کرپشن‘ منظم جرائم اور دہشتگردی

آخر اتنی بڑی تعداد میں ملزم اعلیٰ عدالت سے کس طرح ضمانت قبل از گرفتاری کی سہولت حاصل کر لیتے ہیں

گزشتہ ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں پاکستان میں کرپشن میں اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ اب کرپشن ہماری روز مرہ کی زندگی کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔ نظام کسی بھی قسم کا ہو کرپشن منظم جرائم کو ہوا دیتی ہے اور یوں اکٹھی ہونے والی دولت دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اب اعلی عدلیہ کو یہ سوچنا ہو گا کہ منظم جرائم اور دہشتگردی کے اس گٹھ جوڑ کو کس طرح سے روکا جائے۔

آخر اتنی بڑی تعداد میں ملزم اعلیٰ عدالت سے کس طرح ضمانت قبل از گرفتاری کی سہولت حاصل کر لیتے ہیں؟ ادھر نیب نے کرپشن کے سکینڈلوں کی جو فہرست حال ہی میں جاری کی ہے اور جسے سپریم کورٹ کو پیش کر دیا گیا ہے اگر اس طرح ان لوگوں پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے جن کو چھوا بھی نہ جا سکتا ہو تو یہ بہت بڑی بات ہو گی۔ جمہوریت میں یہ ضروری ہے کہ تمام لین دین کھلا اور صاف شفاف ہو جس کو کوئی بھی دیکھ سکے لیکن ہمارے یہاں ایسا ناممکن ہے تا آنکہ مقامی سرکاری نمایندوں کی اجازت حاصل نہ کی جا سکے۔

ٹیکس نادہندگی سے منی لانڈرنگ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے نیز اس طرح مالیاتی مارکیٹ پر اجارہ داریاں قائم کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے 2011ء میں سندھ میں رینجرز کو قانونی اختیار فراہم کر دیا جس کے نتیجے میں بے شمار ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کر لیا گیا لیکن جب سپریم کورٹ کی توجہ میں کمی واقع ہوئی تو کراچی کی صورت حال خراب سے خراب تر ہو گئی۔

این آر او کو ایک کالا قانون قرار دیا گیا لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والے ہمارے حکمران بن گئے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے تازہ بیان پر غور کیجیے جس میں انھوں نے نیب اور ایف آئی اے کی اس بات پر مذمت کی ہے کہ یہ دونوں ادارے ان کی انتظامیہ میں کرپشن کو ہدف بنا رہے ہیں۔ آخر جب بدعنوانی کسی حکومت کا معمول ہی بن جائے تو پھر کسی کو اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

اور اب کاٹھ کی یہ پتلی جس کی ڈوری کسی اور ہاتھ میں ہے رینجرز کو کراچی سے ہٹا کر شہر کے امن و امان کو خطرے میں ڈالنے کی دھمکی دے رہی ہے تا کہ رینجرز کرپٹ لوگوں کو ہدف بنانا بند کر دیں۔ آخر کوئی اپنے ضمیر اور شہریوں کی طرف اس کی جو ذمے داریاں ہیں ان سے کس طرح صرف نظر کر سکتا ہے کیونکہ آئین کی بالادستی کے لیے یہ بنیادی اصول ہے۔

عسکریت پسند گروہ سیاست کی آڑ میں اپنے پُر تعیش کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یوں منظم جرائم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ دہشت گرد گروپوں کو کبھی بھی تباہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ان شعبوں پر کاری ضرب نہ لگائی جائے جو ان کو فنڈز مہیا کر تے ہیں اور ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ بے تحاشہ منافع اور لالچ نے دہشت گرد گروپوں کی قوت متحرکہ کی جگہ لے لی ہے۔

کرپشن کے ذریعے بہت بھاری مقدار میں فنڈز فراہم ہو رہے ہیں جن کے ذریعے دہشتگردوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ دولت سے دہشت گردی کے لیے ضروری لاجسٹکس حاصل ہو جاتے ہیں مثال کے طور پر دھماکا خیز مواد' خفیہ ٹھکانے' سفر اور نرم ٹارگٹ کی تلاش وغیرہ۔ دہشت گردوں کے سب سے اندرونی دائرے کے گرد ایک نسبتاً بڑا دائرہ ہوتا ہے جس میں ان کے حامی' منصوبہ بندی کرنے والے' کمانڈرز اور نظریاتی شخصیات وغیرہ ہوتی ہیں۔ اس طرح سے دہشت گردی کا انفراسٹرکچر یا ڈھانچہ مکمل ہوتا ہے۔


تیسرا دائرہ مذہب تعلیم اور فلاحی تنظیموں کا ہے اس میں کاروباری ادارے' مالیاتی انسٹی ٹیوٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شہرت خراب کر کے ان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے حکمران اب کرپشن کی حمایت کرتے نظر آنے لگے ہیں۔

تاہم یہاں پر ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ تمام دہشت گرد وارداتیں منظم جرائم کی ذیل میں نہیں آتیں اور نہ ہی تمام مجرمانہ کارروائیوں کو دہشت گردی قرار دیا جا سکتا ہے۔ منظم جرائم میں دھماکا خیز مواد کی فراہمی، نقل و حرکت کے وسائل مہیا کرنا اور جاسوسی کرنا شامل ہیں۔ مہذب دنیا سوچتی ہے ایک مکمل طور پر لاقانونیت والے ماحول میں بھی قانون کی حکمرانی قائم کی جا سکتی ہے۔

کسی ملک میں آدم خوری کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ہے کیونکہ انسانوں کو کھا لینے کا تصور تک بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ان چیزوں کے بارے میں بھی قانون سازی کرے جن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیا حکومت دہشت گرد یا منشیات فروخت کرنے والے کی فون پر کی جانے والی گفتگو سن سکتی ہے حالانکہ خفیہ ایجنسیاں سرکاری اجازت کے بغیر بھی نجی گفتگو سنتی پائی جاتی ہیں۔

کیا کسی عبادت گاہ پر جہاں دہشت گردوں کے چھپنے کا شبہ ہو یا اسلحہ اور گولہ بارود ذخیرہ کیا گیا ہو اور اگر وہاں سے ایسی کوئی چیز برآمد ہو جاتی ہے تو کیا پھر بھی ان عبادت گاہوں کو تقدس مآب کیا جا سکتا ہے۔

اگر ایک اسپتال یا پاگل خانے کو چھپنے کی جگہ بنا لیا جائے یا بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جائے تو کیا پھر بھی آپ ان پر گولی چلا دیں گے؟ کیا ایک عورت جو حاملہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مگر اس نے پیٹ سے بارود باندھ رکھا ہو تو کیا آپ اس کو تلاشی دینے پر مجبور کریں گے؟ کیا آپ اس حکومت کو برخاست کر سکتے ہیں جو کھلم کھلا کرپٹ لوگوں کو تحفظ فراہم کرے؟ معصوم لوگوں کو ہلاکت سے بچانے اور اپنے شہریوں کا ذہنی امن بحال رکھنے کے لیے آخر ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟

ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں درج ذیل صلاحیتیں ضرور ہونی چاہئیں -1 ان لوگوں کا کھوج لگا سکے جو دہشت گرد سرگرمیوں میں منظم طور پر ملوث ہوں -2 ناجائز ذرایع سے آنے والی رقم کا سراغ لگا سکیں -3 ملکی دفاع کر سکیں اور انٹیلی جنس کا برملا استعمال کر سکیں -4 عوامی ذرایع نقل و حمل کی نگرانی کر سکیں -5 ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر سکیں -6 جائز ذرایع سے اکٹھی کی جانے والی اس دولت کا سراغ لگا سکیں جسے ناجائز ذرایع کے لیے استعمال کرنا مقصود ہے -7 ملک کے قیمتی زرمبادلہ کے ذرایع کے ضیاع کا سراغ لگا سکیں۔

سپریم کورٹ میں ایک حالیہ سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیا ''ایسا لگتا ہے جیسے حکومت کو دہشت گردوں سے ہمدردی ہے آخر قومی ایکشن پلان (این اے پی) کو ابھی تک کیوں نافذ نہیں کیا جا رہا؟ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ این اے پی کے نفاذ کے لیے سماجی، اقتصادی اور بعض دیگر رکاوٹوں کو بھی عبور کرنا ہو گا۔
Load Next Story