نئے امریکی صدر کے لیے انتخابی مہم شروع
ہلیری کلنٹن اور جیب بش سمیت متعدد امیدوار میدان میں
سپر پاورکہلانے والے ملک امریکا میں مسند صدارت پر اوباما کے بعد کون بیٹھے گا؟ اور کسے عالمی سطح پر چوہدری بن کر فیصلے کرنے والے ملک کی سربراہی کا موقع ملے گا؟، یہ وہ سوال ہیں جو عالمی سیاسی منظر نامے سے دل چسپی رکھنے والوں کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں، اب جب کہ امریکا میں صدارتی انتخاب کے لیے تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ رہ گیا ہے اور مختلف شخصیات نے امریکی صدر بننے کے لیے اپنی انتخابی مہم بھی شروع کردی ہے ، ہر کوئی بالعموم اور امریکی عوام بالخصوص سامنے آنے والے امیدواروں کے حوالے سے تجزیوں اور تبصروں میں مصروف ہیں۔
باراک حسین اوباما 2 بار صدر بننے کے بعد اب آئینی طور پر مسلسل تیسری دفعہ صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے، اس لیے اب یہ بات تو طے ہے کہ نومبر 2016 میں کوئی نیا چہرہ ہی امریکا میں مسند صدارت سنبھالے گا۔ امریکی صدارتی انتخاب کے لیے 8 نومبر 2016 کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ اوباما کی دوسری صدارتی مدت 20 جنوری 2017 کو مکمل ہوجائے گی اور پھر نومنتخب صدر باقاعدہ طور پر صدارتی محل میں آجائے گا۔ 2008 میں ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے اوباما نے ریپبلکن کے جان میکین کو جب کہ 2012 میں ریاست میسا چوسٹس (Messachusetts) کے سابق گورنر مٹ رومنی (Mit Romney) کو شکست دی تھی۔
اب جب امریکی صدارتی الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے تو دنیا بھر کی نظریں اس انتخابی معرکے میں شریک ہونے والے افراد پر لگی ہوئی ہیں، کیوںکہ امریکی صدر کا الیکشن پوری دنیا کے لیے ایک اہم ایونٹ ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنے لحاظ سے نئے امریکی سربراہ حکومت کے بارے میں رائے کا اظہار کررہا ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف پیش گوئیاں کی جارہی ہیں اور انتخاب میں حصہ لینے والوں کے حوالے سے بھی رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔
امریکا کی دونوں بڑی جماعتوں ریپبلکن (Republicans) اور ڈیموکریٹس (Democrats) نے کچھ امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ آئیے ایک نظران امیدواروں پر ڈالتے ہیں:
ڈیموکریٹس کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر سب سے اہم نام سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن (Hillary Clinton)کا ہے۔67 سالہ ہلیری کلنٹن کے جیون ساتھی بل کلنٹن بھی امریکی صدر رہ چکے ہیں جبکہ وہ خود بطور سینیٹر اور پھر وزیر خارجہ کی حیثیت سے دنیا بھر میں جانی پہچانی شخصیت کی حامل ہیں۔ اوباما کے پہلے دور صدارت میں 2009 سے 2013 کے عرصے میں ہلیری کلنٹن کو وزیر خارجہ جیسا اہم منصب سونپا گیا تھا ، اس سے قبل وہ 2001 سے 2009 تک نیویارک سے سینیٹر بھی رہ چکی ہیں۔
اگر ہلیری کلنٹن صدارتی انتخاب میں کام یاب ہوجاتی ہیں تو وہ ایک منفرد اعزاز کی حامل ہوں گی۔ وہ سابق خاتون اول، سابق سینیٹر، سابق وزیر خارجہ کے منصب پر رہنے والی پہلی خاتون ہوں گی جنھوں نے بطورامریکی صدر عنان اقتدار بھی سنبھالی۔ ایسا ہوگا یا نہیں؟ یہ تو وقت بتائے گا، لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صدارتی امیدواروں میں اب تک ہلیری کلنٹن کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے، کیوںکہ عالمی پسندیدگی کے ساتھ وہ امریکی عوام میں بھی مقبول ہیں۔ بطور خاتون اول ہلیری کلنٹن نے بہت سے اقدامات کیے۔
جن سے عوام خاص طور پر خواتین اور بچوں کو مزید سہولتیں مل سکیں۔ اس کے علاوہ جب وہ وزیرخارجہ بنیں تو انھوں نے امریکی حکومت کے ہر اقدام کا دنیا بھر میں دفاع کیا اور جہاں ضرورت پڑی اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا۔ اس کی مثال 2012 میں بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر حملہ تھا، ہلیری کلنٹن نے واضح طور پر سیکیوریٹی کی کوتاہی اور غفلت کا اعتراف کیا تھا۔
ہلیری کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں، جب کہ امریکا کے علاوہ مختلف ممالک میں تقاریب اور کانفرنسوں میں بھی ان کی شرکت کا سلسلہ جاری ہے، جہاں وہ مختلف مسائل اور معاملات کے حوالے سے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔ہلیری کے علاوہ ڈیموکریٹس کے امیدواروں کی فہرست میں ریاست رہوڈ آئی لینڈ (Rhode Island) کے گورنر لنکن شیفی (Lincoln Chafee)، گورنر میری لینڈ مارٹن اومیلی (Martin O'Malley) ، ریاست ورمونٹ (Vermont) سے امریکی سینیٹربارنی سینڈرز (Barney Sanders) کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ بھی متعدد شخصیات نے صدارتی انتخاب کے حوالے سے نام زدگی حاصل کی ہے اور وہ کسی نہ کسی سطح پر اپنی مہم بھی چلارہے ہیں۔ تاہم جیسے جیسے انتخابی مراحل آگے بڑھیں گے تو صرف چند مرکزی امیدوار ہی صدر بننے کی دوڑ میں رہ جائیں گے اور اصل مقابلہ بھی انھی شخصیات میں ہوگا۔
ڈیموکریٹس کے روایتی حریف ریپبلیکنز (Republicans) ہیں، اس پارٹی کی جانب سے بھی کئی امیدواروں نے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ریپبلکنز کے امیدواروں میں سب سے نمایاں نام سابق گورنر فلوریڈا جیب بش (Jeb Bush) کا ہے۔ جیب بُش کی ایک اہم پہچان یہ ہے کہ وہ سابق امریکی صدرجارج بش سنیئر کے صاحبزادے اور بش جونیئر کے بھائی ہیں۔ اگر62 سالہ جیب بش امریکی صدر بننے میں کام یاب ہوگئے تو وہ بھی ایک منفرد اور شاید برسوں تک نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ بنادیں گے۔
یعنی جیب بش ایسے امریکی صدر ہوں گے جن کے والد اور بھائی بھی امریکی ایوان صدر کے مکین رہ چکے ہیں، مگر ابھی اس کے لیے جیب بش کو بہت سخت مراحل سے گزرنا ہوگا اور اپنے منشور، اپنے خیالات و نظریات، اپنی پارٹی کی پالیسیوں کو عوام سے مقبولیت کی سند دلانا ہوگی۔ اور اپنی پارٹی کے سابق حکم رانوں کی غلط پالیسیوں کا عوامی مباحثوں میں دفاع بھی کرنا ہوگا، بل کہ ان کی وضاحت بھی دینا ہوگی۔
جیب بش کے علاوہ ریپبلکنز کے صدارتی امیدواروں کی فہرست میں میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے بین کارسن (Ben Carson) ، ریاست نیو جرسی کے گورنر کرس کرسٹی (Chris Christie) ، ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ٹیڈ کروز (Ted Cruz) ، معروف کمپنی ہیولٹ پیکارڈ کی سی ای او کارلے فلورینا (Carley Florina) ، سابق گورنر آرکنساس مائیک ہکابی (Mike Hucka bee)، ریاست لوزیانا (Louisiana) کے گورنر بوبی جنڈل (Bobby Jindal)، امریکی سینیٹر رینڈ پال (Rend Paul) اور دیگر شامل ہیں۔
قارئین کی دل چسپی کے لیے ایک مختصر جائزہ اس بات کا بھی لیتے ہیں کہ امریکا میں صدر کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے اور کتنے مراحل سے گزرنے کے بعد ایک شخص دنیا کے سب سے طاقت وراور بااثر سمجھے جانے والے ملک کے سربراہ کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔
امریکی آئین کے آرٹیکل 2کے تحت صدارتی الیکشن میں حصہ لینے والے مرد یا عورت کا امریکی شہری ہونا ضروری ہے، وہ کم سے کم مسلسل 14 سال سے امریکا میں رہ رہا ہو اور اس کی عمر 35 سال سے کم نہ ہو۔ امریکی صدارتی امیدوار کو ملک میں موجود کوئی سیاسی پارٹی نام زد کرتی ہے۔ امریکا میں صدارتی عہدے کی مدت 4 سال ہے۔ صدارتی امیدواروں کا انتخاب ہر پارٹی اپنے اجلاس اور متعدد میٹنگز میں کی جانے والی مشاورت کے بعد کرتی ہے، پارٹی کے ڈیلیگیٹس (delegates) کی اکثریت کی منظوری کے بغیر کسی بھی فرد کا صدارتی امیدوار کی حیثیت سے نام زد ہونا ممکن نہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈیلیگیٹس جب صدر کے عہدے کے لیے کسی شخص کا انتخاب کرلیتے ہیں ، اس کی نام زدگی کا اعلان کردیا جاتا ہے تو پھر نائب صدر کی نام زدگی کا اختیار بھی اسے ہی دے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے نائب کا انتخاب کرلے۔
صدر اور نائب صدر ایک ہی ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں ، ووٹروں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی ایک پارٹی کے صدر اور دوسری پارٹی کے نائب صدر کے حق میں ووٹ دیں۔ امریکا کی 51 ریاستوں میں جیتنے والے الیکٹورل کالج ہی صدر اور نائب صدر کے لیے اہم ہوتے ہیں، یہ الیکٹورل کالج ہی مستقبل کے سربراہ مملکت کا انتخاب کرتا ہے اور ہر ریاست میں عوام الیکٹورل کالج کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔الیکٹورل کالج کے ووٹوں میں سے نصف سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے صدر اور نائب صدر منتخب ہوجاتے ہیں۔
اگر ایسی صورت حال ہو کہ الیکٹورل کالج کسی کو بھی صدر منتخب نہ کرسکے تو ایوان نمائندگان (House of Representatives) صدارتی الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے 3 امیدواروں میں سے کسی ایک کو بطور صدر منتخب کرتا ہے، جب کہ نائب صدر کے عہدے کے لیے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے پہلے 2 امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب ہوتا ہے۔
الیکٹورل کالج کے کام اور انتخابی مراحل کے حوالے سے خود امریکا میں دو رائے پائی جاتی ہیں، کوئی اس کو انتہائی پیچیدہ اور مشکل سمجھتا ہے تو کسی کی رائے میں یہی طریقہ صدارتی انتخاب کے لیے صحیح ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ امریکا کے صدارتی الیکشن میں الیکٹورل کالج کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور اس کے بغیر صدر کا الیکشن ممکن نظر نہیں آتا۔2016 کے الیکشن کے بعد امریکی صدر کا منصب ہلیری کلنٹن کو ملے ، جیب بش اس منصب پر فائز ہوں یا کوئی اور شخصیت اس طاقت ور عہدے کی حامل ہو، یہ بات طے ہے کہ عالمی حالات وواقعات کے تناظر میں اُسے بہت سے چیلینجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
٭ نئے امریکی صدر کو درپیش چیلینج
سب سے پہلے تو نومنتخب صدر کے سامنے اپنے ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کا چیلینج ہوگا۔ خود کو سپر پاور کہلانے والا امریکا اپنے عوام کو معاشی طور پر سو فی صد مطمئن نہیں کرسکا ہے ، یہی وجہ ہے کہ امریکا کے مختلف حلقے حکومت کی معاشی پالیسیوں اور فیصلوں سے نالاں نظر آتے ہیں اور مختلف فورمز پر ارباب اقتدار پر تنقید کے تیر بھی چلاتے رہتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی حکمرانوں نے مختلف اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مسلم حکم رانوں کی غلطیاں اور کوتاہیاں بھی اس صورت حال کا بڑا سبب بنیں لیکن عالمی سطح پر اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے خواب نے امریکی حکومتوں کو بے حس کرنے میں بڑا ہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکم راں اپنے ہر عمل کو صحیح ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
نومنتخب امریکی صدر کو کوشش کرنی ہوگی کہ وہ جنگ و جدل کے بجائے دنیا بھر میں مختلف مسائل و مشکلات کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائے۔ اگر کوئی گروہ مذاکرات کی میز پر آنے کے بجائے ہٹ دھرمی دکھارہا ہو اور مسلح اور پُرتشدد کارروائیاں کررہا ہو تو اسے تو بزور خاموش کرانا ضروری ہے لیکن ہر معاملے میں جنگیں مسلط کرنا کسی بھی طرح دانش مندی نہیں کہی جاسکتی۔ اگر نیا امریکی صدر امن و مذاکرات کی پالیسی کو اپنانے میں کام یاب رہا تو عالمی تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔
اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو بھی فعال کردار ادا کرنے کے لیے امریکی صدر کے اثر و رسوخ کی بہت ضرورت ہے۔ نئے امریکی صدر کو کوشش کرنی ہوگی کہ یہ عالمی ادارہ اپنا آئینی کردار غیرجانب دارانہ انداز میں ادا کرے اور اپنی قراردادوں پر عمل کرانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔ یہ اقوام متحدہ کی سستی، غفلت، بے حسی ہی کہی جاسکتی ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اس کی قراردادوں پر کئی دہائیاں گزرجانے کے باوجود عمل نہیں ہوا۔عالمی سطح پر کئی ایسے تنازعات ہیں جو فوری حل طلب ہیں، کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ عالمی برادری کی توجہ کا مرکز ہے، کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانا نومنتخب امریکی صدر کا بڑا کام ہوگا۔
اس کے لیے صرف تقاریر سے کام نہیں چلے گا۔ روس اور چین کی بڑھتی ہوئی عالمی طاقت سے امریکا کو ایک بڑا چیلینج درپیش ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہائٹ ہائوس کے مکین اس چیلینج کو دشمنی سے تعبیر نہ کریں بل کہ باہمی احترام کے جذبے کے تحت ایک دوسرے سے تعلقات استوار کریں۔ بڑے ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ان کے قریب موجود چھوٹے ممالک کے مستقبل پر بھی انتہائی مثبت اثرات ڈال سکتے ہیں۔
امریکی پالیسیوں میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے امریکی حکومت کافی بیان بازی کرتی رہتی ہے، نومنتخب صدر کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی کوشش کرنا ہوگی، اپنا کردار ادا کرکے بھارت کو اس بات پر راضی کرنا ہوگا کہ وہ دوسرے ممالک میں مداخلت کا سلسلہ بند کرے اور اپنے عوام کی حالت زار پر توجہ دے۔
نومنتخب صدر کا سب سے بڑا اور مشکل کام اسرائیل کو نکیل ڈالنا ہوگا۔ فلسطینیوں پر برسوں سے جاری مظالم اور بہیمانہ سلوک کو روکنا بہت ضروری ہے۔ گوکہ امریکا میں اسرائیلی اثرورسوخ اور امریکی حکومت پر یہودیوں کی بالادستی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ امریکا بھی ذاتی مفادات کے حصول اور من پسند فیصلوں کی سوچ سے باہر نکلے۔ ایران کے جوہری تنازعے پر تو مذاکرات جاری ہیں، اس بات کا قوی امکان ہے کہ نئے صدر کے انتخاب سے کافی پہلے اس معاملے کا کوئی نہ کوئی پُر امن حل نکل آئے گا۔ شام، یمن، عراق اور افغانستان میں جاری خوں ریزی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ یہ قتل و غار فوری طور پر رک جائے اور ظلم کا بازار گرم کرنے والے اپنے انجام کو پہنچیں، لیکن نو منتخب امریکی صدر کو اپنی پالیسیوں کو اس طرح ڈھالنا ہوگا کہ آئندہ کوئی ایسا تنازعہ رونما نہ ہو۔
اب دیکھتے ہیں کہ 2017 کے اوائل میں امریکی صدر کس طرح عالمی حالات و واقعات کا سامنا کرے گا؟ اور دنیا میں امریکا کا بگڑا ہوا امیج بہتر بنانے کے لیے کیا ٹھوس اور موثر اقدامات کرنے میں کام یاب ہوگا؟، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔
باراک حسین اوباما 2 بار صدر بننے کے بعد اب آئینی طور پر مسلسل تیسری دفعہ صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے، اس لیے اب یہ بات تو طے ہے کہ نومبر 2016 میں کوئی نیا چہرہ ہی امریکا میں مسند صدارت سنبھالے گا۔ امریکی صدارتی انتخاب کے لیے 8 نومبر 2016 کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ اوباما کی دوسری صدارتی مدت 20 جنوری 2017 کو مکمل ہوجائے گی اور پھر نومنتخب صدر باقاعدہ طور پر صدارتی محل میں آجائے گا۔ 2008 میں ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے اوباما نے ریپبلکن کے جان میکین کو جب کہ 2012 میں ریاست میسا چوسٹس (Messachusetts) کے سابق گورنر مٹ رومنی (Mit Romney) کو شکست دی تھی۔
اب جب امریکی صدارتی الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے تو دنیا بھر کی نظریں اس انتخابی معرکے میں شریک ہونے والے افراد پر لگی ہوئی ہیں، کیوںکہ امریکی صدر کا الیکشن پوری دنیا کے لیے ایک اہم ایونٹ ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنے لحاظ سے نئے امریکی سربراہ حکومت کے بارے میں رائے کا اظہار کررہا ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف پیش گوئیاں کی جارہی ہیں اور انتخاب میں حصہ لینے والوں کے حوالے سے بھی رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔
امریکا کی دونوں بڑی جماعتوں ریپبلکن (Republicans) اور ڈیموکریٹس (Democrats) نے کچھ امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ آئیے ایک نظران امیدواروں پر ڈالتے ہیں:
ڈیموکریٹس کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر سب سے اہم نام سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن (Hillary Clinton)کا ہے۔67 سالہ ہلیری کلنٹن کے جیون ساتھی بل کلنٹن بھی امریکی صدر رہ چکے ہیں جبکہ وہ خود بطور سینیٹر اور پھر وزیر خارجہ کی حیثیت سے دنیا بھر میں جانی پہچانی شخصیت کی حامل ہیں۔ اوباما کے پہلے دور صدارت میں 2009 سے 2013 کے عرصے میں ہلیری کلنٹن کو وزیر خارجہ جیسا اہم منصب سونپا گیا تھا ، اس سے قبل وہ 2001 سے 2009 تک نیویارک سے سینیٹر بھی رہ چکی ہیں۔
اگر ہلیری کلنٹن صدارتی انتخاب میں کام یاب ہوجاتی ہیں تو وہ ایک منفرد اعزاز کی حامل ہوں گی۔ وہ سابق خاتون اول، سابق سینیٹر، سابق وزیر خارجہ کے منصب پر رہنے والی پہلی خاتون ہوں گی جنھوں نے بطورامریکی صدر عنان اقتدار بھی سنبھالی۔ ایسا ہوگا یا نہیں؟ یہ تو وقت بتائے گا، لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صدارتی امیدواروں میں اب تک ہلیری کلنٹن کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے، کیوںکہ عالمی پسندیدگی کے ساتھ وہ امریکی عوام میں بھی مقبول ہیں۔ بطور خاتون اول ہلیری کلنٹن نے بہت سے اقدامات کیے۔
جن سے عوام خاص طور پر خواتین اور بچوں کو مزید سہولتیں مل سکیں۔ اس کے علاوہ جب وہ وزیرخارجہ بنیں تو انھوں نے امریکی حکومت کے ہر اقدام کا دنیا بھر میں دفاع کیا اور جہاں ضرورت پڑی اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا۔ اس کی مثال 2012 میں بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر حملہ تھا، ہلیری کلنٹن نے واضح طور پر سیکیوریٹی کی کوتاہی اور غفلت کا اعتراف کیا تھا۔
ہلیری کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں، جب کہ امریکا کے علاوہ مختلف ممالک میں تقاریب اور کانفرنسوں میں بھی ان کی شرکت کا سلسلہ جاری ہے، جہاں وہ مختلف مسائل اور معاملات کے حوالے سے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔ہلیری کے علاوہ ڈیموکریٹس کے امیدواروں کی فہرست میں ریاست رہوڈ آئی لینڈ (Rhode Island) کے گورنر لنکن شیفی (Lincoln Chafee)، گورنر میری لینڈ مارٹن اومیلی (Martin O'Malley) ، ریاست ورمونٹ (Vermont) سے امریکی سینیٹربارنی سینڈرز (Barney Sanders) کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ بھی متعدد شخصیات نے صدارتی انتخاب کے حوالے سے نام زدگی حاصل کی ہے اور وہ کسی نہ کسی سطح پر اپنی مہم بھی چلارہے ہیں۔ تاہم جیسے جیسے انتخابی مراحل آگے بڑھیں گے تو صرف چند مرکزی امیدوار ہی صدر بننے کی دوڑ میں رہ جائیں گے اور اصل مقابلہ بھی انھی شخصیات میں ہوگا۔
ڈیموکریٹس کے روایتی حریف ریپبلیکنز (Republicans) ہیں، اس پارٹی کی جانب سے بھی کئی امیدواروں نے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ریپبلکنز کے امیدواروں میں سب سے نمایاں نام سابق گورنر فلوریڈا جیب بش (Jeb Bush) کا ہے۔ جیب بُش کی ایک اہم پہچان یہ ہے کہ وہ سابق امریکی صدرجارج بش سنیئر کے صاحبزادے اور بش جونیئر کے بھائی ہیں۔ اگر62 سالہ جیب بش امریکی صدر بننے میں کام یاب ہوگئے تو وہ بھی ایک منفرد اور شاید برسوں تک نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ بنادیں گے۔
یعنی جیب بش ایسے امریکی صدر ہوں گے جن کے والد اور بھائی بھی امریکی ایوان صدر کے مکین رہ چکے ہیں، مگر ابھی اس کے لیے جیب بش کو بہت سخت مراحل سے گزرنا ہوگا اور اپنے منشور، اپنے خیالات و نظریات، اپنی پارٹی کی پالیسیوں کو عوام سے مقبولیت کی سند دلانا ہوگی۔ اور اپنی پارٹی کے سابق حکم رانوں کی غلط پالیسیوں کا عوامی مباحثوں میں دفاع بھی کرنا ہوگا، بل کہ ان کی وضاحت بھی دینا ہوگی۔
جیب بش کے علاوہ ریپبلکنز کے صدارتی امیدواروں کی فہرست میں میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے بین کارسن (Ben Carson) ، ریاست نیو جرسی کے گورنر کرس کرسٹی (Chris Christie) ، ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ٹیڈ کروز (Ted Cruz) ، معروف کمپنی ہیولٹ پیکارڈ کی سی ای او کارلے فلورینا (Carley Florina) ، سابق گورنر آرکنساس مائیک ہکابی (Mike Hucka bee)، ریاست لوزیانا (Louisiana) کے گورنر بوبی جنڈل (Bobby Jindal)، امریکی سینیٹر رینڈ پال (Rend Paul) اور دیگر شامل ہیں۔
قارئین کی دل چسپی کے لیے ایک مختصر جائزہ اس بات کا بھی لیتے ہیں کہ امریکا میں صدر کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے اور کتنے مراحل سے گزرنے کے بعد ایک شخص دنیا کے سب سے طاقت وراور بااثر سمجھے جانے والے ملک کے سربراہ کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔
امریکی آئین کے آرٹیکل 2کے تحت صدارتی الیکشن میں حصہ لینے والے مرد یا عورت کا امریکی شہری ہونا ضروری ہے، وہ کم سے کم مسلسل 14 سال سے امریکا میں رہ رہا ہو اور اس کی عمر 35 سال سے کم نہ ہو۔ امریکی صدارتی امیدوار کو ملک میں موجود کوئی سیاسی پارٹی نام زد کرتی ہے۔ امریکا میں صدارتی عہدے کی مدت 4 سال ہے۔ صدارتی امیدواروں کا انتخاب ہر پارٹی اپنے اجلاس اور متعدد میٹنگز میں کی جانے والی مشاورت کے بعد کرتی ہے، پارٹی کے ڈیلیگیٹس (delegates) کی اکثریت کی منظوری کے بغیر کسی بھی فرد کا صدارتی امیدوار کی حیثیت سے نام زد ہونا ممکن نہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈیلیگیٹس جب صدر کے عہدے کے لیے کسی شخص کا انتخاب کرلیتے ہیں ، اس کی نام زدگی کا اعلان کردیا جاتا ہے تو پھر نائب صدر کی نام زدگی کا اختیار بھی اسے ہی دے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے نائب کا انتخاب کرلے۔
صدر اور نائب صدر ایک ہی ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں ، ووٹروں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی ایک پارٹی کے صدر اور دوسری پارٹی کے نائب صدر کے حق میں ووٹ دیں۔ امریکا کی 51 ریاستوں میں جیتنے والے الیکٹورل کالج ہی صدر اور نائب صدر کے لیے اہم ہوتے ہیں، یہ الیکٹورل کالج ہی مستقبل کے سربراہ مملکت کا انتخاب کرتا ہے اور ہر ریاست میں عوام الیکٹورل کالج کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔الیکٹورل کالج کے ووٹوں میں سے نصف سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے صدر اور نائب صدر منتخب ہوجاتے ہیں۔
اگر ایسی صورت حال ہو کہ الیکٹورل کالج کسی کو بھی صدر منتخب نہ کرسکے تو ایوان نمائندگان (House of Representatives) صدارتی الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے 3 امیدواروں میں سے کسی ایک کو بطور صدر منتخب کرتا ہے، جب کہ نائب صدر کے عہدے کے لیے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے پہلے 2 امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب ہوتا ہے۔
الیکٹورل کالج کے کام اور انتخابی مراحل کے حوالے سے خود امریکا میں دو رائے پائی جاتی ہیں، کوئی اس کو انتہائی پیچیدہ اور مشکل سمجھتا ہے تو کسی کی رائے میں یہی طریقہ صدارتی انتخاب کے لیے صحیح ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ امریکا کے صدارتی الیکشن میں الیکٹورل کالج کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور اس کے بغیر صدر کا الیکشن ممکن نظر نہیں آتا۔2016 کے الیکشن کے بعد امریکی صدر کا منصب ہلیری کلنٹن کو ملے ، جیب بش اس منصب پر فائز ہوں یا کوئی اور شخصیت اس طاقت ور عہدے کی حامل ہو، یہ بات طے ہے کہ عالمی حالات وواقعات کے تناظر میں اُسے بہت سے چیلینجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
٭ نئے امریکی صدر کو درپیش چیلینج
سب سے پہلے تو نومنتخب صدر کے سامنے اپنے ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کا چیلینج ہوگا۔ خود کو سپر پاور کہلانے والا امریکا اپنے عوام کو معاشی طور پر سو فی صد مطمئن نہیں کرسکا ہے ، یہی وجہ ہے کہ امریکا کے مختلف حلقے حکومت کی معاشی پالیسیوں اور فیصلوں سے نالاں نظر آتے ہیں اور مختلف فورمز پر ارباب اقتدار پر تنقید کے تیر بھی چلاتے رہتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی حکمرانوں نے مختلف اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مسلم حکم رانوں کی غلطیاں اور کوتاہیاں بھی اس صورت حال کا بڑا سبب بنیں لیکن عالمی سطح پر اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے خواب نے امریکی حکومتوں کو بے حس کرنے میں بڑا ہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکم راں اپنے ہر عمل کو صحیح ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
نومنتخب امریکی صدر کو کوشش کرنی ہوگی کہ وہ جنگ و جدل کے بجائے دنیا بھر میں مختلف مسائل و مشکلات کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائے۔ اگر کوئی گروہ مذاکرات کی میز پر آنے کے بجائے ہٹ دھرمی دکھارہا ہو اور مسلح اور پُرتشدد کارروائیاں کررہا ہو تو اسے تو بزور خاموش کرانا ضروری ہے لیکن ہر معاملے میں جنگیں مسلط کرنا کسی بھی طرح دانش مندی نہیں کہی جاسکتی۔ اگر نیا امریکی صدر امن و مذاکرات کی پالیسی کو اپنانے میں کام یاب رہا تو عالمی تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔
اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو بھی فعال کردار ادا کرنے کے لیے امریکی صدر کے اثر و رسوخ کی بہت ضرورت ہے۔ نئے امریکی صدر کو کوشش کرنی ہوگی کہ یہ عالمی ادارہ اپنا آئینی کردار غیرجانب دارانہ انداز میں ادا کرے اور اپنی قراردادوں پر عمل کرانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔ یہ اقوام متحدہ کی سستی، غفلت، بے حسی ہی کہی جاسکتی ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اس کی قراردادوں پر کئی دہائیاں گزرجانے کے باوجود عمل نہیں ہوا۔عالمی سطح پر کئی ایسے تنازعات ہیں جو فوری حل طلب ہیں، کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ عالمی برادری کی توجہ کا مرکز ہے، کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانا نومنتخب امریکی صدر کا بڑا کام ہوگا۔
اس کے لیے صرف تقاریر سے کام نہیں چلے گا۔ روس اور چین کی بڑھتی ہوئی عالمی طاقت سے امریکا کو ایک بڑا چیلینج درپیش ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہائٹ ہائوس کے مکین اس چیلینج کو دشمنی سے تعبیر نہ کریں بل کہ باہمی احترام کے جذبے کے تحت ایک دوسرے سے تعلقات استوار کریں۔ بڑے ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ان کے قریب موجود چھوٹے ممالک کے مستقبل پر بھی انتہائی مثبت اثرات ڈال سکتے ہیں۔
امریکی پالیسیوں میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے امریکی حکومت کافی بیان بازی کرتی رہتی ہے، نومنتخب صدر کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی کوشش کرنا ہوگی، اپنا کردار ادا کرکے بھارت کو اس بات پر راضی کرنا ہوگا کہ وہ دوسرے ممالک میں مداخلت کا سلسلہ بند کرے اور اپنے عوام کی حالت زار پر توجہ دے۔
نومنتخب صدر کا سب سے بڑا اور مشکل کام اسرائیل کو نکیل ڈالنا ہوگا۔ فلسطینیوں پر برسوں سے جاری مظالم اور بہیمانہ سلوک کو روکنا بہت ضروری ہے۔ گوکہ امریکا میں اسرائیلی اثرورسوخ اور امریکی حکومت پر یہودیوں کی بالادستی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ امریکا بھی ذاتی مفادات کے حصول اور من پسند فیصلوں کی سوچ سے باہر نکلے۔ ایران کے جوہری تنازعے پر تو مذاکرات جاری ہیں، اس بات کا قوی امکان ہے کہ نئے صدر کے انتخاب سے کافی پہلے اس معاملے کا کوئی نہ کوئی پُر امن حل نکل آئے گا۔ شام، یمن، عراق اور افغانستان میں جاری خوں ریزی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ یہ قتل و غار فوری طور پر رک جائے اور ظلم کا بازار گرم کرنے والے اپنے انجام کو پہنچیں، لیکن نو منتخب امریکی صدر کو اپنی پالیسیوں کو اس طرح ڈھالنا ہوگا کہ آئندہ کوئی ایسا تنازعہ رونما نہ ہو۔
اب دیکھتے ہیں کہ 2017 کے اوائل میں امریکی صدر کس طرح عالمی حالات و واقعات کا سامنا کرے گا؟ اور دنیا میں امریکا کا بگڑا ہوا امیج بہتر بنانے کے لیے کیا ٹھوس اور موثر اقدامات کرنے میں کام یاب ہوگا؟، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔