ڈگری اور رشتے
بنا کسی پلاننگ کے، بنا کسی فطری رجحان کے دھڑا دھڑ پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے لیے جا رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے کے کالم ''تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر'' کی پسندیدگی پہ اتنی ای میل آئیں کہ مجھے حیرت ہوئی، اندازہ ہوا کہ ہمارے نظام تعلیم کی خرابیوں نے کس طرح صنفی تناسب میں بگاڑ پیدا کیا ہے، لیکن خوشی یہ ہوئی کہ بیشتر والدین نے بھی اور خود ان لڑکیوں نے بھی بلا سوچے سمجھے ایک بھیڑچال کے نتیجے میں جو تعلیم حاصل کی وہ ان کے لیے نہ صرف بے فیض رہی بلکہ سماج میں ایک تکلیف دہ صورتحال پیدا ہو گئی۔
بنا کسی پلاننگ کے، بنا کسی فطری رجحان کے دھڑا دھڑ پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے لیے جا رہے ہیں۔ حق داروں کا حق مارا جا رہا ہے اور معاشرے میں بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد دن بہ دن تشویش ناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم بہت ضروری ہے لیکن وہ تعلیم جو ان کی عملی زندگی میں بھی کام آئے۔ جب سے پرائیویٹ یونیورسٹیاں کھمبیوں کی طرح پورے ملک میں پھیلی ہیں، تعلیمی معیار اسی حساب سے پست ہوا ہے۔ سرکاری کالجوں اور جامعات میں نمبروں کے تناسب سے داخلے ملتے ہیں۔ لیکن یہ نمبر جو مارکس شیٹ میں درج ہوتے ہیں، ان میں سے بیشتر سفارش اور پیسے کی بدولت 80 فیصد سے زیادہ ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں امتحانی کاپیوں کو جانچنے کا نظام انتہائی سطحی ہے۔ تین گھنٹے میں مزدوروں کی طرح دیہاڑی لگا کر 20کاپیاں دیکھنا، ایوارڈ لسٹ بنانا۔ یہ سب عموماً اس طرح ہوتا ہے کہ بیشتر اساتذہ صفحے کے صفحے بغیر پڑھے سرخ بال پوائنٹ سے مارک کرتے جاتے ہیں۔ بعض ایسے طالب علم جنھوں نے واقعی محنت کی ہوتی ہے لیکن جواب مختصر ہوتا ہے وہ کم نمبر حاصل کرتے ہیں اور جو بغیر پڑھے جواب میں صفحے کے صفحے سیاہ کرتے چلے جائیں وہ زیادہ نمبر حاصل کر لیتے ہیں۔ اندرون سندھ کے اساتذہ کا حال مت پوچھیے کہ وہاں معاملہ اتنا خراب ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ کتابیں کھول کر جواب نقل کرنا عام بات ہے۔
البتہ ڈپٹی ہیڈ ایگزامنر کی نظر ایسی کاپیوں پر پڑ جائے جن میں ''قابل'' اساتذہ نے صفحے گن کر نمبر دیے ہوں تو وہ پکڑ کر لیتا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا بہت کم ہے۔ اول تو پورے تین گھنٹے دو فی صد اساتذہ ہی دیتے ہیں۔ باقی کا وہی حال ہے جو سرکاری دفتروں اور اداروں کے کلرکوں کا۔ امتحانی بورڈ اور جامعات جب اساتذہ کو گھروں پہ کاپیاں جانچنے کا کام دیتے ہیں تو پوری طرح تباہی بھی کاپیوں کے بنڈلوں کے ساتھ باندھ کے دے دیتے ہیں۔ کچھ ''نام ور'' اساتذہ ایسے بھی ہیں جو امتحانی کاپیاں اپنے شاگردوں کو جانچنے کو دے دیتے ہیں۔
اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ان کاپیوں کو اپنی بیگم اور بچوں کو دے کر کہتے ہیں کہ ان صفحات پہ رائٹ (ٹک مارک) کا نشان لگاتے جاؤ۔ یہ قابل اساتذہ نمبروں کو پوسٹنگ پہلے کر دیتے ہیں اور صفحۂ اول پہ دیے گئے نمبروں کو ان کے کارندے بعد میں اندرونی صفحات پہ لکھتے ہیں۔ کئی بار مجھے ذاتی طور پر اس الم ناک صورتحال کا تجربہ اس وقت ہوا جب میں خود ڈپٹی ہیڈ اور ہیڈ ایگزامنر تھی۔ ایک صاحب نے 100 کاپیوں میں سے کسی کو بھی فیل نہیں کیا تھا اور 50 سے کم نمبر کسی کاپی میں نہیں تھے۔ دوسرے صاحب اور دو خواتین نے بھی یہی رویہ اپنایا تھا۔ جب کہ ایک سینئر خاتون پروفیسر نے بہترین کاپی پر بھی 45 سے زائد نمبر نہیں دیے تھے۔
تحقیق پر پتہ چلا کہ یہ تو ان کا پرانا کھیل ہے۔ لیکن۔۔۔۔ ''بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے'' کے مصداق کسی نے گرفت نہیں کی جب میں نے ان جونیئر اور سینئر کو ان کی غلطی کا احساس دلایا تو کوئی بھی غلطی ماننے کو تیار نہ تھا۔ نتیجہ یہ کہ تینوں جونیئر کی تحریری شکایات کنٹرولر کو کر دی گئی جس پر وہ شکر گزار ہوئے۔ لیکن سینئر خاتون پروفیسر کے ہاتھ لمبے تھے۔
شاید آج بھی ہیں۔ اور وہ تین اساتذہ جنھوں نے کاپیاں جانچنے کے نام پر اس مقدس پیشے پر دھبہ لگایا تھا، جنھیں پڑھانا نہیں آتا تھا ان میں سے دو پی ایچ ڈی کر چکے ہیں تا کہ تنخواہوں میں اضافہ ہو سکے اور ایک صاحبہ کالج کی پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ کاپیاں تو غالباً وہ اب بھی دیکھتی ہیں۔ کم وقت میں زیادہ کام۔ اب جب صورتحال ایسی خراب ہو کہ مارکس شیٹ بننے سے پہلے رشوت اور سفارش کی بنا پر ٹیبولیشن (TABULATION) کے وقت بھی کاری گری دکھائی جا سکتی ہو 15 کے 51 اور 18 کے 81 کر دیے جاتے ہوں وہاں مارکس شیٹ کی بنا پر داخلہ دینا بالکل غیر ذمے دارانہ رویہ ہے۔
بات ہم پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں کہ پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کا تناسب الگ الگ رکھنا چاہیے۔ انجینئرنگ اور ایم بی اے کی ڈگریاں لینے والی کتنی لڑکیاں فیلڈ میں آتی ہیں؟ اکثریت رشتوں کے انتظار میں گھر بیٹھی ہوتی ہیں اور وہ لڑکے جن کے نمبر کسی بھی وجہ سے کچھ کم تھے وہ خسارے میں رہتے ہیں۔ سرکاری جامعات اور کالجوں میں فیس کم ہوتی ہے۔ لیکن پرائیویٹ ادارے جو صرف اور صرف تجارتی بنیادوں پر ہر قسم کی ڈگریاں گھر بیٹھے بانٹ رہے ہیں ان کی وجہ سے یہ بگاڑ زیادہ پیدا ہوا ہے۔
جو سرعام جعلی ڈگریاں دے رہے ہیں انھیں تو سب جاننے لگے ہیں۔ لیکن میں ان یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کو بھی جعلی ہی کہوں گی جو بغیر طلبا کے کلاسوں میں آئے انھیں نہ صرف پوری حاضری دیتے ہیں بلکہ اور بھی بہت سی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ پیسہ پھینک تماشا دیکھ والا معاملہ ہے۔ یہ نام نہاد ڈگری لینے والوں کا کچا چٹھا ان انٹرویوز میں کھل جاتا ہے جو یہ ملازمتوں کے حصول کے لیے دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ذہنی استعداد فطری لگاؤ کو جانچنے کا کوئی آلہ نہیں ہے۔ لیکن اب خود والدین کو اور لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول سے پہلے اپنے فطری رجحان اور میلان طبع کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں اساتذہ بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
لیکن آخر میں اتنا ضرور کہوں گی کہ کسی انسان کو جانچنے کے لیے صرف ڈگری درکار نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ علم ضروری ہے۔ ڈگری یافتہ جاہلوں کے مقابلے میں وہ صاحب مطالعہ زیادہ قابل احترام ہیں جن کی قابلیت دیکھ کر رشک آتا ہے۔ لیکن عجیب صورتحال سے آج ہمارے نوجوان گزر رہے ہیں۔ جن کے رشتوں کو محض اس لیے رد کر دیا گیا کہ تعلیمی لحاظ سے لڑکی سے کم تھے۔ لیکن جب یہی لڑکے اپنی محنت اور قابلیت سے اچھے مقام اور عہدوں تک پہنچے تو رشتہ رد کرنے والے والدین کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا کہ ان کی بیٹی کی شادی کی عمر آئیڈیل اور معیار کے چکر میں نکل چکی تھی۔ سامنے اک دشت تنہائی تھا اور والدین کا افسوس کہ وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح نکلتا گیا اور انھیں خبر ہی نہ ہوئی۔
انسانی رشتے ڈگریوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ ایسی بھی بے شمار باہمت خواتین ہیں جنھوں نے شادی کے وقت نہ ڈگری کو معیار بنایا نہ اعلیٰ ملازمت کو اور حقیقی معنوں میں شریک حیات ہونے کا ثبوت دیا۔ زیادہ تر والدین داماد کی صورت بیٹی کے لیے ایک مزدور اور بوجھ اٹھانے والا جانور چاہتے ہیں۔ جو انھیں آسانی سے مل بھی جاتا ہے۔ اکیلا ہو کر ساری عمر روتے روتے گزارنے کے لیے۔
بنا کسی پلاننگ کے، بنا کسی فطری رجحان کے دھڑا دھڑ پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے لیے جا رہے ہیں۔ حق داروں کا حق مارا جا رہا ہے اور معاشرے میں بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد دن بہ دن تشویش ناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم بہت ضروری ہے لیکن وہ تعلیم جو ان کی عملی زندگی میں بھی کام آئے۔ جب سے پرائیویٹ یونیورسٹیاں کھمبیوں کی طرح پورے ملک میں پھیلی ہیں، تعلیمی معیار اسی حساب سے پست ہوا ہے۔ سرکاری کالجوں اور جامعات میں نمبروں کے تناسب سے داخلے ملتے ہیں۔ لیکن یہ نمبر جو مارکس شیٹ میں درج ہوتے ہیں، ان میں سے بیشتر سفارش اور پیسے کی بدولت 80 فیصد سے زیادہ ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں امتحانی کاپیوں کو جانچنے کا نظام انتہائی سطحی ہے۔ تین گھنٹے میں مزدوروں کی طرح دیہاڑی لگا کر 20کاپیاں دیکھنا، ایوارڈ لسٹ بنانا۔ یہ سب عموماً اس طرح ہوتا ہے کہ بیشتر اساتذہ صفحے کے صفحے بغیر پڑھے سرخ بال پوائنٹ سے مارک کرتے جاتے ہیں۔ بعض ایسے طالب علم جنھوں نے واقعی محنت کی ہوتی ہے لیکن جواب مختصر ہوتا ہے وہ کم نمبر حاصل کرتے ہیں اور جو بغیر پڑھے جواب میں صفحے کے صفحے سیاہ کرتے چلے جائیں وہ زیادہ نمبر حاصل کر لیتے ہیں۔ اندرون سندھ کے اساتذہ کا حال مت پوچھیے کہ وہاں معاملہ اتنا خراب ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ کتابیں کھول کر جواب نقل کرنا عام بات ہے۔
البتہ ڈپٹی ہیڈ ایگزامنر کی نظر ایسی کاپیوں پر پڑ جائے جن میں ''قابل'' اساتذہ نے صفحے گن کر نمبر دیے ہوں تو وہ پکڑ کر لیتا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا بہت کم ہے۔ اول تو پورے تین گھنٹے دو فی صد اساتذہ ہی دیتے ہیں۔ باقی کا وہی حال ہے جو سرکاری دفتروں اور اداروں کے کلرکوں کا۔ امتحانی بورڈ اور جامعات جب اساتذہ کو گھروں پہ کاپیاں جانچنے کا کام دیتے ہیں تو پوری طرح تباہی بھی کاپیوں کے بنڈلوں کے ساتھ باندھ کے دے دیتے ہیں۔ کچھ ''نام ور'' اساتذہ ایسے بھی ہیں جو امتحانی کاپیاں اپنے شاگردوں کو جانچنے کو دے دیتے ہیں۔
اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ان کاپیوں کو اپنی بیگم اور بچوں کو دے کر کہتے ہیں کہ ان صفحات پہ رائٹ (ٹک مارک) کا نشان لگاتے جاؤ۔ یہ قابل اساتذہ نمبروں کو پوسٹنگ پہلے کر دیتے ہیں اور صفحۂ اول پہ دیے گئے نمبروں کو ان کے کارندے بعد میں اندرونی صفحات پہ لکھتے ہیں۔ کئی بار مجھے ذاتی طور پر اس الم ناک صورتحال کا تجربہ اس وقت ہوا جب میں خود ڈپٹی ہیڈ اور ہیڈ ایگزامنر تھی۔ ایک صاحب نے 100 کاپیوں میں سے کسی کو بھی فیل نہیں کیا تھا اور 50 سے کم نمبر کسی کاپی میں نہیں تھے۔ دوسرے صاحب اور دو خواتین نے بھی یہی رویہ اپنایا تھا۔ جب کہ ایک سینئر خاتون پروفیسر نے بہترین کاپی پر بھی 45 سے زائد نمبر نہیں دیے تھے۔
تحقیق پر پتہ چلا کہ یہ تو ان کا پرانا کھیل ہے۔ لیکن۔۔۔۔ ''بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے'' کے مصداق کسی نے گرفت نہیں کی جب میں نے ان جونیئر اور سینئر کو ان کی غلطی کا احساس دلایا تو کوئی بھی غلطی ماننے کو تیار نہ تھا۔ نتیجہ یہ کہ تینوں جونیئر کی تحریری شکایات کنٹرولر کو کر دی گئی جس پر وہ شکر گزار ہوئے۔ لیکن سینئر خاتون پروفیسر کے ہاتھ لمبے تھے۔
شاید آج بھی ہیں۔ اور وہ تین اساتذہ جنھوں نے کاپیاں جانچنے کے نام پر اس مقدس پیشے پر دھبہ لگایا تھا، جنھیں پڑھانا نہیں آتا تھا ان میں سے دو پی ایچ ڈی کر چکے ہیں تا کہ تنخواہوں میں اضافہ ہو سکے اور ایک صاحبہ کالج کی پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ کاپیاں تو غالباً وہ اب بھی دیکھتی ہیں۔ کم وقت میں زیادہ کام۔ اب جب صورتحال ایسی خراب ہو کہ مارکس شیٹ بننے سے پہلے رشوت اور سفارش کی بنا پر ٹیبولیشن (TABULATION) کے وقت بھی کاری گری دکھائی جا سکتی ہو 15 کے 51 اور 18 کے 81 کر دیے جاتے ہوں وہاں مارکس شیٹ کی بنا پر داخلہ دینا بالکل غیر ذمے دارانہ رویہ ہے۔
بات ہم پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں کہ پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کا تناسب الگ الگ رکھنا چاہیے۔ انجینئرنگ اور ایم بی اے کی ڈگریاں لینے والی کتنی لڑکیاں فیلڈ میں آتی ہیں؟ اکثریت رشتوں کے انتظار میں گھر بیٹھی ہوتی ہیں اور وہ لڑکے جن کے نمبر کسی بھی وجہ سے کچھ کم تھے وہ خسارے میں رہتے ہیں۔ سرکاری جامعات اور کالجوں میں فیس کم ہوتی ہے۔ لیکن پرائیویٹ ادارے جو صرف اور صرف تجارتی بنیادوں پر ہر قسم کی ڈگریاں گھر بیٹھے بانٹ رہے ہیں ان کی وجہ سے یہ بگاڑ زیادہ پیدا ہوا ہے۔
جو سرعام جعلی ڈگریاں دے رہے ہیں انھیں تو سب جاننے لگے ہیں۔ لیکن میں ان یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کو بھی جعلی ہی کہوں گی جو بغیر طلبا کے کلاسوں میں آئے انھیں نہ صرف پوری حاضری دیتے ہیں بلکہ اور بھی بہت سی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ پیسہ پھینک تماشا دیکھ والا معاملہ ہے۔ یہ نام نہاد ڈگری لینے والوں کا کچا چٹھا ان انٹرویوز میں کھل جاتا ہے جو یہ ملازمتوں کے حصول کے لیے دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ذہنی استعداد فطری لگاؤ کو جانچنے کا کوئی آلہ نہیں ہے۔ لیکن اب خود والدین کو اور لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول سے پہلے اپنے فطری رجحان اور میلان طبع کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں اساتذہ بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
لیکن آخر میں اتنا ضرور کہوں گی کہ کسی انسان کو جانچنے کے لیے صرف ڈگری درکار نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ علم ضروری ہے۔ ڈگری یافتہ جاہلوں کے مقابلے میں وہ صاحب مطالعہ زیادہ قابل احترام ہیں جن کی قابلیت دیکھ کر رشک آتا ہے۔ لیکن عجیب صورتحال سے آج ہمارے نوجوان گزر رہے ہیں۔ جن کے رشتوں کو محض اس لیے رد کر دیا گیا کہ تعلیمی لحاظ سے لڑکی سے کم تھے۔ لیکن جب یہی لڑکے اپنی محنت اور قابلیت سے اچھے مقام اور عہدوں تک پہنچے تو رشتہ رد کرنے والے والدین کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا کہ ان کی بیٹی کی شادی کی عمر آئیڈیل اور معیار کے چکر میں نکل چکی تھی۔ سامنے اک دشت تنہائی تھا اور والدین کا افسوس کہ وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح نکلتا گیا اور انھیں خبر ہی نہ ہوئی۔
انسانی رشتے ڈگریوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ ایسی بھی بے شمار باہمت خواتین ہیں جنھوں نے شادی کے وقت نہ ڈگری کو معیار بنایا نہ اعلیٰ ملازمت کو اور حقیقی معنوں میں شریک حیات ہونے کا ثبوت دیا۔ زیادہ تر والدین داماد کی صورت بیٹی کے لیے ایک مزدور اور بوجھ اٹھانے والا جانور چاہتے ہیں۔ جو انھیں آسانی سے مل بھی جاتا ہے۔ اکیلا ہو کر ساری عمر روتے روتے گزارنے کے لیے۔