پاکستان کے عوام اور بیڑیاں
شیلے ساری زندگی ایک نئی دنیا کے خواب دیکھتا رہا، ایسی دنیا جو ظلم وستم اور ناانصافی سے پاک ہو
KARACHI:
شیلے کو دفنایا نہیں جلایا گیا جب سمندرکے کنارے اس کی میت جل رہی تھی تواس کے دوست ٹریلی وے نے شیلے کے جلتے جسم سے اس کا دل نکال لیا تھا، جسے اس کی بیوی میری شیلے نے ایک شیشے کے برتن میں محفوظ کرلیا اور جب تک وہ جیتی رہی اسے اپنے پاس رکھا۔ میری کی موت کے بعد دل کو روم کے قدیمی چرچ کے قبرستان میں دفنایا گیا اور اس پر Heart of Hearts کی تختی لگا دی گئی ۔ شیلے کو انقلاب فرانس کا حقیقی وارث قرار دیاجاتا ہے انقلاب فرانس کی اصلی روح اس انگریزی شاعرکے اندر مو جود تھی۔
شیلے ساری زندگی ایک نئی دنیا کے خواب دیکھتا رہا، ایسی دنیا جو ظلم وستم اور ناانصافی سے پاک ہو ایسی دنیا جوانتشار ،دہشت اورخوف سے خالی ہو ۔ اس نے سار ی زندگی آزادی، مساوات اورانصاف کے خواب دیکھے ایک ایسی دنیا کا خواب جو تینوں چیزوں سے آراستہ ہوا۔ انقلاب فرانس میں یہ تینوں چیزیں اہم ترین محرکات ثابت ہوئیں شیلے کو وہ واحد شاعر کہا جاسکتا ہے جس نے آزادی ، مساوات اور انصاف کے گیت گائے اور ایک نئے آنے والے عہد کی بشارت دی۔
شیلے واقعے کی بجائے نظریات سے متاثر ہوا وہ اپنے ڈرامے Revolt of Islam کے دیباچے میں کہتا ہے '' میں اپنے قارئین کے دلوں میں آزادی ، مساوات اور انصاف کی شمع روشن کرنا چاہتا ہوں بنی نوع انسان کے دل سے تعصب اور تشدد کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور امید کو جنم دینا چاہتا ہوں۔'' کارل مارکس ،جارج برنارڈشا اور برٹرینڈ رسل شیلے کے شیدائی تھے سیاسی عمل میں عدم تشدد کے فلسفے پر عمل گاندھی نے شیلے ہی سے سیکھا۔ گاندھی اپنی گفتگو اورتقریروں میں شیلے کی نظم Mask of Anarchy کا اکثر حوالہ دیا کرتے تھے۔
شیلے ساری زندگی انسان کی زندگی بدلنے کے خواب دیکھتا رہا ایک نئے سماج کے خواب جن میں انسانوں کے دکھ درد کا مداوا ہوسکے وہ ہمیشہ معاشرے کے ان قوانین اور ان رکاوٹوں کے خلاف نبرد آزما رہا جو آزادی ، انصاف اور سچائی کی راہ میں رکاوٹ تھیں وہ انسان کے لیے آزاد معاشرہ چاہتا تھا اور یہ خواب وہ ساری دنیا کے انسانوں کو دکھانا چاہتا تھا اور ہوا کو وسیلہ بنا کر وہ اپنے خیالات کو پوری دنیا میں پھیلانا چاہتا تھا۔ اس کی نظم Ode to the West Wind ان ہی تصورات خیالات اورخوابوں کی عکاسی کرتی ہے۔ آج دنیا میں جو بیماری سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے وہ ناانصافی ہے ۔
تیسری دنیا تو اس ناانصافی کا سب سے بڑا شکار ہے ۔ ماؤزے تنگ نے کہا کہ '' ہمیں بانجھ اور بنجر سوچ سے نجات حاصل کرنی چاہیے وہ تمام نظریے جو دشمن کی طاقت کو زیادہ اورعوام کی طاقت کو کم سمجھتے ہیں بے حد غلط ہیں'' لنکن نے کہا تھا ووٹ کی طاقت بندوق کی گولی سے زیادہ ہوتی ہے ووٹ کی طاقت سے ہی نظام بدلتے ہیں ترقی اور خوشحالی آتی ہے ۔
عوام طاقتور ہوتے ہیں معاشرتی اور سماجی رویے جب تاریخ کے ساتھ سفرکرتے ہیں تو اس منزل پر پہنچتے ہیں جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں جمہوریت عوام کو مقتدر کرنے کا نام ہے، جمہوریت میں طاقت کا محور شخصیات نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں ۔ آج جہاں مکمل جمہوریت موجود ہے وہاں جرائم کی شرح صفر ہے ۔ بیروزگاری کی شرح صفر ہے ۔ ان ممالک میں عوام آزاد ،خوشحال ، تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہیں یہ ممالک انتہائی ترقی یافتہ ہیں ۔
آئیں اب ہم پاکستان اور اس کے 18کروڑ عوام کے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔پاکستان کو آزادہوئے 67 سال بیت چکے ہیں لیکن پاکستان کے عوام آج بھی آزادی کے لیے لڑر ہے ہیں آج بھی اپنی خوشحالی، ترقی،کامیابی،اختیار اور حکمرانی کے لیے جنگ میں مصروف ہیں ایک طرف تو انھیں ان قوتوں کا سامنا ہے جو انتہا پسند ، رجعت پسند اور بنیاد پرست قوتیں ہیں جنہوں نے پاکستانی سماج کو یرغمال بنا رکھا ہے اورپاکستان کے لوگوں کو مذہب کے نام پر بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے یاد رہے ۔
ان قوتوں کو مذہب سے کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے انھیں اپنی اجارہ داری اپنے تسلط اور اپنے مفادات سے اصل دلچسپی ہے انہو ں نے بیڑیاں کسنے میں اپنی پوری طاقت لگا رکھی ہے اور جب کہ پاکستان کے عوام ان بیڑیوں سے آزاد ہونے کے لیے اپنی سی کوشش میں مصروف ہیں تو دوسری طرف انھیں ان سیاست دانوں کا سامنا ہے جو انتہائی درجے کے خود غرض اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں جو جمہوریت کے نام پر اپنی لوٹ مار، اپنی کرپشن ، اپنی شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کو جاری وساری رکھنا چاہتے ہیں اور جنہوں نے اپنے اقتدار اور اختیار کی خاطر عوام کو بدحال ، بے اختیار اور کنگال بنا رکھا ہے جو بظاہر تو ایک دوسر ے کے مخالف نظر آتے ہیں لیکن اصل میں اندر سے سب ایک ہیں اور سب کے سب ایک ایجنڈے پر متفق ہیں کہ عوام کو جتنا کمزور،لاغر اور تقسیم کرسکتے ہو کرتے رہو تاکہ وہ کبھی ان کے اقتدار اور اختیار کے لیے خطرہ نہ بن سکیں ۔
یہ تمام عناصر مختلف شکلوں میں پاکستان کے عوام کو نقصان پہنچاتے آرہے ہیں پاکستان کے عوام انتہائی باشعور ہیں وہ بھی اپنی زندگیاں بدلنا چاہتے ہیں وہ بھی ایک ایسا سماج چاہتے ہیں جس کا خواب شیلے نے دیکھا تھا جس میں ان کے تمام دکھوں کا مداوا ہوسکے وہ خوشحال، بااختیار اور آزاد ہوسکیں۔ آج ان کے دلوں میں آزادی ، مساوات، انصاف اور خوشحالی حاصل کرنے کی شمع کی لو اور تیز ہوگئی ہے اور وہ اس شمع کو اب کسی بھی صورت میں بجھنے نہیں دیں گے ۔
شیلے کو دفنایا نہیں جلایا گیا جب سمندرکے کنارے اس کی میت جل رہی تھی تواس کے دوست ٹریلی وے نے شیلے کے جلتے جسم سے اس کا دل نکال لیا تھا، جسے اس کی بیوی میری شیلے نے ایک شیشے کے برتن میں محفوظ کرلیا اور جب تک وہ جیتی رہی اسے اپنے پاس رکھا۔ میری کی موت کے بعد دل کو روم کے قدیمی چرچ کے قبرستان میں دفنایا گیا اور اس پر Heart of Hearts کی تختی لگا دی گئی ۔ شیلے کو انقلاب فرانس کا حقیقی وارث قرار دیاجاتا ہے انقلاب فرانس کی اصلی روح اس انگریزی شاعرکے اندر مو جود تھی۔
شیلے ساری زندگی ایک نئی دنیا کے خواب دیکھتا رہا، ایسی دنیا جو ظلم وستم اور ناانصافی سے پاک ہو ایسی دنیا جوانتشار ،دہشت اورخوف سے خالی ہو ۔ اس نے سار ی زندگی آزادی، مساوات اورانصاف کے خواب دیکھے ایک ایسی دنیا کا خواب جو تینوں چیزوں سے آراستہ ہوا۔ انقلاب فرانس میں یہ تینوں چیزیں اہم ترین محرکات ثابت ہوئیں شیلے کو وہ واحد شاعر کہا جاسکتا ہے جس نے آزادی ، مساوات اور انصاف کے گیت گائے اور ایک نئے آنے والے عہد کی بشارت دی۔
شیلے واقعے کی بجائے نظریات سے متاثر ہوا وہ اپنے ڈرامے Revolt of Islam کے دیباچے میں کہتا ہے '' میں اپنے قارئین کے دلوں میں آزادی ، مساوات اور انصاف کی شمع روشن کرنا چاہتا ہوں بنی نوع انسان کے دل سے تعصب اور تشدد کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور امید کو جنم دینا چاہتا ہوں۔'' کارل مارکس ،جارج برنارڈشا اور برٹرینڈ رسل شیلے کے شیدائی تھے سیاسی عمل میں عدم تشدد کے فلسفے پر عمل گاندھی نے شیلے ہی سے سیکھا۔ گاندھی اپنی گفتگو اورتقریروں میں شیلے کی نظم Mask of Anarchy کا اکثر حوالہ دیا کرتے تھے۔
شیلے ساری زندگی انسان کی زندگی بدلنے کے خواب دیکھتا رہا ایک نئے سماج کے خواب جن میں انسانوں کے دکھ درد کا مداوا ہوسکے وہ ہمیشہ معاشرے کے ان قوانین اور ان رکاوٹوں کے خلاف نبرد آزما رہا جو آزادی ، انصاف اور سچائی کی راہ میں رکاوٹ تھیں وہ انسان کے لیے آزاد معاشرہ چاہتا تھا اور یہ خواب وہ ساری دنیا کے انسانوں کو دکھانا چاہتا تھا اور ہوا کو وسیلہ بنا کر وہ اپنے خیالات کو پوری دنیا میں پھیلانا چاہتا تھا۔ اس کی نظم Ode to the West Wind ان ہی تصورات خیالات اورخوابوں کی عکاسی کرتی ہے۔ آج دنیا میں جو بیماری سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے وہ ناانصافی ہے ۔
تیسری دنیا تو اس ناانصافی کا سب سے بڑا شکار ہے ۔ ماؤزے تنگ نے کہا کہ '' ہمیں بانجھ اور بنجر سوچ سے نجات حاصل کرنی چاہیے وہ تمام نظریے جو دشمن کی طاقت کو زیادہ اورعوام کی طاقت کو کم سمجھتے ہیں بے حد غلط ہیں'' لنکن نے کہا تھا ووٹ کی طاقت بندوق کی گولی سے زیادہ ہوتی ہے ووٹ کی طاقت سے ہی نظام بدلتے ہیں ترقی اور خوشحالی آتی ہے ۔
عوام طاقتور ہوتے ہیں معاشرتی اور سماجی رویے جب تاریخ کے ساتھ سفرکرتے ہیں تو اس منزل پر پہنچتے ہیں جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں جمہوریت عوام کو مقتدر کرنے کا نام ہے، جمہوریت میں طاقت کا محور شخصیات نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں ۔ آج جہاں مکمل جمہوریت موجود ہے وہاں جرائم کی شرح صفر ہے ۔ بیروزگاری کی شرح صفر ہے ۔ ان ممالک میں عوام آزاد ،خوشحال ، تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہیں یہ ممالک انتہائی ترقی یافتہ ہیں ۔
آئیں اب ہم پاکستان اور اس کے 18کروڑ عوام کے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔پاکستان کو آزادہوئے 67 سال بیت چکے ہیں لیکن پاکستان کے عوام آج بھی آزادی کے لیے لڑر ہے ہیں آج بھی اپنی خوشحالی، ترقی،کامیابی،اختیار اور حکمرانی کے لیے جنگ میں مصروف ہیں ایک طرف تو انھیں ان قوتوں کا سامنا ہے جو انتہا پسند ، رجعت پسند اور بنیاد پرست قوتیں ہیں جنہوں نے پاکستانی سماج کو یرغمال بنا رکھا ہے اورپاکستان کے لوگوں کو مذہب کے نام پر بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے یاد رہے ۔
ان قوتوں کو مذہب سے کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے انھیں اپنی اجارہ داری اپنے تسلط اور اپنے مفادات سے اصل دلچسپی ہے انہو ں نے بیڑیاں کسنے میں اپنی پوری طاقت لگا رکھی ہے اور جب کہ پاکستان کے عوام ان بیڑیوں سے آزاد ہونے کے لیے اپنی سی کوشش میں مصروف ہیں تو دوسری طرف انھیں ان سیاست دانوں کا سامنا ہے جو انتہائی درجے کے خود غرض اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں جو جمہوریت کے نام پر اپنی لوٹ مار، اپنی کرپشن ، اپنی شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کو جاری وساری رکھنا چاہتے ہیں اور جنہوں نے اپنے اقتدار اور اختیار کی خاطر عوام کو بدحال ، بے اختیار اور کنگال بنا رکھا ہے جو بظاہر تو ایک دوسر ے کے مخالف نظر آتے ہیں لیکن اصل میں اندر سے سب ایک ہیں اور سب کے سب ایک ایجنڈے پر متفق ہیں کہ عوام کو جتنا کمزور،لاغر اور تقسیم کرسکتے ہو کرتے رہو تاکہ وہ کبھی ان کے اقتدار اور اختیار کے لیے خطرہ نہ بن سکیں ۔
یہ تمام عناصر مختلف شکلوں میں پاکستان کے عوام کو نقصان پہنچاتے آرہے ہیں پاکستان کے عوام انتہائی باشعور ہیں وہ بھی اپنی زندگیاں بدلنا چاہتے ہیں وہ بھی ایک ایسا سماج چاہتے ہیں جس کا خواب شیلے نے دیکھا تھا جس میں ان کے تمام دکھوں کا مداوا ہوسکے وہ خوشحال، بااختیار اور آزاد ہوسکیں۔ آج ان کے دلوں میں آزادی ، مساوات، انصاف اور خوشحالی حاصل کرنے کی شمع کی لو اور تیز ہوگئی ہے اور وہ اس شمع کو اب کسی بھی صورت میں بجھنے نہیں دیں گے ۔