بینک لین دین پر ٹیکس کے باعث اشیا کی تیاری سے خوردہ فروخت تک پوری چین متاثر
تاجروں نے بینکوں سے لین دین بند کردیا ہے جبکہ یومیہ بنیادوں پر بھاری مالیت کی رقوم بینکوں سے نکلوائی جارہی ہے۔
بینکوں سے رقوم نکلوانے پر 0.6فیصد ٹیکس کے سبب تجارت کا پہیہ جام ہوتا نظر آرہا ہے، تاجروں نے بینکوں سے لین دین بند کردیا ہے جبکہ یومیہ بنیادوں پر بھاری مالیت کی رقوم بینکوں سے نکلوائی جارہی ہے۔
یکم جولائی سے عائد اس ٹیکس کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سے لے کر ہول سیل اور خوردہ سطح تک کی تجارت متاثر ہورہی ہے، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو بھی شدید پریشانی کا سامنا ہے، بینکوں کے بجائے نقد لین دین کو ترجیح دی جارہی ہے جس سے رقوم کے لٹنے، چوری ڈکیتیوں کا بھی خطرہ بڑھ گیا ہے، دوسری جانب کنزیومر آئٹمز بنانے اور ڈسٹری بیوٹ کرنے والی کمپنیوں کے لیے بھی تھوک اور خوردہ فروشوں سے اپنی مصنوعات کی قیمت کی وصولی بھی مسئلہ بن گئی ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے بینکوں کو ٹیکس دہندگان کی کوئی فہرست فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے بینک تمام کسٹمرز سے 0.6فیصد ودہولڈنگ ٹیکس منہا کررہے ہیں، تاجروں کے ساتھ عوام اور تنخواہ دار طبقہ بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے، عید کی خریداری کے لیے رقوم نکلوانے والے شہریوں، مکانات کی خریدوفروخت، کرائے کی مد میں دیے جانے والے ایڈوانس، صحت اور تعلیم کے اخراجات کے لیے رقوم نکلوانے والوں کو بھی سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بینکوں سے رقوم نکلوانے پر 0.6فیصد ٹیکس کے خلاف تاجر برادری سراپا احتجاج ہے۔
ایف پی سی سی آئی نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیر خزانہ سینیٹراسحق ڈارکو بینکنگ ٹرانزیکشن پر 0.6فیصد ٹیکس کی کٹو تی پر پورے پاکستان کی بزنس کمیونٹی کی طرف سے احتجاج اور بے چینی کی طرف تو جہ دلاتے ہو ئے کہا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ جن نان فا ئلرز کی بینکنگ ٹرانز یکشن پر 0.6 فیصدٹیکس کٹوتی ہونی ہے ان سے متعلق ایف بی آر نے کوئی بھی ڈیٹا بینکوں کو نہیں فراہم کیا اور ایف بی آر کے پاس بھی جو ڈیٹادستیاب ہے وہ بھی مکمل نہیں ہے۔
میاں ادریس نے کہاکہ بینک تمام کسٹمرز سے 0.6فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹو تی کر رہے ہیں۔ انھوں نے حکومت کی توجہ اس جانب بھی دلوائی کہ بینکنگ سیکٹر میں ٹرانزیکشن کا مجموعی حجم 6 ٹریلین رو پے کے لگ بھگ ہوتا ہے، ایف بی آر اس پورے ٹرانزیکشن کو نان فائلرز کے ساتھ منسلک نہ کرے کیونکہ اس میں ٹیکس فائلرز، بیواؤں، یتیموں، ملازمین اور معاشرے کے غریب ترین عوام کی بینکنگ ٹرانزیکشن بھی شامل ہوتی ہیں اور ان حالات میں بینکوں کے ڈپازٹ میں کمی آجائے گی کیونکہ لوگ ٹیکس کی کٹوتی سے بچنے کے لیے کیش کو بینکوں کے بجائے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دیں گے۔
ادھر کراچی ریٹیل گراسرز گروپ کے جنرل سیکریٹری محمد فرید قریشی کا کہنا ہے کہ یکم جولائی سے 0.6 فیصد ٹیکس عائد ہونے کے بعد سے تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں، رمضان میں اشیائے خوردونوش کی قلت کا اندیشہ ہے کیونکہ تھوک فروشوں نے چیک سے وصولی بند کردی ہے، اسی طرح ریٹیلرز کو بھی چیک کے ذریعے کنزیومر آئٹمز بنانے والی کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز کو ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے روزمرہ استعمال کی اشیا کی سپلائی متاثر ہو رہی ہے اور تجارت جمود کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ خوردہ فروش اپنی دن بھر کی فروخت کی آمدن بینک اکاؤنٹ میں جمع کرکے سپلائر کمپنیوں کو چیک کے ذریعے ادائیگیاں کرتے ہیں، بعض اوقات یہ چیک ایک سے دوسری اور تیسری پارٹیوں کوبھی منتقل ہوتے ہیں، چیک کے ذریعے رقوم نکلوانے پر ٹیکس کے نفاذ نے مقامی تجارت کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے جیمز اینڈ جیولری کے چیئرمین کاشف الرحمن کے مطابق ٹیکس کے نفاذ کے بعد دیگر شعبوں کی طرح جیولری کے شعبے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، مقامی تجارت اور ایکسپورٹ کا کام متاثر ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا نفاذ لاگت میں اضافے کا سبب بنے گا جس سے مقامی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ایکسپورٹ کے لیے بھی مسابقت مشکل تر ہوجائے گی جس سے معیشت کو نقصان پہنچے گا۔
یکم جولائی سے عائد اس ٹیکس کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سے لے کر ہول سیل اور خوردہ سطح تک کی تجارت متاثر ہورہی ہے، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو بھی شدید پریشانی کا سامنا ہے، بینکوں کے بجائے نقد لین دین کو ترجیح دی جارہی ہے جس سے رقوم کے لٹنے، چوری ڈکیتیوں کا بھی خطرہ بڑھ گیا ہے، دوسری جانب کنزیومر آئٹمز بنانے اور ڈسٹری بیوٹ کرنے والی کمپنیوں کے لیے بھی تھوک اور خوردہ فروشوں سے اپنی مصنوعات کی قیمت کی وصولی بھی مسئلہ بن گئی ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے بینکوں کو ٹیکس دہندگان کی کوئی فہرست فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے بینک تمام کسٹمرز سے 0.6فیصد ودہولڈنگ ٹیکس منہا کررہے ہیں، تاجروں کے ساتھ عوام اور تنخواہ دار طبقہ بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے، عید کی خریداری کے لیے رقوم نکلوانے والے شہریوں، مکانات کی خریدوفروخت، کرائے کی مد میں دیے جانے والے ایڈوانس، صحت اور تعلیم کے اخراجات کے لیے رقوم نکلوانے والوں کو بھی سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بینکوں سے رقوم نکلوانے پر 0.6فیصد ٹیکس کے خلاف تاجر برادری سراپا احتجاج ہے۔
ایف پی سی سی آئی نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیر خزانہ سینیٹراسحق ڈارکو بینکنگ ٹرانزیکشن پر 0.6فیصد ٹیکس کی کٹو تی پر پورے پاکستان کی بزنس کمیونٹی کی طرف سے احتجاج اور بے چینی کی طرف تو جہ دلاتے ہو ئے کہا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ جن نان فا ئلرز کی بینکنگ ٹرانز یکشن پر 0.6 فیصدٹیکس کٹوتی ہونی ہے ان سے متعلق ایف بی آر نے کوئی بھی ڈیٹا بینکوں کو نہیں فراہم کیا اور ایف بی آر کے پاس بھی جو ڈیٹادستیاب ہے وہ بھی مکمل نہیں ہے۔
میاں ادریس نے کہاکہ بینک تمام کسٹمرز سے 0.6فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹو تی کر رہے ہیں۔ انھوں نے حکومت کی توجہ اس جانب بھی دلوائی کہ بینکنگ سیکٹر میں ٹرانزیکشن کا مجموعی حجم 6 ٹریلین رو پے کے لگ بھگ ہوتا ہے، ایف بی آر اس پورے ٹرانزیکشن کو نان فائلرز کے ساتھ منسلک نہ کرے کیونکہ اس میں ٹیکس فائلرز، بیواؤں، یتیموں، ملازمین اور معاشرے کے غریب ترین عوام کی بینکنگ ٹرانزیکشن بھی شامل ہوتی ہیں اور ان حالات میں بینکوں کے ڈپازٹ میں کمی آجائے گی کیونکہ لوگ ٹیکس کی کٹوتی سے بچنے کے لیے کیش کو بینکوں کے بجائے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دیں گے۔
ادھر کراچی ریٹیل گراسرز گروپ کے جنرل سیکریٹری محمد فرید قریشی کا کہنا ہے کہ یکم جولائی سے 0.6 فیصد ٹیکس عائد ہونے کے بعد سے تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں، رمضان میں اشیائے خوردونوش کی قلت کا اندیشہ ہے کیونکہ تھوک فروشوں نے چیک سے وصولی بند کردی ہے، اسی طرح ریٹیلرز کو بھی چیک کے ذریعے کنزیومر آئٹمز بنانے والی کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز کو ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے روزمرہ استعمال کی اشیا کی سپلائی متاثر ہو رہی ہے اور تجارت جمود کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ خوردہ فروش اپنی دن بھر کی فروخت کی آمدن بینک اکاؤنٹ میں جمع کرکے سپلائر کمپنیوں کو چیک کے ذریعے ادائیگیاں کرتے ہیں، بعض اوقات یہ چیک ایک سے دوسری اور تیسری پارٹیوں کوبھی منتقل ہوتے ہیں، چیک کے ذریعے رقوم نکلوانے پر ٹیکس کے نفاذ نے مقامی تجارت کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے جیمز اینڈ جیولری کے چیئرمین کاشف الرحمن کے مطابق ٹیکس کے نفاذ کے بعد دیگر شعبوں کی طرح جیولری کے شعبے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، مقامی تجارت اور ایکسپورٹ کا کام متاثر ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا نفاذ لاگت میں اضافے کا سبب بنے گا جس سے مقامی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ایکسپورٹ کے لیے بھی مسابقت مشکل تر ہوجائے گی جس سے معیشت کو نقصان پہنچے گا۔