’’مدحت‘‘ اور احمد ندیم قاسمی کی نعت

’’مدحت‘‘ کے اس تازہ شمارے میں حسب معمول نئی حمدوں اور نعتوں کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کے حصے میں بہت اہم

Amjadislam@gmail.com

عزیز سرور نقشبندی اعلیٰ درجے کے نعت خواں اور نعت گو تو ہیں ہی مگر اب جو انھوں نے کچھ عرصہ سے ''مدحت'' کے نام سے حمد و نعت اور اس سے متعلق تحریروں پر مشتمل ایک خوبصورت اور وقیع جریدے کی اشاعت اور ادارت کا کام شروع کیا ہے تو یہ ان کی متنوع صلاحیتوں کا ایک ایسا اظہار ہے ۔

جس کی ضرورت بہت عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی کہ دین اور مذہب سے متعلق تحریروں پر مشتمل بیشتر رسائل بوجوہ کوئی ایسا منظرنامہ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں جن میں ادب، عقیدے اور ذاتی رجحانات کے درمیان توازن پایا جاتا ہو اور خالص ادبی حوالے سے تو دین سے متعلق ادب پر بہت ہی کم توجہ دی جاتی تھی۔

''مدحت'' کے اس تازہ شمارے میں حسب معمول نئی حمدوں اور نعتوں کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کے حصے میں بہت اہم اور معیاری مضامین کو جمع کیا گیا ہے مگر اس کی نمایاں ترین خوبی احمد ندیم قاسمی مرحوم کی نعت نگاری سے متعلق ایک خصوصی گوشہ ہے جسے ندیم صدی (نومبر 2015 تا 2016ء) کا ایک مبارک آغاز کہنا چاہیے کہ محبان ندیم پوری اردو دنیا میں قاسمی صاحب کے سو سالہ یوم پیدائش کے حوالے سے ایسی خصوصی تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں جو اس پورے سال میں مسلسل جاری رہیں گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیسویں صدی کے نعت اول میں جہاں مولانا حالی، علامہ اقبال، حفیظ جالندھری اور ظفر علی خان سمیت بہت سے شعرا، نے گلشن نعت میں طرح طرح کے پھول کھلائے ہیں۔ وہاں اس کے نصف آخر کے اہم نعت نگاروں میں دو نام سب سے زیادہ نمایاں ہیں وہ احمد ندیم قاسمی اور حفیظ تائب ہی کے ہیں۔

یوں تو نعت میں مناجات کا رنگ بہت ابتدا میں بھی پایا جاتا ہے لیکن

اے خاصۂ خاصانِ رسُل وقت دعا ہے
اُمت پہ تریؐ آ کے عجب وقت پڑا ہے

جیسی براہ راست مناجاتی کیفیت مولانا حالی کے یہاں جس شدت اور تواتر سے سامنے آئی یہ ایک نیا انداز تھا جس کا رشتہ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور اس کے مابعد اثرات سے جوڑا جا سکتا ہے اور جس کی بازگشت ہمیں کچھ حد تک قیام پاکستان کے دوران اٹھنے والی فسادات کی لہر اور پھر سقوط ڈھاکہ کے المیے کے دل خراش ردعمل میں بھی سنائی اور دکھائی دیتی ہے۔

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا

مضامین کے حصے میں ہمیں مضمون نگاروں میں اشفاق احمد، حفیظ تائب، شہزاد احمد، حافظ لدھیانوی اور ڈاکٹر شبیر احمد قادری سمیت کچھ اور اہم نام بھی نظر آتے ہیں لیکن میرے نزدیک اس گوشے کا سب سے قابل قدر کارنامہ وہ منظوم اظہار عقیدت ہے جس کے پیش کرنے والوں میں احسان دانش، اختر حسین جعفری، قتیل شفائی، پیر فضل گجراتی، مظفر داودی، حفیظ تائب، خالد احمد، عاصی کرنالی، نجیب احمد، عباس تابش، زاہد فخری، جمشید چشتی، فقیر امان اللہ خان اور سرور نقش بندی جیسے اہم نام شامل ہیں۔ ان احباب نے قاسمی صاحب اور ان کی نعت کو کس کس طرح سے سراہا ہے اس کی چند مثالیں کچھ یوں ہیں

کیسا فن کار ہے کیا خوب سخن ور ہے ندیمؔ
اک زمانے سے مری روح کے اندر ہے ندیمؔ
جب کہ اک کھیپ ہے انکار خدا پر مائلؔ
ایسے بحران میں مدّاحِ پیمبر ہے ندیمؔ
(احسان دانش)
شاہِ ادب کہوں کہ امیر سخن کہوں
فن کار کیا کہوں اسے اک عہد فن کہوں
(مظفر وارثی)

ہے آج کون صداقت نگار اس جیسا
وہ خوش مزاج بھی، خوش فکر بھی، حکم بھی ہے
(حفیظ تائب)
تری نعتیں بھی ترے دل کی طرح اُجلی ہیں
تجھ کو رحمت کا کوئی خاص اشارا ہے ندیمؔ
(زاہد فخری)
سرور نقش بندی نے ایک اور اچھا کام یہ کیا ہے کہ نعت کے انتخاب میں قاسمی صاحب کے مجموعہ نعت ''جمال'' کے بعد کی کہی ہوئی نعتوں کو بھی پیش نظر رکھا ہے جس سے ان کی نعت نگاری کی ایک مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ آخر میں انتخاب سے اخذ کردہ چند اشعار جو اس بابرکت میدان میں احمد ندیم قاسمی کی انفرادیت کے ترجمان ہیں۔
اے مرے شاہؐ شرق و غرب! نانِ جویں غذا تریؐ
اے مرے بوریا نشیں! سارا جہاں گدا تراؐ
دینا ہے ایک دشت تو گلزار آپؐ ہیں
اس تیرگی میں مطلع انوار آپؐ ہیں
دیکھ کر غار حرا سوچتا ہوں
کتنی بھر پور تھی خلوت انؐ کی
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایا تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا، ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
قصر و ایواں سے گزر جاتا ہے چپ چاپ ندیمؔ
در محمدؐ کا جب آئے تو صدا دیتا ہے
تیراؐ کردار ہے احکام خدا کی تائید
چلتا پھرتا، نظر آتا ہوا، قرآں توؐ ہے
قطرہ مانگے جو کوئی تو اسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اور نہ دے اپنی تمنا دے دے
وہ مری عقل میں ہے وہ مرے وجدان میں ہے
میری دنیا بھی وہی ہے، میرا عقبیٰ بھی وہی
قرآن پاک انؐ پہ اتارا گیا ندیمؔ
اور میں نے اپنے دل میں اتارا ہے انؐ کا نام
Load Next Story