سکونِ زندگی مربوط ہے بجلی کے تاروں سے
کے الیکٹرک والوں نےعید کے دن بھی اگر کوئی ڈرامہ کرکے لائٹ بند کردی تو بھی ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔
ابھی افطاری کرکے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک بار پھر لائٹ چلی گئی۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ لائٹ والوں کی دل بھر کر حوصلہ افزائی کی جائے مگر کیا کرتے ماہ مبارک رمضان کی وجہ سے خاموش رہے۔ امی نے کہا بیٹا صبر کرو آجائے گی۔ میں نے غصے میں سر اُٹھا کر پنکھے کی طرف دیکھا تو وہ بھی یو پی ایس چارج نہ ہونے کے باعث منہ چڑا رہا تھا اور چلنے کے بجائے رینگ رہا تھا۔ امی نے آواز لگائی بیٹا فروٹ چاٹ تو کھا لو تھوڑی ہمت پیدا ہوگی۔ میں نے دلبرداشتہ ہو کر کہا امی یہاں ہمارا شیک بن گیا ہے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ فروٹ چاٹ کھا لو، پھر ابو نے کہا بیٹا یہ مسئلہ تو پورے کراچی بلکہ پورے ملک میں چل رہا ہے، تو بہتر یہ ہے کہ تم صبر کرو۔
چونکہ بجلی پورا دن غائب رہنے کے بعد افطار سے دس منٹ پہلے ہی آئی تھی اور افطار کے پانچ منٹ بعد چلی گئی، اور شاید یہی وجہ ہے کہ میرا خون کھول رہا تھا۔ میں نے غصے کی حالت میں 'کے الیکٹرک' کے کمپلین سینٹر پر کال کی۔ کچھ دیر گانا سنا اور پھر آپریٹر کی آواز آئی جس نے سلام کے بعد کہا،
بس یہ سننا تھا کہ میری ایک آہ نکلی اور فون رکھ دیا۔ امی نے کہا بیٹا کیا ہوا کس کی کال تھی؟ ہم کیا بولتے بس یہی کہا کہ میں جارہا ہوں باہر! نہ جانے کب آئے گی یہ لائٹ۔ ابھی باہر سڑک پر قدم رکھا ہی تھا کہ ہر گھر سے بچوں کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ایک صاحب سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔ میں نے کہا شاہ جی کیا ہوا کس چیز کی ٹینشن ہے؟ تو کہنے لگے یار لائٹ پورے دن جائے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس ٹائم تو انعامات جیتنے کا وقت ہوتا ہے۔ سمجھ تو میں گیا تھا لیکن پھر بھی میں نے کہا کہ بھئی اللہ کی بارگاہ میں انعام کسی خاص وقت تو نہیں ملتا آپ نیک کام کرتے جائیں بارگاہِ خدا وندی سے انعامات کی بارش ہوتی جائے گی۔ جس پر وہ بولے ارے نہیں یار میں بات کر رہا ہوں ٹی وی شو کی جس میں بے شمار انعامات ملتے ہیں۔ ارے اس بار افطار کے بعد سے لیکر رات دس بجے تک انعامات بٹتے رہتے ہیں۔ میں فوراً بولا ارے شاہ جی آپ تو پابندی کے ساتھ تراویح پڑھتے تھے تو اب کیا ہوگیا؟ جس پر وہ بولے کہ یار ابھی کیا کریں دیکھو اس میں بھی تو علم میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اُن کی یہ بات سن کر میں مجبور ہوگیا کہ آگے کی جانب نکل جاوں۔
ابھی گلی کے کونے پر پہنچا ہی تھا کہ محلے کے دیگر بزرگ بس ایک ہی بات کر رہے تھے کہ اللہ ان کے الیکٹرک والوں کے دل میں رحم ڈال دے۔ پھر میں نے سوال کیا کہ انکل یہ لائٹ اتنا کیوں جاتی ہے؟ جس پر سب نے ایک ساتھ کہا کہ ارے بیٹا پہلے جتنے بھی تار تھے وہ سب تانبے کے تھے جس کو نکال لیا گیا اور اس کے بعد سلور کے تار لگا دئیے گئے اور یہی بار بار لائٹ جانے کی سب سے اہم وجہ بھی ہے۔ تو اب میرا سوال یہ ہے کہ جب گلی محلے میں رہنے والوں کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ اس شہر ِقائد میں باقائدہ تانبے کے تار نکال نکال کے بیچے گئے جس سے اربوں روپے کمائے گئے تو پھر آج تک کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ کیا یہ کسی المیے سے کم بات ہے کہ جہاں دنیا ریسرچ کے میدان میں غرق ہے اور نئی نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں لیکن ہم ریسرچ کیا کرتے کہ ہم تو اب تک لائٹ آنے کے انتظار میں ادھر سے اُدھر پھر رہے ہیں۔ ہمارے کرپٹ ترین حکمرانوں کو تو پتا ہی نہیں کہ شدید گرمی میں جب لائٹ جاتی ہو تو کیا ہوتا ہے کیونکہ یہ خود تو محلات میں رہتے ہیں اور ان کے بچے باہر ممالک میں ہوتے ہیں ان کو کیا پتا کہ عوام کس حال میں جی رہی ہے۔
ویسے تو ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ کوئی خرابی ہے یا پھر جان بوجھ کر کسی سازش کے تحت یہ سب کیا جارہا ہے! کیونکہ بجلی کا بریک ڈاؤن اگر اسی طرح ہوتا رہا تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ لہذا دو سوال کئے جائیں پہلا یہ کہ تانبے کے تار نکال کے کیوں فروخت کئے گئے اور اس کے پیچھے کون لوگ تھے؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی ہونا چاہئے کہ کراچی میں جب وافر مقدار میں بجلی موجود ہے تو پھر اس قدر لوڈ شیڈنگ کی کیا وجہ ہے؟ اگر اِن سوالوں کے جواب نہ ڈھونڈے گئے تو ایسا نہ کہ عوام میں موجود صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے کیونکہ عوام اب تھک چکے ہیں۔ نہ یو پی ایس کام آتا ہے اور نہ ہے جنریٹر، ستم برائے ستم یہ کہ ہمارے وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ عوام اے سی زیادہ چلاتے ہیں تو لائٹ جاتی ہے۔ اب ان موصوف کو کون بتائے کہ بھیا لائٹ ہوگی تو اے سی چلے گا نہ!!!
اب دل سے ان حکمرانوں کے لئے اچھے کلمات نہیں نکلتے کیونکہ ہر حکومت آنے سے پہلے یہی کہتی ہے کہ ہم لوڈ شیڈنگ ختم کریں گے لیکن آنے کے بعد یہ بجلی ہی ختم کرنے پر تل جاتے ہیں، اس تمام تر صورتحال پر ہمارے دوست حیدر عباس نے ایک شعر لکھا جس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ملک میں اتنی ساری گھومنے پھرنے کی جگہیں ہیں لیکن عوام کو اب یہ سب نہیں چاہئے بلکہ یہ چاہئے، شعر ملاحظہ ہو۔
بس اب سکون زندگی کی تلاش میں کراچی کے شہری پریشان ہیں کیونکہ کے الیکٹرک والوں کا کچھ نہیں معلوم، یہ عید کے پُر مسرت موقع پر بھی بھی کوئی ایسا ہی ڈرامہ کرکے لائٹ بند کرسکتے ہیں اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو بھی ہم ان کا کیا کر لیں گے؟ ویسے اِن حالات میں اب کراچی کی عوام یہ بھی سوچتی ہے کہ آخر اِن خراب تر حالات میں بھی ہمارے کرتا دھرتا کوئلے اور دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے بارے میں کوئی عملی قدم کیوں نہیں اُٹھا رہے؟ اگر صرف کوئلے سے بجلی پیدا کی جائے تو بغیر کسی مغالبے کے ہم کئی سالوں تک بغیر کسی وقفے کے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اگر اِس معاملے میں کچھ رکاوٹ ہے تو اُسے دور کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
بس اتنی لمبی بات کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بھیا کچھ بھی کرو بس بجلی دے دو!
[poll id="540"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
چونکہ بجلی پورا دن غائب رہنے کے بعد افطار سے دس منٹ پہلے ہی آئی تھی اور افطار کے پانچ منٹ بعد چلی گئی، اور شاید یہی وجہ ہے کہ میرا خون کھول رہا تھا۔ میں نے غصے کی حالت میں 'کے الیکٹرک' کے کمپلین سینٹر پر کال کی۔ کچھ دیر گانا سنا اور پھر آپریٹر کی آواز آئی جس نے سلام کے بعد کہا،
بتائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟
میں نے بغیر کسی توقف کے کہا بھائی لائٹ بحال کردو، ہماری آنے والی نسلوں پر احسان ہوگا۔
جس پر کانوں میں رس گھولنے والی آواز دوبارہ نکلی کہ معزز صارف لائٹ جانے کی بنیادی وجہ بن قاسم پاور پلانٹ پر چار میں سے تین پلانٹس کا بند ہوجانا ہے لہذا ہماری کوششیں جاری ہیں امید ہے اگلے دس سے بارہ گھنٹے میں لائٹ آجائے گی!
بس یہ سننا تھا کہ میری ایک آہ نکلی اور فون رکھ دیا۔ امی نے کہا بیٹا کیا ہوا کس کی کال تھی؟ ہم کیا بولتے بس یہی کہا کہ میں جارہا ہوں باہر! نہ جانے کب آئے گی یہ لائٹ۔ ابھی باہر سڑک پر قدم رکھا ہی تھا کہ ہر گھر سے بچوں کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ایک صاحب سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔ میں نے کہا شاہ جی کیا ہوا کس چیز کی ٹینشن ہے؟ تو کہنے لگے یار لائٹ پورے دن جائے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس ٹائم تو انعامات جیتنے کا وقت ہوتا ہے۔ سمجھ تو میں گیا تھا لیکن پھر بھی میں نے کہا کہ بھئی اللہ کی بارگاہ میں انعام کسی خاص وقت تو نہیں ملتا آپ نیک کام کرتے جائیں بارگاہِ خدا وندی سے انعامات کی بارش ہوتی جائے گی۔ جس پر وہ بولے ارے نہیں یار میں بات کر رہا ہوں ٹی وی شو کی جس میں بے شمار انعامات ملتے ہیں۔ ارے اس بار افطار کے بعد سے لیکر رات دس بجے تک انعامات بٹتے رہتے ہیں۔ میں فوراً بولا ارے شاہ جی آپ تو پابندی کے ساتھ تراویح پڑھتے تھے تو اب کیا ہوگیا؟ جس پر وہ بولے کہ یار ابھی کیا کریں دیکھو اس میں بھی تو علم میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اُن کی یہ بات سن کر میں مجبور ہوگیا کہ آگے کی جانب نکل جاوں۔
ابھی گلی کے کونے پر پہنچا ہی تھا کہ محلے کے دیگر بزرگ بس ایک ہی بات کر رہے تھے کہ اللہ ان کے الیکٹرک والوں کے دل میں رحم ڈال دے۔ پھر میں نے سوال کیا کہ انکل یہ لائٹ اتنا کیوں جاتی ہے؟ جس پر سب نے ایک ساتھ کہا کہ ارے بیٹا پہلے جتنے بھی تار تھے وہ سب تانبے کے تھے جس کو نکال لیا گیا اور اس کے بعد سلور کے تار لگا دئیے گئے اور یہی بار بار لائٹ جانے کی سب سے اہم وجہ بھی ہے۔ تو اب میرا سوال یہ ہے کہ جب گلی محلے میں رہنے والوں کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ اس شہر ِقائد میں باقائدہ تانبے کے تار نکال نکال کے بیچے گئے جس سے اربوں روپے کمائے گئے تو پھر آج تک کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ کیا یہ کسی المیے سے کم بات ہے کہ جہاں دنیا ریسرچ کے میدان میں غرق ہے اور نئی نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں لیکن ہم ریسرچ کیا کرتے کہ ہم تو اب تک لائٹ آنے کے انتظار میں ادھر سے اُدھر پھر رہے ہیں۔ ہمارے کرپٹ ترین حکمرانوں کو تو پتا ہی نہیں کہ شدید گرمی میں جب لائٹ جاتی ہو تو کیا ہوتا ہے کیونکہ یہ خود تو محلات میں رہتے ہیں اور ان کے بچے باہر ممالک میں ہوتے ہیں ان کو کیا پتا کہ عوام کس حال میں جی رہی ہے۔
ویسے تو ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ کوئی خرابی ہے یا پھر جان بوجھ کر کسی سازش کے تحت یہ سب کیا جارہا ہے! کیونکہ بجلی کا بریک ڈاؤن اگر اسی طرح ہوتا رہا تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ لہذا دو سوال کئے جائیں پہلا یہ کہ تانبے کے تار نکال کے کیوں فروخت کئے گئے اور اس کے پیچھے کون لوگ تھے؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی ہونا چاہئے کہ کراچی میں جب وافر مقدار میں بجلی موجود ہے تو پھر اس قدر لوڈ شیڈنگ کی کیا وجہ ہے؟ اگر اِن سوالوں کے جواب نہ ڈھونڈے گئے تو ایسا نہ کہ عوام میں موجود صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے کیونکہ عوام اب تھک چکے ہیں۔ نہ یو پی ایس کام آتا ہے اور نہ ہے جنریٹر، ستم برائے ستم یہ کہ ہمارے وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ عوام اے سی زیادہ چلاتے ہیں تو لائٹ جاتی ہے۔ اب ان موصوف کو کون بتائے کہ بھیا لائٹ ہوگی تو اے سی چلے گا نہ!!!
اب دل سے ان حکمرانوں کے لئے اچھے کلمات نہیں نکلتے کیونکہ ہر حکومت آنے سے پہلے یہی کہتی ہے کہ ہم لوڈ شیڈنگ ختم کریں گے لیکن آنے کے بعد یہ بجلی ہی ختم کرنے پر تل جاتے ہیں، اس تمام تر صورتحال پر ہمارے دوست حیدر عباس نے ایک شعر لکھا جس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ملک میں اتنی ساری گھومنے پھرنے کی جگہیں ہیں لیکن عوام کو اب یہ سب نہیں چاہئے بلکہ یہ چاہئے، شعر ملاحظہ ہو۔
نہیں راحت حیاتِ انس کو دلکش نظاروں سے
سکونِ زندگی مربوط ہے بجلی کے تاروں سے
بس اب سکون زندگی کی تلاش میں کراچی کے شہری پریشان ہیں کیونکہ کے الیکٹرک والوں کا کچھ نہیں معلوم، یہ عید کے پُر مسرت موقع پر بھی بھی کوئی ایسا ہی ڈرامہ کرکے لائٹ بند کرسکتے ہیں اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو بھی ہم ان کا کیا کر لیں گے؟ ویسے اِن حالات میں اب کراچی کی عوام یہ بھی سوچتی ہے کہ آخر اِن خراب تر حالات میں بھی ہمارے کرتا دھرتا کوئلے اور دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے بارے میں کوئی عملی قدم کیوں نہیں اُٹھا رہے؟ اگر صرف کوئلے سے بجلی پیدا کی جائے تو بغیر کسی مغالبے کے ہم کئی سالوں تک بغیر کسی وقفے کے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اگر اِس معاملے میں کچھ رکاوٹ ہے تو اُسے دور کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
بس اتنی لمبی بات کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بھیا کچھ بھی کرو بس بجلی دے دو!
[poll id="540"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس