی بھی نہیں۔ اسکول کا بستہ پہن کر امی کے ہاتھ سے ناشتا کارٹون اسکرین کے سامنے ہوتا تھا۔ جیسے ہی کارٹون ختم ہوتے، اسکول کا سفر شروع ہوجاتا وہ بھی پاپیادہ ۔۔۔
1994 کی بات ہے۔ جب سینہ فخر سے چوڑا تھا۔ پاکستان کے پاس 4 ورلڈ کپ تھے۔ کرکٹ، ہاکی، اسنوکر اور اسکواش۔ لیکن آج ہاکی اور کرکٹ کا حال دیکھ کر زمانہ حال سے کود کر واپس ماضی میں جانے کو دل کرتا ہے۔ آج ہمارے پاس چوائس تو بہت ہیں لیکن وقت نہیں۔ ٹی وی اسکرین پر سو سے زیادہ چینل موجود ہیں، ٹی وی کو اپنے اشاروں پر نچانے کے لئے ریموٹ بھی ہے لیکن ''انفارمیشن پلوشن'' اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ سمجھ نہیں آتا کیا دیکھیں اور کیا چھوڑیں۔ لیکن نوے کی دہائی میں صرف ایک پی ٹی وی اور ایس ٹی این تھا اور یہاں چلنے والا ہر پروگرام، ہر ڈرامہ ہر کارٹون، ہر کسی کی زبان پر عام تھا۔ ڈرامہ شہباز، انگار وادی، الفا براوو چارلی، ہوائیں تو ایک طرف ۔۔۔کارٹون میں ننجا ٹرٹلز، تھنڈر کیٹس، سلور ہاکس اور چینل ایس ٹی این پر لگنے والی آدھے گھنٹے کی ریسلنگ، فلم مینیمل، آٹومین اور ہائی وے مین ہر کوئی دیکھتا تھا۔
نوے کی دہائی میں نہ تو موبائل فون عام تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ۔ لیکن سماجی رابطے آج سے زیادہ مضبوط تھے۔ ذرا غور کریں۔ آج ایک ہی گھر میں ایک ہی کمرے میں بیٹھے والدین اور بچے آپس میں گفتگو کرنے کے بجائے موبائل پر سات سمندر پار سوشل میڈیا پر حاضر ہوتے ہیں اور ٹینکنالوجی کی وجہ سے کمیونیکیشن جہاں تیز اور آسان ہوا ہے وہیں روایتی کمیونیکیشن کا گیپ بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ اب رات کے وقت لاہور کے تھروں اور پھٹوں پر چوپال کم ہی لگتی ہے۔ جہاں محلے میں آنے والے ہر نئے شخص کا پتہ چلتا تھا وہاں اب پڑوسی بھی انجان لگتا ہے۔ ڈیجیٹل دور کا انسان بھی اب ڈیجیٹل ہی ہوتا جا رہا ہے۔
بُرا ہو اُس کیمیکل والی ڈور کا جس نے بسنت جیسے رنگین تہوار کی ڈور ہی کاٹ ڈالی۔ اب چھتوں پر ''بوکاٹا بوکاٹا'' کی آوازیں گونجتی ہیں اور نہ ہی پیچے لڑتے ہیں۔ اڑتی پتنگوں پر کمندیں، جھاڑیاں لگے بانس سے کٹی پتنگ پکڑنے کا جو مزہ تھا وہ اب شاید ہی کبھی واپس آئے۔
نوے کی دہائی میں جدید وسائل تو نہ تھے لیکن سکون کی دولت عام تھی۔ خود کش دھماکوں کا کبھی نام تک نہیں سنا تھا۔ راوی چین لکھ رہا تھا۔ افغانستان پاکستان کا جڑواں بھائی تھا۔ سڑکوں پر سیکیورٹی کے نام پر ناکے نہیں تھے، جگہ جگہ تلاشیاں نہیں دینا پڑتی تھیں، سینماوں میں رونقیں تھیں، دودھ خالص اور بھییس کا ملتا تھا وہ بھی دس روپے کلو، روٹی ایک روپے میں ملتی تھی اور گوشت ہر کسی کی پہنچ میں تھا۔
لیکن اب جانے کہاں گئے وہ دن۔ لوگ رہتے دور دور تھے لیکن دل بہت قریب تھے۔ پی ٹی سی ایل فون محلے میں اکا دکا لوگوں کے گھر لگا ہوتا تھا اور پورا محلہ اسی گھر میں ضروری فون سننے جاتا تھا۔ کمپیوٹر، کیبل اور ڈی وی ڈی کا وجود نہ تھا لیکن وی سی آر میں ویڈیو کیسٹ ڈال کر فلم پوری فیملی دیکھتی تھی۔ وی سی آر کا ہیڈ صاف کرنا عام سی بات تھی۔
بڑی عیاشیوں میں ایک عیاشی پولکا کی آئس کریم تھی۔ ایک روپے کے ٹوکن والے ویڈیو گیم تھے۔ سنوبروس عرف چیچی میچی، اسٹریٹ فائیٹر، ڈبل ڈریگن اور آرٹ آف فائیٹنگ جیسی گیمز کی آخری سٹیجز پر پہنچنے پر دیکھنے والوں کا مجمع لگ جاتا۔ اسٹریٹ فائیٹر میں جب کوئی پلیئر ون پلیئر ٹو کو چیلنج کرتا تو ہار جیت کی اس دوڑ میں ٹوکن پر ٹوکن چلنے سے دکان مالک کی عید ہوجاتی۔ آج کل ایسے گیمز سے ہزار گنا بہتر گیمز کمپیوٹر اور اینڈرائیڈ فونز میں آچکی ہیں لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ آج کل کے اینڈرائیڈ بچے جتنے فرینڈلی ہیں اتنے ہی جسمانی ورزش سے دور۔ روایتی کھیل چھپن چھپائی، کبڈی کبڈی، باندر قلا، گلی ڈنڈا، سٹاپو، باڈی باڈی، پٹھو گول گرم وغیرہ تو اب ناپید ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ آج کل کی نسل موبائل فون اور ٹیبلٹ سے جتنی پاس اتنی ہی آوٹ ڈور کھیلوں سے دور ہے۔
ڈینٹونک کا اشتہار آج بھی دیکھو تو بچپن آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ پی ٹی وی پر چلنے والے نو بجے کے خبرنامے کو دیکھ کر ملک میں امن اور ترقی کا سچا یا جھوٹا احساس ضرور ہوتا تھا۔ کمرشل نیوز چینل اپنا اپنا منجن بیچنے کے چکر میں لوگوں کا چین نہیں خریدتے تھے۔
سڑکوں پر لاریاں بھی تھیں اور سواریاں بھی لیکن زیادہ تر سائیکلیں چلتی تھیں۔ اے سی کسی کسی کے پاس تھا لیکن گرمی نہیں لگتی تھی۔اس دور میں تو لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہیں تھا۔ کبھی گرمیوں میں رات آٹھ بجے سے نو بجے تک بجلی جاتی تو ایک گھنٹہ گزارنا مشکل ہوجاتا۔ پوری فیملی چھت پر جا کر گپ شپ لگاتی اور بجلی آنے کا انتظار کرتی اور بجلی آنے پر پورے محلے میں شور ایسے مچتا جیسے پاکستان نے میچ جیت لیا ہو ۔۔ لیکن اب تو عوام لوڈ شیڈنگ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب بجلی ہی ماضی کی بات لگتی ہے۔
لیکن اب تو وہ دور بھی گزر گیا اور وقت بھی۔ اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف یادیں۔ اب تو اتنی تیزی سے ترقی ہوچکی ہے کہ نوے کی دہائی ایک صدی پرانی لگتی ہے۔ آج کے پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کلچر میں تبدیلی پر گلے شکوے کے بجائے اسے گلے لگانا چاہییے۔ مجھے نوے کی دہائی کا نہ تو پی ٹی وی چاہیے اور نہ وہ پرانے کارٹون اور نہ ہی وی سی آر، نوے کی دہائی سے مجھے صرف چار چیزیں چاہیں۔ بجلی، امن، کھیل اور بسنت۔
حکمران روشن مستقبل کے وعدے بے شک نہ کریں۔ کم از کم ماضی کی یہ چارچیزیں ہی لوٹا دیں تو قوم آپ کی شکر گزار ہوگی اور نوجوان نسل بھی نوے کی دہائی کامزہ اپنے مستقبل میں چکھ ہی لے گی۔
[poll id="533"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس