’ پارٹی کا بحران بلاول کا امتحان‘
سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پنجاب میں ان کی پارٹی کی ناتوانی کا یہ حال ہے
آصف علی زرداری نے یہ کہہ کے کہ، پشاور میں جوش خطابت میں انھوں نے جو کچھ کہا، وہ سراسر عمومی بات تھی، اور ان کا اشارہ فوج کے موجودہ سربراہ کی طرف نہیں تھا، اپنے غیرذمے دارانہ بیان سے عملاً رجوع کر لیا ہے۔
ان کے مخالفوں کا خیال یہ تھا کہ وہ ضد میں آ کے'اڑ' جائیں گے، اور پھر 'رام بھلی کرے گا'۔ ن لیگ نے جس طرح یکلخت پیپلز پارٹی سے دوری اختیار کی، اور وزیر اعظم نے جس طرح بعجلت آرمی چیف کو فون کر کے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا، اس سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ نواز شریف کو آصف زرداری سے 'بیان واپسی' کی توقع نہیں رہی۔ گزشتہ روز آصف زرداری نے افطار ڈنر رکھاہوا تھا۔
افطار ڈنر میں وزیر اعظم نواز شریف کی شرکت کی توقع تو نہیں کی جا سکتی تھی، لیکن پیپلز پارٹی کو دھچکا اس بات سے لگا کہ اس کڑے وقت میں ن لیگ کا کوئی رہ نما گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے لیے بھی نہ آیا۔ حالانکہ، بقول اعتزاز احسن کے، آصف زرداری نے ہر آڑے وقت میں نواز شریف کا ساتھ دیا تھا، اور اپنے سیاسی نقصان کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ اس سنگین صورتحال میں، جب کہ فضل الرحمن بھی ابتدائی طور پر آصف زرداری کے افطار ڈنر میں شرکت کے لیے آمادہ نہ تھے، ق لیگ کے چوہدری شجاعت حسین نے، باوجود اس کے کہ وہ فوج کے خلاف ان کے بیان سے سخت ناخوش تھے، ان کے افطار ڈنر میں شرکت کی۔ کہا جاتا ہے۔
ان کے افطار ڈنر میں پہنچنے اور ان کی طرف سے ذاتی طور پر رابطہ کرنے کے بعد ہی فضل الرحمن افطار ڈنر میں شرکت پر راضی ہوئے؛ ورنہ اس سے پہلے وہ فرحت اللہ بابرکو ٹال چکے تھے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ افطار ڈنر میں اے این پی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی نے دبے لفظوں میں، جب کہ ق لیگ نے صاف لفظوں میں آصف زرداری کے بیان کو غیر ذمے دارانہ قرار دیا، اور اسے واپس لینے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد آصف زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان علیحدہ ملاقات بھی ہوئی۔ ذرایع کے بقول اس ملاقات میں ہی یہ فیصلہ ہوا کہ آصف زرداری اگلے چند روز میں اپنے متنازعہ بیان کی اس طرح کی تعبیر کریں گے کہ اسے ان کی طرف سے بیان واپسی سمجھا جائے گا۔
چنانچہ، پہلے مرحلہ پر پیپلزپارٹی کے رہنماوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ پارٹی چیئرمین نے اپنے بیان میں سابق فوجی جنرلوں پر تنقید کی تھی، کیونکہ موجودہ آرمی چیف کا پیپلز پارٹی بے حد احترام کرتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ طے شدہ حکمت عملی کے تحت آصف زرداری نے بھی اپنے سابقہ بیان کی اس نئی قابل معافی تعبر و تشریح کی تائید کر دی۔ اس طرح ظاہراً اب 'سیز فائر' ہو گیا ہے۔
کہا جاتا ہے، آصف علی زرداری کی یہی لچکدار سیاست ہے، جس کے طفیل نہ صرف یہ کہ موصوف نے بحیثیت صدر اپنی آئینی مدت پوری کی، بلکہ ان کی پارٹی نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کی۔
مزید یہ کہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو جب کبھی حکومت سے باہر ہو گئے، یا کر دیے گئے، تو اس کے بعد حکومت کے اندر ان کا کوئی اثر و رسوخ باقی نہیں رہا تھا۔ برخلاف اس کے، آصف زرداری حکومت سے'باہر' سے ہونے کے باوجود حکومت کے ' اندر' ہیں۔ سندھ میں میں وہ بلا شرکت غیرے حکومت کر رہے ہیں۔ سینیٹ کی سربراہی بدستور ان کے پاس ہے۔ آج بھی کوئی قانونی بل ان کی مرضی کے بغیر پاس نہیں ہو سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکا آئینی عہدہ بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ عملاً، پیپلز پارٹی کے سربراہ بھی وہی ہیں۔ لیکن، اس موقف میں بھی بڑا وزن ہے کہ آصف زرداری نے اپنی اس سیاست کے بموجب بہت کچھ کھویا بھی ہے۔
سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پنجاب میں ان کی پارٹی کی ناتوانی کا یہ حال ہے کہ پیپلز پارٹی کے بڑے بوڑھوں سے دیکھی نہیں جا رہی؛ حالانکہ پیپلز پارٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ بھٹو خاندان سے باہر دو پارٹی وزیر اعظم آئے اور دونوں پنجاب سے آئے، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف۔ اول الذکر وز یر اعظم نے تو پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اس طرح ن لیگ کے نیچے لگایا کہ بے چاری کچل کے رہ گئی۔ راجہ پرویز اشرف ویسے ہی بہت کمزور آدمی تھے۔ جو کسر رہ گئی تھی، وہ منظور وٹو کے صوبائی صدر بننے سے پوری کر دی گئی۔
نتیجتاً، پنجاب میں پیپلز پارٹی صرف نام کو باقی رہ گئی ہے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کا نام، سوائے دو ایک حلقوں کے، کہیں سننے میں نہیں آیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن کی بدترین شکست کی بازگشت ابھی سنائی دے رہی تھی کہ گلگت بلتستان سے بھی 'دیس نکالا' مل گیا، جہاں اس سے پہلے پارٹی کی حکومت تھی۔ خیبر پختون خوا کے بلدیاتی الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ غلط فہمی، یا خوش فہمی کی انتہا ملا حظہ کیجیے کہ کے پی کے میں ہی پارٹی چیئرمین یہ کہتے پائے گئے کہ ان کو کمزور نہ سمجھا جائے، اب بھی وہ اپنے مخالفوںکی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں، خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے۔
یہ فیصلہ تو مستقبل کا کوئی مورخ ہی کرے گا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد آصف علی زرداری نے جو سیاست کی، اس کا پیپلز پارٹی کو فائدہ زیادہ ہوا ہے، یا نقصان زیادہ پہنچا ہے؛ سردست پیپلز پارٹی کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف پارٹی سکڑتے سکڑتے دیہی سندھ کے اندر محدود ہو کر رہ گئی ہے، اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ مشتعل ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے امید کی واحد کرن، بلاول بھٹو ہیں۔
یہ بات اب راز نہیں رہی کہ بلاول بھٹو کی رائے بھی یہی ہے کہ 'مفاہمت کی سیاست' نے پیپلز پارٹی کو کمزور کیا ہے۔ چنانچہ، جب جب ان کو موقع ملا ہے، انھوں نے بطور چیئرمین، پیپلز پارٹی کی روایتی جارحانہ سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے سال اپنی والدہ کی برسی پر جو پرجوش خطاب انھوں نے کیا، اس کی گونج پیپلز پارٹی کے حلقوں میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بلاول بھٹو نے اپنی پارٹی کے مرض کی درست تشخیص کی ہے اور اس کا علاج بھی صحیح دریافت کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بطور پارٹی چیئرمین، وہ پارٹی میں اپنی ٹیم بنانے اور اس کو آگے لانے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں، یا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو لاڑکانہ سے ضمنی الیکشن لڑ کے قومی اسمبلی میں آنے کے لیے پر تول چکے ہیں، جہاں وہ خورشید شاہ کی جگہ اپوزیشن لیڈر بنیں گے اور بھرپور طور پر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کریں گے ۔ یاد رہے کہ لاڑکانہ بے نظیر بھٹو کی آبائی نشست سے اس وقت آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور رکن قومی اسمبلی ہیں۔
بلاول بھٹو پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ ان میں جوش سیاست بھی ہے، جوش خطابت بھی ہے اور جوش عمل بھی۔ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، اور اس کے اثرات ان کی سوچ پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اپنے والد آصف زرداری کے طرز سیاست سے بظاہر ان کو کوئی دلچسپی نہیں اور نہ وہ اس کو لے کر آگے چلنا چاہتے ہیں۔
ان کے لب و لہجہ اور ان کے تقریروں کو سن کے لگتا ہے کہ ان کے آئیڈیل ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے بھلے کتنا ہی اختلاف کیا جائے، یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ بانی ِ پاکستان کے بعد ان کے پائے کا سیاست دان، پاکستان کی سیاست میں نہیں آیا ہے۔ اگر بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کو پھر سے ذوالفقار علی بھٹو کی 'انقلابی پارٹی' بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو پیپلز پارٹی کی آیندہ سیاست میں ان کا رتبہ ذوالفقارعلی بھٹو سے کم نہیں سمجھا جائے گا۔ شاعر نے کہا تھا ،
دام ہر موج میں ہے، حلقہ ٗ صد کام ِنہنگ
دیکھیں، کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
ان کے مخالفوں کا خیال یہ تھا کہ وہ ضد میں آ کے'اڑ' جائیں گے، اور پھر 'رام بھلی کرے گا'۔ ن لیگ نے جس طرح یکلخت پیپلز پارٹی سے دوری اختیار کی، اور وزیر اعظم نے جس طرح بعجلت آرمی چیف کو فون کر کے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا، اس سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ نواز شریف کو آصف زرداری سے 'بیان واپسی' کی توقع نہیں رہی۔ گزشتہ روز آصف زرداری نے افطار ڈنر رکھاہوا تھا۔
افطار ڈنر میں وزیر اعظم نواز شریف کی شرکت کی توقع تو نہیں کی جا سکتی تھی، لیکن پیپلز پارٹی کو دھچکا اس بات سے لگا کہ اس کڑے وقت میں ن لیگ کا کوئی رہ نما گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے لیے بھی نہ آیا۔ حالانکہ، بقول اعتزاز احسن کے، آصف زرداری نے ہر آڑے وقت میں نواز شریف کا ساتھ دیا تھا، اور اپنے سیاسی نقصان کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ اس سنگین صورتحال میں، جب کہ فضل الرحمن بھی ابتدائی طور پر آصف زرداری کے افطار ڈنر میں شرکت کے لیے آمادہ نہ تھے، ق لیگ کے چوہدری شجاعت حسین نے، باوجود اس کے کہ وہ فوج کے خلاف ان کے بیان سے سخت ناخوش تھے، ان کے افطار ڈنر میں شرکت کی۔ کہا جاتا ہے۔
ان کے افطار ڈنر میں پہنچنے اور ان کی طرف سے ذاتی طور پر رابطہ کرنے کے بعد ہی فضل الرحمن افطار ڈنر میں شرکت پر راضی ہوئے؛ ورنہ اس سے پہلے وہ فرحت اللہ بابرکو ٹال چکے تھے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ افطار ڈنر میں اے این پی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی نے دبے لفظوں میں، جب کہ ق لیگ نے صاف لفظوں میں آصف زرداری کے بیان کو غیر ذمے دارانہ قرار دیا، اور اسے واپس لینے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد آصف زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان علیحدہ ملاقات بھی ہوئی۔ ذرایع کے بقول اس ملاقات میں ہی یہ فیصلہ ہوا کہ آصف زرداری اگلے چند روز میں اپنے متنازعہ بیان کی اس طرح کی تعبیر کریں گے کہ اسے ان کی طرف سے بیان واپسی سمجھا جائے گا۔
چنانچہ، پہلے مرحلہ پر پیپلزپارٹی کے رہنماوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ پارٹی چیئرمین نے اپنے بیان میں سابق فوجی جنرلوں پر تنقید کی تھی، کیونکہ موجودہ آرمی چیف کا پیپلز پارٹی بے حد احترام کرتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ طے شدہ حکمت عملی کے تحت آصف زرداری نے بھی اپنے سابقہ بیان کی اس نئی قابل معافی تعبر و تشریح کی تائید کر دی۔ اس طرح ظاہراً اب 'سیز فائر' ہو گیا ہے۔
کہا جاتا ہے، آصف علی زرداری کی یہی لچکدار سیاست ہے، جس کے طفیل نہ صرف یہ کہ موصوف نے بحیثیت صدر اپنی آئینی مدت پوری کی، بلکہ ان کی پارٹی نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کی۔
مزید یہ کہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو جب کبھی حکومت سے باہر ہو گئے، یا کر دیے گئے، تو اس کے بعد حکومت کے اندر ان کا کوئی اثر و رسوخ باقی نہیں رہا تھا۔ برخلاف اس کے، آصف زرداری حکومت سے'باہر' سے ہونے کے باوجود حکومت کے ' اندر' ہیں۔ سندھ میں میں وہ بلا شرکت غیرے حکومت کر رہے ہیں۔ سینیٹ کی سربراہی بدستور ان کے پاس ہے۔ آج بھی کوئی قانونی بل ان کی مرضی کے بغیر پاس نہیں ہو سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکا آئینی عہدہ بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ عملاً، پیپلز پارٹی کے سربراہ بھی وہی ہیں۔ لیکن، اس موقف میں بھی بڑا وزن ہے کہ آصف زرداری نے اپنی اس سیاست کے بموجب بہت کچھ کھویا بھی ہے۔
سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پنجاب میں ان کی پارٹی کی ناتوانی کا یہ حال ہے کہ پیپلز پارٹی کے بڑے بوڑھوں سے دیکھی نہیں جا رہی؛ حالانکہ پیپلز پارٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ بھٹو خاندان سے باہر دو پارٹی وزیر اعظم آئے اور دونوں پنجاب سے آئے، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف۔ اول الذکر وز یر اعظم نے تو پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اس طرح ن لیگ کے نیچے لگایا کہ بے چاری کچل کے رہ گئی۔ راجہ پرویز اشرف ویسے ہی بہت کمزور آدمی تھے۔ جو کسر رہ گئی تھی، وہ منظور وٹو کے صوبائی صدر بننے سے پوری کر دی گئی۔
نتیجتاً، پنجاب میں پیپلز پارٹی صرف نام کو باقی رہ گئی ہے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کا نام، سوائے دو ایک حلقوں کے، کہیں سننے میں نہیں آیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن کی بدترین شکست کی بازگشت ابھی سنائی دے رہی تھی کہ گلگت بلتستان سے بھی 'دیس نکالا' مل گیا، جہاں اس سے پہلے پارٹی کی حکومت تھی۔ خیبر پختون خوا کے بلدیاتی الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ غلط فہمی، یا خوش فہمی کی انتہا ملا حظہ کیجیے کہ کے پی کے میں ہی پارٹی چیئرمین یہ کہتے پائے گئے کہ ان کو کمزور نہ سمجھا جائے، اب بھی وہ اپنے مخالفوںکی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں، خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے۔
یہ فیصلہ تو مستقبل کا کوئی مورخ ہی کرے گا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد آصف علی زرداری نے جو سیاست کی، اس کا پیپلز پارٹی کو فائدہ زیادہ ہوا ہے، یا نقصان زیادہ پہنچا ہے؛ سردست پیپلز پارٹی کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف پارٹی سکڑتے سکڑتے دیہی سندھ کے اندر محدود ہو کر رہ گئی ہے، اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ مشتعل ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے امید کی واحد کرن، بلاول بھٹو ہیں۔
یہ بات اب راز نہیں رہی کہ بلاول بھٹو کی رائے بھی یہی ہے کہ 'مفاہمت کی سیاست' نے پیپلز پارٹی کو کمزور کیا ہے۔ چنانچہ، جب جب ان کو موقع ملا ہے، انھوں نے بطور چیئرمین، پیپلز پارٹی کی روایتی جارحانہ سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے سال اپنی والدہ کی برسی پر جو پرجوش خطاب انھوں نے کیا، اس کی گونج پیپلز پارٹی کے حلقوں میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بلاول بھٹو نے اپنی پارٹی کے مرض کی درست تشخیص کی ہے اور اس کا علاج بھی صحیح دریافت کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بطور پارٹی چیئرمین، وہ پارٹی میں اپنی ٹیم بنانے اور اس کو آگے لانے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں، یا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو لاڑکانہ سے ضمنی الیکشن لڑ کے قومی اسمبلی میں آنے کے لیے پر تول چکے ہیں، جہاں وہ خورشید شاہ کی جگہ اپوزیشن لیڈر بنیں گے اور بھرپور طور پر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کریں گے ۔ یاد رہے کہ لاڑکانہ بے نظیر بھٹو کی آبائی نشست سے اس وقت آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور رکن قومی اسمبلی ہیں۔
بلاول بھٹو پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ ان میں جوش سیاست بھی ہے، جوش خطابت بھی ہے اور جوش عمل بھی۔ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، اور اس کے اثرات ان کی سوچ پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اپنے والد آصف زرداری کے طرز سیاست سے بظاہر ان کو کوئی دلچسپی نہیں اور نہ وہ اس کو لے کر آگے چلنا چاہتے ہیں۔
ان کے لب و لہجہ اور ان کے تقریروں کو سن کے لگتا ہے کہ ان کے آئیڈیل ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے بھلے کتنا ہی اختلاف کیا جائے، یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ بانی ِ پاکستان کے بعد ان کے پائے کا سیاست دان، پاکستان کی سیاست میں نہیں آیا ہے۔ اگر بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کو پھر سے ذوالفقار علی بھٹو کی 'انقلابی پارٹی' بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو پیپلز پارٹی کی آیندہ سیاست میں ان کا رتبہ ذوالفقارعلی بھٹو سے کم نہیں سمجھا جائے گا۔ شاعر نے کہا تھا ،
دام ہر موج میں ہے، حلقہ ٗ صد کام ِنہنگ
دیکھیں، کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک