پیپلز پارٹی نے ضمنی الیکشن کے امیدواروں کو بے آسرا چھوڑ دیا
ضمنی الیکشن لڑنے والے زیادہ تر امیدواروں کا شمار پیپلزپارٹی کے بانی سیاسی گھرانوں میں ہوتا ہے
دوہری شہریت کی بنا پر نااہلی کے باعث وسطی پنجاب میں 2 قومی اور6 صوبائی حلقوں میں ضمنی الیکشن ہورہا ہے، ان کے نتائج آئندہ عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوں گے۔
پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ(ق) کے ساتھ انتخابی ایڈجسٹمنٹ کے تحت ایک قومی اور چار صوبائی حلقوں میں امیدوار نامزد کئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے یہ امیدوار اپنے وسائل اور ذاتی اثرو رسوخ سے انتخابی مہم چلارہے ہیں اور پارٹی نے انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، وہ اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں، پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت میں سے کوئی ان کے ساتھ الیکشن کے حوالے سے رابطے میں نہیں ہے۔ ضمنی الیکشن لڑنے والے زیادہ تر امیدواروں کا شمار پیپلزپارٹی کے بانی سیاسی گھرانوں میں ہوتا ہے۔ وہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔
مسلم لیگ (ق) ضمنی الیکشن میں اپنے امیدواروں کی بھرپور سرپرستی کررہی ہے ۔ نائب وزیراعظم چودھری پرویز الٰہی اور چودھری مونس الٰہی اپنے امیدواروں سے رابطے میں ہیں اور ان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کررہے ہیں۔ وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے امیدواروں کا الیکشن لڑرہے ہیںاور مقامی سطح پر اپنی پارٹی کے دھڑوں کو پوری طرح متحرک کررہے ہیں۔ صدر زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نے گورنر ہاؤس لاہور میں گورنر ، وفاقی وزراء اور دیگر پارٹی رہنماؤں کی موجودگی میں امیدواروں سے ملاقات کی اور انہیں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس کے باوجود کسی اہم پارٹی عہدیدار نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
اس صورتحال کو دیکھ کر جن دو امیدواروں کے پاس دوسری جگہ آپشن تھی وہ پارٹی چھوڑ گئے۔ این اے 162 ساہیوال سے پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی زاہد اقبال بھی گورنر ہاؤس میں فریال تالپور سے ملاقات کرنے والوں میں تھے۔ وہ اس ملاقات کے بعد اپنی برطانوی شہریت سرنڈر کرنے کیلئے لندن گئے اور واپس آکر وزیراعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کرکے مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئے۔ زاہدا قبال 2002ء میں پی پی 224ساہیوال سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر تھے مگر وہ الیکشن ہار گئے اور 2008ء میں این اے 162سے قومی اسمبلی کے امیدوار بن گئے حالانکہ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سابق وزیر مملکت مہر غلام فرید کاٹھیا رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔
وہ 1990ء اور 1993ء میں بھی اس حلقے سے ایم این اے رہ چکے ہیں اور 1977ء میں بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔کاٹھیافیملی کو 1951ء میں بھی اس علاقے سے نمائندگی حاصل رہی۔غلام فرید کاٹھیا اس وقت پیپلزپارٹی کے ڈویژنل کوآرڈینیٹر اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی بشیر ریاض کی سفارش پر زاہد اقبال کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا مگر اب وہ آخری وقت پر پارٹی چھوڑ گئے۔ زاہد اقبال نے بشیر ریاض کے ساتھ تعلق کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا اور وہ بشیر ریاض سے بھی رابطے میں نہیں رہے تھے۔ غلام فرید کاٹھیا بے نظیر بھٹو کے حکم پر اپنے آبائی حلقے سے دستبردار ہوگئے اور دوسرے حلقے سے الیکشن لڑا۔ زاہدا قبال نے آخری وقت تک یہ تاثر دیا کہ وہ پارٹی چھوڑ کر نہیں جارہے جس پر پیپلزپارٹی کے ایم پی اے شہزاد سعید چیمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے۔ مہر غلا م فرید کاٹھیا کو صورتحال کا اندازہ تھا، اس لئے انہوں نے اپنے بیٹے علی فرید کاٹھیا کے اس حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیئے۔ اب پارٹی قیادت نے علی فرید کاٹھیا کو اس حلقے سے ٹکٹ دے دیا ہے ۔
پی پی 133نارووال میں بھی اس قسم کی صورتحال ہے۔ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر مولانا غیاث الدین پارٹی چھوڑ کر انور عزیز گروپ میں شامل ہوگئے ہیں ۔ سابق وزیرمملکت طارق انیس کے بھتیجے عمر شریف اب اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے اس حلقے سے ڈاکٹر طاہر علی جاوید کے والد نعمت اﷲ کو ٹکٹ دیا ہے۔ سیالکوٹ شہر کے حلقہ پی پی 122میں پیپلزپارٹی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات راجہ عامر خاں اور پی پی 144 لاہور میں پیپلزپارٹی کے ڈسٹرکٹ صدر زاہد ذوالفقارخاں نے بھرپور انتخابی مہم شروع کردی ہے۔
راجہ عامر خان این اے 110سیالکوٹ سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر رہ چکے ہیں۔ ان کے والد محمد اکرم خان اپنے مقامی اثرو رسوخ سے ضیاء الحق دور میں بھی بلدیہ سیالکوٹ کے سربراہ منتخب ہوگئے تھے، وہ مشکل وقت میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ پی پی 144 لاہور پیپلزپارٹی کیلئے اچھا رہاہے۔ 1988ء میں خالد لطیف کاردار 1993ء میں سابق سپیکر محمد حنیف رامے بھی اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے ۔ زاہد ذوالفقارخاں 2008ء میں اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔ وہ کئی بار اس علاقے سے کونسلر بھی رہے اور پیپلزپارٹی کی جانب سے میئر لاہور کا الیکشن بھی لڑچکے ہیں۔
پی پی 92 گوجرانولہ سے پیپلزپارٹی کے سٹی صدر لالہ اسد اللہ پاپا امیدوار ہیں ۔ پیپلز پارٹی 2008 ء میں اس حلقے سے صرف 840ووٹوں سے الیکشن ہار گئی تھی۔ پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے ضمنی الیکشن میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اعلیٰ قیادت براہ راست پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم کی نگرانی کرے،اگر امیدوار نامزد کرکے انہیں بھول جانے کی پالیسی برقرار رہی تو پھر نتائج تو سب کے سامنے ہیں۔
پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ(ق) کے ساتھ انتخابی ایڈجسٹمنٹ کے تحت ایک قومی اور چار صوبائی حلقوں میں امیدوار نامزد کئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے یہ امیدوار اپنے وسائل اور ذاتی اثرو رسوخ سے انتخابی مہم چلارہے ہیں اور پارٹی نے انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، وہ اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں، پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت میں سے کوئی ان کے ساتھ الیکشن کے حوالے سے رابطے میں نہیں ہے۔ ضمنی الیکشن لڑنے والے زیادہ تر امیدواروں کا شمار پیپلزپارٹی کے بانی سیاسی گھرانوں میں ہوتا ہے۔ وہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔
مسلم لیگ (ق) ضمنی الیکشن میں اپنے امیدواروں کی بھرپور سرپرستی کررہی ہے ۔ نائب وزیراعظم چودھری پرویز الٰہی اور چودھری مونس الٰہی اپنے امیدواروں سے رابطے میں ہیں اور ان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کررہے ہیں۔ وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے امیدواروں کا الیکشن لڑرہے ہیںاور مقامی سطح پر اپنی پارٹی کے دھڑوں کو پوری طرح متحرک کررہے ہیں۔ صدر زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نے گورنر ہاؤس لاہور میں گورنر ، وفاقی وزراء اور دیگر پارٹی رہنماؤں کی موجودگی میں امیدواروں سے ملاقات کی اور انہیں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس کے باوجود کسی اہم پارٹی عہدیدار نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
اس صورتحال کو دیکھ کر جن دو امیدواروں کے پاس دوسری جگہ آپشن تھی وہ پارٹی چھوڑ گئے۔ این اے 162 ساہیوال سے پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی زاہد اقبال بھی گورنر ہاؤس میں فریال تالپور سے ملاقات کرنے والوں میں تھے۔ وہ اس ملاقات کے بعد اپنی برطانوی شہریت سرنڈر کرنے کیلئے لندن گئے اور واپس آکر وزیراعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کرکے مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئے۔ زاہدا قبال 2002ء میں پی پی 224ساہیوال سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر تھے مگر وہ الیکشن ہار گئے اور 2008ء میں این اے 162سے قومی اسمبلی کے امیدوار بن گئے حالانکہ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سابق وزیر مملکت مہر غلام فرید کاٹھیا رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔
وہ 1990ء اور 1993ء میں بھی اس حلقے سے ایم این اے رہ چکے ہیں اور 1977ء میں بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔کاٹھیافیملی کو 1951ء میں بھی اس علاقے سے نمائندگی حاصل رہی۔غلام فرید کاٹھیا اس وقت پیپلزپارٹی کے ڈویژنل کوآرڈینیٹر اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی بشیر ریاض کی سفارش پر زاہد اقبال کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا مگر اب وہ آخری وقت پر پارٹی چھوڑ گئے۔ زاہد اقبال نے بشیر ریاض کے ساتھ تعلق کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا اور وہ بشیر ریاض سے بھی رابطے میں نہیں رہے تھے۔ غلام فرید کاٹھیا بے نظیر بھٹو کے حکم پر اپنے آبائی حلقے سے دستبردار ہوگئے اور دوسرے حلقے سے الیکشن لڑا۔ زاہدا قبال نے آخری وقت تک یہ تاثر دیا کہ وہ پارٹی چھوڑ کر نہیں جارہے جس پر پیپلزپارٹی کے ایم پی اے شہزاد سعید چیمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے۔ مہر غلا م فرید کاٹھیا کو صورتحال کا اندازہ تھا، اس لئے انہوں نے اپنے بیٹے علی فرید کاٹھیا کے اس حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیئے۔ اب پارٹی قیادت نے علی فرید کاٹھیا کو اس حلقے سے ٹکٹ دے دیا ہے ۔
پی پی 133نارووال میں بھی اس قسم کی صورتحال ہے۔ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر مولانا غیاث الدین پارٹی چھوڑ کر انور عزیز گروپ میں شامل ہوگئے ہیں ۔ سابق وزیرمملکت طارق انیس کے بھتیجے عمر شریف اب اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے اس حلقے سے ڈاکٹر طاہر علی جاوید کے والد نعمت اﷲ کو ٹکٹ دیا ہے۔ سیالکوٹ شہر کے حلقہ پی پی 122میں پیپلزپارٹی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات راجہ عامر خاں اور پی پی 144 لاہور میں پیپلزپارٹی کے ڈسٹرکٹ صدر زاہد ذوالفقارخاں نے بھرپور انتخابی مہم شروع کردی ہے۔
راجہ عامر خان این اے 110سیالکوٹ سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر رہ چکے ہیں۔ ان کے والد محمد اکرم خان اپنے مقامی اثرو رسوخ سے ضیاء الحق دور میں بھی بلدیہ سیالکوٹ کے سربراہ منتخب ہوگئے تھے، وہ مشکل وقت میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ پی پی 144 لاہور پیپلزپارٹی کیلئے اچھا رہاہے۔ 1988ء میں خالد لطیف کاردار 1993ء میں سابق سپیکر محمد حنیف رامے بھی اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے ۔ زاہد ذوالفقارخاں 2008ء میں اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔ وہ کئی بار اس علاقے سے کونسلر بھی رہے اور پیپلزپارٹی کی جانب سے میئر لاہور کا الیکشن بھی لڑچکے ہیں۔
پی پی 92 گوجرانولہ سے پیپلزپارٹی کے سٹی صدر لالہ اسد اللہ پاپا امیدوار ہیں ۔ پیپلز پارٹی 2008 ء میں اس حلقے سے صرف 840ووٹوں سے الیکشن ہار گئی تھی۔ پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے ضمنی الیکشن میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اعلیٰ قیادت براہ راست پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم کی نگرانی کرے،اگر امیدوار نامزد کرکے انہیں بھول جانے کی پالیسی برقرار رہی تو پھر نتائج تو سب کے سامنے ہیں۔