حق خود ارادیت کے لیے سکھوں کی جدوجہد زورپکڑنے لگی
خالصتان کے قیام اور کشمیر کی آزادی کے لیے سکھ مسلم اتحاد بھارت کے لیے زندگی موت کا معاملہ بن چکا ہے
بھارت کی حکومت، فوج اور خفیہ ایجنسی الزام عائد کرتی ہے کہ خالصتان تحریک زندہ کرنے میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ حالانکہ جس مملکت میں نریندرمودی ذہنیت کی حکمرانی ہو، وہاں اس ذہنیت کا ردعمل بھی ہوتاہے۔ مودی جس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں.
اسی گروہ کے رہنما ایم ایس گول والکرجو ڈاکٹر ہدگیوار کے بعد 1940ء میںراشٹریہ سیوک سنگھ( آرایس ایس ) کا سربراہ بنا ، اپنی کتاب''ہم اور ہماری قومیت'' میں لکھتاہے:
'' اس منحوس دن سے جب مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رکھا آج تک ہندو قوم ان کے خلاف بہادری سے جنگ کر رہی ہے، قومیت کا احساس جاگ رہاہے، ہندوستان میں ہندو رہتے ہیں اور ہندو رہنے چاہیں،باقی سب غدار ہیں اور قومی مشن کے دشمن ہیں۔ اور سادہ لفظوں میں : احمق ہیں۔ ہندوستان میں دوسری قومیں ہندوقوم کے ماتحت رہنی چاہیں۔ بغیر کوئی حق مانگے، بغیر کوئی مراعات مانگے، بغیر کوئی ترجیحی برتائو مانگے اور نہ ہی کوئی شہری حقوق۔ اپنی قوم اور کلچر کے تشخص برقرار رکھنے کے لئے جرمنی نے یہودیوں سے ملک کو پاک کرکے دنیا کو حیران کردیا، قومیت کا فخر وہاں پیدا کردیاگیاہے۔ ہندوستان میں ہمارے لئے یہ بڑا اچھا سبق ہے''۔
یہ ذہنیت ایک خالصتان نہیں، بہت سی الگ آزاد وخودمختار مملکتیں قائم کرنے کا سبب بنے گی۔ ویسے سکھوں کے ساتھ زیادتی تقسیم برصغیر کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی ۔ بھارت نے تقسیم کے وقت سکھوں کو سبزباغ دکھا کر اورجھوٹے وعدے کرکے اپنے ساتھ ملایا تاہم سکھوں کو بہت جلد احساس ہوگیا کہ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل نے ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیاہے۔چنانچہ سکھ رہنما ماسٹرتاراسنگھ نے 28مارچ1953ء کو کہا:'' انگریزچلاگیالیکن ہم آزاد نہ ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی نہیں ، صرف آقا تبدیل ہوئے ہیں۔ پہلے سفید تھے اب کالے آگئے ہیں۔جمہوریت اور سیکولرازم کا ڈھونگ رچا کر ہمارے پنتھ، ہماری آزادی اور ہمارے مذہب کو کچلا جا رہا ہے۔''
تقسیم کے وقت ڈلہوزی میںڈپٹی کمشنر کی ذمہ داریاں اداکرنے والے کپورسنگھ نے بتایا کہ پنڈت جواہرلال نہرو (وزیراعظم) اور سردارپٹیل( نائب وزیراعظم) کی ہدایت پر گورنر پنجاب سی ایم تیواڑی نے 1947ء میں صوبہ بھر کے ڈپٹی کمشنرز کو کچھ خاص ہدایات دیں جن کے نتیجے میں سکھوں کو بالخصوص نقل مکانی کرکے یہاں آبسنے والے سکھوں کو 'مجرم قبیلہ' قراردیاگیا۔ آنے والے تمام عشروں میں ان سے اسی اندازمیں سلوک کیاگیا۔
تقسیم کے بعد بھارت جیسے بڑے ملک میں ہندی زبان کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جس پر سکھوں کی نمائندہ جماعت 'شیرومانی اکالی دل'نے 1950ء میں اپنی پنجابی زبان کے دفاع کے لئے خوب مزاحمت کی۔ اس نے پنجابی زبان بولنے والوں کے لئے الگ صوبہ کا مطالبہ بھی کردیا۔ بھارت کی ہندو قیادت نے پوری دنیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ سکھ مت الگ مذہب نہیں بلکہ ہندومت ہی کی ایک شاخ ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ اندراگاندھی نے اپنے دور میں آپریشن بلیوسٹار کے تحت سکھوں کے انتہائی مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی ، اس میں 10ہزارسکھ زائرین کو ہلاک کردیاگیاتھا۔ جبکہ31اکتوبر 1984ء کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کی حکمران جماعت 'انڈین نیشنل کانگریس' نے سکھوں کی نسل کشی کی منظم مہم شروع کی گئی۔ اس مہم میں سکھوں کو جانی نقصان کا سامنا بھی ہوا، ان کے گھر بار تباہ وبرباد کردئیے گئے، ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے ، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئے گئے۔
ہزاروں سکھ قتل کردئیے گئے، ایک اندازے کے مطابق اس مہم میں 30ہزار سے زائد سکھ قتل کئے گئے۔ان میں سے زیادہ تر بے بس تھے جن کو اپنے گھر والوں یا محلے والوں کے سامنے زندہ جلادیاگیا۔ سینکڑوں سکھ خواتین کی بے حرمتی کی گئی، ایک ہزار سے زائد گوردواروں کو نذرآتش کردیاگیا، تین لاکھ سکھوں کو بے گھر کردیاگیا۔ بھارتی حکومت اسے ''نومبر 1984ء میں دہلی میں ہونے والے سکھ مخالف فسادات'' کا نام دیتی ہے حالانکہ یہ ''فسادات'' نہیں تھے۔ یکم نومبر سے 4نومبر 1984ء تک ملک کی دیگر 18ریاستوں کے مجموعی طورپر 100 شہروں میں بھی سکھوں پر حملے ہوئے۔ حملہ آور انتقام انتقام کے نعرے لگا رہے تھے۔
یہ حکمران جماعت کے بھیجے ہوئے حملہ آور تھے۔انھوں نے امن سے محبت کرنے والی قوم کی نسل کشی کی۔ مغربی ذرائع ابلاغ بھی سکھوں پر ہونے والے ظلم وستم پرخاموش نہ رہ سکے۔شواہدموجود ہیں کہ سکھوں کے خلاف ڈیتھ سکواڈز کی قیادت وفاقی وزیر کمل ناتھ، ارکان پارلیمان سجن کمار، جگدیش ٹیٹلر، للت میکن، دھرم داس شاستری، ایچ کے ایل بھگت، ارون نہرو، ارجن سنگھ، حتیٰ کہ بالی ووڈ سٹار امیتابھ بچن کررہے تھے۔ اپنی ماں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی نے سکھوں کی نسل کشی کی ان الفاظ کے ساتھ حمایت کی تھی کہ جب ایک بڑا درخت گرتاہے تو ساری زمین پر لرزہ ضرورطاری ہوتاہے۔
سوال یہ ہے کہ جس قوم کے ساتھ بہت تھوڑے عرصہ میں اس قدر زیادہ ظلم ہواہو، کیا وہ اس ظلم کو اس قدر آسانی سے بھول سکتی ہے۔ ہرانسان جانتاہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم زیادہ تکلیف دیتاہے۔ بھارت میں سکھوں کو لگائے گئے زخموں پر مرہم نہیں رکھاگیا۔ آپریشن بلیوسٹار کو غلطی قرار دیاگیا لیکن اس غلطی کا مداوا نہیںکیاگیا۔ اس کے بعد ہونے والے ''فسادات'' کے لئے بھی تحقیقاتی کمیشن قائم کئے گئے لیکن انھیں اختیارات حاصل نہیں تھے۔ اب بھارت کو زخم لگانے اور پھر ان پر نمک چھڑکنے کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔
خالصتان کے قیام کیلئے پنجاب کی آزادی کی مہم پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ، زیادہ سے زیادہ سکھ اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ سکھ ایک دوسرے کو 'ریفرنڈم 2020ء' کا پیغام پھیلانے کے لئے بلا رہے ہیں۔ اس تحریک کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ حق خودارادیت جس طرح ہر انسان کا قانونی حق ہے، اسی طرح سکھوں کا بھی حق ہے۔ سکھ قوم اس یقین کے ساتھ جدوجہد کررہی ہے کہ وہ 2020ء میں بہرصورت حق خودارادیت حاصل کرے گی۔
سن80ء اور90ء کے عشروں میں بھارتی حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر 90 فیصد سکھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا رخ کیاتھا، بعدازاں انھوں نے اپنے گھرانے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلا لیا۔ بعدازاں وہ سکھ نوجوان بھی یہاں آگئے جنھیں بھارت میں بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیاجارہاتھا۔ چنانچہ وہ اپنی زمینیں اور جائیدادیں فروخت کرکے بیرون ملک مقیم ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اب بیرون ملک مقیم یہ سکھ پورے جوش وخروش سے 'ریفرنڈم2020ء' کے لئے تحریک چلارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق ایسی کوئی بھی قوم خودارادیت کاحق رکھتی ہے جس کی آزادانہ زندگی گزارنے کی ایک تاریخ ہو یا جس کی اپنی مملکت قائم رہی ہو۔ اس کی اپنی سرزمین ہو، ان کا اپنا ممتاز کلچر ہو، جس میںآزادی کی خواہش ہو، جس میں اپنی مملکت چلانے کی صلاحیت ہو۔ خالصتانی تحریک کے ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ پوری دنیا میں اس کے ماننے والوں کی تعداد دوکروڑ 80 لاکھ ہے۔ دنیا میں اس قدر بڑی آبادی ہونے کے باوجود سکھوں کی تعداد بھارت کی آبادی کا محض 1.8فیصد ہے۔
جن کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں آباد ہے۔ خالصتان تحریک کے ذمہ داران اپنے وژن اور اہداف میں بہت واضح ہیں۔ انھوں نے خالصتان کا مکمل نقشہ تیار کرلیاہے ، اس کے قیام کے بعد ممکنہ چیلنجز کا بھی انھیں احساس ہے اور ان کا حل بھی سوچ لیاہے۔ انہیں احساس ہے کہ خالصتان چہار اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہوگا۔
ممکنہ مملکت خالصتان کے ساتھ سمندر نہیں لگتا، ایسے میں اس کی معیشت کا کیاہوگا؟ خالصتانی ذمہ داران کاخیال ہے کہ پنجاب ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہوگا۔ سمندرکا کنارا کامیاب ریاست کی ضمانت نہیں بن سکتا اور سمندر کا کنارا نہ لگنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ وہ ریاست ناکام ہوگی۔ سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا ایسے دو ممالک ہیں جنھیں کوئی سمندر نہیں لگتا تاہم وہ نہایت کامیاب ریاستیں ہیں۔ دوسری طرف ایسے یورپی ممالک بھی ہیں جنھیں سمندر کا کنارا لگتاہے لیکن وہ کامیاب ریاستیں نہیں ہیں۔ اس حوالے سے دو نام قابل ذکر ہیں: پولینڈ اور یوکرائن۔
جب ان کے سامنے اس خدشہ کا اظہارکیاجاتاہے کہ ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہمسائیہ ممالک آزادپنجاب کے ساتھ دشمنی کا طرزعمل اختیارکریں؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمسائیہ ممالک خالصتان کے ساتھ ایسا رویہ اختیارنہیں کریں گے۔جب بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہواتھا تو پاکستان نے نئی حقیقت کو تسلیم کرلیاتھا۔ آج پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کررہاہے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ایک اچھا تعلق قائم ہوسکتاہے۔
یہی معاملہ آزادپنجاب کے ساتھ ہوگا۔پنجاب بھی ہمسائیہ ممالک کے ساتھ ایک اچھا تعلق قائم کرے گا۔اس بات کا بھی کوئی خدشہ نہیں کہ ہمسائیہ ممالک ہمیں اپنی فضائی حدود استعمال نہ کرنے دیں۔ حالانکہ پاکستان بھارت آپس میں دشمنی والے تعلققات بھی رکھتے ہیں تاہم اب دونوں ممالک ایک دوسرے کی فضائی حدود استعمال کرتے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ خالصتان بننے کے بعد بھارت دیگرعلاقوں میں موجود سکھوں کے خلاف ظلم وتشدد کا بازار گرم کرے؟نہیں، ایسانہیں ہوگا، جب خالصتان آزاد مملکت کی صورت میں معرض وجود میں آگیاتو بھارت کے لئے دوبارہ ایسا بازار گرم کرنامشکل ہوجائے گا۔ دوسری بات دنیا بھر میں موجود سکھوں کے تحفظ کیلئے تمام تر آپشنز ہمارے سامنے موجود ہیں۔
خالصتان تحریک کے ذمہ داران کا کہناہے کہ مملکت خالصتان میں کسی بھی ایسے فرد کو کوئی عہدہ نہیں دیاجائے گا جو سکھوں کے قتل عام میں بلاواسطہ یا بلواسطہ شریک رہاہو یا سکھوں پر ظلم وتشدد کا حامی رہاہو۔اس کے بجائے انھیں گرفتارکرکے ان کے جرائم پر مقدمہ چلایاجائے گا۔ان سکھوں کا کیاہوگا جب پنجاب کے علاوہ دیگر ریاستوں میں رہتے ہیں؟ انھیں ایک موقع دیاجائے کہ وہ پنجاب کے ساتھ شامل ہو جائیں، بہرحال یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ خالصتان میں رہنا چاہتے ہیں یا بھارت میں حسب سابق زندگی بسر کرناچاہتے ہیں۔آزادپنجاب میں سکھوں اور غیرسکھوں سب کا خیرمقدم کیاجائے گا۔ سب کے حقوق یکساں ہوں گے۔جولوگ اس وقت پنجاب میں رہائش پذیر ہیں لیکن وہ آزاد پنجاب میں نہ رہناچاہیں،ان کی مرضی کا احترام کیاجائے گا۔
خالصتان سخت گیر مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔ ریاست اپنے شہریوں پر کوئی مذہبی نظریہ نہیں تھوپے گی۔ ہر شہری کسی بھی عقیدہ پر زندگی بسر کرنے میں آزاد ہوگا، اگر وہ لامذہب کے طورپر رہناچاہے تو اس کی مرضی کا احترام کیاجائے گا۔آزاد پنجاب میں ایسا جمہوری نظام ہوگا جس میں عوام اپنے نمائندے آزادانہ طورپر منتخب کرسکیں گے۔
بھارت سمجھتاہے کہ کشمیر اور خالصتان کی علیحدگی کے اثرات اس کے لئے نہایت خطرناک واقع ہوں گے۔ وہ تمام علیحدگی پسند تحریکیں بیدار ہوجائیں گی جنھیں بھارت نے اب مردہ سمجھنا شروع کردیاہے۔ تری پورہ، منی پور، آسام، میزورام، ارونچل پردیش، تامل ناڈو اور ناگالینڈ سمیت بھارت کی چھبیس ریاستوں میں علیحدگی پسند متحرک ہیں۔ یقینا بہت سی ریاستوں میںیہ تحریکیں کمزور پڑچکی ہیں لیکن ہندواتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا بھارتی حکمرانوں نے جہاں خالصتان کے حامی سکھوں کو نئی قوت بہم پہنچائی ہے وہاں باقی ریاستوں کے علیحدگی پسندوںکو بھی توانائی فراہم کرے گا۔ خالصتان کے قیام سے بھارت کا ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ ازخود ختم ہوجائے گا کیونکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان واحد راستہ خالصتان سے ہی گزرتا ہے۔ اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں موجود سکھ تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کررہے ہیں جبکہ ممکنہ مملکت خالصتان میں مسلمان خالصتان تحریک کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے خالصتان کو زندگی موت کا مسئلہ سمجھاہواہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف خالصتانی سکھ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔سکھ قوم کا جوش وجذبہ انھیں ہندئوں سے ممتاز کرتاہے، وہ موت قبول کرتے ہیں لیکن ناکامی نہیں، یہی جذبہ انھیں کامیابی کی طرف لے جائے گا۔
اسی گروہ کے رہنما ایم ایس گول والکرجو ڈاکٹر ہدگیوار کے بعد 1940ء میںراشٹریہ سیوک سنگھ( آرایس ایس ) کا سربراہ بنا ، اپنی کتاب''ہم اور ہماری قومیت'' میں لکھتاہے:
'' اس منحوس دن سے جب مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رکھا آج تک ہندو قوم ان کے خلاف بہادری سے جنگ کر رہی ہے، قومیت کا احساس جاگ رہاہے، ہندوستان میں ہندو رہتے ہیں اور ہندو رہنے چاہیں،باقی سب غدار ہیں اور قومی مشن کے دشمن ہیں۔ اور سادہ لفظوں میں : احمق ہیں۔ ہندوستان میں دوسری قومیں ہندوقوم کے ماتحت رہنی چاہیں۔ بغیر کوئی حق مانگے، بغیر کوئی مراعات مانگے، بغیر کوئی ترجیحی برتائو مانگے اور نہ ہی کوئی شہری حقوق۔ اپنی قوم اور کلچر کے تشخص برقرار رکھنے کے لئے جرمنی نے یہودیوں سے ملک کو پاک کرکے دنیا کو حیران کردیا، قومیت کا فخر وہاں پیدا کردیاگیاہے۔ ہندوستان میں ہمارے لئے یہ بڑا اچھا سبق ہے''۔
یہ ذہنیت ایک خالصتان نہیں، بہت سی الگ آزاد وخودمختار مملکتیں قائم کرنے کا سبب بنے گی۔ ویسے سکھوں کے ساتھ زیادتی تقسیم برصغیر کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی ۔ بھارت نے تقسیم کے وقت سکھوں کو سبزباغ دکھا کر اورجھوٹے وعدے کرکے اپنے ساتھ ملایا تاہم سکھوں کو بہت جلد احساس ہوگیا کہ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل نے ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیاہے۔چنانچہ سکھ رہنما ماسٹرتاراسنگھ نے 28مارچ1953ء کو کہا:'' انگریزچلاگیالیکن ہم آزاد نہ ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی نہیں ، صرف آقا تبدیل ہوئے ہیں۔ پہلے سفید تھے اب کالے آگئے ہیں۔جمہوریت اور سیکولرازم کا ڈھونگ رچا کر ہمارے پنتھ، ہماری آزادی اور ہمارے مذہب کو کچلا جا رہا ہے۔''
تقسیم کے وقت ڈلہوزی میںڈپٹی کمشنر کی ذمہ داریاں اداکرنے والے کپورسنگھ نے بتایا کہ پنڈت جواہرلال نہرو (وزیراعظم) اور سردارپٹیل( نائب وزیراعظم) کی ہدایت پر گورنر پنجاب سی ایم تیواڑی نے 1947ء میں صوبہ بھر کے ڈپٹی کمشنرز کو کچھ خاص ہدایات دیں جن کے نتیجے میں سکھوں کو بالخصوص نقل مکانی کرکے یہاں آبسنے والے سکھوں کو 'مجرم قبیلہ' قراردیاگیا۔ آنے والے تمام عشروں میں ان سے اسی اندازمیں سلوک کیاگیا۔
تقسیم کے بعد بھارت جیسے بڑے ملک میں ہندی زبان کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جس پر سکھوں کی نمائندہ جماعت 'شیرومانی اکالی دل'نے 1950ء میں اپنی پنجابی زبان کے دفاع کے لئے خوب مزاحمت کی۔ اس نے پنجابی زبان بولنے والوں کے لئے الگ صوبہ کا مطالبہ بھی کردیا۔ بھارت کی ہندو قیادت نے پوری دنیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ سکھ مت الگ مذہب نہیں بلکہ ہندومت ہی کی ایک شاخ ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ اندراگاندھی نے اپنے دور میں آپریشن بلیوسٹار کے تحت سکھوں کے انتہائی مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی ، اس میں 10ہزارسکھ زائرین کو ہلاک کردیاگیاتھا۔ جبکہ31اکتوبر 1984ء کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کی حکمران جماعت 'انڈین نیشنل کانگریس' نے سکھوں کی نسل کشی کی منظم مہم شروع کی گئی۔ اس مہم میں سکھوں کو جانی نقصان کا سامنا بھی ہوا، ان کے گھر بار تباہ وبرباد کردئیے گئے، ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے ، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئے گئے۔
ہزاروں سکھ قتل کردئیے گئے، ایک اندازے کے مطابق اس مہم میں 30ہزار سے زائد سکھ قتل کئے گئے۔ان میں سے زیادہ تر بے بس تھے جن کو اپنے گھر والوں یا محلے والوں کے سامنے زندہ جلادیاگیا۔ سینکڑوں سکھ خواتین کی بے حرمتی کی گئی، ایک ہزار سے زائد گوردواروں کو نذرآتش کردیاگیا، تین لاکھ سکھوں کو بے گھر کردیاگیا۔ بھارتی حکومت اسے ''نومبر 1984ء میں دہلی میں ہونے والے سکھ مخالف فسادات'' کا نام دیتی ہے حالانکہ یہ ''فسادات'' نہیں تھے۔ یکم نومبر سے 4نومبر 1984ء تک ملک کی دیگر 18ریاستوں کے مجموعی طورپر 100 شہروں میں بھی سکھوں پر حملے ہوئے۔ حملہ آور انتقام انتقام کے نعرے لگا رہے تھے۔
یہ حکمران جماعت کے بھیجے ہوئے حملہ آور تھے۔انھوں نے امن سے محبت کرنے والی قوم کی نسل کشی کی۔ مغربی ذرائع ابلاغ بھی سکھوں پر ہونے والے ظلم وستم پرخاموش نہ رہ سکے۔شواہدموجود ہیں کہ سکھوں کے خلاف ڈیتھ سکواڈز کی قیادت وفاقی وزیر کمل ناتھ، ارکان پارلیمان سجن کمار، جگدیش ٹیٹلر، للت میکن، دھرم داس شاستری، ایچ کے ایل بھگت، ارون نہرو، ارجن سنگھ، حتیٰ کہ بالی ووڈ سٹار امیتابھ بچن کررہے تھے۔ اپنی ماں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی نے سکھوں کی نسل کشی کی ان الفاظ کے ساتھ حمایت کی تھی کہ جب ایک بڑا درخت گرتاہے تو ساری زمین پر لرزہ ضرورطاری ہوتاہے۔
سوال یہ ہے کہ جس قوم کے ساتھ بہت تھوڑے عرصہ میں اس قدر زیادہ ظلم ہواہو، کیا وہ اس ظلم کو اس قدر آسانی سے بھول سکتی ہے۔ ہرانسان جانتاہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم زیادہ تکلیف دیتاہے۔ بھارت میں سکھوں کو لگائے گئے زخموں پر مرہم نہیں رکھاگیا۔ آپریشن بلیوسٹار کو غلطی قرار دیاگیا لیکن اس غلطی کا مداوا نہیںکیاگیا۔ اس کے بعد ہونے والے ''فسادات'' کے لئے بھی تحقیقاتی کمیشن قائم کئے گئے لیکن انھیں اختیارات حاصل نہیں تھے۔ اب بھارت کو زخم لگانے اور پھر ان پر نمک چھڑکنے کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔
خالصتان کے قیام کیلئے پنجاب کی آزادی کی مہم پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ، زیادہ سے زیادہ سکھ اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ سکھ ایک دوسرے کو 'ریفرنڈم 2020ء' کا پیغام پھیلانے کے لئے بلا رہے ہیں۔ اس تحریک کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ حق خودارادیت جس طرح ہر انسان کا قانونی حق ہے، اسی طرح سکھوں کا بھی حق ہے۔ سکھ قوم اس یقین کے ساتھ جدوجہد کررہی ہے کہ وہ 2020ء میں بہرصورت حق خودارادیت حاصل کرے گی۔
سن80ء اور90ء کے عشروں میں بھارتی حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر 90 فیصد سکھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا رخ کیاتھا، بعدازاں انھوں نے اپنے گھرانے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلا لیا۔ بعدازاں وہ سکھ نوجوان بھی یہاں آگئے جنھیں بھارت میں بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیاجارہاتھا۔ چنانچہ وہ اپنی زمینیں اور جائیدادیں فروخت کرکے بیرون ملک مقیم ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اب بیرون ملک مقیم یہ سکھ پورے جوش وخروش سے 'ریفرنڈم2020ء' کے لئے تحریک چلارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق ایسی کوئی بھی قوم خودارادیت کاحق رکھتی ہے جس کی آزادانہ زندگی گزارنے کی ایک تاریخ ہو یا جس کی اپنی مملکت قائم رہی ہو۔ اس کی اپنی سرزمین ہو، ان کا اپنا ممتاز کلچر ہو، جس میںآزادی کی خواہش ہو، جس میں اپنی مملکت چلانے کی صلاحیت ہو۔ خالصتانی تحریک کے ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ پوری دنیا میں اس کے ماننے والوں کی تعداد دوکروڑ 80 لاکھ ہے۔ دنیا میں اس قدر بڑی آبادی ہونے کے باوجود سکھوں کی تعداد بھارت کی آبادی کا محض 1.8فیصد ہے۔
جن کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں آباد ہے۔ خالصتان تحریک کے ذمہ داران اپنے وژن اور اہداف میں بہت واضح ہیں۔ انھوں نے خالصتان کا مکمل نقشہ تیار کرلیاہے ، اس کے قیام کے بعد ممکنہ چیلنجز کا بھی انھیں احساس ہے اور ان کا حل بھی سوچ لیاہے۔ انہیں احساس ہے کہ خالصتان چہار اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہوگا۔
ممکنہ مملکت خالصتان کے ساتھ سمندر نہیں لگتا، ایسے میں اس کی معیشت کا کیاہوگا؟ خالصتانی ذمہ داران کاخیال ہے کہ پنجاب ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہوگا۔ سمندرکا کنارا کامیاب ریاست کی ضمانت نہیں بن سکتا اور سمندر کا کنارا نہ لگنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ وہ ریاست ناکام ہوگی۔ سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا ایسے دو ممالک ہیں جنھیں کوئی سمندر نہیں لگتا تاہم وہ نہایت کامیاب ریاستیں ہیں۔ دوسری طرف ایسے یورپی ممالک بھی ہیں جنھیں سمندر کا کنارا لگتاہے لیکن وہ کامیاب ریاستیں نہیں ہیں۔ اس حوالے سے دو نام قابل ذکر ہیں: پولینڈ اور یوکرائن۔
جب ان کے سامنے اس خدشہ کا اظہارکیاجاتاہے کہ ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہمسائیہ ممالک آزادپنجاب کے ساتھ دشمنی کا طرزعمل اختیارکریں؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمسائیہ ممالک خالصتان کے ساتھ ایسا رویہ اختیارنہیں کریں گے۔جب بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہواتھا تو پاکستان نے نئی حقیقت کو تسلیم کرلیاتھا۔ آج پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کررہاہے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ایک اچھا تعلق قائم ہوسکتاہے۔
یہی معاملہ آزادپنجاب کے ساتھ ہوگا۔پنجاب بھی ہمسائیہ ممالک کے ساتھ ایک اچھا تعلق قائم کرے گا۔اس بات کا بھی کوئی خدشہ نہیں کہ ہمسائیہ ممالک ہمیں اپنی فضائی حدود استعمال نہ کرنے دیں۔ حالانکہ پاکستان بھارت آپس میں دشمنی والے تعلققات بھی رکھتے ہیں تاہم اب دونوں ممالک ایک دوسرے کی فضائی حدود استعمال کرتے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ خالصتان بننے کے بعد بھارت دیگرعلاقوں میں موجود سکھوں کے خلاف ظلم وتشدد کا بازار گرم کرے؟نہیں، ایسانہیں ہوگا، جب خالصتان آزاد مملکت کی صورت میں معرض وجود میں آگیاتو بھارت کے لئے دوبارہ ایسا بازار گرم کرنامشکل ہوجائے گا۔ دوسری بات دنیا بھر میں موجود سکھوں کے تحفظ کیلئے تمام تر آپشنز ہمارے سامنے موجود ہیں۔
خالصتان تحریک کے ذمہ داران کا کہناہے کہ مملکت خالصتان میں کسی بھی ایسے فرد کو کوئی عہدہ نہیں دیاجائے گا جو سکھوں کے قتل عام میں بلاواسطہ یا بلواسطہ شریک رہاہو یا سکھوں پر ظلم وتشدد کا حامی رہاہو۔اس کے بجائے انھیں گرفتارکرکے ان کے جرائم پر مقدمہ چلایاجائے گا۔ان سکھوں کا کیاہوگا جب پنجاب کے علاوہ دیگر ریاستوں میں رہتے ہیں؟ انھیں ایک موقع دیاجائے کہ وہ پنجاب کے ساتھ شامل ہو جائیں، بہرحال یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ خالصتان میں رہنا چاہتے ہیں یا بھارت میں حسب سابق زندگی بسر کرناچاہتے ہیں۔آزادپنجاب میں سکھوں اور غیرسکھوں سب کا خیرمقدم کیاجائے گا۔ سب کے حقوق یکساں ہوں گے۔جولوگ اس وقت پنجاب میں رہائش پذیر ہیں لیکن وہ آزاد پنجاب میں نہ رہناچاہیں،ان کی مرضی کا احترام کیاجائے گا۔
خالصتان سخت گیر مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔ ریاست اپنے شہریوں پر کوئی مذہبی نظریہ نہیں تھوپے گی۔ ہر شہری کسی بھی عقیدہ پر زندگی بسر کرنے میں آزاد ہوگا، اگر وہ لامذہب کے طورپر رہناچاہے تو اس کی مرضی کا احترام کیاجائے گا۔آزاد پنجاب میں ایسا جمہوری نظام ہوگا جس میں عوام اپنے نمائندے آزادانہ طورپر منتخب کرسکیں گے۔
بھارت سمجھتاہے کہ کشمیر اور خالصتان کی علیحدگی کے اثرات اس کے لئے نہایت خطرناک واقع ہوں گے۔ وہ تمام علیحدگی پسند تحریکیں بیدار ہوجائیں گی جنھیں بھارت نے اب مردہ سمجھنا شروع کردیاہے۔ تری پورہ، منی پور، آسام، میزورام، ارونچل پردیش، تامل ناڈو اور ناگالینڈ سمیت بھارت کی چھبیس ریاستوں میں علیحدگی پسند متحرک ہیں۔ یقینا بہت سی ریاستوں میںیہ تحریکیں کمزور پڑچکی ہیں لیکن ہندواتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا بھارتی حکمرانوں نے جہاں خالصتان کے حامی سکھوں کو نئی قوت بہم پہنچائی ہے وہاں باقی ریاستوں کے علیحدگی پسندوںکو بھی توانائی فراہم کرے گا۔ خالصتان کے قیام سے بھارت کا ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ ازخود ختم ہوجائے گا کیونکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان واحد راستہ خالصتان سے ہی گزرتا ہے۔ اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں موجود سکھ تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کررہے ہیں جبکہ ممکنہ مملکت خالصتان میں مسلمان خالصتان تحریک کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے خالصتان کو زندگی موت کا مسئلہ سمجھاہواہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف خالصتانی سکھ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔سکھ قوم کا جوش وجذبہ انھیں ہندئوں سے ممتاز کرتاہے، وہ موت قبول کرتے ہیں لیکن ناکامی نہیں، یہی جذبہ انھیں کامیابی کی طرف لے جائے گا۔