وادیٔ بگروٹ کے دل چسپ رسم و رواج

بدلتے موسم یہاں کی ثقافت اور خوراک کے وسائل پر اثر انداز ہورہے ہیں

گلیشیائی جھیلوں کے خطرے سے گھری یہ وادی اپنے تحفظ کے لیے کوشاں ۔ فوٹو : فائل

اگرچہ عالمی برادری کو11 دسمبر پہاڑوں کے عالمی دن کے طور پر صرف ایک دہائی (2003) اور22 مارچ کو پانی کے دن کے طور سے مناتے ہوئے صرف دو دہائیاں(1993) گزری ہیں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ بگروٹ کے لوگ صدیوں سے یہ دن مناتے چلے آرہے ہیں۔ بائیس مارچ کو بگروٹ کے لوگ پانی سے متعلق قدیم دستوری معاملات طے کرتے ہیں۔ اس وقت وادی میں نوروز کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں اور اسی دن وادی کے ہر گائوں میں آب پاشی کے انتظام، پانی کی تقسیم اور وارہ بندی کا اعلان کیاجاتا ہے، جب کہ پہاڑوں کے عالمی دن 11دسمبرکو اچائی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن بالائی چراگاہوں سے مویشی کو واپس گائوں لایا جاتا ہے، لیکن اب بدلتے موسموں نے ان تمام روایات، مقامی ثقافت اور خوراک کے وسائل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

وادی بگروٹ گلگت شہر سے 45 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ مشہور دوہانی پیک وادی کو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ یہاں چھوٹے بڑے 16گائوں آباد ہیں۔ وادی کو چاروں طرف سے دوہانی، گرگو، یونے، بوئی پھرائی، ہنرچی اور راکاپوشی گلیشئرز نے گھیر رکھا ہے۔ ان ہی گلیشئرز کے اندر واقع جھیلوں سے چھلکنے والا سیلابی پانی(Glacial lake out burst flood ( GLOF) اور سیلاب ہر سال وادی کو بھاری نقصان پہنچاتے ہیں۔ وادی میں گلیشیئرز کے پگھلنے اور دیگر نقصانات کو دیکھتے ہوئے یہاں گلوف پروجیکٹ (Glacial lakes out burst flood (GLOF))کے نمائشی منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے۔

پاکستان گلوف پروجیکٹ کلائمٹ چینج ڈیویژن حکومت پاکستان، UNDP اور ایڈاپٹیشن فنڈ کا ایک مشترکہ پروجیکٹ ہے جس کا دورانیہ 2011 سے 2015 پر مشتمل ہے ۔ منصوبے کا مقصد پاکستان کے شمالی علاقوں (گلگت بلتستان ، چترال) میں موسمیاتی تغیرات سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں سے مقامی آبادی کو محفوظ رکھنا ہے۔ گلگت بلتستان میں اس پروجیکٹ کے لیے گلگت کے نزدیک ایک وادی بگروٹ کا انتخاب عمل میں آیا۔

پاکستان گلوف پروجیکٹ کو ٹیکنیکل سپورٹ محکمہ موسمیات دیتا ہے۔ محکمہ موسمیات پاکستان نے پاکستان گلوف پروجیکٹ کی مالی مدد سے یہاں مختلف اہم مقامات میں Automatic weather station, rain / snow guage,اور river guage تنصیب کیے ہیں جو وادی میں بدلتے موسموں کے رویے اور زرعی مشاورت کے علاوہ کسی ممکنہ خطرے سے پیشگی آگاہ کرنے میں نہایت اہم ثابت ہوتے ہیں۔

بگروٹ کی جنت نظیر وادی کو سرویئر جنرل آف انڈیا نے ایشیا کا شنگریلا کہا تھا۔ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں اور وادی کے اوپر موجود گلیشئرز کے تیزی سے پگھلنے اور ان پر بننے والی جھیلوں سے پیدا ہونے والے طوفانی سیلابوں نے وادی کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے لیے گلگت بلتستان کی وادی بگروٹ موزوں جگہ ہے، کیوںکہ وادی کے بالائی حصوں میں 11 گلیشیئرز موجود ہیں جن میں سے 9 کا رخ وادی کی جانب ہے۔ ان میں سے 6 ہینگنگ گلیشیر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی کے لوگ چاروں جانب سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہاں گلیشیائی جھیلوں، ندی نالوں کے سیلاب اور ایوالانچ سے لوگوں کی جانیں براہ راست خطرے کی زد میں ہیں۔ اس پروجیکٹ کا مقصد کلائمٹ چینج کے حوالے سے ہم آہنگی (Adaptation) اورتدارک (Mitigation) دونوں ہیں۔

مقامی ماہرین کے مطابق ان علاقوں میں موسموں کی تبدیلی بہت نمایاں ہے۔ برف باری کا دورانیہ بہت کم ہوگیا ہے۔ موسموں کی تبدیلی خوراک کے وسائل پر براہ راست اثرات مرتب کررہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے بچپن کے دنوں میں برف باری نومبر سے شروع ہوتی تھی اور فروری تک جاری رہتی تھی۔ وادی برف سے سفید ہوجاتی تھی۔ بالائی پہاڑوں پر پڑنے والی برف کے بوجھ سے شاخیں بھی ٹوٹ جاتی تھیں اور ایوا لانچ میں یہ لکڑیاں گائوں تک آجاتی ہیں۔ اس موسم کے لیے لوگ مال مویشی کے لیے چارا جمع کرکے رکھتے تھے۔

نسالو فیسٹیول جو 21 دسمبر کو شروع ہوتا تھا۔ اس دن بیل اور بکروں کو ذبح کرکے گوشت خشک کرلیا کرتے تھے۔ پہلے یہاں صرف ایک فصل ہوتی تھی۔ گندم لیکن برف باری کم ہوگئی ہے۔ گرمی بڑھ گئی ہے تو لوگوں نے مکئی لگانا شروع کردیا ہے۔ لیکن اب کیش کروپ کے طور پر زیادہ تر آلو کاشت کیے جاتے ہیں، جس سے اچھے پیسے مل جاتے ہیں۔ ایک فصل کے پچاس سے ساٹھ ہزار مل جاتے ہیں۔ ان پیسوں سے گندم خرید لیتے ہیں۔ اس ایک فصل سے غذائی قلت کا اندیشہ ہے، اگر کبھی لینڈ سلائٹنگ ہوجائے راستے بند ہوجائیں تو کب تک آلو کھائے جائیں گے۔

٭بدلتے موسموں سے وادی کی روایات اور ثقافت بھی متاثر
گلگت بلتستان کی اس خوب صورت وادی کے تہوار بھی بہت انوکھے ہیں اور حیرت انگیز طور پرتمام تہواروں کا تعلق موسموں سے ہے اور وادی میں بدلتے موسم یہاں کی روایات اور ثقافت کو بھی متاثر کررہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کے لوگ سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ ان کی قدیم روایات اور ثقافت محفوظ رہے۔ ذیل میں ہم اس وادی کی کچھ دل چسپ روایات اور تہواروں کا مختصراً تذکرہ کررہے ہیں:

٭وادی بگروٹ کی قدیم روایات:
قدیم شینا کیلینڈر میں نیا سال 21 دسمبر سے شروع ہوتا ہے۔ جب سورج اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے ۔ اسی نسبت سے 21 دسمبر کو نسالو یعنی نئے سال کا دن مناتے ہیں۔ سال کی ابتدا سرد ترین دن اور مہینے سے ہوتی ہے۔ جب برف وادی کو ڈھانپ لیتی ہے۔ یہاں کی آبادی ساری گرمیاں خاندان بھر کے لیے سرمائی خوراک اور دیگر ضرورتوں کے حصول میں کوشاں رہتی ہے۔21 دسمبر تک ہر گھرانا حسب حیثیت اپنے اسٹور میں سردیوں کے لیے خوراک کو محفوظ کرلیتا ہے۔ اسی دوران گائوں کے بزرگ غریب ، بیوہ اور یتیم گھرانوں کا دورہ کرکے وہاں بھی خوراک کی فراہمی یقینی بناتے ہیں۔

٭اشار:
یہاں لوگ گرمیوں میں خوبانی، گری، بادام اور اخروٹ اور دیگر تمام پھل جو ذخیرہ کیے جاسکتے ہوں زیادہ سے زیادہ مقدار میں جمع کرلیتے ہیں، جو سردیوں میں مہمانوں کے تواضع اور گھر کے افراد کے لیے متوازن خوراک کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

٭دیشکی:
چوںکہ آگے سخت برف پڑے گی اور چکیاں بند ہوں گی اس لیے ہر گھر اپنے عیال کے خرچے کے حساب سے اپنی تون ( لکڑی کا بڑا صندوق) میں آٹے کی موجودگی کو یقینی بناتا ہے۔ بجلی کی سہولت کے بعد یہ رسم وادی میں ختم ہوچکی ہے۔ البتہ بالائی بگروٹ میں آج بھی قائم ہے۔




٭لوئی:
ہر گھر سردیوں کے لیے لکڑی کا ذخیرہ کرلیتا ہے۔ جلانے کی لکڑی کا بوجھ مقامی قدرتی جنگل پر ہونے کی وجہ سے صنوبر اور دیگر جنگلی درخت معدوم ہوتے جارہے ہیں۔

٭نسالو:
ہر گھر حسب استطاعت مویشی ذبح کرکے سردیوں کے لیے گوشت کا انتظام کرتا ہے۔ ان ایام میں ذبح کیے گئے مویشی کا گوشت سڑتا نہیں بل کہ سوکھ کر نہایت مزے دار ہوجاتا ہے۔

٭وادی بگروٹ کے قدیم تہوار:
سردیوں کے لیے خوراک سے متعلق ضروری امور سے فراغت کے بعد ثقافتی تہواروں کا آغاز ہوتا ہے۔ ان دستوری دعائیہ تقریبات میں اجتماعی خیرو برکت اور سلامتی کے لیے فطری انداز میں رب سے رجوع کیا جاتا ہے۔ دسمبر وادی بگروٹ میں کئی اہم ثقافتی تہوار اور مواقع لے کر آتا ہے۔

ان ایام میں گائوں کی آبادی جمع ہوچکی ہوتی ہے۔ گرمائی چرا گاہوں سے چرواہے ریوڑ، مویشی لے کر اور بالائی آبادیوں سے لوگ گائوں میں اتر چکے ہوتے ہیں۔ گہماگہمی بڑھ جاتی ہے۔ اس سے قبل کہ چرواہے سرمائی چراگاہوں کی طرف کوچ کریں، گاؤں کی آبادی اپنے قدیم ثقافتی دستور کے مطابق رسومات اور تہوار مناتی ہے۔ ان ہی ایام میں شادیوں کے دن مقرر کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک بڑی معاشی سہولت ہے۔ جو ضرورت مند گھرانوں کو یہاں کا سماجی دستور مہیا کرتا ہے۔

٭موال:
مقررہ دن ہر گھر سے خشک میوہ ، گھی اور روٹی کی تھال لے کر لوگ جمع ہوتے ہیں۔ یہ سال کی تقریبات اور رسومات کی ابتدا ہے، جس میں گائوں کے لوگ اپنے مرحومین کی یاد میں تحفے لاتے ہیں اور اجتماعی دعا کے علاوہ آگے کی تقریبات کے انتظامی امور طے کرتے ہیں۔

٭ڈھم ڈھم پروچو:
مخصوص دن گائوں کے بچے اپنی اپنی پرو (گلی) سے ٹولیوں میں نکل کر جمع ہوتے ہیں۔ یہ بچے کئی دنوں سے اس دن کے لیے تیاری کرتے ہیں ، ان کے لیے نئے لباس خصوصاً پٹو کی سفید ٹوپی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مائیں خصوصاً خشک میوہ سنبھال کر رکھتی ہیں جو اس دن بچوں کو دیا جاتا ہے۔ وقت مقررہ پر قریبی پہاڑ میں صنوبر کے درختوں تک پہنچنے کے لیے دوڑ لگاتے اور وہاں کھیل کود کے بعد واپسی میں صنوبر کی چھوٹی چھوٹی تازہ ٹہنیاں لے کر آتے ہیں، جن کو گھر گھر میں نیک بختی کے سندیسے کے طور پر پہنچایا جاتا ہے۔

٭دھمہ کھہ:
مقررہ دن سارے گائوں کے گھروں کو صنوبر اور لوبان کی دھونی دے کر نحوستوں سے پاک کیا جاتا ہے اور مخصوص پکوان درم پکایا جاتا ہے۔ جس کی تیاری کے لیے سردیوں سے پہلے ہی گندم یا جو کو مخصوص مدت تک بھگویا جاتا ہے اور پھر سکھا کر اخروٹ یا خوبانی کے تیل میں پکایا جاتا ہے۔ یہ سردیوں کی مخصوص سوغات ہے۔

٭راٹھو:
مقررہ دن تماشے سے ابتدا ہوتی ہے۔ لوگ ناچتے گاتے ہیں اور خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ کوئی ایک آدمی ہاتھ میں تلوار لے کرناچتے ناچتے مخصوص جگہ تک جاتا ہے۔ گائوں کے لوگ اس کے پیچھے ناچتے گاتے چلتے ہیں اور کچھ فاصلے پر جاکر رک جاتے ہیں۔ ایک مخصوص آدمی خاص جگہ تک اکیلا جاتا ہے اور کچھ دیر بعد آکر لوگوں کو ان کی خواہشات کی پوری ہونے کی بشارتیں دیتا ہے۔ اسی جگہ بکرے کی قربانی کی جاتی ہے، جس جس کو اسی جگہ ہی پکا کرکھایا جاتا ہے۔ اس کھانے میں سے کوئی چیز گھر لے کر جانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

٭شاپ :
غیر شادی شدہ نوجوانوں کا گروہ مقررہ رات ہر گھر کے دروازے پر جا کر گھر اور اس کے مکینوں اور مہمانوں (اگر اس رات کوئی ہے) تو فرداً فرداً صحت اور سلامتی اور مال و دولت کے لیے دعائیہ گیت گاتا ہے۔ گھر کا بزرگ خشک میوہ نسالو کا گوشت یا نقد رقم انعام میں دیتا ہے

۔ گائوں بھر میں دعائیں تقسیم کرنے کے بعد حاصل شدہ انعام سے بڑے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں گائوں کے بزرگ ، عمائدین اور علمائے کرام کو دعوت دی جاتی ہے۔ ان تقریبات میں اجتماعی دعا کے علاوہ نوجوانوں کے ناچ گانے اور مزاحیہ خاکوں کے ذریعے سماجی ناانصافیوں کے ذریعے معاشرتی برائیوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ قدرتی ماحول کی اس محفل میں کاہن صنوبر کی سحر انگیز دھونی اور مخصوص دھن میں جھومتا جاتا ہے اور مقامی عقائد کے مطابق راکا پوشی، دیران اور دوبانی کی بلندیوں سے اتر کر ماورائی مخلوق لوگوں کو بشارتیں پہنچاتی ہیں۔
Load Next Story