واحد بشیر واحد تھے

واحد بشیر اپنے عمل اور شخصیت میں واحد تھے۔ کم گو، دھیما لہجہ، جھکا ہوا سر، اپنے نظریے پر اٹل

واحد بشیر اپنے عمل اور شخصیت میں واحد تھے۔ کم گو، دھیما لہجہ، جھکا ہوا سر، اپنے نظریے پر اٹل۔ کسی ظالم کے آگے سر نہیں جھکایا، کسی در پر فریادی نہیں بنے، نہایت سادہ بود و باش، کبھی اپنے ذاتی مسائل کا رونا نہیں رویا، کوئی واویلہ نہیں مچایا، اور خاموشی سے ساتھ ایمان کے قبر میں اتر گئے۔ بڑے بوڑھے دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اللہ! ساتھ ایمان کے قبر میں اتارنا۔

واحد بشیر صاحب کے آخری ایام بیماری میں گزرے، اس بارے میں محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ سے بھی فون پر بات ہوئی، تو انھوں نے بھی بتایا کہ واحد بشیر صاحب نے آخری ایام شدید بیماری کی حالت میں گزارے، اسی لیے ان کی بیٹی ڈاکٹر ندا انھیں اپنے گھر لے گئی تھیں۔ میں بھی واحد بشیر صاحب کا مزاج آشنا ہوں۔ ان کے ساتھ ان کی تحریروں کے ساتھ، ان کی فکر کے ساتھ ایک زمانہ گزرا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ واحد بشیر صاحب نے بھی کسی حکومتی ادارے سے یہ نہیں کہا یا کہلوایا کہ ان کا علاج کروایا جائے۔ نہ کبھی کوئی ایسی دستخطی قرارداد، اخباروں میں شایع ہوئی کہ جس میں شاعروں، ادیبوں، سیاسی ورکروں نے حکومت سے اپیل کی ہو کہ واحد بشیر صاحب کا علاج سرکاری خرچ سے کروایا جائے۔ اس نوع کے دو واقعات اس سے پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ ایک واقعہ حبیب جالب صاحب جن کا علاج سرکاری حکومتی سطح پر بیرون ملک کروانے کی حکومتی پیشکشیں ہوتی رہیں۔

جنرل ضیا الحق کا گورنر پنجاب اسپتال آیا، نواز شریف حکومت کا وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں اسپتال آیا، محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم اسپتال آئیں، سب نے یہی پیشکش کی کہ ہم آپ کا بیرون ملک علاج کروانا چاہتے ہیں اور جالب صاحب نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک ہی بات کہی ''یہاں غریبوں کو ڈسپرین نہیں ملتی میں بیرون ملک علاج کیوں کرواؤں، میں یہیں ٹھیک ہوں۔'' دوسرا واقعہ شاعر و صحافی خالد علیگ صاحب کا ہے کہ انھیں بھی حکومت سندھ اور خصوصاً گورنر سندھ عشرت العباد نے سرکاری خرچ پر علاج کی پیشکش کی۔ ایک بار ان کے لیے گورنر سندھ نے پانچ لاکھ روپے بھجوائے۔ مگر عظیم کردار کے مالک خالد علیگ صاحب نے دونوں پیشکشوں کو ٹھکرادیا اور پھر یوں بھی ہوا کہ جب سرکاری لوگوں نے کراچی کے ایک اسپتال میں ڈیرے ڈال دیے تو خالد بھائی بیماری کی حالت میں علاج ادھورا چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے۔ خالد علیگ صاحب کا شعر لکھنا چاہ رہا ہوں:

ہم صبح پرستوں کی یہ رِیت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

واحد بشیر صاحب کوئی داغ دھبہ لیے بغیر صاف و شفاف دامن لے گئے ہیں۔ ایسے ہی کردار مجھے اور یاد آگئے ہیں، ایک پنجابی زبان کے شاعر استاد دامن اور دوسرے جنرل ضیا الحق کو دوبدو غاصب کہنے والے بے باک صحافی نثار عثمانی۔ اللہ ان لوگوں کو آسودگی عطا فرمائے کہ یہ ہماری آبرو ہیں۔

واحد بشیر صاحب کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ وہ زمین جس نے اردو کے پہلے شاعر ولی دکنی کو جنم دیا۔ عظیم مزدور رہنما شہید حسن ناصر (جنھیں جنرل ایوب خان کے دور میں قلعہ لاہور میں اذیتیں دے دے کر شہید کردیا گیا) ابراہیم جلیس کا بھی تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ واحد بشیر بھی وہیں کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے روحانی مرشد انقلابی شاعر مخدوم محی الدین ٹھہرے جن کی تلنگانہ تحریک کے بارے میں شاعری نے واحد بشیر صاحب کی فکری سمت کا تعین کیا۔ واحد بشیر صاحب کارل مارکس کے فلسفہ حیات کے پیروکار تھے۔ واحد بشیر صاحب نے جو راستہ ابتدا میں اختیار کیا، آخری سانس تک اسے نہیں چھوڑا۔ بٹوارے کے بعد پاکستان آئے تو یہاں بھی اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ رہے۔ ابتدا کراچی میں طلبا تحریک سے کی۔


8 جنوری 1953 کی طلبا تحریک پر پولیس فائرنگ اور شدید تشدد، گرفتار ہونے والوں اور تشدد کا شکار ہونے والوں میں واحد بشیر شامل تھے۔ یہ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی۔ جنرل ایوب آئے تو انھوں نے ڈی ایس ایف پر پابندی لگادی۔ یوں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں بھی واحد بشیر ہراول دستے میں موجود تھے۔ طلبا نے حکومتی جاری کردہ یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف زبردست تحریک کا آغاز کیا۔ جنرل ایوب حکومت نے باغی طلبا کو کراچی بدر کردیا۔ جن کے نام یہ ہیں۔ واحد بشیر، فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، جوہر حسین، علی مختار رضوی، شیر افضل ملک، عبدالودود، آغا جعفر، نواز بٹ، حسین نقی، سید سعید حسن، انور احسن صدیقی، اقبال میمن ودیگر شامل تھے۔ اسی طلبا شہر بدری پر حبیب جالب نے یہ مشہور قطعہ لکھا تھا:

فضا میں اپنا لہو جس نے بھی اچھال دیا
ستم گروں نے اسے شہر سے نکال دیا

یہی تو ہم سے رفیقانِ شب کو شکوہ ہے
کہ ہم نے صبح کے رستے میں خود کو ڈال دیا

واحد بشیر تاحیات صبح کے رستے پر ہی گامزن رہے، ''نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ'' واحد بشیر کی زندگی حوالاتوں، جیل خانوں میں گزرتی رہی، کبھی دولت جمع کرنے، کوٹھی بنگلے بنانے کی طرف دھیان نہیں کیا، سادہ زندگی گزارتے ہوئے بچوں کو تعلیم کی طرف لگائے رکھا اور خود صبح کے رستے پر نعرہ زن رہے۔ انھیں جہاں جانا ہوتا تھا وہ چلے جاتے تھے اور جہاں نہیں جانا! وہاں ہزار دعوت نامے آئیں نہیں جاتے تھے۔ انھیں خود نمائی کا ذرہ برابر شوق نہیں تھا، نہ وہ صدارتوں یا مہمان خصوصی بننے کے محتاج تھے۔ اکثر محفلوں میں ان سے کہیں کمزور کردار والے سند صدارت سنبھالے نظر آتے تھے۔ مگر سامعین میں بیٹھے درویش صفت واحد بشیر کی قلندرانہ شان الگ ہی نظر آتی تھی۔ بالکل یہی صورتحال حضرت خالد علیگ کی بھی تھی۔ واقعی بڑے لوگ بڑے ہی ہوتے ہیں۔ واحد بشیر نے مزدور تحریکوں کو منظم کیا۔ خود بھی اسی ماحول میں رہے۔ ''ارتقا'' واحد بشیر کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ہے۔ اسی رسالے کی مجلس ادارت میں وہ ڈاکٹر محمد علی صدیقی، پروفیسر حسن عابد، ڈاکٹر جعفر احمد، پروفیسر محمد نصیر، زیبا علوی، فقیر محمد لاشاری، نوشابہ زبیری اور راحت سعید کے ساتھ آخری دم تک شامل رہے۔

ایک اور فضیلت بھی واحد بشیر صاحب کو حاصل رہی اور وہ تھیں ان کی شریک حیات حمزہ۔ حمزہ NSF کے زمانے سے ان کے ساتھ تھیں۔ انھوں نے بھی واحد بشیر صاحب کے ساتھ حق و صداقت کا علم بلند رکھا اور صعوبتوں کے سفر میں ثابت قدم رہیں۔

آج واحد بشیر صاحب کو یاد کرتے ہوئے مجھے وہ پہلی بالمشافہ ملاقات یاد آرہی ہے۔ یہ 1974-75 کا زمانہ تھا۔ جب میں بزنس ریکارڈر روڈ (گرومندر سے لسبیلہ جانے والی سڑک) پر انگریزی (اخبار بھی اسی روڈ کے نام کا ہے یعنی ''بزنس ریکارڈر'') کے دفتر میں ملا تھا۔ اور دیر تک ان کا ساتھ مجھے حاصل رہا تھا۔ بعد کو بے شمار ملاقاتیں میرے سرمائے میں محفوظ ہیں۔ وہ اتنے پیارے تھے کہ انھیں بھی میں ہمیشہ یاد رکھوں گا، ان کے درجات کی بلندی کے لیے اللہ سے دعا گو ہوں۔
Load Next Story