بھٹو اور بلاول بھٹو۔۔۔ایک جائزہ
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مرتضیٰ بھٹو میں لیڈرشپ کی کوالٹی بہ درجہ اتم موجود تھی۔
یہ سیاست دوراں کی عجب ستم ظریفی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادگان میں سے کسی بھی بیٹے کو سیاست کرنے کا موقع نہ ملا۔ بے نظیر کے ہی دور حکومت کے آخری دنوں میں جب کے ایک جلسے سے واپسی پر ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹوکو 70 کلفٹن پر نہایت بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ مرتضیٰ بھٹو نہایت بہادر،غریب پرور شخص تھے، نسل پرستی، فرقہ پرستی ان میں نام کو نہ تھی بلکہ ان دنوں ایک آپریشن ایم کیو ایم پر چل رہا تھا، وہ اکثر مہاجر ماؤں بہنوں کی فریاد پر لبیک کہا کرتے تھے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مرتضیٰ بھٹو میں لیڈرشپ کی کوالٹی بہ درجہ اتم موجود تھی۔ بعض صلاحیتیں انسان میں خداداد ہوتی ہیں، جو اللہ انسان میں عطا کرتا ہے۔ وہ صلاحیتیں ٹریننگ دے کر پیدا نہیں کی جاسکتیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی ایسا منظر کہ انسان پل پر جا رہے ہوں اور اچانک پل ٹوٹ جائے تو اگر اس منظر کو 50 یا 60 افراد دیکھ رہے ہوں تو ہر شخص پر اس کیفیت کا ردعمل مختلف ہوگا،اور اگر وہاں کوئی شاعر موجود ہوگا تو دل شاعر پہ کیا گزرتی ہے اس کا اظہار کسی اور انداز کا ہوگا جس میں رقت، رنج، آہ و بکا میں درد پیوست ہوگا۔ کیونکہ اس کا طرز ابلاغ یہی ہوگا۔
مگر یہاں کوئی لیڈر موجود ہوگا تو پھر اس میں درد کے پہلو اور نقصانات کے ازالے کے پہلو کے علاوہ حکومت کی غفلت نگرانی اور دیگر وجوہات پر بھی نظر ہوگی۔ ہر فرد کی زیرکی اس کے اظہار میں نمایاں ہوگی۔ دراصل بعض چیزیں بعض انسانوں کو قدرتی طور پر ودیعت کی ہوتی ہیں جو کسی طریقے سے ٹریننگ دے کر اس میں نہیں ڈالی جاسکتیں۔ مثلاً کسی کو شاعر نہیں بنایا جاسکتا اگر اس میں خود یہ صلاحیت موجود نہ ہو، کسی شخص کو گلوکار، موسیقار نہیں بنایا جاسکتا۔بالکل اسی طرح کسی کو لیڈر بھی نہیں بنایا جاسکتا۔ مثلاً گاندھی جی کے صاحبزادے کوگاندھی جی جیسا لیڈر نہیں بنایا جاسکتا۔
بعض نسلوں میں باپ کے بعد اس کی اولاد میں یہ فن نمایاں نظر آتے ہیں تو اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ وہ باپ کی محفلوں میں کس ذوق و شوق سے بیٹھا تھا، اردو شاعری میں میرحسن کی نسل میں فن آگے بڑھا مگر یہ امکانات اس وقت پروان چڑھتے ہیں جب انتھک محنت، لگاؤ، میلان طبیعت، علامہ اقبال کو ہی لے لیں جاوید اقبال محنت سے لائق و فائق تو بن گئے مگر شعر و سخن کی منزلوں کو پروان نہ چڑھا سکے۔
بالکل یہی حال لیڈری کا ہے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے والد موتی لعل نہرو اور سر وزیر حسن کے صاحبزادے حسن ظہیر بھارتی صوبے یوپی کے وزیر اعلیٰ بنے اور دوسرے صاحبزادے سجاد ظہیر پاکستان آئے اور پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنے۔ سجاد ظہیر نے 1948-49 میں پاکستان کی سیاست میں روٹی کپڑے مکان کی سیاست کا آغاز کیا اور مزدور کسان تحریک کا آغاز کیا۔ تحریک در تحریک زور پکڑتی گئی یہاں تک کہ سجاد ظہیر کو بالآخر ملک بدر کرکے ہندوستان جانے پر مجبور کیا گیا۔ اور پارٹی کو خلاف قانون قرار دیا گیا اور اسی پارٹی کے زیر اثر ڈی ایس ایف Democratic Students Federation کو بھی 1954 میں خلاف قانون قرار دیا گیا۔
سیکولر اور سوشلسٹ خیالات کی نمو زیادہ عرصے پاکستان میں نہ رہ سکی۔ بہر حال حسن ظہیر روایتی صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے مگر لیڈری کے دم خم سجاد ظہیر میں موجود رہے اور کتابوں کے حوالے سے معروف زمانہ کتاب روشنائی نے سوشلزم کی آبیاری میں اہم کردار انجام دیا۔ بھارت سے آئے ہوئے لیڈران اور پاکستان میں موجود سوبھوگیان چندانی کے ساتھ مل کر سندھ میں سوشلسٹ تحریک کو مضبوط ترکیا مگر پاکستان میں کوششوں کے باوجود آبائی سیاست مضبوطی سے آگے نہ بڑھ سکی۔جنرل ایوب خان نے اپنے صاحبزادے گوہر ایوب کو آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر ان میں قومی لیڈر بننے کے خواص موجود نہ تھے۔ علامہ اقبال نے لیڈری کے لیے جن اجزا کو اہم فرمایا ہے ان میں سے چند کو یوں بیان کیا ہے:
نگہہ بلند سخن دلنواز جان پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
ابھی حال ہی میں پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کو ملک میں قیادت کے لیے پیش کیا جب پہلی بار ان کو پیش کیا گیا تو مغربی میوزک اور مقامی سندھی دھنوں میں گوندھ کے پیش کیا گیا۔ ''موئن جو دڑو'' کے ماحول میں موسیقی کی لے جب پیش کی جا رہی تھی تو تھر پارکر میں موت کا رقص جاری تھا اور جس کو بے وقت کی راگنی کہہ سکتے ہیں۔کہاں ذوالفقار علی بھٹو کے مد مقابل کی لانچنگ کی جانی تھی کہاں وہ لانچنگ۔ دیکھیے اکتوبر 1968 کا تعارفی جلسہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی یونین کے صدر ڈاکٹر باقر عسکری کی منعقدہ تقریب پذیرائی، ہزاروں طلبا کی موجودگی این ایس ایف کے جانثاروں کے ہاتھ میں سرخ پرچم اور جمہوریت کے سفر کی تیاری اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرین کا سفر ہر اسٹیشن پر طلبا کا ہجوم ذوالفقار علی بھٹو ایک دور بین، ہوشیار، دوررس نگاہوں والے، گفتگو میں مانا کہ تاشقند ڈکلیریشن جو 1965 میں ایوب خان نے لعل بہادر شاستری سے کیا تھا اس میں کشمیر کا مسئلہ زیر غور نہ آیا۔
اس کو بھی ذوالفقار علی بھٹو نے کافی استعمال کیا، ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے سیکریٹری کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لیے مساوی بی ڈی (B.D)بنیادی جمہوریت (Basic Democracy) کا خیال بھی ان ہی کا دیا ہوا تھا۔ جس کی بنیاد پر فاطمہ جناح کو شکست ہوئی مگر جونہی ذوالفقار علی بھٹو نے بائیں بازو کی سیاست اور سجاد ظہیر کے فلسفے کو آگے بڑھانے کی باتیں کیں ان کو لیفٹ موومنٹ (Left Movement) کی حمایت حاصل ہوئی اگر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کی تحریک کی عالمی پیمانے پر حمایت یا سر عرفات کی تحریک کی حمایت نے بھٹو کو نمایاں مقام عطا کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی لانچ (Launch) اور بلاول کی لانچ کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل جو لوگ تھے، ان میں مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی، مغربی پاکستان سے باچا خان عبدالغفار خان، نیشنل عوامی پارٹی، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ، مزدور کسان پارٹیاں، ایک ہیجان کی کیفیت تھی مگر رفتہ رفتہ جو کچھ ہوا نیشنل عوامی پارٹی اور مزدور پارٹیاں کسانوں کی سبھائیں اور اسٹوڈنٹس موومنٹ الگ ہوئیں، معراج محمد خان کا این ایس ایف گروپ، روس نواز کمیونسٹ گروپ، بلوچستان پر آپریشن سے الگ ، سب الگ باتیں ہیں۔
مگر بلاول بھٹو کو نہ کوئی بڑے لیڈروں کی حمایت حاصل ہے نہ بیوروکریٹس کی لابی۔اور نہ وہ جدوجہد جو بے نظیر یا ذوالفقار علی بھٹو کے پاس تھی۔یہاں تو مصلحت اور مفاہمت کی سیاست اور ہوشیاری اور دولت کو سیاست سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی اور اردو زبان میں بھٹو کے لہجے کی بات نہیں۔ بھٹو میں جو چاشنی موجود تھی وہ بلاول میں کہاں۔ بلاول ہاؤس میں جو زبان داں ان کی رہنمائی پر مامور ہیں انھوں نے صرف یہ بتایا ہے کہ یہ بولتے رہو، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔
جب تک سورج چاند رہے گا، بھٹو تیرا نام رہے گا، بھٹو کے نام نے اور قربانی نے بے نظیر کو اقتدار دیا، بے نظیر کے خون نے ایک بار آصف علی زرداری کو مسند صدارت عطا کی۔ مگر اب بلاول کیا کرتے ہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو عالمی سیاست اور ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے لیڈرتھے، ان کی سیاست سے اتفاق کریں یا اختلاف۔ انھوں نے بائیں بازو کے لیڈروں کے خیالات کو بروقت استعمال کیا اور پہلی ہی ضرب میں حکمراں بن بیٹھے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مرتضیٰ بھٹو میں لیڈرشپ کی کوالٹی بہ درجہ اتم موجود تھی۔ بعض صلاحیتیں انسان میں خداداد ہوتی ہیں، جو اللہ انسان میں عطا کرتا ہے۔ وہ صلاحیتیں ٹریننگ دے کر پیدا نہیں کی جاسکتیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی ایسا منظر کہ انسان پل پر جا رہے ہوں اور اچانک پل ٹوٹ جائے تو اگر اس منظر کو 50 یا 60 افراد دیکھ رہے ہوں تو ہر شخص پر اس کیفیت کا ردعمل مختلف ہوگا،اور اگر وہاں کوئی شاعر موجود ہوگا تو دل شاعر پہ کیا گزرتی ہے اس کا اظہار کسی اور انداز کا ہوگا جس میں رقت، رنج، آہ و بکا میں درد پیوست ہوگا۔ کیونکہ اس کا طرز ابلاغ یہی ہوگا۔
مگر یہاں کوئی لیڈر موجود ہوگا تو پھر اس میں درد کے پہلو اور نقصانات کے ازالے کے پہلو کے علاوہ حکومت کی غفلت نگرانی اور دیگر وجوہات پر بھی نظر ہوگی۔ ہر فرد کی زیرکی اس کے اظہار میں نمایاں ہوگی۔ دراصل بعض چیزیں بعض انسانوں کو قدرتی طور پر ودیعت کی ہوتی ہیں جو کسی طریقے سے ٹریننگ دے کر اس میں نہیں ڈالی جاسکتیں۔ مثلاً کسی کو شاعر نہیں بنایا جاسکتا اگر اس میں خود یہ صلاحیت موجود نہ ہو، کسی شخص کو گلوکار، موسیقار نہیں بنایا جاسکتا۔بالکل اسی طرح کسی کو لیڈر بھی نہیں بنایا جاسکتا۔ مثلاً گاندھی جی کے صاحبزادے کوگاندھی جی جیسا لیڈر نہیں بنایا جاسکتا۔
بعض نسلوں میں باپ کے بعد اس کی اولاد میں یہ فن نمایاں نظر آتے ہیں تو اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ وہ باپ کی محفلوں میں کس ذوق و شوق سے بیٹھا تھا، اردو شاعری میں میرحسن کی نسل میں فن آگے بڑھا مگر یہ امکانات اس وقت پروان چڑھتے ہیں جب انتھک محنت، لگاؤ، میلان طبیعت، علامہ اقبال کو ہی لے لیں جاوید اقبال محنت سے لائق و فائق تو بن گئے مگر شعر و سخن کی منزلوں کو پروان نہ چڑھا سکے۔
بالکل یہی حال لیڈری کا ہے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے والد موتی لعل نہرو اور سر وزیر حسن کے صاحبزادے حسن ظہیر بھارتی صوبے یوپی کے وزیر اعلیٰ بنے اور دوسرے صاحبزادے سجاد ظہیر پاکستان آئے اور پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنے۔ سجاد ظہیر نے 1948-49 میں پاکستان کی سیاست میں روٹی کپڑے مکان کی سیاست کا آغاز کیا اور مزدور کسان تحریک کا آغاز کیا۔ تحریک در تحریک زور پکڑتی گئی یہاں تک کہ سجاد ظہیر کو بالآخر ملک بدر کرکے ہندوستان جانے پر مجبور کیا گیا۔ اور پارٹی کو خلاف قانون قرار دیا گیا اور اسی پارٹی کے زیر اثر ڈی ایس ایف Democratic Students Federation کو بھی 1954 میں خلاف قانون قرار دیا گیا۔
سیکولر اور سوشلسٹ خیالات کی نمو زیادہ عرصے پاکستان میں نہ رہ سکی۔ بہر حال حسن ظہیر روایتی صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے مگر لیڈری کے دم خم سجاد ظہیر میں موجود رہے اور کتابوں کے حوالے سے معروف زمانہ کتاب روشنائی نے سوشلزم کی آبیاری میں اہم کردار انجام دیا۔ بھارت سے آئے ہوئے لیڈران اور پاکستان میں موجود سوبھوگیان چندانی کے ساتھ مل کر سندھ میں سوشلسٹ تحریک کو مضبوط ترکیا مگر پاکستان میں کوششوں کے باوجود آبائی سیاست مضبوطی سے آگے نہ بڑھ سکی۔جنرل ایوب خان نے اپنے صاحبزادے گوہر ایوب کو آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر ان میں قومی لیڈر بننے کے خواص موجود نہ تھے۔ علامہ اقبال نے لیڈری کے لیے جن اجزا کو اہم فرمایا ہے ان میں سے چند کو یوں بیان کیا ہے:
نگہہ بلند سخن دلنواز جان پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
ابھی حال ہی میں پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کو ملک میں قیادت کے لیے پیش کیا جب پہلی بار ان کو پیش کیا گیا تو مغربی میوزک اور مقامی سندھی دھنوں میں گوندھ کے پیش کیا گیا۔ ''موئن جو دڑو'' کے ماحول میں موسیقی کی لے جب پیش کی جا رہی تھی تو تھر پارکر میں موت کا رقص جاری تھا اور جس کو بے وقت کی راگنی کہہ سکتے ہیں۔کہاں ذوالفقار علی بھٹو کے مد مقابل کی لانچنگ کی جانی تھی کہاں وہ لانچنگ۔ دیکھیے اکتوبر 1968 کا تعارفی جلسہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی یونین کے صدر ڈاکٹر باقر عسکری کی منعقدہ تقریب پذیرائی، ہزاروں طلبا کی موجودگی این ایس ایف کے جانثاروں کے ہاتھ میں سرخ پرچم اور جمہوریت کے سفر کی تیاری اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرین کا سفر ہر اسٹیشن پر طلبا کا ہجوم ذوالفقار علی بھٹو ایک دور بین، ہوشیار، دوررس نگاہوں والے، گفتگو میں مانا کہ تاشقند ڈکلیریشن جو 1965 میں ایوب خان نے لعل بہادر شاستری سے کیا تھا اس میں کشمیر کا مسئلہ زیر غور نہ آیا۔
اس کو بھی ذوالفقار علی بھٹو نے کافی استعمال کیا، ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے سیکریٹری کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لیے مساوی بی ڈی (B.D)بنیادی جمہوریت (Basic Democracy) کا خیال بھی ان ہی کا دیا ہوا تھا۔ جس کی بنیاد پر فاطمہ جناح کو شکست ہوئی مگر جونہی ذوالفقار علی بھٹو نے بائیں بازو کی سیاست اور سجاد ظہیر کے فلسفے کو آگے بڑھانے کی باتیں کیں ان کو لیفٹ موومنٹ (Left Movement) کی حمایت حاصل ہوئی اگر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کی تحریک کی عالمی پیمانے پر حمایت یا سر عرفات کی تحریک کی حمایت نے بھٹو کو نمایاں مقام عطا کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی لانچ (Launch) اور بلاول کی لانچ کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل جو لوگ تھے، ان میں مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی، مغربی پاکستان سے باچا خان عبدالغفار خان، نیشنل عوامی پارٹی، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ، مزدور کسان پارٹیاں، ایک ہیجان کی کیفیت تھی مگر رفتہ رفتہ جو کچھ ہوا نیشنل عوامی پارٹی اور مزدور پارٹیاں کسانوں کی سبھائیں اور اسٹوڈنٹس موومنٹ الگ ہوئیں، معراج محمد خان کا این ایس ایف گروپ، روس نواز کمیونسٹ گروپ، بلوچستان پر آپریشن سے الگ ، سب الگ باتیں ہیں۔
مگر بلاول بھٹو کو نہ کوئی بڑے لیڈروں کی حمایت حاصل ہے نہ بیوروکریٹس کی لابی۔اور نہ وہ جدوجہد جو بے نظیر یا ذوالفقار علی بھٹو کے پاس تھی۔یہاں تو مصلحت اور مفاہمت کی سیاست اور ہوشیاری اور دولت کو سیاست سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی اور اردو زبان میں بھٹو کے لہجے کی بات نہیں۔ بھٹو میں جو چاشنی موجود تھی وہ بلاول میں کہاں۔ بلاول ہاؤس میں جو زبان داں ان کی رہنمائی پر مامور ہیں انھوں نے صرف یہ بتایا ہے کہ یہ بولتے رہو، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔
جب تک سورج چاند رہے گا، بھٹو تیرا نام رہے گا، بھٹو کے نام نے اور قربانی نے بے نظیر کو اقتدار دیا، بے نظیر کے خون نے ایک بار آصف علی زرداری کو مسند صدارت عطا کی۔ مگر اب بلاول کیا کرتے ہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو عالمی سیاست اور ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے لیڈرتھے، ان کی سیاست سے اتفاق کریں یا اختلاف۔ انھوں نے بائیں بازو کے لیڈروں کے خیالات کو بروقت استعمال کیا اور پہلی ہی ضرب میں حکمراں بن بیٹھے۔