انقلابی نظریات
حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ تشدد یا طبقاتی جنگ سے تعلق رکھتا ہے وہ لوگ جو طبقاتی استحصال کے خلاف ہیں
بعض وقت حالات کا جبر اور سیاسی ضرورتیں ایسے رہنماؤں سے بھی انقلابی باتیں کہلوا دیتے ہیں جو نظریاتی طور پر انقلاب دشمن ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق نے کورنگی کی ایک افطار پارٹی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے لوگوں کو حقوق نہیں دیے گئے تو کراچی کے عوام حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ کر لیں گے۔ اسی طرز کی ایک اور بات انھوں نے فیڈرل بی ایریا کے دورے کے دوران کہی ہے۔
فرماتے ہیں کہ دوسری قومیں چاند پر جا رہی ہیں اور ہم زمین پر پانی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ مولانا کی پہلی بات کا تعلق انقلاب کے فلسفے اور جمہوریت کے تقاضوں سے ہے اور دوسری بات کا تعلق سائنس کی ترقی اور خراب حکمرانی سے ہے۔
حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ تشدد یا طبقاتی جنگ سے تعلق رکھتا ہے وہ لوگ جو طبقاتی استحصال کے خلاف ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کی نام نہاد جمہوریت کے ذریعے طبقاتی استحصال کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ہر قسم کی جدوجہد کا پر امن ہونا ضروری ہے اور حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ نہ پر امن طریقے سے ممکن ہے نہ جمہوریت کی مشینری کسی کو پر امن طاقت کے بل پر حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
سراج الحق جمہوریت اور پر امن احتجاج اور تحریکوں کے ایک بڑے وکیل ہیں، جب اگست 2014ء میں عمران اور قادری کے کارکنوں نے پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا چاہا تو اس عمل کو خلاف جمہوریت قرار دینے والوں میں وہ سرفہرست تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیک وقت جمہوریت کی حمایت اور انقلابی جدوجہد کی حمایت کو سوائے دوغلی سیاست اور عوام کو فریب دینے کی سیاست کے کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ جماعت اسلامی سمیت ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو بھی چاہے نظریہ اختیار کریں۔
جماعت کی پوری تاریخ انقلاب کی نفی کی تاریخ ہے لیکن حقائق کا جبر ملاحظہ کیجیے کہ انقلاب کی مخالف اور جمہوریت کی حامی طاقتوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عوام کے حقوق انھیں نہ دیے گئے تو عوام حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ کر لیں گے اور قبضہ ہمیشہ امن کو توڑ کر کیا جاتا ہے۔ اگر ہم حکمرانوں کے محلوں پر عوام کے قبضے کی بات کرتے ہیں تو بالواسطہ طبقاتی استحصال کے خلاف بات کرتے ہیں۔
طبقاتی استحصال کے خلاف جنگ لڑنے والے وہ غریب عوام ہوتے ہیں جو طبقاتی استحصال کا براہ راست شکار ہوتے ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ اگر طبقاتی سیاست کرنے والے استحصالی طبقات کے خلاف عوامی طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اسے امن دشمن بھی کہا جاتا ہے شرپسندی بھی اور غیر ملکوں کی ایجنٹی بھی کہا جاتا ہے لیکن اگر انقلاب کے نظریاتی مخالف عوام کی طرف سے حکمرانوں کے محلوں پر قبضے کی بات کرتے ہیں تو یہ کار ثواب کے زمرے میں آتی ہے۔ انقلاب لانا یا انقلاب کی باتیں کرنا کسی ملک کی اشرافیہ کا کام نہیں ہوتا، انقلابات کی تاریخ بتاتی ہے کہ انقلاب مڈل کلاس کی قیادت میں غریب عوام لاتے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً تمام مذہبی جماعتیں مڈل کلاس پر مشتمل ہیں لیکن ان کا کردار ہمیشہ انقلاب مخالف رہا ہے۔
یہاں 1977ء کی تحریک کا حوالہ بے موقع نہیں ہوگا۔ 1977ء کی تحریک بنیادی طور پر جمہوریت کے خلاف تحریک تھی اور یہ تحریک اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ پر تشدد تحریک تھی، اگرچہ اس تحریک میں نو جماعتیں شامل تھیں لیکن عملاً اس کی قیادت مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں میں اس لیے آ گئی تھی کہ کچھ مذہبی جماعتیں انتہائی منظم تھیں اور ان کے پاس نظریاتی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد تھی، اگرچہ جلاؤ گھیراؤ کی اس تحریک میںشرپسند بھی شامل تھے لیکن اس کی قیادت بہرحال مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں میں تھی، اگر بھٹو کی چند سیٹوں پر دھاندلی اتنا بڑا جرم تھا کہ اس کے خلاف انتہائی پرتشدد تحریک چلانا جائز تھا تو 2013ء کے الیکشن کے خلاف دھرنا تحریک کیوں قابل مذمت تھی جب کہ ساری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ 2013ء کے الیکشن مکمل طور پر دھاندلی زدہ تھے۔
1977ء کی تحریک کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ اس کو اسپانسر کرنے والا امریکا تھا جو بھٹو کو ہر قیمت پر اقتدار سے الگ کرنا چاہتا تھا۔ اس تحریک کے دوران ملک میں ڈالر کا سیلاب آ گیا تھا اور ہر جماعت اس سیلاب سے اپنے ظرف کے مطابق مستفید ہو رہی تھی، کیا یہ کھلی اور آزادانہ فنڈنگ نہیں تھی، کیا اس کا مقصد ملک میں انتشار اور انارکی پھیلانا نہیں تھا؟ آج ایک جماعت کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کا ایک طوفان اٹھا ہوا ہے، کیا 1977ء میں کسی نے امریکی فنڈنگ کے خلاف آواز اٹھانے کی زحمت کی تھی؟
غیر ملکوں سے فنڈ لینا ایک خطرناک جرم ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے خلاف سازش بھی ہے، اس حوالے سے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے ضیا الحق نے جو خدمات جلیلہ انجام دیں اس کا معاوضہ یا فنڈ وہ خود بھی کھلے بندوں لیتے رہے اور مذہبی جماعتیں بھی اس ڈالر کی بارش میں خوب ساون کا مزہ لیتی رہیں اور اس فنڈنگ اور امریکی خدمات کا صلہ یہ ملا کہ سارا ملک ہتھیاروں منشیات اور مذہبی انتہاپسندوں کا گل و گلزار بن گیا اور آج تک ہم اس امریکی فنڈنگ کی سزا بھگت رہے ہیں۔
یہ ایک انتہائی دور رس اور تباہ کن نتائج کی حامل فنڈنگ تھی، کیا اس سیلابی فنڈنگ کے خلاف کسی نے زبان کھولی؟ اس سوال کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ غیر ملکی فنڈنگ جائز اور قومی مفادات سے ہم آہنگ ہے بلکہ ان حوالوں کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہماری سیاست ہماری حکمرانی ہمیشہ جانبداری امتیازات کا شکار رہے۔
سراج الحق نے دوسری اہم اور پتے کی بات یہ کی ہے کہ ''دوسری قومیں چاند پر جا رہی ہیں اور ہم پانی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں۔'' سب سے پہلے اس حوالے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چاند کو زمین جسے سیارے کے بجائے غیر منطقی غیر عقلی روایات کا اسیر کس نے بنایا۔ چاند پر جانے، چاند پر انسان کی چہل قدمی کو کفر، کن طاقتوں نے کہا؟ چاند پر جانا نظام شمسی اور کائنات کے اسرار کا انکشاف کرنے والی سائنس و ٹیکنالوجی کو شیطانی کھیل کس نے کہا؟
مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ ہو یا چاند پر جانے یا نہ جانے کا مسئلہ ہو، یہ سب ایک مخصوص طرز فکر کے مرہون منت ہیں، صرف غریبوں کے ممکنہ غیظ و غضب کا حوالہ دینا یا قطاروں میں کھڑے ہو کر پانی حاصل کرنا دونوں ہی حوالے ہماری نظریاتی کجروی اور انتظامیہ کے دیوالیے پن کے مظہر ہیں، اگر کوئی جماعت یا رہنما طبقاتی استحصال اور ذہنی پسماندگی کا حوالہ محض سیاسی مفادات کے لیے دیتا ہے تو یہ سراسر زیادتی ہے، اگر ہم ان دونوں مسائل کو عوام کے حقوق عوام کی ذہنی پسماندگی کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ان کے حوالوں سے منطقی طرز عمل اختیار کریں ورنہ ہم پر ذہنی پسماندگی کا الزام لگانے والوں کا منہ بند نہیں کیا جا سکتا۔
فرماتے ہیں کہ دوسری قومیں چاند پر جا رہی ہیں اور ہم زمین پر پانی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ مولانا کی پہلی بات کا تعلق انقلاب کے فلسفے اور جمہوریت کے تقاضوں سے ہے اور دوسری بات کا تعلق سائنس کی ترقی اور خراب حکمرانی سے ہے۔
حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ تشدد یا طبقاتی جنگ سے تعلق رکھتا ہے وہ لوگ جو طبقاتی استحصال کے خلاف ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کی نام نہاد جمہوریت کے ذریعے طبقاتی استحصال کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ہر قسم کی جدوجہد کا پر امن ہونا ضروری ہے اور حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ نہ پر امن طریقے سے ممکن ہے نہ جمہوریت کی مشینری کسی کو پر امن طاقت کے بل پر حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
سراج الحق جمہوریت اور پر امن احتجاج اور تحریکوں کے ایک بڑے وکیل ہیں، جب اگست 2014ء میں عمران اور قادری کے کارکنوں نے پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا چاہا تو اس عمل کو خلاف جمہوریت قرار دینے والوں میں وہ سرفہرست تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیک وقت جمہوریت کی حمایت اور انقلابی جدوجہد کی حمایت کو سوائے دوغلی سیاست اور عوام کو فریب دینے کی سیاست کے کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ جماعت اسلامی سمیت ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو بھی چاہے نظریہ اختیار کریں۔
جماعت کی پوری تاریخ انقلاب کی نفی کی تاریخ ہے لیکن حقائق کا جبر ملاحظہ کیجیے کہ انقلاب کی مخالف اور جمہوریت کی حامی طاقتوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عوام کے حقوق انھیں نہ دیے گئے تو عوام حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ کر لیں گے اور قبضہ ہمیشہ امن کو توڑ کر کیا جاتا ہے۔ اگر ہم حکمرانوں کے محلوں پر عوام کے قبضے کی بات کرتے ہیں تو بالواسطہ طبقاتی استحصال کے خلاف بات کرتے ہیں۔
طبقاتی استحصال کے خلاف جنگ لڑنے والے وہ غریب عوام ہوتے ہیں جو طبقاتی استحصال کا براہ راست شکار ہوتے ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ اگر طبقاتی سیاست کرنے والے استحصالی طبقات کے خلاف عوامی طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اسے امن دشمن بھی کہا جاتا ہے شرپسندی بھی اور غیر ملکوں کی ایجنٹی بھی کہا جاتا ہے لیکن اگر انقلاب کے نظریاتی مخالف عوام کی طرف سے حکمرانوں کے محلوں پر قبضے کی بات کرتے ہیں تو یہ کار ثواب کے زمرے میں آتی ہے۔ انقلاب لانا یا انقلاب کی باتیں کرنا کسی ملک کی اشرافیہ کا کام نہیں ہوتا، انقلابات کی تاریخ بتاتی ہے کہ انقلاب مڈل کلاس کی قیادت میں غریب عوام لاتے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً تمام مذہبی جماعتیں مڈل کلاس پر مشتمل ہیں لیکن ان کا کردار ہمیشہ انقلاب مخالف رہا ہے۔
یہاں 1977ء کی تحریک کا حوالہ بے موقع نہیں ہوگا۔ 1977ء کی تحریک بنیادی طور پر جمہوریت کے خلاف تحریک تھی اور یہ تحریک اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ پر تشدد تحریک تھی، اگرچہ اس تحریک میں نو جماعتیں شامل تھیں لیکن عملاً اس کی قیادت مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں میں اس لیے آ گئی تھی کہ کچھ مذہبی جماعتیں انتہائی منظم تھیں اور ان کے پاس نظریاتی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد تھی، اگرچہ جلاؤ گھیراؤ کی اس تحریک میںشرپسند بھی شامل تھے لیکن اس کی قیادت بہرحال مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں میں تھی، اگر بھٹو کی چند سیٹوں پر دھاندلی اتنا بڑا جرم تھا کہ اس کے خلاف انتہائی پرتشدد تحریک چلانا جائز تھا تو 2013ء کے الیکشن کے خلاف دھرنا تحریک کیوں قابل مذمت تھی جب کہ ساری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ 2013ء کے الیکشن مکمل طور پر دھاندلی زدہ تھے۔
1977ء کی تحریک کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ اس کو اسپانسر کرنے والا امریکا تھا جو بھٹو کو ہر قیمت پر اقتدار سے الگ کرنا چاہتا تھا۔ اس تحریک کے دوران ملک میں ڈالر کا سیلاب آ گیا تھا اور ہر جماعت اس سیلاب سے اپنے ظرف کے مطابق مستفید ہو رہی تھی، کیا یہ کھلی اور آزادانہ فنڈنگ نہیں تھی، کیا اس کا مقصد ملک میں انتشار اور انارکی پھیلانا نہیں تھا؟ آج ایک جماعت کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کا ایک طوفان اٹھا ہوا ہے، کیا 1977ء میں کسی نے امریکی فنڈنگ کے خلاف آواز اٹھانے کی زحمت کی تھی؟
غیر ملکوں سے فنڈ لینا ایک خطرناک جرم ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے خلاف سازش بھی ہے، اس حوالے سے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے ضیا الحق نے جو خدمات جلیلہ انجام دیں اس کا معاوضہ یا فنڈ وہ خود بھی کھلے بندوں لیتے رہے اور مذہبی جماعتیں بھی اس ڈالر کی بارش میں خوب ساون کا مزہ لیتی رہیں اور اس فنڈنگ اور امریکی خدمات کا صلہ یہ ملا کہ سارا ملک ہتھیاروں منشیات اور مذہبی انتہاپسندوں کا گل و گلزار بن گیا اور آج تک ہم اس امریکی فنڈنگ کی سزا بھگت رہے ہیں۔
یہ ایک انتہائی دور رس اور تباہ کن نتائج کی حامل فنڈنگ تھی، کیا اس سیلابی فنڈنگ کے خلاف کسی نے زبان کھولی؟ اس سوال کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ غیر ملکی فنڈنگ جائز اور قومی مفادات سے ہم آہنگ ہے بلکہ ان حوالوں کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہماری سیاست ہماری حکمرانی ہمیشہ جانبداری امتیازات کا شکار رہے۔
سراج الحق نے دوسری اہم اور پتے کی بات یہ کی ہے کہ ''دوسری قومیں چاند پر جا رہی ہیں اور ہم پانی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں۔'' سب سے پہلے اس حوالے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چاند کو زمین جسے سیارے کے بجائے غیر منطقی غیر عقلی روایات کا اسیر کس نے بنایا۔ چاند پر جانے، چاند پر انسان کی چہل قدمی کو کفر، کن طاقتوں نے کہا؟ چاند پر جانا نظام شمسی اور کائنات کے اسرار کا انکشاف کرنے والی سائنس و ٹیکنالوجی کو شیطانی کھیل کس نے کہا؟
مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے محلوں پر قبضہ ہو یا چاند پر جانے یا نہ جانے کا مسئلہ ہو، یہ سب ایک مخصوص طرز فکر کے مرہون منت ہیں، صرف غریبوں کے ممکنہ غیظ و غضب کا حوالہ دینا یا قطاروں میں کھڑے ہو کر پانی حاصل کرنا دونوں ہی حوالے ہماری نظریاتی کجروی اور انتظامیہ کے دیوالیے پن کے مظہر ہیں، اگر کوئی جماعت یا رہنما طبقاتی استحصال اور ذہنی پسماندگی کا حوالہ محض سیاسی مفادات کے لیے دیتا ہے تو یہ سراسر زیادتی ہے، اگر ہم ان دونوں مسائل کو عوام کے حقوق عوام کی ذہنی پسماندگی کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ان کے حوالوں سے منطقی طرز عمل اختیار کریں ورنہ ہم پر ذہنی پسماندگی کا الزام لگانے والوں کا منہ بند نہیں کیا جا سکتا۔