انسان نما مچھر
2005 کا زلزلہ ہو یا گزرے برسوں کا سیلاب ہو، یا صحرائے تھر میں قحط اور معصوم بچوں کی رحلت ہو
اس ماہ صیام کے 4 روزے قیامت خیز تھے، روزِ حشر کا منظر یاد آرہا تھا، جب سورج سوا نیزے پر آجائے گا، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح بکھر جائیںگے اور دماغ کڑاہی میں کھولتے ہوئے تیل کی مانند کھولے گا، غرض ہر چیز فنا ہوجائے گی، جب یہ گرمی ناقابل برداشت ہوگئی ہے تو وہ دن، وہ گرمی کیسے برداشت ہوگی؟ جس دن نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ الامان، الامان۔
رمضان شروع ہوتے ہی گرمی کی حدت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ سانس لینا محال ہوگیا، ہر طرف ''ہو'' کا عالم، ہوا بند، تشنہ حلقوم، دن لمبے اور ان حالات میں کے الیکٹرک کی کرم نوازیاں، لوڈشیڈنگ نے رہی سہی کسر پوری کردی اور سانسیں گننے کی نوبت آگئی کہ نہ جانے کون سی سانس آخری ثابت ہو۔
ایک نہیں ہزاروں ذی نفس آخری سانس لینے پر مجبور ہوئے، سخت ترین گرمی، پانی اور بجلی کے بحران نے انھیں موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سلادیا، اتنے لوگ مرے کہ قبروں کے لیے جگہ کی کمی، ایدھی سینٹر اور دوسرے سرد خانوں میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوئی، نہلانے دھلانے اور تجہیز و تکفین میں مشکلات اور میت گاڑیوں کا حصول ناممکنات میں سے تھا۔ یہ آج کی کہانی نہیں ہے، بلکہ برسوں پرانی ہے جب کوئی آسمانی و سماوی آفت نازل ہوتی ہے، اسی طرح کی بے حسی اور سفاکی دیکھنے میں آتی ہے۔
2005 کا زلزلہ ہو یا گزرے برسوں کا سیلاب ہو، یا صحرائے تھر میں قحط اور معصوم بچوں کی رحلت ہو، یا پھر فیکٹریوں میں لگنے والی آگ ہو، پانی کی کمی، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں خراب، آلات ناکارہ، مشینری ٹوٹی پھوٹی، آفت زدہ لوگ آہ و فغاں کرتے ہیں لیکن عملے کی نااہلی اور بوقتِ ضرورت آلات کا نہ ہونا، ہزاروں جانوں کو لمحہ بھر میں لقمہ اجل میں بدل دیتا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں انسان کی حیثیت ایک مچھر سے بھی کم ہے، یہ انسان نما مچھر ہر ہر روز، ہر دن حکومت وقت اپنے ظلم کا اسپرے مہنگائی کی شکل میں، ٹیکس اور جعلی ادویات، بے روزگاری کی شکل میں کرتی ہے۔ اس غربت کی لکیر سے نیچے بلکہ مزید نیچے زندگی بسر کرنے والے اپنوں کے جنازوں کو دفناکر اپنے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔
ہلاکتیں خوب ہوتی ہیں بقا سے فنا کی طرف کا سفر جاری رہتا ہے۔ یہ مچھر نما لوگ بے حد کسمپرسی کی حالت میں، بھوک و افلاس کے جہنم سے گزرتے ہوئے اپنے خالق سے جا ملتے ہیں، ایسا روز ہوتا ہے، حادثوں کی شکل میں، سانحوں کی شکل میں، کوئی پرسان حال نہیں، مقتدر حضرات چھٹیاں گزارنے ٹھنڈے ملکوں کا سفر کرتے ہیں، دو تین ماہ عیش و عشرت سے گزارتے ہیں کہ ان کے لیے دنیا ہی جنت ہے، انھوں نے جنت مانگی انھیں جنت مل گئی، دینے والے سے جو مانگا جائے وہ مل جاتا ہے، دین و دنیا مانگیں تو اﷲ دین و دنیا دے گا، چوںکہ مانگنے والا اپنے لیے وہی راستے تلاش کرتا ہے جہاں سے گوہر مقصود ہاتھ آجائے۔
گئے دنوں میں بھی بیرون ملک کے ماہرین نے پاکستانیوں کی مدد کی۔ انھیں ملبوں، پتھروں کے نیچے سے نکالا تھا، ہر موقع پر تعاون کیا اور آج پھر اقوام متحدہ نے ہیٹ اسٹروک سے نمٹنے کے لیے معاونت کرنے کے لیے کہا ہے۔ قابل افسوس یہ بات ہے کہ پاکستان اور خصوصاً سندھ کے حکمران اپنے ذاتی مفاد اور تعیش پرستی کے لیے اقتدار میں آتے ہیں اور سندھ پر حکومت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، دولت کے حصول کے لیے تمام اداروں کو خاک میں ملادیا گیا ہے، ملک کو اربوں کا مقروض کردیاگیا، معزز، تعلیم یافتہ اور اعلیٰ خاندان کے لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، بروقت تنخواہیں نہ ملنے کا الگ عذاب ہے۔
چھوٹی موٹی تجارت کرنے والے، سودا سلف فروخت کرنے والے، بھتہ دینے پر مجبور ہیں، ایک غریب رکشہ ڈرائیور نے بتایا، پورا دن چنگ چی رکشہ چلانے پر سے صرف 200 روپے ملتے ہیں، چار سو رکشے کا مالک لے لیتا ہے اور ڈیڑھ سو روپے سڑک کا بھتہ دینا پڑتا ہے، سڑک کا بھتہ؟ کتنی حیران کن بات ہے وہ وقت دور نہیں جب بڑھتی ہوئی زندگی کا بھتہ نما ''ٹیکس'' بھی لگ جائے گا کہ بیٹا! تو اتنا لمبا کیوں جی رہا ہے؟
کراچی میں اس قدر اموات ہوئیں کہ گورکن قبریں کھودتے کھودتے گرمی سے نڈھال ہوکر بے ہوش ہوگئے، ان میں سے بہت سے لوگ سخت بیمار ہوگئے، ساتھ میں قبرستانوں میں سیمنٹ، بجری کی بھی کمی ہوگئی جس کی وجہ سے تدفین میں تاخیر ہوتی چلی گئی اور میت کے ساتھ آنے والوں کا بھی برا حال ہوا، حکومت کسی بھی جگہ نظر نہیں آتی ہے، سوائے کرسیوں کے۔ اب وہ پارلیمنٹ کی کرسیاں ہوں یا وزارت و بادشاہت کی، کرسیوں پر بیٹھنے، اپنی شان دکھانے کا چسکا ایسا پڑا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، لیکن خاطر جمع رکھو وہ وقت دور نہیں جب اقتدار کا نشہ اترے گا اور تخت و تاج اچھالے جائیںگے، مرنے والوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
تقریباً دو ہزار سے زیادہ لوگوں کے مرنے کے بعد بھی غیر ذمے دارانہ رویہ حکومت اور کے ای کا عروج پر ہے، کے ای نے تو حد ہی کردی ہے۔ پیسہ کمانے کا فن یہ ادارہ خوب جانتا ہے جب کہ لوگوں کو اندھیروں میں دھکیل دیتاہے اور اب تو موت کا کھیل بھی صبح و شام کھیلا جارہاہے دن اور رات میں بارہا بجلی جاتی ہے، آتی ہے کہ زندگی گزارنا مشکل ترین ہوگیا ہے انھیں اس بات کا قطعی احساس نہیں کہ ان کی اس دل لگی نے لوگوں کے گھر، آنگن، شہر، بازار، گلی کوچوں میں حشر برپا کردیا ہے، ساتھ میں واٹر بورڈ کی نا اہلی کہ نہ زندوں کے لیے پانی اور نہ مرنے والوں کے لیے۔ کس طرح اندھیرے اور بنا پانی کے اپنے مردوں کو سفرِ آخرت پر روانہ کیا جائے؟ کس طرح زندگی کے امور نمٹائے جائیں، رشوت اور ناجائز ذرائع سے دولت کا حصول ان اداروں کا اصل مقصد ہے۔
لیکن افسوس سندھ کا سب سے خوبصورت اور بڑا شہر جسے منی پاکستانی کہا جاتا ہے اس شہر کراچی کا حسن لٹیروں نے لوٹ لیا ہے۔ اور اسے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے اب کوڑا کرکٹ، کچرا ہر سمت نظر آتا ہے، بدبو، فضا میں رچ بس گئی ہے، سڑکیں ویران ہیں، بسیں غائب ہیں، ہر 6ماہ بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ تسلیاں دیتے ہیں کہ جلد سے جلد مسافروں کے لیے بسیں (مرمت کرنے کے بعد) سڑکوں پر آجائیںگی۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ کیا یہ حکومت صرف اور صرف ایک ہی کام کرنے آئی ہے۔ اور وہ کام کیا ہے ؟ یہ سب جانتے ہیں۔
رمضان شروع ہوتے ہی گرمی کی حدت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ سانس لینا محال ہوگیا، ہر طرف ''ہو'' کا عالم، ہوا بند، تشنہ حلقوم، دن لمبے اور ان حالات میں کے الیکٹرک کی کرم نوازیاں، لوڈشیڈنگ نے رہی سہی کسر پوری کردی اور سانسیں گننے کی نوبت آگئی کہ نہ جانے کون سی سانس آخری ثابت ہو۔
ایک نہیں ہزاروں ذی نفس آخری سانس لینے پر مجبور ہوئے، سخت ترین گرمی، پانی اور بجلی کے بحران نے انھیں موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سلادیا، اتنے لوگ مرے کہ قبروں کے لیے جگہ کی کمی، ایدھی سینٹر اور دوسرے سرد خانوں میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوئی، نہلانے دھلانے اور تجہیز و تکفین میں مشکلات اور میت گاڑیوں کا حصول ناممکنات میں سے تھا۔ یہ آج کی کہانی نہیں ہے، بلکہ برسوں پرانی ہے جب کوئی آسمانی و سماوی آفت نازل ہوتی ہے، اسی طرح کی بے حسی اور سفاکی دیکھنے میں آتی ہے۔
2005 کا زلزلہ ہو یا گزرے برسوں کا سیلاب ہو، یا صحرائے تھر میں قحط اور معصوم بچوں کی رحلت ہو، یا پھر فیکٹریوں میں لگنے والی آگ ہو، پانی کی کمی، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں خراب، آلات ناکارہ، مشینری ٹوٹی پھوٹی، آفت زدہ لوگ آہ و فغاں کرتے ہیں لیکن عملے کی نااہلی اور بوقتِ ضرورت آلات کا نہ ہونا، ہزاروں جانوں کو لمحہ بھر میں لقمہ اجل میں بدل دیتا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں انسان کی حیثیت ایک مچھر سے بھی کم ہے، یہ انسان نما مچھر ہر ہر روز، ہر دن حکومت وقت اپنے ظلم کا اسپرے مہنگائی کی شکل میں، ٹیکس اور جعلی ادویات، بے روزگاری کی شکل میں کرتی ہے۔ اس غربت کی لکیر سے نیچے بلکہ مزید نیچے زندگی بسر کرنے والے اپنوں کے جنازوں کو دفناکر اپنے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔
ہلاکتیں خوب ہوتی ہیں بقا سے فنا کی طرف کا سفر جاری رہتا ہے۔ یہ مچھر نما لوگ بے حد کسمپرسی کی حالت میں، بھوک و افلاس کے جہنم سے گزرتے ہوئے اپنے خالق سے جا ملتے ہیں، ایسا روز ہوتا ہے، حادثوں کی شکل میں، سانحوں کی شکل میں، کوئی پرسان حال نہیں، مقتدر حضرات چھٹیاں گزارنے ٹھنڈے ملکوں کا سفر کرتے ہیں، دو تین ماہ عیش و عشرت سے گزارتے ہیں کہ ان کے لیے دنیا ہی جنت ہے، انھوں نے جنت مانگی انھیں جنت مل گئی، دینے والے سے جو مانگا جائے وہ مل جاتا ہے، دین و دنیا مانگیں تو اﷲ دین و دنیا دے گا، چوںکہ مانگنے والا اپنے لیے وہی راستے تلاش کرتا ہے جہاں سے گوہر مقصود ہاتھ آجائے۔
گئے دنوں میں بھی بیرون ملک کے ماہرین نے پاکستانیوں کی مدد کی۔ انھیں ملبوں، پتھروں کے نیچے سے نکالا تھا، ہر موقع پر تعاون کیا اور آج پھر اقوام متحدہ نے ہیٹ اسٹروک سے نمٹنے کے لیے معاونت کرنے کے لیے کہا ہے۔ قابل افسوس یہ بات ہے کہ پاکستان اور خصوصاً سندھ کے حکمران اپنے ذاتی مفاد اور تعیش پرستی کے لیے اقتدار میں آتے ہیں اور سندھ پر حکومت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، دولت کے حصول کے لیے تمام اداروں کو خاک میں ملادیا گیا ہے، ملک کو اربوں کا مقروض کردیاگیا، معزز، تعلیم یافتہ اور اعلیٰ خاندان کے لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، بروقت تنخواہیں نہ ملنے کا الگ عذاب ہے۔
چھوٹی موٹی تجارت کرنے والے، سودا سلف فروخت کرنے والے، بھتہ دینے پر مجبور ہیں، ایک غریب رکشہ ڈرائیور نے بتایا، پورا دن چنگ چی رکشہ چلانے پر سے صرف 200 روپے ملتے ہیں، چار سو رکشے کا مالک لے لیتا ہے اور ڈیڑھ سو روپے سڑک کا بھتہ دینا پڑتا ہے، سڑک کا بھتہ؟ کتنی حیران کن بات ہے وہ وقت دور نہیں جب بڑھتی ہوئی زندگی کا بھتہ نما ''ٹیکس'' بھی لگ جائے گا کہ بیٹا! تو اتنا لمبا کیوں جی رہا ہے؟
کراچی میں اس قدر اموات ہوئیں کہ گورکن قبریں کھودتے کھودتے گرمی سے نڈھال ہوکر بے ہوش ہوگئے، ان میں سے بہت سے لوگ سخت بیمار ہوگئے، ساتھ میں قبرستانوں میں سیمنٹ، بجری کی بھی کمی ہوگئی جس کی وجہ سے تدفین میں تاخیر ہوتی چلی گئی اور میت کے ساتھ آنے والوں کا بھی برا حال ہوا، حکومت کسی بھی جگہ نظر نہیں آتی ہے، سوائے کرسیوں کے۔ اب وہ پارلیمنٹ کی کرسیاں ہوں یا وزارت و بادشاہت کی، کرسیوں پر بیٹھنے، اپنی شان دکھانے کا چسکا ایسا پڑا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، لیکن خاطر جمع رکھو وہ وقت دور نہیں جب اقتدار کا نشہ اترے گا اور تخت و تاج اچھالے جائیںگے، مرنے والوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
تقریباً دو ہزار سے زیادہ لوگوں کے مرنے کے بعد بھی غیر ذمے دارانہ رویہ حکومت اور کے ای کا عروج پر ہے، کے ای نے تو حد ہی کردی ہے۔ پیسہ کمانے کا فن یہ ادارہ خوب جانتا ہے جب کہ لوگوں کو اندھیروں میں دھکیل دیتاہے اور اب تو موت کا کھیل بھی صبح و شام کھیلا جارہاہے دن اور رات میں بارہا بجلی جاتی ہے، آتی ہے کہ زندگی گزارنا مشکل ترین ہوگیا ہے انھیں اس بات کا قطعی احساس نہیں کہ ان کی اس دل لگی نے لوگوں کے گھر، آنگن، شہر، بازار، گلی کوچوں میں حشر برپا کردیا ہے، ساتھ میں واٹر بورڈ کی نا اہلی کہ نہ زندوں کے لیے پانی اور نہ مرنے والوں کے لیے۔ کس طرح اندھیرے اور بنا پانی کے اپنے مردوں کو سفرِ آخرت پر روانہ کیا جائے؟ کس طرح زندگی کے امور نمٹائے جائیں، رشوت اور ناجائز ذرائع سے دولت کا حصول ان اداروں کا اصل مقصد ہے۔
لیکن افسوس سندھ کا سب سے خوبصورت اور بڑا شہر جسے منی پاکستانی کہا جاتا ہے اس شہر کراچی کا حسن لٹیروں نے لوٹ لیا ہے۔ اور اسے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے اب کوڑا کرکٹ، کچرا ہر سمت نظر آتا ہے، بدبو، فضا میں رچ بس گئی ہے، سڑکیں ویران ہیں، بسیں غائب ہیں، ہر 6ماہ بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ تسلیاں دیتے ہیں کہ جلد سے جلد مسافروں کے لیے بسیں (مرمت کرنے کے بعد) سڑکوں پر آجائیںگی۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ کیا یہ حکومت صرف اور صرف ایک ہی کام کرنے آئی ہے۔ اور وہ کام کیا ہے ؟ یہ سب جانتے ہیں۔