خیرات صدقات اور نذر نیازیں
پاکستان میں بیت المال کا ادارہ بھی قایم ہے۔ جہاں باقاعدگی سے زکوٰۃ کی رقم جمع کی جاتی ہے۔
GUJRANWALA:
اسلام میں انسانی خیر خواہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے مسلمانوں پر مستحقین میں خیرات و صدقات تقسیم کرنا ان پر فرض کیا گیا ہے۔چنانچہ اس مہینے میں مسلمان دل کھول کر اس پر عمل کرتے ہیں۔جیسے میں پہلے عرض کرچکی ہوں ہر مذہب میں انسانی خیر خواہی ہی کا پیغام ملتا ہے۔
لیکن اسلام میں ہر لحاظ سے اس کی خاص ہدایت دی گئی ہے۔بلکہ یہ سمجھیں اسلام کا اہم نقطہ ہی انسانیت پر قایم ہے۔مستحق،کمزور اور یتیموں کی مدد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ایسے معاشرے میں بھلا غربت، کسمپرسی اور انسانی استحصال کا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے۔گو اس عمل کو ماہِ رمضان یا کسی خاص اسلامی دن تک محدود نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس میں ایک صحت مند اور مستحکم معاشی معاشرہ قایم کرنے کا تصور ملتا ہے۔ اس مرتبہ ماہِ رمضان میں صدقات اور خیرات کا وہی عمل و تسلسل دیکھنے میں آیا۔ بلکہ وقت کے ساتھ اس میںخاصی پیش رفت دکھائی دی۔
ایک خاتون تو خاصی پریشان دکھائی دیں۔ کہنے لگیں میں ایک ایسے علاقے میں رہتی ہوں جہاں زیادہ تر امیرافراد رہایش پزیر ہیں۔ یہ رمضان اور عید کے لیے لوگوں کو لاتعداد خیرات دے رہے ہیں۔ میں نے کہا اسلام میں تو اس کا حکم ہر مسلمان کے لیے ہے۔ وہ پریشانی سے بولیں جی ہاں ہے تو۔لیکن اپنی حیثیت کے مطابق ہے ۔میری صفائی والی خاتون ،مالی اور ڈرائیور ساتھ کے گھر سے بارہ ہزار روپے اور ایک مہینے کا راشن لے کر آئے ہیں۔ مجھ سے بھی یہی امید کر رہے ہیں۔لیکن میں تو یہ اخراجات برداشت نہیں کرسکتی۔اسلام تو انسانیت کا دین ہے اس میں بہت لچک ہے۔
یہ لوگوں کو مشکلات میں نہیں ڈالتا بلکہ لوگوں کی مشکلات حل کرتا ہے۔ حج بھی تو مسلمانوں پر فرض ہے۔ لیکن اگر کوئی اس کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا اُسے قرض لے کر حج کرنے کا نہیں کہا گیا۔ حج ہر مسلمان کے لیے اُس وقت فرض ہے۔ جب وہ اپنی تمام اہم ذمے داریاں سے فارغ ہوجائے۔ خیرات صدقات اور نذرنیازوں کا سلسلہ دراصل انسانی اور معاشرتی اقتصادی ترقی کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔
آج کے دور جدید میں تمام ترقی یافتہ ممالک میں مختلف افراد کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو تقویت دینے اور انھیں معاشی طور پر مستحکم کر نے کے لیے ایسے ادارے اور این جی اوز کام کر رہے ہیں جو انھیں کامیاب زندگی گزارنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اسلام میں لوگوں کی اس فلاح و بہود کا تصور چودہ سو برس قبل دیا گیا ہے۔ اچھا ہو اگر ہمارے ملک میں صدقات و خیرات کایہ طریقہ کار بھی ایسی تنظیم کی شکل میں اختیار کر کے قریہ قریہ گاؤں میں عوامی اسکولوں اور اسپتالوں کی شکل میں پھیلا دیا جائے ۔
اسلام میں اجتہادکا تصور موجود ہے۔جہاں انسانیت کی بقا اور ترقی کے لیے صدقات اور خیرات کی رقم کو اہم قومی اور ملکی ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک کے اُولیائے کرام کے مزاروں اور درگاہوں پر ان کے عقیدت مند منتوں مرادوں کے طور پر بے بہا رقم جمع کرواتے رہتے ہیں۔ یہ رقم لاکھوں کروڑوں روپے کی شکل میں جمع ہوجاتی ہے جو یہاں کے مجاوروں اور وارثوں کے ہاتھ آتی ہے۔ وہ اس رقم کا کیا کرتے ہیں؟اسے کہاں استعمال کیا جاتا ہے اسکا آجتک کسی کو علم نہیں ہوسکا؟ ایران میں امام رضا کے روضے پر جمع ہونے والے صدقات اس ملک کی ترقی کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بیت المال کا ادارہ بھی قایم ہے۔ جہاں باقاعدگی سے زکوٰۃ کی رقم جمع کی جاتی ہے۔زکوٰۃ کو غریب غربا، یتیموں اور بیواؤں کی معاشی مدد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
شہر لاہور میں بھی مزاروں پر بے شمار عقیدت مندوں کا تانتا رہتا ہے۔ یہاں بھی نذر نیازوں اور منتوں مرادوں کا بے شمار روپیہ جمع ہوتا رہتا ہے ۔ اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ یہ بھی کوئی نہیں جانتا؟حضرت علی ہجویریؒ کے مزار کے ساتھ مستحقین کے لیے ایک اسپتال تعمیر کیا گیا ہے۔
ہر روز غربا اور فقراکو یہاں مفت کھانا کھلایا جاتا ہے۔ یہاں عقیدت مند داتا کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہونے دیتے۔ ایک اندازے کے مطابق مزارات کی روزانہ کی آمدن سے کم ازکم پنجاب کے علاقے میںلوگوں کی فلاح و بہود اور تعمیر و ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ کاش لوگ حضرت علی ہجویریؒ کی مشہور کتاب کشف المحجوب سے بھی مستفید ہو سکتے ۔ ہمارے ملک میں خیرات اور صدقات سے لوگوں کی مہینے بھر کی معاشی امداد انھیں ترقی یافتہ باشعور شہری نہیں بنا سکتی۔ بلکہ ان ذریعے کو بروئے کارلاتے ہوئے یہاں لوگوں کو تعلیم یافتہ صحت مند معاشرے کا رکن بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اسلام میں انسانی خیر خواہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے مسلمانوں پر مستحقین میں خیرات و صدقات تقسیم کرنا ان پر فرض کیا گیا ہے۔چنانچہ اس مہینے میں مسلمان دل کھول کر اس پر عمل کرتے ہیں۔جیسے میں پہلے عرض کرچکی ہوں ہر مذہب میں انسانی خیر خواہی ہی کا پیغام ملتا ہے۔
لیکن اسلام میں ہر لحاظ سے اس کی خاص ہدایت دی گئی ہے۔بلکہ یہ سمجھیں اسلام کا اہم نقطہ ہی انسانیت پر قایم ہے۔مستحق،کمزور اور یتیموں کی مدد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ایسے معاشرے میں بھلا غربت، کسمپرسی اور انسانی استحصال کا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے۔گو اس عمل کو ماہِ رمضان یا کسی خاص اسلامی دن تک محدود نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس میں ایک صحت مند اور مستحکم معاشی معاشرہ قایم کرنے کا تصور ملتا ہے۔ اس مرتبہ ماہِ رمضان میں صدقات اور خیرات کا وہی عمل و تسلسل دیکھنے میں آیا۔ بلکہ وقت کے ساتھ اس میںخاصی پیش رفت دکھائی دی۔
ایک خاتون تو خاصی پریشان دکھائی دیں۔ کہنے لگیں میں ایک ایسے علاقے میں رہتی ہوں جہاں زیادہ تر امیرافراد رہایش پزیر ہیں۔ یہ رمضان اور عید کے لیے لوگوں کو لاتعداد خیرات دے رہے ہیں۔ میں نے کہا اسلام میں تو اس کا حکم ہر مسلمان کے لیے ہے۔ وہ پریشانی سے بولیں جی ہاں ہے تو۔لیکن اپنی حیثیت کے مطابق ہے ۔میری صفائی والی خاتون ،مالی اور ڈرائیور ساتھ کے گھر سے بارہ ہزار روپے اور ایک مہینے کا راشن لے کر آئے ہیں۔ مجھ سے بھی یہی امید کر رہے ہیں۔لیکن میں تو یہ اخراجات برداشت نہیں کرسکتی۔اسلام تو انسانیت کا دین ہے اس میں بہت لچک ہے۔
یہ لوگوں کو مشکلات میں نہیں ڈالتا بلکہ لوگوں کی مشکلات حل کرتا ہے۔ حج بھی تو مسلمانوں پر فرض ہے۔ لیکن اگر کوئی اس کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا اُسے قرض لے کر حج کرنے کا نہیں کہا گیا۔ حج ہر مسلمان کے لیے اُس وقت فرض ہے۔ جب وہ اپنی تمام اہم ذمے داریاں سے فارغ ہوجائے۔ خیرات صدقات اور نذرنیازوں کا سلسلہ دراصل انسانی اور معاشرتی اقتصادی ترقی کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔
آج کے دور جدید میں تمام ترقی یافتہ ممالک میں مختلف افراد کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو تقویت دینے اور انھیں معاشی طور پر مستحکم کر نے کے لیے ایسے ادارے اور این جی اوز کام کر رہے ہیں جو انھیں کامیاب زندگی گزارنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اسلام میں لوگوں کی اس فلاح و بہود کا تصور چودہ سو برس قبل دیا گیا ہے۔ اچھا ہو اگر ہمارے ملک میں صدقات و خیرات کایہ طریقہ کار بھی ایسی تنظیم کی شکل میں اختیار کر کے قریہ قریہ گاؤں میں عوامی اسکولوں اور اسپتالوں کی شکل میں پھیلا دیا جائے ۔
اسلام میں اجتہادکا تصور موجود ہے۔جہاں انسانیت کی بقا اور ترقی کے لیے صدقات اور خیرات کی رقم کو اہم قومی اور ملکی ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک کے اُولیائے کرام کے مزاروں اور درگاہوں پر ان کے عقیدت مند منتوں مرادوں کے طور پر بے بہا رقم جمع کرواتے رہتے ہیں۔ یہ رقم لاکھوں کروڑوں روپے کی شکل میں جمع ہوجاتی ہے جو یہاں کے مجاوروں اور وارثوں کے ہاتھ آتی ہے۔ وہ اس رقم کا کیا کرتے ہیں؟اسے کہاں استعمال کیا جاتا ہے اسکا آجتک کسی کو علم نہیں ہوسکا؟ ایران میں امام رضا کے روضے پر جمع ہونے والے صدقات اس ملک کی ترقی کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بیت المال کا ادارہ بھی قایم ہے۔ جہاں باقاعدگی سے زکوٰۃ کی رقم جمع کی جاتی ہے۔زکوٰۃ کو غریب غربا، یتیموں اور بیواؤں کی معاشی مدد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
شہر لاہور میں بھی مزاروں پر بے شمار عقیدت مندوں کا تانتا رہتا ہے۔ یہاں بھی نذر نیازوں اور منتوں مرادوں کا بے شمار روپیہ جمع ہوتا رہتا ہے ۔ اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ یہ بھی کوئی نہیں جانتا؟حضرت علی ہجویریؒ کے مزار کے ساتھ مستحقین کے لیے ایک اسپتال تعمیر کیا گیا ہے۔
ہر روز غربا اور فقراکو یہاں مفت کھانا کھلایا جاتا ہے۔ یہاں عقیدت مند داتا کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہونے دیتے۔ ایک اندازے کے مطابق مزارات کی روزانہ کی آمدن سے کم ازکم پنجاب کے علاقے میںلوگوں کی فلاح و بہود اور تعمیر و ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ کاش لوگ حضرت علی ہجویریؒ کی مشہور کتاب کشف المحجوب سے بھی مستفید ہو سکتے ۔ ہمارے ملک میں خیرات اور صدقات سے لوگوں کی مہینے بھر کی معاشی امداد انھیں ترقی یافتہ باشعور شہری نہیں بنا سکتی۔ بلکہ ان ذریعے کو بروئے کارلاتے ہوئے یہاں لوگوں کو تعلیم یافتہ صحت مند معاشرے کا رکن بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔