حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پُل،ریلوے، سڑکیں، تعلیمی ادارے، بینک، چیک بکس، ریڈیو اسٹیشن، سبھی کچھ ہمیں انھی انگریزوں نے دیا،
پُل،ریلوے، سڑکیں، تعلیمی ادارے، بینک، چیک بکس، ریڈیو اسٹیشن، سبھی کچھ ہمیں انھی انگریزوں نے دیا، جنھیں گالیاں دیتے ہمارے رہنما، ملا حضرات اور فرسودہ ذہنیت رکھنے والے تھکتے نہیں ہیں، اور تو اور وہ لاؤڈ اسپیکر بھی انھی غیر مسلموں نے آپ کو دیا۔ حد تو یہ کہ پاکستان بھی انگریزوں کی مرضی و منشا کے بغیر ملنا ممکن نہ تھا۔ لیکن ہم نے کون سی چیز سنبھال کر رکھی؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سوائے بدترین اور بے ایمان سیاست دانوں کے کسی بھی صنعت میں ترقی نہیں ہوئی۔ اب تو یہ منافع بخش صنعت انڈے بچے دینے لگی ہے۔
اگر یہ پوچھا جائے کہ پاکستان بننے کے بعد کتنے دریاؤں پہ بند بنائے گئے؟ کتنے نئے شہر آباد کیے؟ اگر ایوب خان کراچی میں پیدا ہوتے تو ایک نیا شہر تعمیر نہ ہوتا، اپنی اپنی جنم بھومی اور مٹی سے سب کو پیار ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ لیکن اس پیار کی بنیاد کسی نفرت پہ نہیں ہونی چاہیے۔ پھر بھی اگر ہری پور ہزارہ کا ایک گاؤں ''ریحانہ'' اتنا خوش قسمت اور طاقت ور تو ضرور تھا کہ دارالحکومت کو کراچی سے اٹھا لیا گیا۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ حکومت کا خزانہ بھرنے کا کام اب بھی یہی بدنصیب شہر کررہا ہے۔ جس پر موت کے سائے دن بہ دن لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔ طاقت کے نشے میں دھت حکمران محض خانہ پری کے لیے مہمان بن کے شاہانہ جلوہ آرائی اور فوٹو سیشن کے بعد واپس اپنی پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔
جہاں دربان بندوق بکف ان کے خاندان کی حفاظت کے لیے کھڑے رہتے ہیں، کہ کوئی بم، کوئی ڈرون، کوئی خودکش بمبار بادشاہ وقت کے محلات کے آس پاس تو درکنار، میلوں دور تک بھی نظر نہیں آسکتا۔ ہزاروں ہلاکتوں اور بربادیوں کے ماتم میں زبانی کلامی پرسہ دینے جب شہنشاہ معظم طیارے سے اتر کر ٹھنڈی گاڑی میں بیٹھ کر، ٹھنڈے کمرے میں پہنچ کر جب ایک پیر تسمہ پا سے پوچھتے ہیں کہ ''سائیں گرمی سے اموات روکنے کے لیے کیا کیا؟'' تو وہ جنھیں فریج میں رکھنے کا مشورہ ایک لیڈر دے چکے ہیں، وہ مسکرا کر فرماتے ہیں ''بھرپور اقدامات کیے ہیں۔
صوبے کے حالات بھی قابو میں ہیں۔ سر ! قصور '' کے الیکٹرک'' کا ہے۔'' کاش عالم پناہ یہ بھی پوچھ لیتے کہ کیا ''کے الیکٹرک'' کسی دوسرے سیارے کی ملکیت ہے۔ صرف رسمی طور پر فریج میں رکھنے والی شخصیت سے ان کا مزاج گرامی پوچھنے کے لیے موت کے شہر میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔
کیا ہمارے زبردستی کے لیڈر زخموں پہ نمک پاشی کے لیے آئے تھے؟ پانی اور بجلی سے محروم اس شہر کو ایک سازش کے تحت برباد کرنے میں اب کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی، کوئی بائیس سال سے غریبوں کی ہمدردی میں باہر جاکر بیٹھ گیا اور کسی نے گینگ وار کے سرپرست کی حیثیت سے نوادرات چرا کر بیرون ملک منتقل کیے، کسی نے لیاری گینگ وار کے لیے اپنے غلام بھرتی کیے اور انھیں ''اپنے بچے'' قرار دیا۔ جب آپس میں پھوٹ پڑی تو بیگم کے ساتھ چپکے سے کھسک لیے، کہ کراچی اب موت کے سوداگروں کا شہر بن کے رہ گیا ہے۔
مجھے آج انگریز اس لیے یاد آرہے ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے پُل خصوصاً وہ پُل جہاں سے ٹرینیں گزرتی ہیں۔ برصغیر میں انگریزوں کے بنائے ہوئے پُلوں کی تعداد بہت ہے۔ 2005 میں احمد آباد میں ہم سابرمتی پُل پر سے گزر رہے تھے جس کی چوڑائی، مضبوطی اور صفائی قابل دید تھی۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ اس پُل کو بنے ہوئے سو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔
اس پُل کو تعمیر کرنے والی کمپنی کی طرف سے بھارت سرکار کو ایک خط ملا جس میں کمپنی نے بتایا کہ اس کی ذمے داری 100 سال کی تھی جو کہ پوری ہوچکی ہے۔ لہٰذا اب آیندہ کے لیے وہ کسی بھی ذمے داری کی پابند نہیں ہے۔ تب گجرات سرکار نے پل کا جائزہ لینے کے لیے انجینئروں کی ٹیم کو بھیجا، جنھوں نے مکمل معائنے کے بعد سابرمتی کو بے حد مضبوط اور محفوظ قرار دیا۔ اور ہم نے کیا کیا؟ پھر وہی بات کہ:
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
کہ یہاں تو حق بات کہنا بھی ایک جرم ہے کہ قصیدہ نگاروں کی کھیپ کی کھیپ زباں پہ تالے لگوانے کے لیے موجود ہے۔ پھر بھی گستاخی معاف۔ اتنا تو کہنے دیجیے کہ سارا زور میٹرو ٹرین پر لگا کر کیا آپ صحیح کر رہے ہیں؟ ہم سب کی خواہش ہے کہ میٹرو ٹرین جلد ہی بڑے شہروں میں چلے کہ ذرایع آمد و رفت کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ لیکن پہلے ترجیحات پہ غور کیجیے۔ انگریزوں کے زمانے کے بنائے ہوئے پُل، سڑکیں اور ریلوے آج بھی بہتر حالت میں ہیں۔ لیکن جو بعد میں بنائے گئے ان کا حشر دیکھ لیجیے۔ بجائے ساری توانائی اور بجٹ میٹرو ٹرین کے منصوبے پہ لگانے کے ان خستہ حال پُلوں کی مرمت اور دیکھ بھال ضروری ہے جو اپنی طبعی عمر پوری کرچکے ہیں۔
وزیر آباد پُل جس طرح ٹوٹا اور یکے بعد دیگرے جس طرح چار بوگیاں دریا میں گریں کوئی بھی صاحب احساس انسان اس منظر کو ٹی وی پر بھی دوبارہ نہ دیکھ سکا۔ خدا جانے کس اناڑی ڈرائیور کے حوالے گاڑی کردی گئی تھی، جتنے منہ اتنی باتیں، ہر شخص اپنی گردن کا پھندا دوسرے کی گردن میں ڈالنے کے درپے ہے۔ لیکن اس چشم دید چرواہے کی گواہی بہت معتبر ہے۔ جس نے دیکھا کہ ٹرین انتہائی برق رفتاری سے آرہی تھی اور جس موڑ پہ پل سے پہلے رفتار ہلکی کرنی ہوتی ہے وہاں بھی اس نے سابقہ رفتار سے ٹرین کو کھلا چھوڑ دیا۔ یہ تو سامنے کی بات ہے کہ ٹرینوں کے سفر میں جب گاڑی کسی دریا پہ بنے ہوئے پُل یا انسانی آبادی کے درمیان بنے ہوئے پُل سے گزرتی ہے تو اس کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے۔
وزیر آباد پُل کے حادثے کی ذمے دار دراصل ریلوے ہے۔ ہر محکمے کی طرح یہاں بھی افسران کی آسائشیں عروج پر ہیں۔ انجینئروں کی ٹیم معائنہ کے لیے جاتی ضرور ہے، لیکن صرف دکھاوے کا دورہ کرنے اور ٹی اے، ڈی اے بنانے، سیر و تفریح کے لیے۔ وجہ یہ کہ ہمارے حکمران جو 1950 کے بعد اس ملک پر قابض ہیں۔ وہ کبھی ٹرین سے سفر کرتے نہیں، ان کے لیے شاہانہ طرز کے ہوائی جہاز اور بلٹ پروف گاڑیاں موجود ہیں۔
اس لیے ریلوے کا محکمہ بھی تباہ و برباد ہوگیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس حادثے سے قبل بھی ریلوے کے حادثات ہوئے ہیں، کبھی فش پلیٹ اکھڑی گئی، کبھی پٹریاں ٹیڑھی ہوگئیں، کسی بھی حادثے پر کسی وزیر نے ذمے داری قبول نہیں کی۔ البتہ یہ تاریخی بیان ضرور دیا کہ ''میں کوئی انجن ڈرائیور ہوں جو استعفیٰ دوں'' اگر حکمراں جماعت ریلوے سے سفر کرتی تو انسپکشن ٹیم کو بھی خوف ہوتا۔
پورا ملک اور تمام ادارے ٹوٹی ہوئی بیساکھیوں پہ چل رہے ہیں۔ کراچی کا جام صادق پُل ناقص میٹریل کی بنا پر کس طرح ٹوٹا؟ سب جانتے ہیں۔ اس وقت نواز حکومت کو بعض فیصلے بغیر کسی دباؤ کے کرنے چاہئیں۔ وقتی طور پر بعض نئے منصوبوں کو التوا میں ڈال کر سب سے پہلے ریلوے کے ان تمام پُلوں اور پٹریوں کی خستہ حالی دور کرنے پہ توجہ دینی ضروری ہے۔ ڈرائیوروں کی بھرتی ان کی پیشہ ورانہ اہلیت پہ ہونی چاہیے نہ کہ سیاسی سفارشی بنیادوں پر۔ رہ کیا گیا ہے تباہ ہونے سے ۔ پہلے پی آئی اے تباہ ہوئی، پھر اسٹیل مل کی بنیادوں میں دراڑیں پڑیں،اور پھر تابوت میں آخری کیل ریلوے کی تباہی۔ جس نے ایک ساتھ چار بوگیوں کے انسانوں کو نگل لیا۔ پاکستان بننے کے بعد ہر کام کے لیے وہ ٹینڈر منظور کیے جاتے ہیں، جو متعلقہ افسران کو کم ازکم 30 فیصد کمیشن دے سکیں۔ بقیہ 70 فیصد میں سے کچھ دوسرے اداروں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔
ایسے میں کوئی کمپنی یا ٹھیکیدار اپنی جیب سے تو سرمایہ نہیں لگائے گا۔ جو صاحب ضمیر ہوتے ہیں وہ ایسے سودوں میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اور جنھیں جیبیں بھرنی ہوتی ہیں وہ سیمنٹ 20 اور ریت 80 فیصد کے ریشو سے عمارتیں اور پُل سب کچھ بنا کر دام کھرے کر لیتے ہیں۔ پہلے ریل کی پٹریوں اور فش پلیٹ کی چیکنگ کے لیے ایک چھوٹی سی ٹرالی چلتی تھی جس میں ماہرین ہوتے تھے اور غلطیوں کی نشاندہی کرتے جاتے تھے۔ اب ایسے نظارے معدوم ہیں۔ نواز شریف صاحب! یہ کمیٹیاں بنانے کا وقت نہیں ہے بلکہ ایکشن لینے کا ہے۔ کیا ایکشن لینے اور ذمے داروں کو سزا دینے کے لیے کسی نئے حادثے کا انتظار ہے؟ تاکہ موجودہ حادثہ سرد خانے کی نذر ہوجائے؟ کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ :
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اگر یہ پوچھا جائے کہ پاکستان بننے کے بعد کتنے دریاؤں پہ بند بنائے گئے؟ کتنے نئے شہر آباد کیے؟ اگر ایوب خان کراچی میں پیدا ہوتے تو ایک نیا شہر تعمیر نہ ہوتا، اپنی اپنی جنم بھومی اور مٹی سے سب کو پیار ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ لیکن اس پیار کی بنیاد کسی نفرت پہ نہیں ہونی چاہیے۔ پھر بھی اگر ہری پور ہزارہ کا ایک گاؤں ''ریحانہ'' اتنا خوش قسمت اور طاقت ور تو ضرور تھا کہ دارالحکومت کو کراچی سے اٹھا لیا گیا۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ حکومت کا خزانہ بھرنے کا کام اب بھی یہی بدنصیب شہر کررہا ہے۔ جس پر موت کے سائے دن بہ دن لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔ طاقت کے نشے میں دھت حکمران محض خانہ پری کے لیے مہمان بن کے شاہانہ جلوہ آرائی اور فوٹو سیشن کے بعد واپس اپنی پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔
جہاں دربان بندوق بکف ان کے خاندان کی حفاظت کے لیے کھڑے رہتے ہیں، کہ کوئی بم، کوئی ڈرون، کوئی خودکش بمبار بادشاہ وقت کے محلات کے آس پاس تو درکنار، میلوں دور تک بھی نظر نہیں آسکتا۔ ہزاروں ہلاکتوں اور بربادیوں کے ماتم میں زبانی کلامی پرسہ دینے جب شہنشاہ معظم طیارے سے اتر کر ٹھنڈی گاڑی میں بیٹھ کر، ٹھنڈے کمرے میں پہنچ کر جب ایک پیر تسمہ پا سے پوچھتے ہیں کہ ''سائیں گرمی سے اموات روکنے کے لیے کیا کیا؟'' تو وہ جنھیں فریج میں رکھنے کا مشورہ ایک لیڈر دے چکے ہیں، وہ مسکرا کر فرماتے ہیں ''بھرپور اقدامات کیے ہیں۔
صوبے کے حالات بھی قابو میں ہیں۔ سر ! قصور '' کے الیکٹرک'' کا ہے۔'' کاش عالم پناہ یہ بھی پوچھ لیتے کہ کیا ''کے الیکٹرک'' کسی دوسرے سیارے کی ملکیت ہے۔ صرف رسمی طور پر فریج میں رکھنے والی شخصیت سے ان کا مزاج گرامی پوچھنے کے لیے موت کے شہر میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔
کیا ہمارے زبردستی کے لیڈر زخموں پہ نمک پاشی کے لیے آئے تھے؟ پانی اور بجلی سے محروم اس شہر کو ایک سازش کے تحت برباد کرنے میں اب کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی، کوئی بائیس سال سے غریبوں کی ہمدردی میں باہر جاکر بیٹھ گیا اور کسی نے گینگ وار کے سرپرست کی حیثیت سے نوادرات چرا کر بیرون ملک منتقل کیے، کسی نے لیاری گینگ وار کے لیے اپنے غلام بھرتی کیے اور انھیں ''اپنے بچے'' قرار دیا۔ جب آپس میں پھوٹ پڑی تو بیگم کے ساتھ چپکے سے کھسک لیے، کہ کراچی اب موت کے سوداگروں کا شہر بن کے رہ گیا ہے۔
مجھے آج انگریز اس لیے یاد آرہے ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے پُل خصوصاً وہ پُل جہاں سے ٹرینیں گزرتی ہیں۔ برصغیر میں انگریزوں کے بنائے ہوئے پُلوں کی تعداد بہت ہے۔ 2005 میں احمد آباد میں ہم سابرمتی پُل پر سے گزر رہے تھے جس کی چوڑائی، مضبوطی اور صفائی قابل دید تھی۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ اس پُل کو بنے ہوئے سو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔
اس پُل کو تعمیر کرنے والی کمپنی کی طرف سے بھارت سرکار کو ایک خط ملا جس میں کمپنی نے بتایا کہ اس کی ذمے داری 100 سال کی تھی جو کہ پوری ہوچکی ہے۔ لہٰذا اب آیندہ کے لیے وہ کسی بھی ذمے داری کی پابند نہیں ہے۔ تب گجرات سرکار نے پل کا جائزہ لینے کے لیے انجینئروں کی ٹیم کو بھیجا، جنھوں نے مکمل معائنے کے بعد سابرمتی کو بے حد مضبوط اور محفوظ قرار دیا۔ اور ہم نے کیا کیا؟ پھر وہی بات کہ:
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
کہ یہاں تو حق بات کہنا بھی ایک جرم ہے کہ قصیدہ نگاروں کی کھیپ کی کھیپ زباں پہ تالے لگوانے کے لیے موجود ہے۔ پھر بھی گستاخی معاف۔ اتنا تو کہنے دیجیے کہ سارا زور میٹرو ٹرین پر لگا کر کیا آپ صحیح کر رہے ہیں؟ ہم سب کی خواہش ہے کہ میٹرو ٹرین جلد ہی بڑے شہروں میں چلے کہ ذرایع آمد و رفت کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ لیکن پہلے ترجیحات پہ غور کیجیے۔ انگریزوں کے زمانے کے بنائے ہوئے پُل، سڑکیں اور ریلوے آج بھی بہتر حالت میں ہیں۔ لیکن جو بعد میں بنائے گئے ان کا حشر دیکھ لیجیے۔ بجائے ساری توانائی اور بجٹ میٹرو ٹرین کے منصوبے پہ لگانے کے ان خستہ حال پُلوں کی مرمت اور دیکھ بھال ضروری ہے جو اپنی طبعی عمر پوری کرچکے ہیں۔
وزیر آباد پُل جس طرح ٹوٹا اور یکے بعد دیگرے جس طرح چار بوگیاں دریا میں گریں کوئی بھی صاحب احساس انسان اس منظر کو ٹی وی پر بھی دوبارہ نہ دیکھ سکا۔ خدا جانے کس اناڑی ڈرائیور کے حوالے گاڑی کردی گئی تھی، جتنے منہ اتنی باتیں، ہر شخص اپنی گردن کا پھندا دوسرے کی گردن میں ڈالنے کے درپے ہے۔ لیکن اس چشم دید چرواہے کی گواہی بہت معتبر ہے۔ جس نے دیکھا کہ ٹرین انتہائی برق رفتاری سے آرہی تھی اور جس موڑ پہ پل سے پہلے رفتار ہلکی کرنی ہوتی ہے وہاں بھی اس نے سابقہ رفتار سے ٹرین کو کھلا چھوڑ دیا۔ یہ تو سامنے کی بات ہے کہ ٹرینوں کے سفر میں جب گاڑی کسی دریا پہ بنے ہوئے پُل یا انسانی آبادی کے درمیان بنے ہوئے پُل سے گزرتی ہے تو اس کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے۔
وزیر آباد پُل کے حادثے کی ذمے دار دراصل ریلوے ہے۔ ہر محکمے کی طرح یہاں بھی افسران کی آسائشیں عروج پر ہیں۔ انجینئروں کی ٹیم معائنہ کے لیے جاتی ضرور ہے، لیکن صرف دکھاوے کا دورہ کرنے اور ٹی اے، ڈی اے بنانے، سیر و تفریح کے لیے۔ وجہ یہ کہ ہمارے حکمران جو 1950 کے بعد اس ملک پر قابض ہیں۔ وہ کبھی ٹرین سے سفر کرتے نہیں، ان کے لیے شاہانہ طرز کے ہوائی جہاز اور بلٹ پروف گاڑیاں موجود ہیں۔
اس لیے ریلوے کا محکمہ بھی تباہ و برباد ہوگیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس حادثے سے قبل بھی ریلوے کے حادثات ہوئے ہیں، کبھی فش پلیٹ اکھڑی گئی، کبھی پٹریاں ٹیڑھی ہوگئیں، کسی بھی حادثے پر کسی وزیر نے ذمے داری قبول نہیں کی۔ البتہ یہ تاریخی بیان ضرور دیا کہ ''میں کوئی انجن ڈرائیور ہوں جو استعفیٰ دوں'' اگر حکمراں جماعت ریلوے سے سفر کرتی تو انسپکشن ٹیم کو بھی خوف ہوتا۔
پورا ملک اور تمام ادارے ٹوٹی ہوئی بیساکھیوں پہ چل رہے ہیں۔ کراچی کا جام صادق پُل ناقص میٹریل کی بنا پر کس طرح ٹوٹا؟ سب جانتے ہیں۔ اس وقت نواز حکومت کو بعض فیصلے بغیر کسی دباؤ کے کرنے چاہئیں۔ وقتی طور پر بعض نئے منصوبوں کو التوا میں ڈال کر سب سے پہلے ریلوے کے ان تمام پُلوں اور پٹریوں کی خستہ حالی دور کرنے پہ توجہ دینی ضروری ہے۔ ڈرائیوروں کی بھرتی ان کی پیشہ ورانہ اہلیت پہ ہونی چاہیے نہ کہ سیاسی سفارشی بنیادوں پر۔ رہ کیا گیا ہے تباہ ہونے سے ۔ پہلے پی آئی اے تباہ ہوئی، پھر اسٹیل مل کی بنیادوں میں دراڑیں پڑیں،اور پھر تابوت میں آخری کیل ریلوے کی تباہی۔ جس نے ایک ساتھ چار بوگیوں کے انسانوں کو نگل لیا۔ پاکستان بننے کے بعد ہر کام کے لیے وہ ٹینڈر منظور کیے جاتے ہیں، جو متعلقہ افسران کو کم ازکم 30 فیصد کمیشن دے سکیں۔ بقیہ 70 فیصد میں سے کچھ دوسرے اداروں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔
ایسے میں کوئی کمپنی یا ٹھیکیدار اپنی جیب سے تو سرمایہ نہیں لگائے گا۔ جو صاحب ضمیر ہوتے ہیں وہ ایسے سودوں میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اور جنھیں جیبیں بھرنی ہوتی ہیں وہ سیمنٹ 20 اور ریت 80 فیصد کے ریشو سے عمارتیں اور پُل سب کچھ بنا کر دام کھرے کر لیتے ہیں۔ پہلے ریل کی پٹریوں اور فش پلیٹ کی چیکنگ کے لیے ایک چھوٹی سی ٹرالی چلتی تھی جس میں ماہرین ہوتے تھے اور غلطیوں کی نشاندہی کرتے جاتے تھے۔ اب ایسے نظارے معدوم ہیں۔ نواز شریف صاحب! یہ کمیٹیاں بنانے کا وقت نہیں ہے بلکہ ایکشن لینے کا ہے۔ کیا ایکشن لینے اور ذمے داروں کو سزا دینے کے لیے کسی نئے حادثے کا انتظار ہے؟ تاکہ موجودہ حادثہ سرد خانے کی نذر ہوجائے؟ کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ :
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا