گفتگو بند نہ ہو
کچھ ماہرین پاک چین اقتصادی راہداری پر بھارت کے اعتراض کی بناء پر بھارت سے کسی قسم کی بات چیت کے حق میں نہیں،
اوفا میں مودی نواز شریف ملاقات ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل اراکین بنادیے گئے۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے ممبئی حملہ کیس، ماہی گیروں کی رہائی، بی ایس ایف اور پاک رینجرز کے ڈائریکٹرز اور جی ایم اوز کی ملاقات اور دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقاتوں پر اتفاق ہوگیا۔ مودی سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئیں گے۔ دونوں ممالک کے مشیر دہشت گردی سے متعلق امور پر معاملات طے کریں گے۔
ذرایع ابلاغ کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس دفعہ روس اور چین نے مودی اور نواز شریف ملاقات اور دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے خاصا دباؤ استعمال کیا تھا۔
ماضی میں امریکا اور برطانیہ بھی اسی طرح کا دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں میاں نواز شریف نے شرکت کی تھی اور دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بنیادی اقدامات پر اتفاق رائے کیا گیا تھا، مگر پھرکنٹرول لائن پرکشیدگی، بھارتی جنتا پارٹی کے بعض انتہاپسند وزراء کے بیانات، عسکری مقتدرہ کی جانب سے کراچی اور بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے الزامات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری آنا شروع ہوگئی تھی۔ پھر بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیرکی حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد جامع مذاکرات کا عمل معطل کرنے سے معاملات منفی رخ اختیارکرگئے۔
گزشتہ دوماہ کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر پر بھارتی اعتراض، بھارت کی جانب سے پہلی دفعہ 1965کی جنگ ستمبر کے حوالے سے تقریبات کے انعقاد کے فیصلے اور پاکستانی ٹی وی چینلز پر تبصرہ کرنے والے سیاسی اور عسکری تجزیہ نگاروں کی آراء کے بعد تو پاکستان اور بھارت بہت دور جاتے نظر آرہے تھے، مگر دونوں ممالک کی منتخب قیادت نے بصیرت کا ثبوت دیا، اور روس کے شہر اوفا میں اس ملاقات سے وہ مصنوعی برف پگھل گئی جس سے دونوں ممالک کے ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں الجھنوں کا شکار تھے۔ اس ملاقات میں دہشت گردی اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ختم کرنے کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں طے ہوگئیں۔
اور امید بندھ گئی کہ دونوں ممالک کے سول اور عسکری افسروں کی ملاقاتوں کے بعد صورتحال معمول کی طرف لوٹ جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات میں روس اور چین کا اہم کردار ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم صدی کے شروع میں قائم ہوئی۔ پہلے اس تنظیم میں چین، وسطی ایشیائی ممالک اور روس شامل تھے۔ تنظیم کے مقاصد میں خطے کے ممالک کی ترقی، تعاون اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔اس تنظیم میں توسیع ہوئی۔افغانستان اس کا رکن بنا اور پھر پاکستان اور بھارت کو رکنیت دی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی چین نے اقتصادی ترقی کے لیے ایک بینک قائم کیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کو مذہبی دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے اور یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ خطے کے کسی ملک میں انتہا پسندوں کی سرپرستی امن اور ترقی کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔ تاریخی طور پر سابق سوویت یونین نے ہمیشہ سے پاکستان اور بھارت کی دوستی کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ستمبر 1965 کی جنگ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے خاتمے کے لیے اس وقت کے سوویت وزیر اعظم کوسیجن نے جنرل ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو تاشقند مدعو کیا تھا اور معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوئے تھے۔
اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے خلاف منفی مہم چلائی تھی۔ بھٹو صاحب نے امریکا اور جنرل یحییٰ خان کے عزائم کو تقویت دی تھی مگر پھر بھٹو نے 1972ء میں شملہ معاہدہ کرکے معاہدہ تاشقند کی تجدید کردی تھی، اس طرح خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کی بناء پر پاکستان اور بھارت کے خوشگوار تعلقات کی اہمیت بڑھ گئی ۔
مگر دونوں وزراء اعظم نے اس ملاقات میں دو طرفہ تجارت اور دونوں ممالک کے شہریوں کے ایک دوسرے کے ملک کے سفر کے حوالے سے کچھ بنیادی معاملات پر غور نہیں کیا۔ بھارت پاکستان کو عالمی تجارت قوانین کے تناظر میں 90ء کی دھائی میں پسندیدہ ترین ملک (Most Favourite Country) کی فہرست میں شامل کرچکا ہے مگر پاکستان اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح فیصلہ نہیں کرسکا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بھارت کو پسندیدہ ترین ملک (MFN) قرار دینے کے بارے میں کافی پیش رفت ہوئی تھی اورپیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے مختلف وزارتوں اور تجارتی تنظیموں کے تحفظات کو ختم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا تھا کہ ملک میں انتخابات ہوگئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی۔
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی پریس کانفرنس میں یہ تجویز دی تھی کہ دونوں ممالک اپنے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کریں گے، مگر ممبئی دہشت گردی کے واقعے کے بعدسابق صدر آصف علی زرداری اس تجویز پر زور نہیں دے سکے۔ جب کہ بھارت کو MFN قرار دینے کے معاملے پر خاصی پیش رفت ہوئی اور اس بارے میں نوٹیفکیشن کو بھی آخری شکل دیدی گئی تھی مگر پھر معاملہ فائلوں میں دب گیا۔ میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران بھارت سے اچھے تعلقات پر خصوصی طور پر زور دیا تھا اور موجودہ حکومت دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں رکاوٹوں کو کم کرنے کی خواہاں تھی مگر یہ معاملہ ہنوز رکا ہوا ہے۔ اب اس معاملے کو حتمی شکل دی جانی چاہیے۔
دونوں ممالک کے لوگوں کے سفر میں حائل رکاوٹوں کا معاملہ انتہائی اہم ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار سے یہ کوشش ہورہی ہے کہ عام آدمی کے سفر کے لیے ویزا کی سہولت کو نرم کیا جائے۔ ان ہی کوششوں کی بناء پر اراکین پارلیمنٹ اور ججوں کو ایئرپورٹ ویزا کی سہولت دی گئی۔
فیصلہ ہوا کہ صحافیوں، وکلاء،ادیبوں، فنکاروں اوراساتذہ کو آسانی سے ویزا ملے گا۔ اسی طرح 60سال سے زیادہ عمرکے افراد کے لیے واہگہ اور اٹاری پر ویزے کی سہولت دینے کے فیصلے ہوئے مگر ان فیصلوں پر باقاعدہ عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ ممبئی دہشت گردی کے واقعے کے بعد بھارت نے پاکستانی شہریوں کے ویزے پر اسی طرح کی شرائط عائد کردی جس طرح کی شرائط امریکا اور یورپی ممالک نے عائد کررکھی ہیں جس سے وہ لوگ جن کے خاندان دوسرے ملک میں آباد ہیں شدید متاثر ہوئے۔ عام آدمی کے لیے بھارت جانا ناممکن ہوگیا۔
بعد ازاں پاکستان نے بھی اسی طرح کی پابندی عائد کی۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور سے دہلی جانے والی دوستی بس اورکراچی سے راجھستان جانے والی تھر ایکسپریس میں نشستیں خالی نظر آنے لگیں۔ ان پابندیوں کو نرم کیا گیا مگر وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ویزے کا حصول مشکل ہوگیا۔ عام آدمی 6،6 ماہ تک ویزا ملنے کا انتظار کرتا ہے۔ بعض اوقات انٹیلی جنس پولیس اور دیگر محکموں سے کلیئرنس کے بعد ویزا مل پاتا ہے۔ بعض دفعہ آدمی کے پاس مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ پاک بھارت دوستی کے خواہش مند ماہرین کہتے ہیں کہ عوام کے عوام سے رابطے دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔
پاکستان میں بعض ماہرین اس بات پر تنقید کررہے ہیں کہ دونوں سربراہوں نے کشمیر کے معاملے پر توجہ نہیں دی۔ کشمیر کا مسئلہ 65 برسوں سے حل طلب ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے تین بڑی اور دو چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں۔ ان جنگوں سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے مگر امریکا اور یورپ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا فائدہ ہوا۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں میں جگڑ گئی۔ اگر ویزے کی پابندیاں نرم کردی جائیں اور ان پابندیوں سے کشمیر کے دونوں اطراف کے عوام کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے تو مستقبل میں کوئی حل نظر آسکتا ہے۔
جب وزیر اعظم مودی سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئیں گے تو کراچی، پشاور، کوئٹہ، ممبئی،کلکتہ، مدراس اور لکھنؤ میں قونصل خانوں کے قیام کا معاملہ حتمی شکل اختیار کرجائے گا اور دونوں ممالک کے شہریوں کو مخصوص شہروں کے بجائے پورے ملک کا ویزا دیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی اخبارات اور کتابوں کی تجارت میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ مودی اور نواز شریف ملاقات کی ایک خاص بات روس اور چین کا دباؤ ہے۔
یہ دونوں دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں۔ چین پاکستان کا سب سے قریبی دوست ہے۔کچھ ماہرین پاک چین اقتصادی راہداری پر بھارت کے اعتراض کی بناء پر بھارت سے کسی قسم کی بات چیت کے حق میں نہیں، انھیں خود اس حقیقت کو اب تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان کے قریبی ممالک پاکستان اور بھارت کی دوستی کے حق میں ہیں۔ جب دوستی اور تجارت ہوگی اور تعلقات معمول پر آئیں گے تو دیرینہ مسائل کے حل کے راستے بھی نکل آئیں گے۔ مودی نواز شریف مذاکرات ایک امید کی کرن ہیں۔ بقول ترقی پسند تحریک کے عظیم رہنما علی سردار جعفری:
گفتگو بند نہ ہو بات سے بات چلے
ساتھ میں تاروں بھری رات چلے
ذرایع ابلاغ کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس دفعہ روس اور چین نے مودی اور نواز شریف ملاقات اور دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے خاصا دباؤ استعمال کیا تھا۔
ماضی میں امریکا اور برطانیہ بھی اسی طرح کا دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں میاں نواز شریف نے شرکت کی تھی اور دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بنیادی اقدامات پر اتفاق رائے کیا گیا تھا، مگر پھرکنٹرول لائن پرکشیدگی، بھارتی جنتا پارٹی کے بعض انتہاپسند وزراء کے بیانات، عسکری مقتدرہ کی جانب سے کراچی اور بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے الزامات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری آنا شروع ہوگئی تھی۔ پھر بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیرکی حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد جامع مذاکرات کا عمل معطل کرنے سے معاملات منفی رخ اختیارکرگئے۔
گزشتہ دوماہ کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر پر بھارتی اعتراض، بھارت کی جانب سے پہلی دفعہ 1965کی جنگ ستمبر کے حوالے سے تقریبات کے انعقاد کے فیصلے اور پاکستانی ٹی وی چینلز پر تبصرہ کرنے والے سیاسی اور عسکری تجزیہ نگاروں کی آراء کے بعد تو پاکستان اور بھارت بہت دور جاتے نظر آرہے تھے، مگر دونوں ممالک کی منتخب قیادت نے بصیرت کا ثبوت دیا، اور روس کے شہر اوفا میں اس ملاقات سے وہ مصنوعی برف پگھل گئی جس سے دونوں ممالک کے ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں الجھنوں کا شکار تھے۔ اس ملاقات میں دہشت گردی اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ختم کرنے کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں طے ہوگئیں۔
اور امید بندھ گئی کہ دونوں ممالک کے سول اور عسکری افسروں کی ملاقاتوں کے بعد صورتحال معمول کی طرف لوٹ جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات میں روس اور چین کا اہم کردار ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم صدی کے شروع میں قائم ہوئی۔ پہلے اس تنظیم میں چین، وسطی ایشیائی ممالک اور روس شامل تھے۔ تنظیم کے مقاصد میں خطے کے ممالک کی ترقی، تعاون اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔اس تنظیم میں توسیع ہوئی۔افغانستان اس کا رکن بنا اور پھر پاکستان اور بھارت کو رکنیت دی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی چین نے اقتصادی ترقی کے لیے ایک بینک قائم کیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کو مذہبی دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے اور یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ خطے کے کسی ملک میں انتہا پسندوں کی سرپرستی امن اور ترقی کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔ تاریخی طور پر سابق سوویت یونین نے ہمیشہ سے پاکستان اور بھارت کی دوستی کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ستمبر 1965 کی جنگ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے خاتمے کے لیے اس وقت کے سوویت وزیر اعظم کوسیجن نے جنرل ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو تاشقند مدعو کیا تھا اور معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوئے تھے۔
اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے خلاف منفی مہم چلائی تھی۔ بھٹو صاحب نے امریکا اور جنرل یحییٰ خان کے عزائم کو تقویت دی تھی مگر پھر بھٹو نے 1972ء میں شملہ معاہدہ کرکے معاہدہ تاشقند کی تجدید کردی تھی، اس طرح خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کی بناء پر پاکستان اور بھارت کے خوشگوار تعلقات کی اہمیت بڑھ گئی ۔
مگر دونوں وزراء اعظم نے اس ملاقات میں دو طرفہ تجارت اور دونوں ممالک کے شہریوں کے ایک دوسرے کے ملک کے سفر کے حوالے سے کچھ بنیادی معاملات پر غور نہیں کیا۔ بھارت پاکستان کو عالمی تجارت قوانین کے تناظر میں 90ء کی دھائی میں پسندیدہ ترین ملک (Most Favourite Country) کی فہرست میں شامل کرچکا ہے مگر پاکستان اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح فیصلہ نہیں کرسکا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بھارت کو پسندیدہ ترین ملک (MFN) قرار دینے کے بارے میں کافی پیش رفت ہوئی تھی اورپیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے مختلف وزارتوں اور تجارتی تنظیموں کے تحفظات کو ختم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا تھا کہ ملک میں انتخابات ہوگئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی۔
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی پریس کانفرنس میں یہ تجویز دی تھی کہ دونوں ممالک اپنے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کریں گے، مگر ممبئی دہشت گردی کے واقعے کے بعدسابق صدر آصف علی زرداری اس تجویز پر زور نہیں دے سکے۔ جب کہ بھارت کو MFN قرار دینے کے معاملے پر خاصی پیش رفت ہوئی اور اس بارے میں نوٹیفکیشن کو بھی آخری شکل دیدی گئی تھی مگر پھر معاملہ فائلوں میں دب گیا۔ میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران بھارت سے اچھے تعلقات پر خصوصی طور پر زور دیا تھا اور موجودہ حکومت دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں رکاوٹوں کو کم کرنے کی خواہاں تھی مگر یہ معاملہ ہنوز رکا ہوا ہے۔ اب اس معاملے کو حتمی شکل دی جانی چاہیے۔
دونوں ممالک کے لوگوں کے سفر میں حائل رکاوٹوں کا معاملہ انتہائی اہم ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار سے یہ کوشش ہورہی ہے کہ عام آدمی کے سفر کے لیے ویزا کی سہولت کو نرم کیا جائے۔ ان ہی کوششوں کی بناء پر اراکین پارلیمنٹ اور ججوں کو ایئرپورٹ ویزا کی سہولت دی گئی۔
فیصلہ ہوا کہ صحافیوں، وکلاء،ادیبوں، فنکاروں اوراساتذہ کو آسانی سے ویزا ملے گا۔ اسی طرح 60سال سے زیادہ عمرکے افراد کے لیے واہگہ اور اٹاری پر ویزے کی سہولت دینے کے فیصلے ہوئے مگر ان فیصلوں پر باقاعدہ عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ ممبئی دہشت گردی کے واقعے کے بعد بھارت نے پاکستانی شہریوں کے ویزے پر اسی طرح کی شرائط عائد کردی جس طرح کی شرائط امریکا اور یورپی ممالک نے عائد کررکھی ہیں جس سے وہ لوگ جن کے خاندان دوسرے ملک میں آباد ہیں شدید متاثر ہوئے۔ عام آدمی کے لیے بھارت جانا ناممکن ہوگیا۔
بعد ازاں پاکستان نے بھی اسی طرح کی پابندی عائد کی۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور سے دہلی جانے والی دوستی بس اورکراچی سے راجھستان جانے والی تھر ایکسپریس میں نشستیں خالی نظر آنے لگیں۔ ان پابندیوں کو نرم کیا گیا مگر وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ویزے کا حصول مشکل ہوگیا۔ عام آدمی 6،6 ماہ تک ویزا ملنے کا انتظار کرتا ہے۔ بعض اوقات انٹیلی جنس پولیس اور دیگر محکموں سے کلیئرنس کے بعد ویزا مل پاتا ہے۔ بعض دفعہ آدمی کے پاس مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ پاک بھارت دوستی کے خواہش مند ماہرین کہتے ہیں کہ عوام کے عوام سے رابطے دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔
پاکستان میں بعض ماہرین اس بات پر تنقید کررہے ہیں کہ دونوں سربراہوں نے کشمیر کے معاملے پر توجہ نہیں دی۔ کشمیر کا مسئلہ 65 برسوں سے حل طلب ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے تین بڑی اور دو چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں۔ ان جنگوں سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے مگر امریکا اور یورپ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا فائدہ ہوا۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں میں جگڑ گئی۔ اگر ویزے کی پابندیاں نرم کردی جائیں اور ان پابندیوں سے کشمیر کے دونوں اطراف کے عوام کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے تو مستقبل میں کوئی حل نظر آسکتا ہے۔
جب وزیر اعظم مودی سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئیں گے تو کراچی، پشاور، کوئٹہ، ممبئی،کلکتہ، مدراس اور لکھنؤ میں قونصل خانوں کے قیام کا معاملہ حتمی شکل اختیار کرجائے گا اور دونوں ممالک کے شہریوں کو مخصوص شہروں کے بجائے پورے ملک کا ویزا دیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی اخبارات اور کتابوں کی تجارت میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ مودی اور نواز شریف ملاقات کی ایک خاص بات روس اور چین کا دباؤ ہے۔
یہ دونوں دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں۔ چین پاکستان کا سب سے قریبی دوست ہے۔کچھ ماہرین پاک چین اقتصادی راہداری پر بھارت کے اعتراض کی بناء پر بھارت سے کسی قسم کی بات چیت کے حق میں نہیں، انھیں خود اس حقیقت کو اب تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان کے قریبی ممالک پاکستان اور بھارت کی دوستی کے حق میں ہیں۔ جب دوستی اور تجارت ہوگی اور تعلقات معمول پر آئیں گے تو دیرینہ مسائل کے حل کے راستے بھی نکل آئیں گے۔ مودی نواز شریف مذاکرات ایک امید کی کرن ہیں۔ بقول ترقی پسند تحریک کے عظیم رہنما علی سردار جعفری:
گفتگو بند نہ ہو بات سے بات چلے
ساتھ میں تاروں بھری رات چلے