’عبداللہ حسین from گجرات ‘
سرکاری پابندیوں کے باوجود لاہور کی فضا میں رنگ برنگی پتنگیں اڑ رہی تھیں، چھتوں سے بو کاٹا کا شور اٹھ رہا تھا ۔
DERA ISMAIL KHAN:
گجرات شہر کے وسط میں ایستادہ شاہدولہ گیٹ کے راستہ سے اندرون شہر میں داخل ہوں تو پرانے مسلم بازار سے تھوڑا آگے چھوٹے چھوٹے مکانوں پر مشتمل ایک قدیمی محلہ ہے۔ یہ اردو کے نامور ناول نگار عبداللہ حسین صاحب کا محلہ ہے، جہاں انھوں نے ہوش سنبھالا،کھیل کود کر جوان ہوئے اور اسکول کالج کی پڑھائی کی منزلیں طے کی۔ یہ فروری 2006 ء کی بات ہے۔ برادر محترم عباس نجمی کی وساطت سے معلوم ہوا کہ عبداللہ حسین لاہور آئے ہوئے ہیں۔
میں نے ان سے ان کا ٹیلی فون نمبر لیا اور ان کو ٹیلی فون کر کے انٹرویو کے لیے وقت مانگا۔ میں ان دنوں ایک اخبار سے وابستہ تھا۔ کہنے لگے، بھئی، میں تو آپ کے اخبار کے نظریے کا آدمی نہیں ہوں۔ میں نے جھجکتے جھجکتے کہا، سر، میں بھی 'گجراتی' ہوں اور کالج کے اپنے زمانہ سے ہی آپ کو پڑھ رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ جیسے ہی میں نے زمیندار کالج کا نام لیا ہے ، ان کے لہجے میں بے حد نرمی آ گئی ہے۔ گزشتہ روز بسنت تھی۔
سرکاری پابندیوں کے باوجود لاہور کی فضا میں رنگ برنگی پتنگیں اڑ رہی تھیں، چھتوں سے بو کاٹا کا شور اٹھ رہا تھا ۔ شام سے کچھ پہلے ڈی ایچ اے میں واقع ان کے مکان پر پہنچا۔ ان کا ملازم باہر آیا اور مجھے مکان کے اس پورشن میں لے گیا، جہاں ظاہراً وہ اکیلے رہ رہے تھے۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر لاونج میں آئے تو لمحہ بھر کے لیے میں ٹھٹکا، لگا کہ جیسے 'اداس نسلیں' کا لمبا تڑنگا ہیرو 'نعیم' جو اب بوڑھا ہو چکا ہے، میرے سامنے آ گیا ہے۔
ان کی طبیعت مضمحل لگ رہی تھی۔ کہنے لگے، رات فلو نے حملہ کر دیا تھا ، مگر اب بہتر ہے۔ خیر، انٹرویو شروع ہوا اور تقریباً دو گھنٹے پر محیط ہو گیا۔ اس دوران جب بھی ان سے کہا کہ وقفہ کر لیتے ہیں، انھوںنے منع کر دیا۔ گھر آ کے انٹرویو ٹیپ سے اتارا تو محسوس ہوا کہ کئی پہلو تشنہ رہ گئے ہیں۔ گزشتہ روز ڈرتے ڈرتے انکو دوبارہ کال کی اور مزید وقت مانگا۔ کہنے لگے،کل آ سکتے ہو؟ میں نے کہا، جی سر۔ کہا، پھر آ جاو مگر وقت پر۔گزشتہ روز پہنچا تووہ ہشاش بشاش تھے۔
اطمینان ہوا کہ فلو سے ان کی جان چھوٹ گئی ہے۔ جس روز ان کا یہ انٹرویو شایع ہوا، اس سے گزشتہ روز ان کا فون آیا، وہ بہت خوش تھے، عبداللہ ، بہت اچھا ہےwell done ۔ اب اگر تم کسی اور کے لیے بھی کہو گے، تو میں اس کو بھی انٹرویو دیدوں گا۔ ایک بار میں نے پوچھا، ایک عمر آپ نے مغرب میں گزار دی، کیا فرق لگا، آپ کو وہاں کی زندگی میں اور یہاں کی زندگی میں۔ کہنے لگے، we are living in an unreal world ، اُدھر لوگ detail میں جاتے ہیں، چھوٹی سے چھوٹی بات کی پرواہ کرتے ہیں، اِدھر کہتے ہیں 'موٹیاں موٹیاں گلاں پھڑ لو، باقیاں نوں گولہ مارو'۔ جو لوگ جزئیات کو نظر انداز کرتے ہیں، عبداللہ، ان کا معاشرہ غیر حقیقی بن جاتا ہے اور سوچ سائنسی نہیں رہتی۔میں نے پوچھا ، آپ نے دنیا گھومی، زندگی کا نچوڑ کیا ہے۔
کہنے لگے، Bernard Shaw said, the golden rule is that there is no golden rule ہر آدمی کا زندگی کے بارے میں اپنا نقطہ ٗ نظر ہوتا ہے ، جو بنتا بگڑتا رہتا ہے، اور آخر کار پختہ ہو جاتا ہے، یہی اس کی زندگی کا نچوڑ ہوتا ہے، جس سے اس کی خاص سائیکی بن جاتی ہے۔ جو میری سائیکی ہے، وہی میری زندگی کا نچوڑ ہے۔ میں نے پوچھا ، آپکی زندگی میں کن چیزوں کی اہمیت رہی ہے۔ کہا صرف دو چیزوں کی، پہلی معاش، دوسری محبت، تیسری کوئی چیز نہیں ہے۔ معاش کا مسئلہ زندگی میں دھکے دُھکے کھا کے حل ہو ہی جاتا ہے، لیکن محبت کی ضرورت زندگی میں آخر دم تک رہتی ہے۔
عبداللہ حسین کے اندر محبت کے لیے کتنی شدت تھی، یہ شدت ان کا ناول 'باگھ، ایک محبت کی کہانی' پڑھ کے محسوس کی جا سکتی ہے۔کلمہ شہادت لاالہ الااللہ، محمد رسول اللہ.....' میں مڑ کے دیکھتا ہوں، عبداللہ حسین آخری سفر کے لیے روانہ ہیں۔ یہ عجیب سفر ہے، میں سوچتا ہوں، بہت تیزی سے یادیں آپس میں گڈ مڈ ہونے لگی ہیں۔ 'باگھ'کا ہیرو 'اسد' نا معلوم منزل کی طرف رواں دواں ہے۔اس نے خیال کیا کہ وہ اپنے جسم سے نکل چکا ہے اور اب ہر اس کیفیت کی جانچ کر سکتا ہے جو اس پرگزر رہی ہے۔ مگر ساتھ ہی اسے اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر اس نے ذرا سی مزاحمت بھی کی تو تن آسانی کا یہ طلسم ٹوٹ جائے گا، یہ عجیب سفر ہے، وہ سوچتا ہے ( باگھ ، صفحہ۳۴۹ )۔ شاعر نے کہا تھا ،
لو وصل کی ساعت آ پہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کیے اور سینے کا درباز کیا
گجرات شہر کے وسط میں ایستادہ شاہدولہ گیٹ کے راستہ سے اندرون شہر میں داخل ہوں تو پرانے مسلم بازار سے تھوڑا آگے چھوٹے چھوٹے مکانوں پر مشتمل ایک قدیمی محلہ ہے۔ یہ اردو کے نامور ناول نگار عبداللہ حسین صاحب کا محلہ ہے، جہاں انھوں نے ہوش سنبھالا،کھیل کود کر جوان ہوئے اور اسکول کالج کی پڑھائی کی منزلیں طے کی۔ یہ فروری 2006 ء کی بات ہے۔ برادر محترم عباس نجمی کی وساطت سے معلوم ہوا کہ عبداللہ حسین لاہور آئے ہوئے ہیں۔
میں نے ان سے ان کا ٹیلی فون نمبر لیا اور ان کو ٹیلی فون کر کے انٹرویو کے لیے وقت مانگا۔ میں ان دنوں ایک اخبار سے وابستہ تھا۔ کہنے لگے، بھئی، میں تو آپ کے اخبار کے نظریے کا آدمی نہیں ہوں۔ میں نے جھجکتے جھجکتے کہا، سر، میں بھی 'گجراتی' ہوں اور کالج کے اپنے زمانہ سے ہی آپ کو پڑھ رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ جیسے ہی میں نے زمیندار کالج کا نام لیا ہے ، ان کے لہجے میں بے حد نرمی آ گئی ہے۔ گزشتہ روز بسنت تھی۔
سرکاری پابندیوں کے باوجود لاہور کی فضا میں رنگ برنگی پتنگیں اڑ رہی تھیں، چھتوں سے بو کاٹا کا شور اٹھ رہا تھا ۔ شام سے کچھ پہلے ڈی ایچ اے میں واقع ان کے مکان پر پہنچا۔ ان کا ملازم باہر آیا اور مجھے مکان کے اس پورشن میں لے گیا، جہاں ظاہراً وہ اکیلے رہ رہے تھے۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر لاونج میں آئے تو لمحہ بھر کے لیے میں ٹھٹکا، لگا کہ جیسے 'اداس نسلیں' کا لمبا تڑنگا ہیرو 'نعیم' جو اب بوڑھا ہو چکا ہے، میرے سامنے آ گیا ہے۔
ان کی طبیعت مضمحل لگ رہی تھی۔ کہنے لگے، رات فلو نے حملہ کر دیا تھا ، مگر اب بہتر ہے۔ خیر، انٹرویو شروع ہوا اور تقریباً دو گھنٹے پر محیط ہو گیا۔ اس دوران جب بھی ان سے کہا کہ وقفہ کر لیتے ہیں، انھوںنے منع کر دیا۔ گھر آ کے انٹرویو ٹیپ سے اتارا تو محسوس ہوا کہ کئی پہلو تشنہ رہ گئے ہیں۔ گزشتہ روز ڈرتے ڈرتے انکو دوبارہ کال کی اور مزید وقت مانگا۔ کہنے لگے،کل آ سکتے ہو؟ میں نے کہا، جی سر۔ کہا، پھر آ جاو مگر وقت پر۔گزشتہ روز پہنچا تووہ ہشاش بشاش تھے۔
اطمینان ہوا کہ فلو سے ان کی جان چھوٹ گئی ہے۔ جس روز ان کا یہ انٹرویو شایع ہوا، اس سے گزشتہ روز ان کا فون آیا، وہ بہت خوش تھے، عبداللہ ، بہت اچھا ہےwell done ۔ اب اگر تم کسی اور کے لیے بھی کہو گے، تو میں اس کو بھی انٹرویو دیدوں گا۔ ایک بار میں نے پوچھا، ایک عمر آپ نے مغرب میں گزار دی، کیا فرق لگا، آپ کو وہاں کی زندگی میں اور یہاں کی زندگی میں۔ کہنے لگے، we are living in an unreal world ، اُدھر لوگ detail میں جاتے ہیں، چھوٹی سے چھوٹی بات کی پرواہ کرتے ہیں، اِدھر کہتے ہیں 'موٹیاں موٹیاں گلاں پھڑ لو، باقیاں نوں گولہ مارو'۔ جو لوگ جزئیات کو نظر انداز کرتے ہیں، عبداللہ، ان کا معاشرہ غیر حقیقی بن جاتا ہے اور سوچ سائنسی نہیں رہتی۔میں نے پوچھا ، آپ نے دنیا گھومی، زندگی کا نچوڑ کیا ہے۔
کہنے لگے، Bernard Shaw said, the golden rule is that there is no golden rule ہر آدمی کا زندگی کے بارے میں اپنا نقطہ ٗ نظر ہوتا ہے ، جو بنتا بگڑتا رہتا ہے، اور آخر کار پختہ ہو جاتا ہے، یہی اس کی زندگی کا نچوڑ ہوتا ہے، جس سے اس کی خاص سائیکی بن جاتی ہے۔ جو میری سائیکی ہے، وہی میری زندگی کا نچوڑ ہے۔ میں نے پوچھا ، آپکی زندگی میں کن چیزوں کی اہمیت رہی ہے۔ کہا صرف دو چیزوں کی، پہلی معاش، دوسری محبت، تیسری کوئی چیز نہیں ہے۔ معاش کا مسئلہ زندگی میں دھکے دُھکے کھا کے حل ہو ہی جاتا ہے، لیکن محبت کی ضرورت زندگی میں آخر دم تک رہتی ہے۔
عبداللہ حسین کے اندر محبت کے لیے کتنی شدت تھی، یہ شدت ان کا ناول 'باگھ، ایک محبت کی کہانی' پڑھ کے محسوس کی جا سکتی ہے۔کلمہ شہادت لاالہ الااللہ، محمد رسول اللہ.....' میں مڑ کے دیکھتا ہوں، عبداللہ حسین آخری سفر کے لیے روانہ ہیں۔ یہ عجیب سفر ہے، میں سوچتا ہوں، بہت تیزی سے یادیں آپس میں گڈ مڈ ہونے لگی ہیں۔ 'باگھ'کا ہیرو 'اسد' نا معلوم منزل کی طرف رواں دواں ہے۔اس نے خیال کیا کہ وہ اپنے جسم سے نکل چکا ہے اور اب ہر اس کیفیت کی جانچ کر سکتا ہے جو اس پرگزر رہی ہے۔ مگر ساتھ ہی اسے اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر اس نے ذرا سی مزاحمت بھی کی تو تن آسانی کا یہ طلسم ٹوٹ جائے گا، یہ عجیب سفر ہے، وہ سوچتا ہے ( باگھ ، صفحہ۳۴۹ )۔ شاعر نے کہا تھا ،
لو وصل کی ساعت آ پہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کیے اور سینے کا درباز کیا