آوئے ہی آوئے …اپنا بھائی آوئے

کیا یہ بات غلط ہے کہ ہمارے یہاں بس ایمان دار وہ ہے جسے بے ایمانی کا موقعہ نہیں ملا؟

muhammad.anis@expressnews.tv

یہاں جس پتھر کو اٹھاؤ، اُس کے نیچے سے بس گند ہی ملے گا۔ یہ ماتم کر رہے ہیں کہ ہماری چھوٹی سی تاریخ میں بس 150 بڑے کرپشن کے کیس ہوئے ہیں۔ انھیں یہ بہت تھوڑے لگتے ہیں لیکن اگر کسی قوم کے حکمرانوں یا پھر ذمے داروں پر ایک الزام لگ جائے تو وہ قوم پوری زندگی اُسے بھول نہیں پاتی، لیکن ہم نئی لسٹ ڈال کر اپنے تما م گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سیاست دان یہ بیوروکریٹس سب اسی معاشرے کا تو حصہ ہیں جس کے اندر اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن رچ بس گئی ہے۔

کیا یہ بات غلط ہے کہ ہمارے یہاں بس ایمان دار وہ ہے جسے بے ایمانی کا موقعہ نہیں ملا؟ یہاں پولیس والے سڑکوں پر روپے لے کر کس طرح سے قانون کا مذاق بناتے ہیں۔ ہر پتھاریدار سے لے کر دکان تک کس طرح پیسہ جاتا ہے۔ کیا ہم میں سے کوئی یہ بات نہیں جانتا؟ کون سے سرکاری دفتر میں فائل کو پہیہ نہیں لگایا جاتا؟ کیا اس بات کو مان لیا جائے کہ ہم سب اندر سے کھوکھلے اور کرپٹ ہیں، اسی لیے ہمیں اپنے نمایندے بھی وہ ہی اچھے لگتے ہیں۔ حالیہ دنوں اخبارات میں چھپنے والی دو خبریں ہمارے نظام کو سمجھنے کے لیے بہت ہیں۔

آئیے، پہلے چلتے ہیں پاک پتن۔ چند دنوں پہلے وہاں ہونے والے ایک دھماکے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پاک پتن کے لوگ بھی پریشان تھے کہ آخر واٹر مینجمینٹ کے دفتر میں ایسا کیا ہوا کہ اتنا بڑا دھماکا ہو گیا۔ کئی لوگ اسے دہشت گردی کی کارروائی قرار دے رہے تھے، لیکن پولیس کی تحقیقات نے سارا منظر ہی بدل دیا۔ کہانی کا آغاز اس بات سے ہوا کہ حکومت پنجاب نے اپنا ایک پراجیکٹ اگلے سال پاک پتن میں جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر اشتعال میں آ کر اس پراجیکٹ سے وابستہ تین گریڈ 2 کے آفیسر اور ایک کلرک نے اعلی آفیسر کو مارا اور آفس سے بھی نکال دیا۔ یہ اکثر پاکستان کے سرکاری محکموں میں ہوتا ہے جہاں طاقت ور گروپ اپنے آفیسر کو اپنے اشاروں پر چلنے پر مجبور کرتا ہے۔

مار کھانے والے افسر کو یہ بات بہت بری لگی اور انھوں نے انتقام کی ٹھان لی۔ افسر موصوف نے تین لوگوں کو اپنے بدلے کی آگ کو بجھانے کے لیے پیسے دیے اور منصوبہ یہ بنایا کہ وہ واٹر مینجمنٹ کے دفتر میں آگ لگا دیں گے جس کے بعد گزشتہ واقعے کو دیکھتے ہوئے مقدمہ اُن لوگوں پر درج کیا جائے گا جنھوں نے پہلے اُن پر تشدد کیا تھا۔ ساتھ ہی اُن لوگوں پر دس لاکھ روپے لوٹنے کا بھی کیس درج کیا جائے گا۔ اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے پٹرول کی بہت بڑی مقدار کو دفتر کے اندر پہنچایا گیا۔ یہ منصوبہ اُس وقت ناکام ہو گیا جب بڑی مقدار میں لایا گیا پٹرول دھماکے سے پھٹ گیا۔

ابتدائی طور پر یہ ہی سمجھا گیا کہ دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوئی ہے لیکن تحقیقات سے یہ نتیجہ نکلا کہ اس سب کا مقصد صرف اور صرف بدلے کی آگ تھی۔ انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ کراچی ہو یا لاہور یا ملک کا کوئی بھی حصہ وہاں چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ کے لیے ہر وقت جنگ ہو رہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی افسران اور کبھی کبھی ملازمین اور افسران کے درمیان بھی رسہ کشی ہو رہی ہوتی ہے اور اس حوالے سے جہاں بہت سا پیسہ چلتا ہے وہی ایک دوسرے کو بلیک میل بھی کیا جاتا ہے اور جہاں بات نہیں بن رہی ہوتی وہاں اس طرح کے حربے بھی استعمال کیے جاتے ہیں ۔


آئیے دوسری کہانی پر جو ساہیوال کی ہے۔ جہاں ایک میرٹھ کالونی ہے۔ گزشتہ تین سالوں سے یہ آبادی ایک عذاب کا شکار ہے۔ یوں تو پاکستان کی تمام آبادیاں کسی نہ کسی طور پر حکمرانوں کے عتاب میں ہیں۔ اس کہانی سے یہ سمجھ آ جائے گا کیسے ایک عام آدمی اپنے ہی ٹیکس سے پلنے والے اداروں اور اپنے ووٹ سے منتخب ہونے والے شہزادوں کی منت کر رہا ہوتا ہے۔

یہاں تین سال سے گیس کا پریشر بہت کم آ رہا تھا۔ ذاتی طور پر کئی لوگوں نے کمپنی کو درخواستیں دیں لیکن سب کی سب ردی میں ڈال دی گئیں۔ ایک تو پریشر کم اور اگر اُس پر لوڈ شیڈنگ ہو جائے تو وہ اُن لوگوں کے دلوں میں جلتی پر تیل کا کام کرتی تھی جن کے گھر میں چولہے نہیں جل پا رہے تھے۔ پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ مل کر جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں ۔ پہلے فیز میں انھوں نے سب اداروں کو درخواست کی کہ اُن کا مسئلہ حل کیا جائے۔ وہ اپنے علاقے کے رکن اسمبلی کے پاس بھی گئے لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ دوسرے مرحلے پر انھوں نے کمپنی سے مذاکرات کیے لیکن وہ بھی بے سود اور پھر انھوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔

شور کی آواز سُن کر کمپنی تھوڑی سی جاگی اور ایک سال پہلے یہ سروے کیا گیا کہ یہ جانچا جا سکے کہ اُن کا مسئلہ واقعی میں ٹھیک ہے یا نہیں ہے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ ان کا مسئلہ بالکل ٹھیک ہے تو یہ فیصلہ ہوا کہ انھیں ایک اور لائن سے کنکشن دے دیا جائے۔ لیکن ابھی تو کہانی باقی تھی۔ اس کے لیے سڑک کی کھدائی کرنا ضروری تھی اور اس کھدائی کے لیے مقامی حکومت سے NOC چاہیے تھا۔ تحصیل کی میونسپل انتظامیہ نے کہا کہ روڈ کی کھدائی ہو گی اس لیے انھیں پہلے 70 ہزار روپے دیے جائے۔ کافی کوشش کے بعد یہ پیسے ادا کر دیے گئے اور پھر علاقہ مکینوں کی محنت رنگ لانے لگی اور اس سال مارچ میں کمپنی نے دس لاکھ روپے خرچ کر کے لائن بچھا دی۔ لیکن آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پورے پاکستان کی ایسی اچھی قسمت ہے میرٹھ کالونی کی؟

نہیں جی۔ ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔ اپریل کے مہینے میں لائن بچھائی جا چکی ہے۔ بس ایک ''والو'' کھولنا ہے۔ یعنی بس ایک نلکا کھولنا ہے اور گیس آنا شروع۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کا افتتاح کون کرے۔ یہاں کہ رکن اسمبلی کی خواہش ہے کہ وہ اس کا افتتاح کرے۔ حالانکہ ساری محنت علاقے کے لوگوں نے خود کی ہے۔ اب یہ ایک افتتاح مسئلہ بنا ہوا ہے کہ کس کے نام کی تختی اس کے اوپر لگے۔

یہ میرا پورا پاکستان اور یہ ہے یہاں کا نظام۔ کراچی ہو یا لاہور یا پھر ساہیوال ہر جگہ ایک جیسا دکھ ہے۔ کراچی کے لوگ پانی اور بجلی کے لیے تڑپ رہے ہیں وہ لوگ ہر جگہ کے دھکے کھا رہے ہیں لیکن کوئی سُننے والا نہیں ہے۔ لاہور میں بجلی نے قیامت مچائی ہوئی ہے مگر وہاں بھی تختی لگانے کی جنگ جاری ہے۔ اگلے مہینے میں بہت سے پراجیکٹ کے افتتاح ہونگے اُس کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہے لوگوں کے دکھ میں ہمارے سیاست دان اور بیوروکریٹ مرے جا رہے ہیں بلکہ بلدیاتی الیکشن ہے۔ ایک بار پھر ووٹ کا گیم شروع ہونے والا ہے جس میں ہمارے ہی ٹیکس کے پیسوں سے ہمیں گیس، پانی اور بجلی دے کر ہم پر احسان جتایا جائے گا۔ اور ہم پھر تالیوں کی گونج میں اپنے لیڈر کا استقبال کریں گے۔ آوئے ہی آوئے ... اپنا بھائی آوئے ...
Load Next Story