بھارت کی جنگی تیاریاں
بھارتی افواج کو بیک وقت دو محاذوں …چین اور پاکستان پر لڑنے کے لیے خاص طور پہ تیار کیا جا رہا ہے۔
یہ جنوری 1980ء کی بات ہے' اندرا گاندھی دوبارہ وزیراعظم بھارت منتخب ہوئیں۔ اسی سال انہوں نے بھارتی جرنیلوں کے ساتھ مل کر نئی عسکری حکمت عملی تشکیل دی۔ اس حکمت عملی کی رو سے طے پایا کہ پاکستان کے خلاف ''رکاوٹی مزاحمت''(dissuasive deterrence) ہیئت اختیار کی جائے ۔جبکہ چین کے خلاف ''رکاوٹی دفاع''(dissuasive defence) والی عسکری حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ ہوا۔
پینتیس سال قبل بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت اس امر پہ متفق تھی کہ چین کی طرف سے حملوں کا خطرہ بہت کم ہے تاہم وہ مستقبل میں چیلنج بن سکتا ہے۔ لہٰذا بھارتی قیادت نے فیصلہ کیا' چین کے خطرہ بننے تک پاکستان کو سیاسی ' معاشی' عسکری اور سفارتی معنی میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے تاکہ وہ کمزور ہو کر بھارت کا مقابلہ نہ کر سکے۔ (یوں تب بھارت کے سامنے صرف چین مد مقابل رہ جاتا) یہ کام را کے ایجنٹوں اور پاکستانی غداروں کی مدد سے انجام دینے کا فیصلہ ہوا۔
اس زمانے میں بھارتی عسکری قیادت کا خیال تھا کہ جب بھی پاکستانیوں سے جنگ چھڑی' ان کے قلب میں تیزی سے پہنچ کر پاکستان کو دو حصّوں میں چیر دیا جائے گا۔ یوں پاک افواج مقابلے کی سکت نہ پا کر شکست تسلیم کر یں گی۔ مگر 1985ء تک بھارتی حکمرانوں پر منکشف ہو گیا کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا۔ اس انکشاف نے بھارتی سیاسی و عسکری کی درج بالا حکمت عملی کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ وجہ یہی کہ ایٹم بم ہونے کے باعث اب پاکستان منہ توڑ جواب دینے کی پوزیشن میں آ گیا تھا۔
عسکری طاقت میں توازن آنے کے باعث بھارتی حکمرانوں نے ''رکاوٹی مزاحمت'' کو خیر باد کہا اور پاکستان کے معاملے میں بھی دفاعی پوزیشن اختیار کر لی۔ اس حکمت عملی میں تھوڑی سی تبدیلی 2012ء میں آئی جب بھارتی سیاسی و عسکری قیادت نے ایک پندرہ سالہ توسیعی منصوبہ ''ایل آئی ٹی پی پی'' (Long Term Integrated Perspective Plan 2012 - 2027) تشکیل دیا۔ اس منصوبے کا مقصد بھارتی افواج کی تعداد بڑھانا اور اسے جدیدجنگی سازو سامان سے لیس کرنا ہے۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ یوں بھارتی افواج کو بیک وقت دو محاذوں ...چین اور پاکستان پر لڑنے کے لیے خاص طور پہ تیار کیا جا رہا ہے۔
درج بالا منصوبہ انجام دینے کے لیے ہی 2012ء اور 2013ء میں بھارت کے دفاعی بجٹ میں یک دم اربوں روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ 2014ء میں جارح پسند سیاسی جماعت' بی جے پی برسراقتدار آئی' تو اس نے نئی عسکری حکمت عملی کی بنیاد رکھی۔ یہ ''جارحانہ دفاع'' کہلاتی ہے جس کا دوسرا نام ''مودی دوال ڈاکٹرائن '' بھی ہے۔بھارتی حکمران اس حکمت عملی کی مدد سے مملکتِ پاکستان کے خلاف خفیہ و عیاں حملے کر کے اسے زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری سمت وہ اپنی افواج کو نہایت طاقت ور بنا رہے ہیں۔ آج بھارت عالمی مارکیٹوں سے اسلحہ خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ۔اسی باعث اس کا دفاعی بجٹ ''40کھرب روپے'' تک پہنچ چکا جبکہ پاکستان کا ''7 کھرب 81 ارب روپے'' والا بجٹ اس کے سامنے معمولی نظر آتا ہے۔
بھارت کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ چین کی زبردست عسکری طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگی تیاریاں کر رہے ہیں۔ تاہم حقائق افشا کرتے ہیں کہ ان تیاریوں کا نشانہ پاکستان ہے' چین نہیں۔
بھارتی بری فوج فی الوقت چھ ایریا کمانڈز(Area Command ) رکھتی ہے ۔ہر کمانڈ دو تا تین کور فوج پر مشتمل ہے ۔ان میں سے پانچ ایریا کمانڈز... سنٹرل کمانڈ' نارتھرن کمانڈ' ساؤتھ ویسٹرن کمانڈ' ساؤتھرن کمانڈ اور ویسٹرن کمانڈ کا براہ راست نشانہ پاکستان ہے۔ چھٹی ایسٹرن کمانڈ چین کے مقابلے پر مامور ہے۔ مگر بنگلہ دیش اور برما کی ذمہ داریاں بھی اس کے کاندھوں پر رکھی ہیں۔
اسی طرح بھارتی بری فوج کی ''تیرہ'' کور ہیں۔ ان میں سے دس کور دفاعی نوعیت رکھتی ہیں۔ تین اسٹرائک یا حملہ آور کور ہیں(کور I' کورII اور کورXXI) اور یہ تینوں پاکستان کے خلاف کھڑی کی گئیں ۔ پہلی کور کا ہیڈ کوارٹر متھرا' دوسری کا انبالہ اور تیسری کا بھوپال میں ہے۔ اسی طرح دس دفاعی کور میں سے''چھ'' براہ راست پاکستان پر حملہ کر سکتی ہیں۔
بھارتی فضائیہ پانچ ایریا کمانڈ رکھتی ہے جن میں 60 سے زائد فضائی اڈے واقع ہیں ۔ ان میں تین... ویسٹرن ائرکمانڈ' سنٹرل ائرکمانڈ اور ساؤتھرن ائر کمانڈ پاکستان سے مقابلے کی خاطر ہی بنائی گئیں۔ ان تینوں ائر کمانڈ میں بھارتی فضائیہ کے 35 یعنی آدھے سے زیادہ فضائی اڈے واقع ہیں۔ نیز بھارتیوں کے بیشتر جدید ترین طیارے مثلاً سخوئی ایس یو۔ 30ایم آئی' ہال تیجاس' مگ 29' اور میراج2000انہی اڈوں پر رکھے گئے ہیں۔
بھارتی بحریہ کی تین ایریا کمانڈز ہیں۔ ان میں بہ لحاظ نفری و اسلحہ سب سے بڑی ویسٹرن نیول کمانڈ ہے جس کا ہیڈ کوارٹر ممبئی میں ہے۔ بھارتی بحریہ کے بیشتر جنگی بحری جہاز اسی کمانڈ میں ہیں جو پاک بحریہ کا مقابلہ کرنے کی خاطر تشکیل دی گئی۔
درج بالا حقائق سے واضح ہے کہ خصوصاً موجودہ بھارتی حکمران تمام تر جنگی تیاریاں اسی لیے کر رہے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کو نیچا د کھایا جا سکے۔ لیکن بھارتی حکمران بھول جاتے ہیں کہ جنگ میں جدید ترین اور وافر اسلحہ کام نہیں آتا۔ سب سے زیادہ ضروری فوج کا ''مائنڈ سیٹ'' یا ذہنی ساخت ہے۔
پاک افواج نہ استعماری قوت ہیں اور نہ ہی دوسروں پر دھونس جمانا چاہتی ہیں۔ ان کی ذہنی ساخت یہ ہے کہ ہر قیمت پر مادر وطن کا دفاع کیا جائے۔ گویا وہ مثبت جذبہ رکھتے ہیں۔ جبکہ بھارتی حکمران استعماری عزائم رکھتے اور خصوصاً جنوبی ایشیاء کے آقا بننا چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی افواج اپنے حکمرانوں کی اس شرانگیز اور منفی ذہنی ساخت پر ڈھل سکیں گی یا نہیں!
عسکری تاریخ سے عیاں ہے، ماضی میں کئی بار مٹھی بھر فوج اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمن کو شکست دے چکیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ مثبت مقصد کے لیے لڑیں' جبکہ حملہ آور مکروہ گھناؤنے عزائم رکھتے تھے۔ ایک مشہور قول ہے:
''لڑنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لو کہ آخر تم کس مقصد کی خاطر لڑ رہے ہو۔'
پینتیس سال قبل بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت اس امر پہ متفق تھی کہ چین کی طرف سے حملوں کا خطرہ بہت کم ہے تاہم وہ مستقبل میں چیلنج بن سکتا ہے۔ لہٰذا بھارتی قیادت نے فیصلہ کیا' چین کے خطرہ بننے تک پاکستان کو سیاسی ' معاشی' عسکری اور سفارتی معنی میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے تاکہ وہ کمزور ہو کر بھارت کا مقابلہ نہ کر سکے۔ (یوں تب بھارت کے سامنے صرف چین مد مقابل رہ جاتا) یہ کام را کے ایجنٹوں اور پاکستانی غداروں کی مدد سے انجام دینے کا فیصلہ ہوا۔
اس زمانے میں بھارتی عسکری قیادت کا خیال تھا کہ جب بھی پاکستانیوں سے جنگ چھڑی' ان کے قلب میں تیزی سے پہنچ کر پاکستان کو دو حصّوں میں چیر دیا جائے گا۔ یوں پاک افواج مقابلے کی سکت نہ پا کر شکست تسلیم کر یں گی۔ مگر 1985ء تک بھارتی حکمرانوں پر منکشف ہو گیا کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا۔ اس انکشاف نے بھارتی سیاسی و عسکری کی درج بالا حکمت عملی کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ وجہ یہی کہ ایٹم بم ہونے کے باعث اب پاکستان منہ توڑ جواب دینے کی پوزیشن میں آ گیا تھا۔
عسکری طاقت میں توازن آنے کے باعث بھارتی حکمرانوں نے ''رکاوٹی مزاحمت'' کو خیر باد کہا اور پاکستان کے معاملے میں بھی دفاعی پوزیشن اختیار کر لی۔ اس حکمت عملی میں تھوڑی سی تبدیلی 2012ء میں آئی جب بھارتی سیاسی و عسکری قیادت نے ایک پندرہ سالہ توسیعی منصوبہ ''ایل آئی ٹی پی پی'' (Long Term Integrated Perspective Plan 2012 - 2027) تشکیل دیا۔ اس منصوبے کا مقصد بھارتی افواج کی تعداد بڑھانا اور اسے جدیدجنگی سازو سامان سے لیس کرنا ہے۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ یوں بھارتی افواج کو بیک وقت دو محاذوں ...چین اور پاکستان پر لڑنے کے لیے خاص طور پہ تیار کیا جا رہا ہے۔
درج بالا منصوبہ انجام دینے کے لیے ہی 2012ء اور 2013ء میں بھارت کے دفاعی بجٹ میں یک دم اربوں روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ 2014ء میں جارح پسند سیاسی جماعت' بی جے پی برسراقتدار آئی' تو اس نے نئی عسکری حکمت عملی کی بنیاد رکھی۔ یہ ''جارحانہ دفاع'' کہلاتی ہے جس کا دوسرا نام ''مودی دوال ڈاکٹرائن '' بھی ہے۔بھارتی حکمران اس حکمت عملی کی مدد سے مملکتِ پاکستان کے خلاف خفیہ و عیاں حملے کر کے اسے زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری سمت وہ اپنی افواج کو نہایت طاقت ور بنا رہے ہیں۔ آج بھارت عالمی مارکیٹوں سے اسلحہ خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ۔اسی باعث اس کا دفاعی بجٹ ''40کھرب روپے'' تک پہنچ چکا جبکہ پاکستان کا ''7 کھرب 81 ارب روپے'' والا بجٹ اس کے سامنے معمولی نظر آتا ہے۔
بھارت کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ چین کی زبردست عسکری طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگی تیاریاں کر رہے ہیں۔ تاہم حقائق افشا کرتے ہیں کہ ان تیاریوں کا نشانہ پاکستان ہے' چین نہیں۔
بھارتی بری فوج فی الوقت چھ ایریا کمانڈز(Area Command ) رکھتی ہے ۔ہر کمانڈ دو تا تین کور فوج پر مشتمل ہے ۔ان میں سے پانچ ایریا کمانڈز... سنٹرل کمانڈ' نارتھرن کمانڈ' ساؤتھ ویسٹرن کمانڈ' ساؤتھرن کمانڈ اور ویسٹرن کمانڈ کا براہ راست نشانہ پاکستان ہے۔ چھٹی ایسٹرن کمانڈ چین کے مقابلے پر مامور ہے۔ مگر بنگلہ دیش اور برما کی ذمہ داریاں بھی اس کے کاندھوں پر رکھی ہیں۔
اسی طرح بھارتی بری فوج کی ''تیرہ'' کور ہیں۔ ان میں سے دس کور دفاعی نوعیت رکھتی ہیں۔ تین اسٹرائک یا حملہ آور کور ہیں(کور I' کورII اور کورXXI) اور یہ تینوں پاکستان کے خلاف کھڑی کی گئیں ۔ پہلی کور کا ہیڈ کوارٹر متھرا' دوسری کا انبالہ اور تیسری کا بھوپال میں ہے۔ اسی طرح دس دفاعی کور میں سے''چھ'' براہ راست پاکستان پر حملہ کر سکتی ہیں۔
بھارتی فضائیہ پانچ ایریا کمانڈ رکھتی ہے جن میں 60 سے زائد فضائی اڈے واقع ہیں ۔ ان میں تین... ویسٹرن ائرکمانڈ' سنٹرل ائرکمانڈ اور ساؤتھرن ائر کمانڈ پاکستان سے مقابلے کی خاطر ہی بنائی گئیں۔ ان تینوں ائر کمانڈ میں بھارتی فضائیہ کے 35 یعنی آدھے سے زیادہ فضائی اڈے واقع ہیں۔ نیز بھارتیوں کے بیشتر جدید ترین طیارے مثلاً سخوئی ایس یو۔ 30ایم آئی' ہال تیجاس' مگ 29' اور میراج2000انہی اڈوں پر رکھے گئے ہیں۔
بھارتی بحریہ کی تین ایریا کمانڈز ہیں۔ ان میں بہ لحاظ نفری و اسلحہ سب سے بڑی ویسٹرن نیول کمانڈ ہے جس کا ہیڈ کوارٹر ممبئی میں ہے۔ بھارتی بحریہ کے بیشتر جنگی بحری جہاز اسی کمانڈ میں ہیں جو پاک بحریہ کا مقابلہ کرنے کی خاطر تشکیل دی گئی۔
درج بالا حقائق سے واضح ہے کہ خصوصاً موجودہ بھارتی حکمران تمام تر جنگی تیاریاں اسی لیے کر رہے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کو نیچا د کھایا جا سکے۔ لیکن بھارتی حکمران بھول جاتے ہیں کہ جنگ میں جدید ترین اور وافر اسلحہ کام نہیں آتا۔ سب سے زیادہ ضروری فوج کا ''مائنڈ سیٹ'' یا ذہنی ساخت ہے۔
پاک افواج نہ استعماری قوت ہیں اور نہ ہی دوسروں پر دھونس جمانا چاہتی ہیں۔ ان کی ذہنی ساخت یہ ہے کہ ہر قیمت پر مادر وطن کا دفاع کیا جائے۔ گویا وہ مثبت جذبہ رکھتے ہیں۔ جبکہ بھارتی حکمران استعماری عزائم رکھتے اور خصوصاً جنوبی ایشیاء کے آقا بننا چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی افواج اپنے حکمرانوں کی اس شرانگیز اور منفی ذہنی ساخت پر ڈھل سکیں گی یا نہیں!
عسکری تاریخ سے عیاں ہے، ماضی میں کئی بار مٹھی بھر فوج اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمن کو شکست دے چکیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ مثبت مقصد کے لیے لڑیں' جبکہ حملہ آور مکروہ گھناؤنے عزائم رکھتے تھے۔ ایک مشہور قول ہے:
''لڑنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لو کہ آخر تم کس مقصد کی خاطر لڑ رہے ہو۔'