عیدالفطررب تعالیٰ کی جانب سے انعام و اکرام کا دن
٭عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ کی نماز فرض ہے۔
روزہ داروں کے لیے مالک حقیقی کی جانب سے انعام کا نام عید ہے۔ روزہ ماہ رمضان کی ایک فرض عبادت کا نام ہے جسے اسلام کے بنیادی عقائد میں تیسری حیثیت حاصل ہے۔ جب کہ اسلامی عبادات میں یہ دوسرے نمبر پر ہے۔
اگر کوئی بھی شخص رمضان المبارک کا مہینہ پائے اور بغیر کسی شرعی عذر کے وہ روزے نہ رکھے تو وہ حق تعالیٰ کی جانب سے سزا کا مستوجب ہوگا جس کی تلافی ممکن نہیں۔ چناںچہ ایک حدیث میں آتا ہے کعبؓ بن عجرہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورؐ خطبہ دینے کے لیے منبر پر چڑھ رہے تھے جب آپؐ نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، پھر دوسرے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، اور جب تیسرے زینے پر بھی قدم رکھا تب بھی فرمایا آمین۔
جب آپؐ خطبہ سے فارغ ہوگئے تو صحابہ ؓ کرام نے پوچھا یارسول اﷲ ؐ آج منبر پر چڑھتے ہوئے آپ نے خلاف معمول تین مرتبہ آمین کہا۔ آپؐ نے فرمایا جب میں نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور کہنے لگے کہ اﷲ اس شخض کو ہلاک کرے کہ جس نے یہ ماہ مبارک پایا اور اپنی مغفرت کا سامان نہ کیا تو میں نے کہا آمین۔ دوسری آمین کے استفسار میں آپؐ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص جب میرا نام آئے تو وہ درود نہ پڑھے اور تیسری آمین کے جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص کہ جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی عمر میں پائے اور وہ ان سے حسن سلوک ادا نہ کرے۔
مسلمان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ملائکہ کے سردار جبرائیل ؑ بددعا کریں اور امام الانبیاء رحمت اللعالمین اس پر آمین کہیں ایسے بدنصیب پر رب ذوالجلال کو کتنا جلال آتا ہوگا، اب اسے نار جہنم سے کون بچا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کو انعام و اکرام سے نوازنے کے لیے اسے ''عید'' جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ عید کے معنی ہیں بار بار پلٹ کر آنا، واپس پھرنا اور خوشی کا دن اور تہوار ہیں۔ قرآن حکیم میں بھی یہ لفظ سورہ مائدہ میں آیا ہے۔ ترجمہ ''تب دعا کی عیسٰی بن مریم نے اے ہمارے رب ہم پر آسمان سے خوان نعمت نازل فرما جو ہمارے لیے عید ہو''۔ (آیت114)
اب دیکھیے بار بار پلٹ کر آنے والے معنی میں عید ہر سال یکم شوال کو پلٹ کر آتی ہے۔ یا بار بار آتی ہے اور تب تک آتی رہے گی جب تک کہ قیامت نہ برپا ہوجائے۔ اس دن کو عیدالفطر بھی کہا جاتا ہے کیوںکہ اس دن عید کی نماز سے قبل صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے۔ یہ صدقہ آخرت میں اس کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ خدائے بزرگ و برتر اپنے مومن بندوں پر انعام و اکرام کی بارش کرتا ہے۔
غور کیجیے کہ تیس روزے رکھنے کے بعد بندہ مومن لاغر و نحیف ہوجاتا ہے مگر پھر یکم شوال کو اس کی رات کو آرام کرنے کے لیے نہیں فرمایا، بلکہ عید کی رات میں بھی عبادت میں مصروف رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔
عید کی رات ان پانچ راتوں میں سے ایک ہے، جس میں وہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے اور ان کی دعاؤں کو سن کر منظور و مقبول کرتا ہے۔ پھر بندہ مومن صبح اٹھتا ہے۔ اپنے معمولات سے فارغ ہو کر وہ دوگانہ واجب کی ادائی کی خاطر عیدگاہ جاتا ہے جہاں ایک بڑا روح پرور اجتماع ہوتا ہے۔ جہاں دو رکعت نماز با جماعت اور پھر خطبے کی سماعت مومن بندے کو تھکانے یا مزید ابتلاء میں ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ یہ اپنے رب کی جانب سے روزے داروں کو ایک قسم کی ''عیدی'' ہے۔ ہمارے معاشرے میں عیدی کا تصور یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے کسی دوسرے بھائی کو نقدی، کپڑے یا کوئی تحفہ خواہ کسی بھی جنس میں ہو، دیتا ہے۔ مگر مالک حقیقی کی نظر میں ان مادی اشیاء کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
وہ تو بس اپنے بندے سے خوش ہو کر اسے جنت کی بشارت دیتا ہے۔ اس دن بندۂ مومن سے اس کا یہ مطالبہ کہ وہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرلے پھر صدقۂ فطر ادا کرلے خواہ وہ نقد کی شکل میں ہو یا جنس کی صورت میں۔ نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے اور خوش بو لگا کر وقت سے پہلے شہر کی عیدگاہ میں داخل ہو کر نماز عید ادا کرے۔ یہ سب وہ کیوں کرواتا ہے۔ صرف اس لیے کہ اس دن وہ اپنے نیک بندوں پر بے پناہ عنایات کرنا چاہتا ہے تاکہ ہر سال اس کی ان عنایات کا شدت و بے چینی سے انتظار کیا جائے یہ اس لیے کہ یہ لمحات تو سال بھر میں صرف ایک ہی بار تو آتے ہیں۔ اس کی عنایات و بخشش کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ راستہ بدل کر آنے اور جانے میں بھی اس نے ثواب رکھا ہے۔
روایت میں آیا ہے کہ عبداﷲ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ''جب عید کی رات آتی ہے تو اسے آسمانوں پر یوم الجائزہ کہا جاتا ہے اور جب صبح نمودار ہوتی ہے تو اﷲ اپنے فرشتوں کو ہر شہر اور بستی کی طرف روانہ کردیتا ہے۔ فرشتے زمین پر اتر کر ہر گلی اور موڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکارتے ہیں'' اے محمدؐ کی امت کے لوگو نکلو اپنے گھروں سے اور چلو اپنے پروردگار کی طرف جو بہت دینے والا ہے، ان کی پکار سوائے جن و انس کے ہر مخلوق سنتی ہے۔
پھر خدا فرشتوں سے پوچھتا ہے اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے مالک کا پورا کام کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کو اس کی مزدوری پوری دی جائے پھر ارشاد ہوتا ہے اے فرشتو گواہ رہو جو رمضان کے روزے رکھتے رہے، میں نے ان کی مغفرت کردی۔ پھر خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ''میرے پیارے بندوں کیا مانگتے ہو مانگو، مجھے میری عزت کی قسم جلال کی قسم آج کے عید کے اجتماع میں جو مجھ سے مانگو گے عطا کروں گا۔ مین تمہیں مجرموں کے سامنے ہرگز ذلیل و رسوا نہیں کروں گا جاؤ، اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جاؤ، تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے میں تم سے راضی ہوگیا۔ فرشتے اس بشارت سے جھوم اٹھتے ہیں۔ (الترغیب، بیقہی، مشکوٰۃ ، جلد اول)
حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورؐ جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرما کر آئے تو آپؐ نے دیکھا کہ مدینہ کے لوگ دو مخصوص دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں، لوگوں نے بتایا کہ یہ ہمارے تہوار ہیں، ہم دور جاہلیت سے اسے مناتے آرہے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا خدا نے تمہیں ان دونوں کے بدلے زیادہ بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ (سنن ابوداؤد) رمضان المبارک کی روز و شب کی عبادت سے فارغ ہو کر عیدالفطر کا دن آیا ہے اس دن صدقہ فطر کی ادائی اور پھر دوگانہ نماز کی ادائی ہوتی ہے۔ ان سب اعمال میں رب العزت کی منشا ہمارے شامل حال رہتی ہے۔ یہ صرف اسی ذات باری کی توفیق تھی کہ ان مراحل سے ہم سرخ رو ہوئے ورنہ ہم کس قابل ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم آئندہ سال کے لیے بھی اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ آئندہ زندگی میں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو۔ اب رہے وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ نافرمانی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھا، ایسے لوگوں کا عید سے کیا واسطہ یہ ان کے لیے عید نہیں بلکہ وعید ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ عید ایسے ہی لوگ زور شور سے مناتے ہیں۔ بڑھ کر گلے ملتے ہیں، جب کہ معانقہ اور مصافحہ کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر کوئی دوست یا عزیز رشتہ دار ناراض ہے تو بڑھ کر گلے اور رنجشوں کو ختم کردیا جائے۔ ایک حدیث مبارک بھی ہے کہ کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے۔
روایات میں آتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے پہلی عید الفطر مدینہ منورہ میں یکم شوال 2 ھجری میں منائی۔ حضورؐ نے نماز عید کی امامت کھلے میدان میں فرمائی، جہاں آج کل مسجد غمامہ واقع ہے۔ یہ وہی مسجد غمامہ ہے جہاں حضورؐ اکثر نماز استسقاء ادا فرماتے رہے ہیں۔
مسائل عیدین
٭عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ کی نماز فرض ہے۔ بعض آئمہ کے نزدیک یہ فرض کفایہ ہے اور بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے۔ اس نماز کو تاخیر سے یعنی نصف النہار ادا کرنا مستحب ہے۔
٭عید کی نماز کے لیے اذان ہے نہ اقامت، یہ صرف دو رکعت کی نماز ہوتی ہے۔
٭اس نماز میں چھ تکبیر زاید ہوتی ہیں۔ پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تین تکبیر کہی جاتی ہیں اس کے بعد تلاوت ہوتی ہے۔ دوسری رکعت میں تلاوت کے بعد اور قبل از رکوع تین تکبیر کہی جاتی ہیں۔
٭نماز کے فوراً بعد خطبہ ہوگا جسے سننا واجب ہے اور خطبہ پڑھنا سنت ہے۔
٭یہ نماز عیدگاہ میں کھلے میدان میں ادا کرنی چاہیے۔ عید گاہ میں پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
٭عید گاہ جانے اور پھر واپسی پر علیحدہ راستوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور دونوں راستوں پر تکبیر پڑھتے رہنا چاہیے۔ اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر ولللّہ الحمد۔ یہ تکبیر عیدالفطر میں آہستہ اور عیدالاضحی پر بلند آواز سے پڑھنی چاہیے۔
٭اگر صبح صادق کے وقت کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کا فطرہ ادا کیا جائے گا اور اگر کوئی انتقال کر گیا تو فطرہ نہیں ادا کیا جائے گا۔ یہ صدقۂ فطرنماز عیدالفطر سے قبل ادا کرنا مستحب ہے۔
٭عید کی نماز سے قبل اور بعد ہر نماز کی ادائی کی ممانعت ہے صرف عید کی نماز ادا کی جائے۔
٭اس نماز کا وقت بھی وہی ہے جو چاشت کا ہے۔
٭اس دن خصوصیت کے ساتھ صدقہ خیرات کرنا چاہیے۔ آپؐ نماز عید کے بعد عورتوں کی جانب گئے اور انہیں خصوصی طور پر صدقہ خیرات کا حکم فرمایا۔
اگر کوئی بھی شخص رمضان المبارک کا مہینہ پائے اور بغیر کسی شرعی عذر کے وہ روزے نہ رکھے تو وہ حق تعالیٰ کی جانب سے سزا کا مستوجب ہوگا جس کی تلافی ممکن نہیں۔ چناںچہ ایک حدیث میں آتا ہے کعبؓ بن عجرہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورؐ خطبہ دینے کے لیے منبر پر چڑھ رہے تھے جب آپؐ نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، پھر دوسرے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، اور جب تیسرے زینے پر بھی قدم رکھا تب بھی فرمایا آمین۔
جب آپؐ خطبہ سے فارغ ہوگئے تو صحابہ ؓ کرام نے پوچھا یارسول اﷲ ؐ آج منبر پر چڑھتے ہوئے آپ نے خلاف معمول تین مرتبہ آمین کہا۔ آپؐ نے فرمایا جب میں نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور کہنے لگے کہ اﷲ اس شخض کو ہلاک کرے کہ جس نے یہ ماہ مبارک پایا اور اپنی مغفرت کا سامان نہ کیا تو میں نے کہا آمین۔ دوسری آمین کے استفسار میں آپؐ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص جب میرا نام آئے تو وہ درود نہ پڑھے اور تیسری آمین کے جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص کہ جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی عمر میں پائے اور وہ ان سے حسن سلوک ادا نہ کرے۔
مسلمان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ملائکہ کے سردار جبرائیل ؑ بددعا کریں اور امام الانبیاء رحمت اللعالمین اس پر آمین کہیں ایسے بدنصیب پر رب ذوالجلال کو کتنا جلال آتا ہوگا، اب اسے نار جہنم سے کون بچا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کو انعام و اکرام سے نوازنے کے لیے اسے ''عید'' جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ عید کے معنی ہیں بار بار پلٹ کر آنا، واپس پھرنا اور خوشی کا دن اور تہوار ہیں۔ قرآن حکیم میں بھی یہ لفظ سورہ مائدہ میں آیا ہے۔ ترجمہ ''تب دعا کی عیسٰی بن مریم نے اے ہمارے رب ہم پر آسمان سے خوان نعمت نازل فرما جو ہمارے لیے عید ہو''۔ (آیت114)
اب دیکھیے بار بار پلٹ کر آنے والے معنی میں عید ہر سال یکم شوال کو پلٹ کر آتی ہے۔ یا بار بار آتی ہے اور تب تک آتی رہے گی جب تک کہ قیامت نہ برپا ہوجائے۔ اس دن کو عیدالفطر بھی کہا جاتا ہے کیوںکہ اس دن عید کی نماز سے قبل صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے۔ یہ صدقہ آخرت میں اس کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ خدائے بزرگ و برتر اپنے مومن بندوں پر انعام و اکرام کی بارش کرتا ہے۔
غور کیجیے کہ تیس روزے رکھنے کے بعد بندہ مومن لاغر و نحیف ہوجاتا ہے مگر پھر یکم شوال کو اس کی رات کو آرام کرنے کے لیے نہیں فرمایا، بلکہ عید کی رات میں بھی عبادت میں مصروف رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔
عید کی رات ان پانچ راتوں میں سے ایک ہے، جس میں وہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے اور ان کی دعاؤں کو سن کر منظور و مقبول کرتا ہے۔ پھر بندہ مومن صبح اٹھتا ہے۔ اپنے معمولات سے فارغ ہو کر وہ دوگانہ واجب کی ادائی کی خاطر عیدگاہ جاتا ہے جہاں ایک بڑا روح پرور اجتماع ہوتا ہے۔ جہاں دو رکعت نماز با جماعت اور پھر خطبے کی سماعت مومن بندے کو تھکانے یا مزید ابتلاء میں ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ یہ اپنے رب کی جانب سے روزے داروں کو ایک قسم کی ''عیدی'' ہے۔ ہمارے معاشرے میں عیدی کا تصور یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے کسی دوسرے بھائی کو نقدی، کپڑے یا کوئی تحفہ خواہ کسی بھی جنس میں ہو، دیتا ہے۔ مگر مالک حقیقی کی نظر میں ان مادی اشیاء کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
وہ تو بس اپنے بندے سے خوش ہو کر اسے جنت کی بشارت دیتا ہے۔ اس دن بندۂ مومن سے اس کا یہ مطالبہ کہ وہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرلے پھر صدقۂ فطر ادا کرلے خواہ وہ نقد کی شکل میں ہو یا جنس کی صورت میں۔ نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے اور خوش بو لگا کر وقت سے پہلے شہر کی عیدگاہ میں داخل ہو کر نماز عید ادا کرے۔ یہ سب وہ کیوں کرواتا ہے۔ صرف اس لیے کہ اس دن وہ اپنے نیک بندوں پر بے پناہ عنایات کرنا چاہتا ہے تاکہ ہر سال اس کی ان عنایات کا شدت و بے چینی سے انتظار کیا جائے یہ اس لیے کہ یہ لمحات تو سال بھر میں صرف ایک ہی بار تو آتے ہیں۔ اس کی عنایات و بخشش کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ راستہ بدل کر آنے اور جانے میں بھی اس نے ثواب رکھا ہے۔
روایت میں آیا ہے کہ عبداﷲ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ''جب عید کی رات آتی ہے تو اسے آسمانوں پر یوم الجائزہ کہا جاتا ہے اور جب صبح نمودار ہوتی ہے تو اﷲ اپنے فرشتوں کو ہر شہر اور بستی کی طرف روانہ کردیتا ہے۔ فرشتے زمین پر اتر کر ہر گلی اور موڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکارتے ہیں'' اے محمدؐ کی امت کے لوگو نکلو اپنے گھروں سے اور چلو اپنے پروردگار کی طرف جو بہت دینے والا ہے، ان کی پکار سوائے جن و انس کے ہر مخلوق سنتی ہے۔
پھر خدا فرشتوں سے پوچھتا ہے اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے مالک کا پورا کام کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کو اس کی مزدوری پوری دی جائے پھر ارشاد ہوتا ہے اے فرشتو گواہ رہو جو رمضان کے روزے رکھتے رہے، میں نے ان کی مغفرت کردی۔ پھر خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ''میرے پیارے بندوں کیا مانگتے ہو مانگو، مجھے میری عزت کی قسم جلال کی قسم آج کے عید کے اجتماع میں جو مجھ سے مانگو گے عطا کروں گا۔ مین تمہیں مجرموں کے سامنے ہرگز ذلیل و رسوا نہیں کروں گا جاؤ، اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جاؤ، تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے میں تم سے راضی ہوگیا۔ فرشتے اس بشارت سے جھوم اٹھتے ہیں۔ (الترغیب، بیقہی، مشکوٰۃ ، جلد اول)
حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورؐ جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرما کر آئے تو آپؐ نے دیکھا کہ مدینہ کے لوگ دو مخصوص دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں، لوگوں نے بتایا کہ یہ ہمارے تہوار ہیں، ہم دور جاہلیت سے اسے مناتے آرہے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا خدا نے تمہیں ان دونوں کے بدلے زیادہ بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ (سنن ابوداؤد) رمضان المبارک کی روز و شب کی عبادت سے فارغ ہو کر عیدالفطر کا دن آیا ہے اس دن صدقہ فطر کی ادائی اور پھر دوگانہ نماز کی ادائی ہوتی ہے۔ ان سب اعمال میں رب العزت کی منشا ہمارے شامل حال رہتی ہے۔ یہ صرف اسی ذات باری کی توفیق تھی کہ ان مراحل سے ہم سرخ رو ہوئے ورنہ ہم کس قابل ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم آئندہ سال کے لیے بھی اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ آئندہ زندگی میں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو۔ اب رہے وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ نافرمانی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھا، ایسے لوگوں کا عید سے کیا واسطہ یہ ان کے لیے عید نہیں بلکہ وعید ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ عید ایسے ہی لوگ زور شور سے مناتے ہیں۔ بڑھ کر گلے ملتے ہیں، جب کہ معانقہ اور مصافحہ کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر کوئی دوست یا عزیز رشتہ دار ناراض ہے تو بڑھ کر گلے اور رنجشوں کو ختم کردیا جائے۔ ایک حدیث مبارک بھی ہے کہ کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے۔
روایات میں آتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے پہلی عید الفطر مدینہ منورہ میں یکم شوال 2 ھجری میں منائی۔ حضورؐ نے نماز عید کی امامت کھلے میدان میں فرمائی، جہاں آج کل مسجد غمامہ واقع ہے۔ یہ وہی مسجد غمامہ ہے جہاں حضورؐ اکثر نماز استسقاء ادا فرماتے رہے ہیں۔
مسائل عیدین
٭عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ کی نماز فرض ہے۔ بعض آئمہ کے نزدیک یہ فرض کفایہ ہے اور بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے۔ اس نماز کو تاخیر سے یعنی نصف النہار ادا کرنا مستحب ہے۔
٭عید کی نماز کے لیے اذان ہے نہ اقامت، یہ صرف دو رکعت کی نماز ہوتی ہے۔
٭اس نماز میں چھ تکبیر زاید ہوتی ہیں۔ پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تین تکبیر کہی جاتی ہیں اس کے بعد تلاوت ہوتی ہے۔ دوسری رکعت میں تلاوت کے بعد اور قبل از رکوع تین تکبیر کہی جاتی ہیں۔
٭نماز کے فوراً بعد خطبہ ہوگا جسے سننا واجب ہے اور خطبہ پڑھنا سنت ہے۔
٭یہ نماز عیدگاہ میں کھلے میدان میں ادا کرنی چاہیے۔ عید گاہ میں پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
٭عید گاہ جانے اور پھر واپسی پر علیحدہ راستوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور دونوں راستوں پر تکبیر پڑھتے رہنا چاہیے۔ اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر ولللّہ الحمد۔ یہ تکبیر عیدالفطر میں آہستہ اور عیدالاضحی پر بلند آواز سے پڑھنی چاہیے۔
٭اگر صبح صادق کے وقت کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کا فطرہ ادا کیا جائے گا اور اگر کوئی انتقال کر گیا تو فطرہ نہیں ادا کیا جائے گا۔ یہ صدقۂ فطرنماز عیدالفطر سے قبل ادا کرنا مستحب ہے۔
٭عید کی نماز سے قبل اور بعد ہر نماز کی ادائی کی ممانعت ہے صرف عید کی نماز ادا کی جائے۔
٭اس نماز کا وقت بھی وہی ہے جو چاشت کا ہے۔
٭اس دن خصوصیت کے ساتھ صدقہ خیرات کرنا چاہیے۔ آپؐ نماز عید کے بعد عورتوں کی جانب گئے اور انہیں خصوصی طور پر صدقہ خیرات کا حکم فرمایا۔