اب آئی جے آئی نہیں بنے گی سپریم کورٹ رقوم تقسیم کرنیوالا فوجی افسر آج طلب
صدر،آرمی چیف اورآئی ایس آئی سربراہ ملوث تھے،دیکھنایہ ہے کہ یہ عمل انفرادی تھایابحیثیت ادارہ،چیف جسٹس
سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کی تصدیق کیلیے سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی میں اس وقت کے بریگیڈیئر حامد سعیدکوآج طلب کر لیاہے۔
پیرکواسددرانی نے عدالت کوبتایاتھاکہ رقم بریگیڈیئرحامدسعیدکے ذریعے تقسیم کی گئی تھی۔عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ ایوان صدرکا جواب آنے کے بعد اجلال حیدر زیدی کو طلب کرنے پر غورکیا جائے گا،عدالت نے اسلم بیگ کے وکیل کی طرف سے سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر پرجرح عام کرنے کی درخواست مستردکر دی ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اگر الیکشن خراب کرنے کا الزام ثابت ہواتوکئی لوگ زدمیں آئیںگے جس میں صدرسرفہرست ہے۔
انھوں نے کہاصدر اورآرمی چیف ایساکوئی کام نہیںکر سکتے جس کی آئین اجازت نہ دے۔منگل کو تین رکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو درخواست گزارکے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل سمیٹتے ہوئے رقم تقسیم کرنے والے کرداروںکے خلاف کارروائی کی استدعاکی اورکہا اس اسکینڈل کے بہت سارے کردارزندہ ہیں اب جبکہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے الزام تسلیم کیاہے اس پرکارروائی ہونی چاہیے ۔چیف جسٹس نے کہاانفرادی اوررجمنٹل کردارمیں فرق رکھنا ہوگا۔
ایسا کوئی موقف نہیں اپناناچاہیے جس سے اداروںکی بدنامی ہو،دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیاں بیرونی جارحیت روکنے اور دفاع کو یقینی بنانے کیلیے خفیہ معلومات اکٹھا کرتی ہیں،سیکیورٹی ایجنسیاں اندرونی خلفشارکے خاتمے کیلیے بھی کام کرتی ہیں،اگر انفرادی غلطی ہو تو اس کیلیے طریقہ کار موجود ہے حال ہی میں این ایل سی اسکینڈل میں تین جرنیلوں کو اس لیے بحال کیا گیا تاکہ ان کے خلاف کارروائی ہو۔ چیف جسٹس نے کہا بہت سے نام سامنے آئے ہیں لیکن صدرکا آفس عام آفس نہیں، یہ کہا جاسکتا ہے اس وقت صدراور آرمی چیف نے جوکیا وہ آئین کے خلاف اور اختیارات سے تجاوزتھا۔
چیف جسٹس نے آبزرویشن دی ریاستی مشینری کیوں غیر فعال ہے اس کو دیکھنا پڑے گاکہ حکومت آخرکیوں ناکام ہے ۔کراچی ہلاکتوں اور بلوچستان کے معاملے پرعدالت کی ہدایات پرکوئی عمل نہیں ہوا ؟چیف جسٹس نے کہا عدالت کا شروع دن سے یہ مقصد تھا کہ نظام پٹڑی سے نہ اتر جائے، عدالت نے جمہوریت اور آئین کو برقرار رکھنے کیلیسے فیصلے دیے ،ایک شخص کا نام شامل کرنے کیلیے آئین کا حلیہ بگاڑا گیا اور پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کی،غیر جماعتی انتخابات اور ریفرنڈم کو قانونی حیثیت دی گئی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا اب جو بھی ہوگا آئین کے تحت ہوگا ،کوئی آئی جے آئی آئین سے ماورا نہیں بنے گی،قوم کا یہی مفاد ہے کہ ملک میں جمہوریت رہے۔
روئیداد خان نے اپنا تحریری جواب جمع کرایا اور کہا رفیع رضا رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی میں سیاسی سیل ذوالفقار علی بھٹوکے حکم پر جنرل شجاعت کی سرپرستی میںبنا، انھوں نے بتایا رفیع رضا رپورٹ سرکاری دستاویز ہے اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں ریکارڈ موجود ہوگا۔جنرل (ر) اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا اس ایشوکے اصل کردار نصیر اللہ بابر تھے ان پر جرح کو عام کیے بغیر اس اسکینڈل کو نہیں سمجھا جا سکتا۔عدالت نے اس آبزرویشن کے ساتھ درخواست مستردکر دی کہ کچھ چیزیں عام نہیںکی جاسکتیں۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق چیف جسٹس نے کہاعدالت اب تک کوشش کررہی ہے کہ نظام ڈی ریل نہ ہو،اب آئی جے آئی نہیںبنے گی۔
بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ایوان صدر، بری فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے معاملے میں ملوث رہے ہیں، یہ دیکھنا ہے کہ یہ ان افرادکا ذاتی فعل تھا یا اس میں ادارے ملوث تھے۔اصغرخان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسددرانی نے ان کے موکل کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اعلیٰ قیادت کے کہنے پر سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کیں۔انھوں نے کہا کہ سیاستدانوں میں 7 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے اور اس ضمن میں ایم آئی کے اکائونٹ استعمال کیے گئے جبکہ باقی سات کروڑ روپے کی رقم اُسی اکائونٹ میں موجود رہی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اکائونٹ استعمال ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس میں پوری ایم آئی ملوث ہے، انھوں نے کہا کہ ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے معاملے میں ایوان صدر، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ ملوث رہے ہیں جوکہ ایک افسوسناک امر ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی بیرونی جارحیت کو روکنے کیلئے کام کرتی ہے۔ ایسا ادارہ نہ ہو تو دہشت گردی سے نمٹنا ممکن نہیں۔ آئی ایس آئی چیف، آرمی چیف اور صدرکے دفاتر انتہائی اہم ہوتے ہیں۔صدر سب سے اہم عہدہ ہوتا ہے اس لیے اسے احتیاط برتنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے صدر مملکت ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ایوان صدر سے جواب کا انتظارکررہے ہیں، جواب نفی میں آیا توجلال حیدرکو بلانے پر غورکریںگے ۔ عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کردی۔
پیرکواسددرانی نے عدالت کوبتایاتھاکہ رقم بریگیڈیئرحامدسعیدکے ذریعے تقسیم کی گئی تھی۔عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ ایوان صدرکا جواب آنے کے بعد اجلال حیدر زیدی کو طلب کرنے پر غورکیا جائے گا،عدالت نے اسلم بیگ کے وکیل کی طرف سے سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر پرجرح عام کرنے کی درخواست مستردکر دی ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اگر الیکشن خراب کرنے کا الزام ثابت ہواتوکئی لوگ زدمیں آئیںگے جس میں صدرسرفہرست ہے۔
انھوں نے کہاصدر اورآرمی چیف ایساکوئی کام نہیںکر سکتے جس کی آئین اجازت نہ دے۔منگل کو تین رکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو درخواست گزارکے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل سمیٹتے ہوئے رقم تقسیم کرنے والے کرداروںکے خلاف کارروائی کی استدعاکی اورکہا اس اسکینڈل کے بہت سارے کردارزندہ ہیں اب جبکہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے الزام تسلیم کیاہے اس پرکارروائی ہونی چاہیے ۔چیف جسٹس نے کہاانفرادی اوررجمنٹل کردارمیں فرق رکھنا ہوگا۔
ایسا کوئی موقف نہیں اپناناچاہیے جس سے اداروںکی بدنامی ہو،دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیاں بیرونی جارحیت روکنے اور دفاع کو یقینی بنانے کیلیے خفیہ معلومات اکٹھا کرتی ہیں،سیکیورٹی ایجنسیاں اندرونی خلفشارکے خاتمے کیلیے بھی کام کرتی ہیں،اگر انفرادی غلطی ہو تو اس کیلیے طریقہ کار موجود ہے حال ہی میں این ایل سی اسکینڈل میں تین جرنیلوں کو اس لیے بحال کیا گیا تاکہ ان کے خلاف کارروائی ہو۔ چیف جسٹس نے کہا بہت سے نام سامنے آئے ہیں لیکن صدرکا آفس عام آفس نہیں، یہ کہا جاسکتا ہے اس وقت صدراور آرمی چیف نے جوکیا وہ آئین کے خلاف اور اختیارات سے تجاوزتھا۔
چیف جسٹس نے آبزرویشن دی ریاستی مشینری کیوں غیر فعال ہے اس کو دیکھنا پڑے گاکہ حکومت آخرکیوں ناکام ہے ۔کراچی ہلاکتوں اور بلوچستان کے معاملے پرعدالت کی ہدایات پرکوئی عمل نہیں ہوا ؟چیف جسٹس نے کہا عدالت کا شروع دن سے یہ مقصد تھا کہ نظام پٹڑی سے نہ اتر جائے، عدالت نے جمہوریت اور آئین کو برقرار رکھنے کیلیسے فیصلے دیے ،ایک شخص کا نام شامل کرنے کیلیے آئین کا حلیہ بگاڑا گیا اور پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کی،غیر جماعتی انتخابات اور ریفرنڈم کو قانونی حیثیت دی گئی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا اب جو بھی ہوگا آئین کے تحت ہوگا ،کوئی آئی جے آئی آئین سے ماورا نہیں بنے گی،قوم کا یہی مفاد ہے کہ ملک میں جمہوریت رہے۔
روئیداد خان نے اپنا تحریری جواب جمع کرایا اور کہا رفیع رضا رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی میں سیاسی سیل ذوالفقار علی بھٹوکے حکم پر جنرل شجاعت کی سرپرستی میںبنا، انھوں نے بتایا رفیع رضا رپورٹ سرکاری دستاویز ہے اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں ریکارڈ موجود ہوگا۔جنرل (ر) اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا اس ایشوکے اصل کردار نصیر اللہ بابر تھے ان پر جرح کو عام کیے بغیر اس اسکینڈل کو نہیں سمجھا جا سکتا۔عدالت نے اس آبزرویشن کے ساتھ درخواست مستردکر دی کہ کچھ چیزیں عام نہیںکی جاسکتیں۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق چیف جسٹس نے کہاعدالت اب تک کوشش کررہی ہے کہ نظام ڈی ریل نہ ہو،اب آئی جے آئی نہیںبنے گی۔
بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ایوان صدر، بری فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے معاملے میں ملوث رہے ہیں، یہ دیکھنا ہے کہ یہ ان افرادکا ذاتی فعل تھا یا اس میں ادارے ملوث تھے۔اصغرخان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسددرانی نے ان کے موکل کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اعلیٰ قیادت کے کہنے پر سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کیں۔انھوں نے کہا کہ سیاستدانوں میں 7 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے اور اس ضمن میں ایم آئی کے اکائونٹ استعمال کیے گئے جبکہ باقی سات کروڑ روپے کی رقم اُسی اکائونٹ میں موجود رہی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اکائونٹ استعمال ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس میں پوری ایم آئی ملوث ہے، انھوں نے کہا کہ ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے معاملے میں ایوان صدر، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ ملوث رہے ہیں جوکہ ایک افسوسناک امر ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی بیرونی جارحیت کو روکنے کیلئے کام کرتی ہے۔ ایسا ادارہ نہ ہو تو دہشت گردی سے نمٹنا ممکن نہیں۔ آئی ایس آئی چیف، آرمی چیف اور صدرکے دفاتر انتہائی اہم ہوتے ہیں۔صدر سب سے اہم عہدہ ہوتا ہے اس لیے اسے احتیاط برتنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے صدر مملکت ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ایوان صدر سے جواب کا انتظارکررہے ہیں، جواب نفی میں آیا توجلال حیدرکو بلانے پر غورکریںگے ۔ عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کردی۔