بدقسمتی کہ ’’اردو‘‘ ہماری ’’قومی‘‘ زبان ہے
جو کام حکومت وقت کو خود کرنا چاہیے تھا وہ عدلیہ کو کرنا پڑا۔ کیا یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟
جس کی بھی تنزلی مقصود ہو اسے قومی درجہ دے دیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ایک بے وقوف سے قاری کی رائے تھی جو چند ماہ پہلے لکھے گئے میرے ایک کالم ''قوم اور قومیت'' پر دی گئی تھی اور اس میں حقیقت بھی ہے۔ پاکستان میں اب قومی ورثے کی حفاظت بھی اعلیٰ عدلیہ کے ذمے ہوگئی ہے۔ یہ ہمارے لیے فخر نہیں بلکہ افسوس کا مقام ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ صاحبان اقتدار کے ایوانوں میں باقاعدہ اردو کا شعبہ قائم کرنے کو اپنی کارکردگی گردانا جارہا ہے۔ جو کام حکومت وقت کو خود کرنا چاہیے تھا وہ عدلیہ کو کرنا پڑا۔ کیا یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟
جہاں بھر کی مثالیں ملاحظہ کیجیے۔ چین، ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور، جس سے انکل سام تک کو بھی خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے سربراہان مملکت اپنی زبان کو پوری دنیا میں ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔ اب کسی کو اگر ان کے لفظوں سے غرض ہے تو وہ مترجم کے ساتھ ان کی تقاریر کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ چین کے لوگوں کو انگریزی آتی نہیں بلکہ وہ اپنی زبان کا استعمال کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنی قومی زبان کو نچلے طبقے کی زبان بنا دیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ قومی زبان میں تحقیر کا عنصر ایسے پیدا کر لیا کہ اس کا استعمال کرنے والوں کو زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات میں پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔
جس زبان کی بنیاد پر ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے اسی زبان کا نفاذ ملک کی اعلیٰ عدالت کے بناء ممکن نہیں ہو رہا۔ (اردو کو سرکاری زبان بنانے سے بنگال میں احساس کمتری پیدا ہوا)۔ وطن عزیز میں ادارہ فروغِ قومی زبان 1979 میں قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ وزارت اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اس کا قیام 1973 کے آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے قیام کا اولین مقصد یہ تھا کہ اس ادارے کے قیام کے 15 سال کے اندر قومی زبان کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ لیکن کیا کوئی جانتا ہے کہ اس ادارے نے کتنے فنڈز استعمال کیے؟ کتنے ملازمین ہیں؟ اس ادارے نے آج تک کیا کام کیا؟ اور اس کا کام عملی سطح پر کہاں ہے؟ کیا ان سوالوں کے جواب بھی عدلیہ کے توسط سے ہی ملیں گے؟
یہ ادارہ 1979 میں قائم ہوا جب کہ اردو کا نفاذ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم نامے کے تحت 2015 میں ہو رہا ہے۔ تو پھر اس ادارے کا کیا فاہدہ باقی رہ جاتا ہے؟ اگر قومی زبان کا نفاذ عدالتوں کے ذریعے ہی ہونا ہے تو؟ یا پھر ادارے سفید ہاتھی ہی رہیں گے۔ اس ادارے کی ویب سائٹ پر اردو انگریزی لغت کی سہولت بھی دی گئی ہے لیکن اسے استعمال کرنے کے بعد پہلے سے موجود سمجھ بوجھ سے بھی آپ ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اس کے مقابلے میں ہمسایہ ملک میں اردو کے فروغ کا ایک ادارہ وزارتِ ترقی برائے انسانی وسائل کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کررہا ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ آپ دونوں اداروں کا تقابلی جائزہ لیجے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمسایہ ملک کا ادارہ بہت بہتر انداز سے کام کر رہا ہے جس کی چیئر پرسن سمرتی ایرانی ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ادارے بنانے میں ماہر ہیں لیکن ان اداروں کی افادیت نافذ کرنے میں کاہل ہیں۔ پاکستان کا قیام نصف صدی سے زائد کا قصہ بن چکا ہے۔ زبان کی بنیاد پر ملک دو لخت ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے لیکن ہم آج تک قومی زبان کا فخریہ طور پر ذریعہ اظہار نہیں بناسکے بلکہ محدود چند جو لوگ اس زبان سے چمٹے بیٹھے ہیں اُنہیں بھی تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک P.Hd شخص بھی اگر اردو کو ذریعہ گفتار بنا رہا ہو تو وہ ہمارے لیے جاہل ہی رہتا ہے اور ایک میٹرک پاس بھی اگر صرف انگریزی کا کورس کرکے ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنے کے قابل ہوجائے تو ہمارے لیے وہ اعلیٰ تعلیمی شخصیت بن جاتا ہے۔
خوشخبری یہ سننے کو مل رہی ہے کہ جناب آئندہ سربراہِ مملکت سمیت تمام سرکاری عہدیدار بھی اردو کو ہی اظہار کا ذریعہ بنائیں گے۔ اس کے علاوہ تمام سرکاری دستاویزات بشمول ہر طرح کے معلوماتی کتابچے بھی اردو میں ہی ترتیب دیے جائیں گے۔ یقینی طور پر یہ ہے تو اچھی خبر لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات کہ عملی طور پر اس کا نفاذ نہ جانے کیوںکر ممکن ہو پائے گا جب دفاتر تک میں اردو زبان کو چپڑاسی کی زبان بنا دیا گیا ہے اور بڑے صاحب تو گالیاں تک بھی انگریزی میں دیتے ہیں۔ مزید برآں سرکاری دستاویزات بھی اگر اردو میں آنا شروع ہوگئیں تو حکمرانوں کے لفظوں کے دھوکے کہیں عوام الناس تک نہ پہنچ جائیں۔ داغ دہلوی نہ جانے کس زعم میں کہہ بیٹھے تھے؎
لیکن شاید آج کے ماڈرن دور کے پاکستانی یہ نہیں جانتے کہ آج بھی پوری دنیا میں ایک ارب سے زیادہ اردو بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں اور اردو واحد زبان ہے جس کی جڑیں ترکی، عربی اور فارسی سے ملتی ہیں۔
ذکر صرف زبان کا ہوا۔ ورنہ دیکھا جائے تو ہر قومی چیز کے ساتھ سوتیلا پن روا رکھا جا رہا ہے۔ قومی کھیل ہاکی کو دیکھ لیں۔ آخری درجوں میں ہے۔ قومی لباس کو دیکھیں جو صرف دروازہ کھولنے والے دربانوں کا لباس بنا دیا گیا ہے۔ قومی جانور کا حال دیکھ لیں۔ کتنے لوگوں کو پتا ہے کہ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے۔ ہم میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چکور جیسا خوبصورت پرندہ پاکستان کا قومی پرندہ ہے۔ پاکستان کے قومی درخت دیودار کے بارے میں بھی شاید ہی کوئی جانتا ہو۔
قومی ورثے کی حفاظت حکومتی اداروں کا کام ہوتا ہے نہ کہ عدالتوں کا۔ اگر عدالتوں نے قومی ورثے کی حفاظت کا ذمہ ہی لینا ہے تو پھر انصاف کے لیے کوئی اور ادارہ بنا لیں۔
[poll id="542"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جہاں بھر کی مثالیں ملاحظہ کیجیے۔ چین، ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور، جس سے انکل سام تک کو بھی خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے سربراہان مملکت اپنی زبان کو پوری دنیا میں ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔ اب کسی کو اگر ان کے لفظوں سے غرض ہے تو وہ مترجم کے ساتھ ان کی تقاریر کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ چین کے لوگوں کو انگریزی آتی نہیں بلکہ وہ اپنی زبان کا استعمال کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنی قومی زبان کو نچلے طبقے کی زبان بنا دیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ قومی زبان میں تحقیر کا عنصر ایسے پیدا کر لیا کہ اس کا استعمال کرنے والوں کو زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات میں پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔
جس زبان کی بنیاد پر ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے اسی زبان کا نفاذ ملک کی اعلیٰ عدالت کے بناء ممکن نہیں ہو رہا۔ (اردو کو سرکاری زبان بنانے سے بنگال میں احساس کمتری پیدا ہوا)۔ وطن عزیز میں ادارہ فروغِ قومی زبان 1979 میں قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ وزارت اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اس کا قیام 1973 کے آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے قیام کا اولین مقصد یہ تھا کہ اس ادارے کے قیام کے 15 سال کے اندر قومی زبان کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ لیکن کیا کوئی جانتا ہے کہ اس ادارے نے کتنے فنڈز استعمال کیے؟ کتنے ملازمین ہیں؟ اس ادارے نے آج تک کیا کام کیا؟ اور اس کا کام عملی سطح پر کہاں ہے؟ کیا ان سوالوں کے جواب بھی عدلیہ کے توسط سے ہی ملیں گے؟
یہ ادارہ 1979 میں قائم ہوا جب کہ اردو کا نفاذ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم نامے کے تحت 2015 میں ہو رہا ہے۔ تو پھر اس ادارے کا کیا فاہدہ باقی رہ جاتا ہے؟ اگر قومی زبان کا نفاذ عدالتوں کے ذریعے ہی ہونا ہے تو؟ یا پھر ادارے سفید ہاتھی ہی رہیں گے۔ اس ادارے کی ویب سائٹ پر اردو انگریزی لغت کی سہولت بھی دی گئی ہے لیکن اسے استعمال کرنے کے بعد پہلے سے موجود سمجھ بوجھ سے بھی آپ ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اس کے مقابلے میں ہمسایہ ملک میں اردو کے فروغ کا ایک ادارہ وزارتِ ترقی برائے انسانی وسائل کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کررہا ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ آپ دونوں اداروں کا تقابلی جائزہ لیجے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمسایہ ملک کا ادارہ بہت بہتر انداز سے کام کر رہا ہے جس کی چیئر پرسن سمرتی ایرانی ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ادارے بنانے میں ماہر ہیں لیکن ان اداروں کی افادیت نافذ کرنے میں کاہل ہیں۔ پاکستان کا قیام نصف صدی سے زائد کا قصہ بن چکا ہے۔ زبان کی بنیاد پر ملک دو لخت ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے لیکن ہم آج تک قومی زبان کا فخریہ طور پر ذریعہ اظہار نہیں بناسکے بلکہ محدود چند جو لوگ اس زبان سے چمٹے بیٹھے ہیں اُنہیں بھی تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک P.Hd شخص بھی اگر اردو کو ذریعہ گفتار بنا رہا ہو تو وہ ہمارے لیے جاہل ہی رہتا ہے اور ایک میٹرک پاس بھی اگر صرف انگریزی کا کورس کرکے ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنے کے قابل ہوجائے تو ہمارے لیے وہ اعلیٰ تعلیمی شخصیت بن جاتا ہے۔
خوشخبری یہ سننے کو مل رہی ہے کہ جناب آئندہ سربراہِ مملکت سمیت تمام سرکاری عہدیدار بھی اردو کو ہی اظہار کا ذریعہ بنائیں گے۔ اس کے علاوہ تمام سرکاری دستاویزات بشمول ہر طرح کے معلوماتی کتابچے بھی اردو میں ہی ترتیب دیے جائیں گے۔ یقینی طور پر یہ ہے تو اچھی خبر لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات کہ عملی طور پر اس کا نفاذ نہ جانے کیوںکر ممکن ہو پائے گا جب دفاتر تک میں اردو زبان کو چپڑاسی کی زبان بنا دیا گیا ہے اور بڑے صاحب تو گالیاں تک بھی انگریزی میں دیتے ہیں۔ مزید برآں سرکاری دستاویزات بھی اگر اردو میں آنا شروع ہوگئیں تو حکمرانوں کے لفظوں کے دھوکے کہیں عوام الناس تک نہ پہنچ جائیں۔ داغ دہلوی نہ جانے کس زعم میں کہہ بیٹھے تھے؎
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لیکن شاید آج کے ماڈرن دور کے پاکستانی یہ نہیں جانتے کہ آج بھی پوری دنیا میں ایک ارب سے زیادہ اردو بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں اور اردو واحد زبان ہے جس کی جڑیں ترکی، عربی اور فارسی سے ملتی ہیں۔
ذکر صرف زبان کا ہوا۔ ورنہ دیکھا جائے تو ہر قومی چیز کے ساتھ سوتیلا پن روا رکھا جا رہا ہے۔ قومی کھیل ہاکی کو دیکھ لیں۔ آخری درجوں میں ہے۔ قومی لباس کو دیکھیں جو صرف دروازہ کھولنے والے دربانوں کا لباس بنا دیا گیا ہے۔ قومی جانور کا حال دیکھ لیں۔ کتنے لوگوں کو پتا ہے کہ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے۔ ہم میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چکور جیسا خوبصورت پرندہ پاکستان کا قومی پرندہ ہے۔ پاکستان کے قومی درخت دیودار کے بارے میں بھی شاید ہی کوئی جانتا ہو۔
قومی ورثے کی حفاظت حکومتی اداروں کا کام ہوتا ہے نہ کہ عدالتوں کا۔ اگر عدالتوں نے قومی ورثے کی حفاظت کا ذمہ ہی لینا ہے تو پھر انصاف کے لیے کوئی اور ادارہ بنا لیں۔
[poll id="542"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس