مارتھاکاپاکستان
کالم،جہازمیں بیٹھ کرلکھ رہاہوں۔جتناسفرسے دور رہنا چاہتاہوں،اتناہی مزید سفرکرناپڑتاہے۔
ABBOTABAD:
کالم،جہازمیں بیٹھ کرلکھ رہاہوں۔جتناسفرسے دور رہنا چاہتاہوں،اتناہی مزید سفرکرناپڑتاہے۔لاہورسے نیویارک اورپھرآگے آسٹن۔خیر،میری نظرمیں آج بھی ہماری قومی ائیرلائن دنیاکی بہترین ائیرلائن ہے۔لوگ مجھ سے بار بار پوچھتے ہیں کہ اس ائیرلائن میں کیوں سفرکرتاہوں،اس کی لاکھ برائیاں کرتے ہیں۔بڑی تکلیف دہ باتیں بھی کرتے ہیں۔
مگر حسن اتفاق دیکھیے، میں ہمیشہ اسی میں سفرکرتاہوں اورمجھے کبھی کسی قسم کاکوئی مسئلہ نہیں آیا۔لاہورسے نیویارک جانے والا جہاز تین گھنٹے کی تاخیرسے روانہ ہوا۔مگراس تاخیرکے متعلق دودن پہلے اطلاع کردی گئی تھی۔چنانچہ مجھے کسی قسم کی کوئی الجھن نہیں ہوئی۔شائدمجھے اپنی سرزمین سے اتناعشق ہے کہ اس کی کوئی چیزبھی بری نہیں لگتی۔خصوصاًدیارغیرمیں جاکر اپنے ملک کاہرکونہ کمال معلوم ہوتاہے۔
ڈاکٹرمارتھابنیادی طورپرجرمن خاتون ہیں۔ وہ مشرقی جرمنی کے جس گاؤں میں پیداہوئی۔اس پرروس نے قبضہ کرلیا۔مارتھاعملی طورپربے وطن ہوگئی۔اسے ڈاکٹربننے کاشوق تھا۔خدمت کرنے کا جذبہ اتنابھرپورتھاکہ محض ایک ڈاکٹربن کرمریض دیکھنے سے اس کی ذہنی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ مینز (Mainz)میں واقع ایک میڈیکل کالج اسکوعجیب معلوم ہوتا تھا۔مارتھا کو خود معلوم نہیں تھاکہ قدرت اس سے کیاکام لینا چاہتی ہے۔اسکویہ بھی پتہ نہ تھاکہ وہ انسانیت کی وہ گرانقدر خدمت کریگی کہ دوسروں کے لیے ایک روشن ستارہ بن جائے گی ۔ مارتھاکی روح میں بے چینی تھی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آئی۔
وہ جرمنی میں ایک کیتھولک نن(Nun)سلسلے سے وابستہ ہوگئی۔ مگراس کے بعدکیا؟اس کا جواب اس کے پاس موجود نہیں تھا۔اس کے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا۔اسے اندازہ تھاکہ کوڑھ میں مبتلامریضوں کے علاج معالجہ سے لوگ گھبراتے ہیں۔ ڈاکٹر تک ڈرتے تھے۔ مارتھانے کوڑھ کے مریضوں کے لیے زندگی وقف کرنے کافیصلہ کیا۔اس نے لوگوں سے مشورہ کیاکہ اسے اس خدمت کے لیے کہاں جانا چاہیے۔اکثرلوگوں نے اسے ہندوستان جانے کامشورہ دیا۔ یہ1959کی بات ہے۔ مگر پتہ نہیں کیوں،وہ ہندوستان نہیں گئی۔
1960میں مارتھانے پاکستان آنے کافیصلہ کرلیا۔ 1960کاپاکستان آج کے پاکستان سے بالکل مختلف تھا۔ پورے ملک میں برداشت کامادہ موجودتھا۔تمام دنیا سے لوگ اس عظیم ملک میں کھچے چلے آتے تھے۔انکوکسی قسم کاڈریاخوف نہیں تھا۔طالبان اوردہشت گردی کانام ونشان تک نہیں تھا۔ آج یہ سب خواب لگتا ہے۔ مارتھا کراچی پہنچی۔اس نے سٹی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک کوڑھیوں کی ایک بستی میں رہنا شروع کردیا۔ایک کچی بستی جس میں ہرطرف وہ بدقسمت لوگ رہتے تھے جوزندہ تو تھے مگرزندگی سے بہت دور۔ان کے عزیزواقارب بھی انھیں ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے۔
مارتھا نے اس بستی میں ایک چھوٹاساکمرہ لے لیا۔یہی اس کا کلینک تھا،یہی اس کا اسپتال تھا اور یہی اس کا گھربھی تھا!لوگ اسے پاگل سمجھتے تھے۔ایک فرنگی عورت اورلاعلاج مریضوں میں رہائش۔ تاثریہ تھاکہ وہ تھوڑے دن بعدیہاں گھبراکربھاگ جائے گی مگرایساہرگزہرگزنہیں ہوا۔اس نحیف سی عورت نے اس خطرناک مرض پرقابوپانے کے لیے صرف ایک کمرے کے اسپتال کی بنیادرکھی۔اس شفاخانے کانام میری ایڈی لیڈلپرسی سینٹر(Marie Adelade Leprosy Center) رکھا گیا۔تھوڑے عرصے میں لوگوں اس غیرمعمولی عورت کی ہمت کا اندازہ ہوگیا۔
اس کے بعدڈاکٹراے کے گل اوردیگرحضرات اس نیک کام میں شامل ہوگئے۔مارتھاکے پاس کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔اس نے عام لوگوں سے مددکی اپیل کردی۔ کراچی کے لوگوں نے چندہ دیناشروع کردیا۔مارتھانے اس پیسے سے کوڑھ کے مریضوں کے لیے دوایاں خریدنی شروع کردیں۔وہ تمام دوائیاں ان مفلس اورٹھکرائے ہوئے لوگوں میں مفت تقسیم کرتی تھی۔وہ انکوبہترخوارک مہیاکرتی تھی۔ کراچی1966میں بھی پاکستان کاسب سے بڑاشہرتھا۔اس شہرنے مارتھاکے عظیم جذبہ کوسردنہ پڑنے دیا۔
اب مارتھاتھی اورپورے ملک کے کوڑھ کے مریض۔ اس نے ایک انتہائی متحرک ٹیم ترتیب دے دی۔وہ پاکستان کے دوردرازکونوں میں جاتی تھی۔کوڑھ کے مریضوں کے لیے دشوارسے دشوارترین جگہ جاکران کامفت علاج کرتی تھی۔یہ ہمارے سماج کے وہ لوگ تھے جونہ صرف مفلس تھے،بلکہ ہرجانب سے ٹھکرائے ہوئے بھی تھے۔
ان میں سے اکثرلوگ مختلف ذہنی بیماریوں کاشکارہوچکے تھے۔مارتھاان تمام لوگوں کے لیے فرشتہ بن گئی!ایک ایسافرشتہ جوکمزورترین لوگوں کو اعتماد اورصحت بخشتاتھا۔مگرہرچیزاتنی آسان بھی نہیں تھی۔کئی جگہ جب وہ خاتون مریضوں کے پاس جاتی تھی تواس گھرکے مرد حضرات اسے مریض دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ مارتھا ضدکرتی تھی تووہ اسے گالیاں دیتے تھے اسکومارنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔مگرمارتھااس میں کوئی بے عزتی محسوس کیے بغیرخواتین مریضوں تک جاتی تھی اوران کا علاج شروع کردیتی تھی۔اس کے جذبہ کے سامنے تمام لوگ بالاخرخاموش ہوجاتے تھے۔مارتھاکے عظم وہمت کے سامنے سب لوگ ہتھیارڈال دیتے تھے۔
جب وہ کوڑھ کے مریضوں کوگودمیں لیتی تھی اور ان کا ماتھا چومتی تھی تومریض دھاڑے مارکرزاروقطارروناشروع کردیتے تھے۔وہ توزمانے کے دھتکارے ہوئے لوگ تھے،جنکے سائے سے بھی ہرکوئی ڈرتاتھامگران لوگوں کومکمل صحت یاب کرنا، ڈاکٹر مارتھاکی زندگی کامقصدتھا۔مارتھااب اسی برس سے زیادہ عمرکی ہوچکی ہے مگراس کی خدمت کاجذبہ بالکل نوجوان ہے۔ مارتھا کو پوری دنیامیں کئی گرانقدرتمغے اورانعامات دیے گئے ہیں۔ جب وہ یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے ادارے کے پاس مالی وسائل کم رہ گئے ہیں تواپنے تمام تمغے لوگوں کوبیچ دیتی ہے۔وہ ان پیسوں کواپنے مریضوں پرخرچ کرناشروع کردیتی ہے۔ اس کا کہناہے کہ دنیاکاسب سے بڑاتمغہ کوڑھ کے صرف ایک مریض کے صحت یاب ہونے سے بھی ادنیٰ ہے۔
آج کراچی صدرمیں اس مرض کے لیے ایک بہت بڑا اسپتال موجودہے۔ایک کمرے سے سفرکاآغازکرنے والا شفاخانہ اب عظیم الشان عمارت میں تبدیل ہوچکاہے۔مارتھا آج بھی اس اسپتال میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہے۔اس کمرے میں ایک عددبیڈاورمعمولی سافرنیچر پڑا ہوا ہے۔مگراس معمولی سے کمرے کوآپ دنیاکی کسی بھی دولت سے خریدنہیں سکتے۔اس کا سادہ سافرنیچرمیری نظرمیں دنیا کا بیش قیمت ترین فرنیچرہے۔
جب مارتھاسے پوچھاگیاکہ اس کی زندگی میں کوئی خواہش ہے تواس کا جواب انتہائی غیرمعمولی تھا۔کہنے لگی کہ اگر وہ دوبارہ پیداہوئی تووہ کوڑھ کے مریضوں کے لیے کام تو کریگی ہی،مگروہ خداسے دعاکریگی کہ اسے پاکستان میں پیدا کرے، تاکہ وہ وقت ضایع کیے بغیرلوگوں کی خدمت کر سکے! اس کے اسپتال میں کئی ایسے ملازم ہیں جوپہلے اس ہولناک مرض میں مبتلاتھے مگراب وہ مکمل طورپرصحت مند ہیں۔اس میں کھانا پکانے والا عملہ بھی شامل ہے۔خدمات کے پیش نظر مار تھا کو حکومت پاکستان نے اسے اعزازی شہریت دیدی۔وہ اپنے آپ کو جرمن نہیں بلکہ پاکستانی کہتی ہے۔ اس کی پچاس سالہ محنت کا ثمر یہ ہے کہ پاکستان دنیاکے ان ممالک کی فہرست میں آچکاہے جنھوں نے کوڑھ کے مرض پر قابو پالیاہے۔
جب میں اپنے اردگردکے ابترحالات کودیکھتاہوں توناامیدی اوریاس کی ایک لہرمجھے اپنے ساتھ بہاکرلے جاتی ہے۔مجھے ایسے معلوم ہوتاہے کہ شائدہمارے ملک میں سیاسی قزاقوں کالامتناہی راج رہے گا۔مگرخیرجب میں اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت کے جذبہ کی طرف نظردوڑاتاہوں تو سکون سے سرشارہوجاتاہوں۔امیدہرطرف سے نورکی طرح روح کوگھیرے میں لے لیتی ہے۔میں بے فکر سا ہوجاتا ہوں! ہرغم کی قیدسے آزاد۔ مجھے تواب فخرہے کہ میں مارتھاکے پاکستان کاشہری ہوں!
کالم،جہازمیں بیٹھ کرلکھ رہاہوں۔جتناسفرسے دور رہنا چاہتاہوں،اتناہی مزید سفرکرناپڑتاہے۔لاہورسے نیویارک اورپھرآگے آسٹن۔خیر،میری نظرمیں آج بھی ہماری قومی ائیرلائن دنیاکی بہترین ائیرلائن ہے۔لوگ مجھ سے بار بار پوچھتے ہیں کہ اس ائیرلائن میں کیوں سفرکرتاہوں،اس کی لاکھ برائیاں کرتے ہیں۔بڑی تکلیف دہ باتیں بھی کرتے ہیں۔
مگر حسن اتفاق دیکھیے، میں ہمیشہ اسی میں سفرکرتاہوں اورمجھے کبھی کسی قسم کاکوئی مسئلہ نہیں آیا۔لاہورسے نیویارک جانے والا جہاز تین گھنٹے کی تاخیرسے روانہ ہوا۔مگراس تاخیرکے متعلق دودن پہلے اطلاع کردی گئی تھی۔چنانچہ مجھے کسی قسم کی کوئی الجھن نہیں ہوئی۔شائدمجھے اپنی سرزمین سے اتناعشق ہے کہ اس کی کوئی چیزبھی بری نہیں لگتی۔خصوصاًدیارغیرمیں جاکر اپنے ملک کاہرکونہ کمال معلوم ہوتاہے۔
ڈاکٹرمارتھابنیادی طورپرجرمن خاتون ہیں۔ وہ مشرقی جرمنی کے جس گاؤں میں پیداہوئی۔اس پرروس نے قبضہ کرلیا۔مارتھاعملی طورپربے وطن ہوگئی۔اسے ڈاکٹربننے کاشوق تھا۔خدمت کرنے کا جذبہ اتنابھرپورتھاکہ محض ایک ڈاکٹربن کرمریض دیکھنے سے اس کی ذہنی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ مینز (Mainz)میں واقع ایک میڈیکل کالج اسکوعجیب معلوم ہوتا تھا۔مارتھا کو خود معلوم نہیں تھاکہ قدرت اس سے کیاکام لینا چاہتی ہے۔اسکویہ بھی پتہ نہ تھاکہ وہ انسانیت کی وہ گرانقدر خدمت کریگی کہ دوسروں کے لیے ایک روشن ستارہ بن جائے گی ۔ مارتھاکی روح میں بے چینی تھی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آئی۔
وہ جرمنی میں ایک کیتھولک نن(Nun)سلسلے سے وابستہ ہوگئی۔ مگراس کے بعدکیا؟اس کا جواب اس کے پاس موجود نہیں تھا۔اس کے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا۔اسے اندازہ تھاکہ کوڑھ میں مبتلامریضوں کے علاج معالجہ سے لوگ گھبراتے ہیں۔ ڈاکٹر تک ڈرتے تھے۔ مارتھانے کوڑھ کے مریضوں کے لیے زندگی وقف کرنے کافیصلہ کیا۔اس نے لوگوں سے مشورہ کیاکہ اسے اس خدمت کے لیے کہاں جانا چاہیے۔اکثرلوگوں نے اسے ہندوستان جانے کامشورہ دیا۔ یہ1959کی بات ہے۔ مگر پتہ نہیں کیوں،وہ ہندوستان نہیں گئی۔
1960میں مارتھانے پاکستان آنے کافیصلہ کرلیا۔ 1960کاپاکستان آج کے پاکستان سے بالکل مختلف تھا۔ پورے ملک میں برداشت کامادہ موجودتھا۔تمام دنیا سے لوگ اس عظیم ملک میں کھچے چلے آتے تھے۔انکوکسی قسم کاڈریاخوف نہیں تھا۔طالبان اوردہشت گردی کانام ونشان تک نہیں تھا۔ آج یہ سب خواب لگتا ہے۔ مارتھا کراچی پہنچی۔اس نے سٹی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک کوڑھیوں کی ایک بستی میں رہنا شروع کردیا۔ایک کچی بستی جس میں ہرطرف وہ بدقسمت لوگ رہتے تھے جوزندہ تو تھے مگرزندگی سے بہت دور۔ان کے عزیزواقارب بھی انھیں ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے۔
مارتھا نے اس بستی میں ایک چھوٹاساکمرہ لے لیا۔یہی اس کا کلینک تھا،یہی اس کا اسپتال تھا اور یہی اس کا گھربھی تھا!لوگ اسے پاگل سمجھتے تھے۔ایک فرنگی عورت اورلاعلاج مریضوں میں رہائش۔ تاثریہ تھاکہ وہ تھوڑے دن بعدیہاں گھبراکربھاگ جائے گی مگرایساہرگزہرگزنہیں ہوا۔اس نحیف سی عورت نے اس خطرناک مرض پرقابوپانے کے لیے صرف ایک کمرے کے اسپتال کی بنیادرکھی۔اس شفاخانے کانام میری ایڈی لیڈلپرسی سینٹر(Marie Adelade Leprosy Center) رکھا گیا۔تھوڑے عرصے میں لوگوں اس غیرمعمولی عورت کی ہمت کا اندازہ ہوگیا۔
اس کے بعدڈاکٹراے کے گل اوردیگرحضرات اس نیک کام میں شامل ہوگئے۔مارتھاکے پاس کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔اس نے عام لوگوں سے مددکی اپیل کردی۔ کراچی کے لوگوں نے چندہ دیناشروع کردیا۔مارتھانے اس پیسے سے کوڑھ کے مریضوں کے لیے دوایاں خریدنی شروع کردیں۔وہ تمام دوائیاں ان مفلس اورٹھکرائے ہوئے لوگوں میں مفت تقسیم کرتی تھی۔وہ انکوبہترخوارک مہیاکرتی تھی۔ کراچی1966میں بھی پاکستان کاسب سے بڑاشہرتھا۔اس شہرنے مارتھاکے عظیم جذبہ کوسردنہ پڑنے دیا۔
اب مارتھاتھی اورپورے ملک کے کوڑھ کے مریض۔ اس نے ایک انتہائی متحرک ٹیم ترتیب دے دی۔وہ پاکستان کے دوردرازکونوں میں جاتی تھی۔کوڑھ کے مریضوں کے لیے دشوارسے دشوارترین جگہ جاکران کامفت علاج کرتی تھی۔یہ ہمارے سماج کے وہ لوگ تھے جونہ صرف مفلس تھے،بلکہ ہرجانب سے ٹھکرائے ہوئے بھی تھے۔
ان میں سے اکثرلوگ مختلف ذہنی بیماریوں کاشکارہوچکے تھے۔مارتھاان تمام لوگوں کے لیے فرشتہ بن گئی!ایک ایسافرشتہ جوکمزورترین لوگوں کو اعتماد اورصحت بخشتاتھا۔مگرہرچیزاتنی آسان بھی نہیں تھی۔کئی جگہ جب وہ خاتون مریضوں کے پاس جاتی تھی تواس گھرکے مرد حضرات اسے مریض دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ مارتھا ضدکرتی تھی تووہ اسے گالیاں دیتے تھے اسکومارنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔مگرمارتھااس میں کوئی بے عزتی محسوس کیے بغیرخواتین مریضوں تک جاتی تھی اوران کا علاج شروع کردیتی تھی۔اس کے جذبہ کے سامنے تمام لوگ بالاخرخاموش ہوجاتے تھے۔مارتھاکے عظم وہمت کے سامنے سب لوگ ہتھیارڈال دیتے تھے۔
جب وہ کوڑھ کے مریضوں کوگودمیں لیتی تھی اور ان کا ماتھا چومتی تھی تومریض دھاڑے مارکرزاروقطارروناشروع کردیتے تھے۔وہ توزمانے کے دھتکارے ہوئے لوگ تھے،جنکے سائے سے بھی ہرکوئی ڈرتاتھامگران لوگوں کومکمل صحت یاب کرنا، ڈاکٹر مارتھاکی زندگی کامقصدتھا۔مارتھااب اسی برس سے زیادہ عمرکی ہوچکی ہے مگراس کی خدمت کاجذبہ بالکل نوجوان ہے۔ مارتھا کو پوری دنیامیں کئی گرانقدرتمغے اورانعامات دیے گئے ہیں۔ جب وہ یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے ادارے کے پاس مالی وسائل کم رہ گئے ہیں تواپنے تمام تمغے لوگوں کوبیچ دیتی ہے۔وہ ان پیسوں کواپنے مریضوں پرخرچ کرناشروع کردیتی ہے۔ اس کا کہناہے کہ دنیاکاسب سے بڑاتمغہ کوڑھ کے صرف ایک مریض کے صحت یاب ہونے سے بھی ادنیٰ ہے۔
آج کراچی صدرمیں اس مرض کے لیے ایک بہت بڑا اسپتال موجودہے۔ایک کمرے سے سفرکاآغازکرنے والا شفاخانہ اب عظیم الشان عمارت میں تبدیل ہوچکاہے۔مارتھا آج بھی اس اسپتال میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہے۔اس کمرے میں ایک عددبیڈاورمعمولی سافرنیچر پڑا ہوا ہے۔مگراس معمولی سے کمرے کوآپ دنیاکی کسی بھی دولت سے خریدنہیں سکتے۔اس کا سادہ سافرنیچرمیری نظرمیں دنیا کا بیش قیمت ترین فرنیچرہے۔
جب مارتھاسے پوچھاگیاکہ اس کی زندگی میں کوئی خواہش ہے تواس کا جواب انتہائی غیرمعمولی تھا۔کہنے لگی کہ اگر وہ دوبارہ پیداہوئی تووہ کوڑھ کے مریضوں کے لیے کام تو کریگی ہی،مگروہ خداسے دعاکریگی کہ اسے پاکستان میں پیدا کرے، تاکہ وہ وقت ضایع کیے بغیرلوگوں کی خدمت کر سکے! اس کے اسپتال میں کئی ایسے ملازم ہیں جوپہلے اس ہولناک مرض میں مبتلاتھے مگراب وہ مکمل طورپرصحت مند ہیں۔اس میں کھانا پکانے والا عملہ بھی شامل ہے۔خدمات کے پیش نظر مار تھا کو حکومت پاکستان نے اسے اعزازی شہریت دیدی۔وہ اپنے آپ کو جرمن نہیں بلکہ پاکستانی کہتی ہے۔ اس کی پچاس سالہ محنت کا ثمر یہ ہے کہ پاکستان دنیاکے ان ممالک کی فہرست میں آچکاہے جنھوں نے کوڑھ کے مرض پر قابو پالیاہے۔
جب میں اپنے اردگردکے ابترحالات کودیکھتاہوں توناامیدی اوریاس کی ایک لہرمجھے اپنے ساتھ بہاکرلے جاتی ہے۔مجھے ایسے معلوم ہوتاہے کہ شائدہمارے ملک میں سیاسی قزاقوں کالامتناہی راج رہے گا۔مگرخیرجب میں اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت کے جذبہ کی طرف نظردوڑاتاہوں تو سکون سے سرشارہوجاتاہوں۔امیدہرطرف سے نورکی طرح روح کوگھیرے میں لے لیتی ہے۔میں بے فکر سا ہوجاتا ہوں! ہرغم کی قیدسے آزاد۔ مجھے تواب فخرہے کہ میں مارتھاکے پاکستان کاشہری ہوں!