ہاکی کے تنِ مردہ پر مٹی ڈالنے کا کام شروع
ورلڈ لیگ میں ناقص کارکردگی کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے ٹھوس اقدامات کے بجائے روایتی انداز اپنا لیا
ہاکی کے تن مردہ پر مٹی ڈالنے کا کام شروع ہوگیا، ورلڈ لیگ میں ناقص کارکردگی کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے ٹھوس اقدامات کے بجائے روایتی انداز اپنا لیا، گذشتہ روز ہیڈ کوچ،کپتان، صدر اور سیکریٹری پی ایچ ایف کے بیانات ریکارڈ کرلیے گئے۔
وزارت بین الصوبائی رابطہ امور کے سیکریٹری اعجاز چوہدری نے کہا کہ کسی کی پگڑی اچھالیں گے نہ لوگوں کو برطرف کیا جائیگا، مقصد شکست کے اسباب کا جائزہ لینا ہے، شہناز شیخ نے سارا ملبہ مالی مشکلات پر گرا دیا،کوچ کا کہنا ہے کہ جیت کے لیے صرف حب الوطنی ہی نہیں سہولتیں بھی درکار ہوتی ہیں۔ کپتان محمد عمران نے کہا ملازمت ہے نہ خرچہ ہی ملتا ہے۔
ایسے میں کون کیا کارکردگی دکھائے گا؟۔ تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہاکی لیگ میں شرمناک کارکردگی کے باعث پاکستان پہلی بار اولمپکس میں شرکت سے محروم رہے گا، گرین شرٹس اینٹورپ میں 10ملکی ایونٹ کی ٹاپ فور ٹیموں میں بھی شامل ہوجاتے تو آئندہ برس ریو جانے کی ٹکٹ مل جاتی، سیمی فائنل میں ناکامی کے باوجود بھی قومی ٹیم کے لیے پانچویں پوزیشن اور میگا ایونٹ کھیلنے کی امیدیں برقرار رہتیں، مگر پلے آف میچز میں کھلاڑیوں نے کمزور حریفوں کے سامنے بھی گھٹنے ٹیک دیے اور آٹھویں پوزیشن کیساتھ اختتام کیا۔
ناقص ترین کارکردگی کے بعد وزیر اعظم کی ہدایت پر وزارت بین الصوبائی رابطہ امور کے سیکریٹری اعجاز چوہدری کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی جس کا پہلا اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا، اس موقع پر ہیڈ کوچ شہناز شیخ،کپتان محمد عمران، صدر اختررسول اور سیکریٹری پی ایچ ایف رانا مجاہد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
کمیٹی کے ارکان شہباز احمد سینئر، خواجہ جنید، کرنل(ر)مدثر اصغر، ڈائریکٹر جنرل پاکستان اسپورٹس بورڈ ڈاکٹر اختر نواز گنجیرا نے شکستوں کی بنیادی وجوہات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے نوٹس مرتب کیے، ذرائع کے مطابق شہناز شیخ نے بدترین کارکردگی کی 20صفحات پر مشتمل رپورٹ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش کی، موقف کی سپورٹ کے لیے 5 اضافی پیپرز بھی منسلک کیے گئے تھے، انھوں نے ناکامی کی بڑی وجہ مالی مسائل قرارکو قرار دیا، کوچ نے کہا کہ ٹیم کے لیے 120روزہ پلان دیا گیا تھا جس پر عمل نہیں کیا گیا، اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ میں شرکت کے لیے مقررہ وقت پر نہیں گئے،اس کی وجہ سے 5 پریکٹس میچز نہ کھیل سکے۔
مالی اور نفسیاتی مسائل نے بھی منفی اثر ڈالا اور کھلاڑیوں نے گول کرنے کے متعدد مواقع ضائع کیے،کامیاب مووز کی شرح صرف 20فیصد رہی، انھوں نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی سے قبل ہی مسائل نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا،فیڈریشن کے پاس وسائل کی شدید کمی تھی، پیسے نہ ملنے کی وجہ سے کھلاڑی ایونٹ میں شرکت کے لیے بھارت ہی نہیں جانا چاہتے تھے لیکن میرا احترام کرتے ہوئے بات مان لی، اس کے بعد بھی کسی نے حال نہ پوچھا، وزیر اعظم سے ملنے کے لیے باربار وقت مانگا لیکن موقع نہ دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ورلڈ لیگ کے لیے روانگی سے قبل پلیئرز کے ڈیلی الاؤنس کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا، ایونٹ کے دوران کھلاڑیوں کی توجہ سینٹرل کنٹریکٹ اور ڈیلی الاؤنس سے محرومی کی وجہ سے منتشر تھی۔بعد ازاں اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ اگر کھلاڑیوں کو میچ سے زیادہ یومیہ الاؤنس نہ ملنے کی فکر ہو تو وہ جیتیں گے کیسے؟ہماری ہار میں پیسوں کا سب سے اہم کردار ہے۔
مجھے خود ڈیڑھ سال سے تنخواہ نہیں ملی، یہی حال کھلاڑیوں کا بھی ہے،وعدوں کے مطابق کسی کو سرکاری نوکری نہ کنٹریکٹ دیے گئے، ڈیلی الاؤنس بھی نہیں دیا جا رہا ہے، حب الوطنی سے کب تک کام چلایا جائے گا؟۔انھوں نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے کمیٹی 6 ماہ پہلے بنادی جاتی تو یہ سونامی نہ آتا، اگر تبدیلی بھی لانا ہے تو وہ اتفاق رائے سے لائی جائے، چوہے بلی کا کھیل دوبارہ شروع ہوا توکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کپتان محمد عمران نے کہا کہ کھلاڑیوں کو کسی قسم کی سہولیات نہیں دی جا رہیں، ایسے میں بہتر کھیل کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
ہماری شکست کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اپنے پلیئرز کو سہولیات فراہم نہیں کر رہے، چار ماہ پہلے اسی ٹیم نے اچھی کارکردگی دکھائی لیکن اب نوکری ہے نہ خرچہ ملتا ہے، ایسے میں کون کیا کارکردگی دکھائے گا؟۔ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ اعجاز چوہدری نے کہا کہ تحقیقات کا مقصد حقائق جاننا ہے، کسی کی پگڑی اچھالنا یا لوگوں کو برطرف کرنا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ توقع نہ رکھی جائے کہ کمیٹی میں استعفے دیے جائینگے یا لوگوں کو برطرف کیا جائیگا۔ انھوں نے بتایا کہ اجلاس کے دوران پی ایچ ایف کے صدر اختررسول، سیکریٹری رانا مجاہد، کوچ شہناز شیخ اور کپتان عمران سے بات ہوئی، ان کا موقف سن لیا، ہم تین روز تک اپنا کام مکمل کرتے ہوئے سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کردینگے۔
وزارت بین الصوبائی رابطہ امور کے سیکریٹری اعجاز چوہدری نے کہا کہ کسی کی پگڑی اچھالیں گے نہ لوگوں کو برطرف کیا جائیگا، مقصد شکست کے اسباب کا جائزہ لینا ہے، شہناز شیخ نے سارا ملبہ مالی مشکلات پر گرا دیا،کوچ کا کہنا ہے کہ جیت کے لیے صرف حب الوطنی ہی نہیں سہولتیں بھی درکار ہوتی ہیں۔ کپتان محمد عمران نے کہا ملازمت ہے نہ خرچہ ہی ملتا ہے۔
ایسے میں کون کیا کارکردگی دکھائے گا؟۔ تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہاکی لیگ میں شرمناک کارکردگی کے باعث پاکستان پہلی بار اولمپکس میں شرکت سے محروم رہے گا، گرین شرٹس اینٹورپ میں 10ملکی ایونٹ کی ٹاپ فور ٹیموں میں بھی شامل ہوجاتے تو آئندہ برس ریو جانے کی ٹکٹ مل جاتی، سیمی فائنل میں ناکامی کے باوجود بھی قومی ٹیم کے لیے پانچویں پوزیشن اور میگا ایونٹ کھیلنے کی امیدیں برقرار رہتیں، مگر پلے آف میچز میں کھلاڑیوں نے کمزور حریفوں کے سامنے بھی گھٹنے ٹیک دیے اور آٹھویں پوزیشن کیساتھ اختتام کیا۔
ناقص ترین کارکردگی کے بعد وزیر اعظم کی ہدایت پر وزارت بین الصوبائی رابطہ امور کے سیکریٹری اعجاز چوہدری کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی جس کا پہلا اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا، اس موقع پر ہیڈ کوچ شہناز شیخ،کپتان محمد عمران، صدر اختررسول اور سیکریٹری پی ایچ ایف رانا مجاہد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
کمیٹی کے ارکان شہباز احمد سینئر، خواجہ جنید، کرنل(ر)مدثر اصغر، ڈائریکٹر جنرل پاکستان اسپورٹس بورڈ ڈاکٹر اختر نواز گنجیرا نے شکستوں کی بنیادی وجوہات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے نوٹس مرتب کیے، ذرائع کے مطابق شہناز شیخ نے بدترین کارکردگی کی 20صفحات پر مشتمل رپورٹ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش کی، موقف کی سپورٹ کے لیے 5 اضافی پیپرز بھی منسلک کیے گئے تھے، انھوں نے ناکامی کی بڑی وجہ مالی مسائل قرارکو قرار دیا، کوچ نے کہا کہ ٹیم کے لیے 120روزہ پلان دیا گیا تھا جس پر عمل نہیں کیا گیا، اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ میں شرکت کے لیے مقررہ وقت پر نہیں گئے،اس کی وجہ سے 5 پریکٹس میچز نہ کھیل سکے۔
مالی اور نفسیاتی مسائل نے بھی منفی اثر ڈالا اور کھلاڑیوں نے گول کرنے کے متعدد مواقع ضائع کیے،کامیاب مووز کی شرح صرف 20فیصد رہی، انھوں نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی سے قبل ہی مسائل نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا،فیڈریشن کے پاس وسائل کی شدید کمی تھی، پیسے نہ ملنے کی وجہ سے کھلاڑی ایونٹ میں شرکت کے لیے بھارت ہی نہیں جانا چاہتے تھے لیکن میرا احترام کرتے ہوئے بات مان لی، اس کے بعد بھی کسی نے حال نہ پوچھا، وزیر اعظم سے ملنے کے لیے باربار وقت مانگا لیکن موقع نہ دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ورلڈ لیگ کے لیے روانگی سے قبل پلیئرز کے ڈیلی الاؤنس کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا، ایونٹ کے دوران کھلاڑیوں کی توجہ سینٹرل کنٹریکٹ اور ڈیلی الاؤنس سے محرومی کی وجہ سے منتشر تھی۔بعد ازاں اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ اگر کھلاڑیوں کو میچ سے زیادہ یومیہ الاؤنس نہ ملنے کی فکر ہو تو وہ جیتیں گے کیسے؟ہماری ہار میں پیسوں کا سب سے اہم کردار ہے۔
مجھے خود ڈیڑھ سال سے تنخواہ نہیں ملی، یہی حال کھلاڑیوں کا بھی ہے،وعدوں کے مطابق کسی کو سرکاری نوکری نہ کنٹریکٹ دیے گئے، ڈیلی الاؤنس بھی نہیں دیا جا رہا ہے، حب الوطنی سے کب تک کام چلایا جائے گا؟۔انھوں نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے کمیٹی 6 ماہ پہلے بنادی جاتی تو یہ سونامی نہ آتا، اگر تبدیلی بھی لانا ہے تو وہ اتفاق رائے سے لائی جائے، چوہے بلی کا کھیل دوبارہ شروع ہوا توکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کپتان محمد عمران نے کہا کہ کھلاڑیوں کو کسی قسم کی سہولیات نہیں دی جا رہیں، ایسے میں بہتر کھیل کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
ہماری شکست کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اپنے پلیئرز کو سہولیات فراہم نہیں کر رہے، چار ماہ پہلے اسی ٹیم نے اچھی کارکردگی دکھائی لیکن اب نوکری ہے نہ خرچہ ملتا ہے، ایسے میں کون کیا کارکردگی دکھائے گا؟۔ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ اعجاز چوہدری نے کہا کہ تحقیقات کا مقصد حقائق جاننا ہے، کسی کی پگڑی اچھالنا یا لوگوں کو برطرف کرنا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ توقع نہ رکھی جائے کہ کمیٹی میں استعفے دیے جائینگے یا لوگوں کو برطرف کیا جائیگا۔ انھوں نے بتایا کہ اجلاس کے دوران پی ایچ ایف کے صدر اختررسول، سیکریٹری رانا مجاہد، کوچ شہناز شیخ اور کپتان عمران سے بات ہوئی، ان کا موقف سن لیا، ہم تین روز تک اپنا کام مکمل کرتے ہوئے سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کردینگے۔