تذلیل سہتے یہ خواجہ سرا
بھارت اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہے۔ پہلے انھوں نے ان ازلی بدقسمتوں پر فلمیں بنائیں
کیا آپ کو اس بات پر یقین آئے گا کہ بھارتی ریاست مغربی بنگال کے کرشن گڑھ ویمن کالج کی پرنسپل منابی بندیو پڈھیا ایک خواجہ سرا ہیں۔ کہنے والے ازراہ تمسخر انھیں کھسرا، مخنث اور ہیجڑا بھی کہتے ہیں۔ ''تیسری جنس کے مسائل'' کے عنوان سے 21 جون 2009 کو میں نے ایک کالم لکھا تھا۔ جس میں اس بدنصیب طبقے کے دکھوں اور مسائل کی طرف توجہ دلائی تھی۔
2013 کے الیکشن میں سات خواجہ سرا بھی امیدوار تھے لیکن ہم بحیثیت قوم مجموعی طور پر ابھی اتنے بالغ نظر نہیں ہوئے کہ انھیں اپنی نمایندگی کے لیے چنتے لہٰذا یہ سب بے چارے ہار گئے۔ لیکن انھوں نے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور 2009 میں ہی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کے لیے چند اہم فیصلے کیے، جن میں شناختی کارڈ میں ان کی جنس کے تعین کا خانہ اور سرکاری ملازمتوں میں ان کے لیے کوٹا رکھنے کی ہدایت کی اور انھیں ووٹ دینے کا حق بھی دیا۔ لیکن ''ہنوز دلّی دور است'' والی کہاوت صادق آتی ہے۔
بھارت اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہے۔ پہلے انھوں نے ان ازلی بدقسمتوں پر فلمیں بنائیں، جن میں 'تمنا، درمیان اور شبنم قابل ذکر ہیں۔ شبنم نامی فلم دراصل خواجہ سرا شبنم موسیٰ کی زندگی پر مبنی ہے جو اسمبلی کی رکن بھی بنیں۔ اسی طرح پدمنی پرکاش جو ایک ٹیلی ویژن ٹاک شوکی میزبان بنیں، وہ بھی تیسری جنس سے تعلق رکھتی ہیں۔ بھارت میں کافی حد تک شعور بیدار ہوچکا ہے کہ یہ جو ''تیسری جنس'' نامی مخلوق ہے اس کی تعمیر میں خرابی کی جو صورت مضمر ہے وہ قدرت کا ستم ہے ان کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ اسی لیے متعدد شعبوں میں انھیں پذیرائی ملی۔
صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک جو ان کے ساتھ برتا گیا اور برتا جاتا ہے وہ کم تکلیف دہ نہیں۔ کسی بس یا ویگن میں انھیں نہ مردانے حصے میں بیٹھنے دیا جاتا ہے نہ زنانے میں۔ کسی شاپنگ سینٹر یا پبلک پلیس پہ اگر یہ نظر آجائیں تو خواتین کو خوف زدہ ہوتے دیکھا ہے جب کہ یہ خود قابل رحم ہیں۔ ہمارے ہاں ایک زمانے میں ٹیلی ویژن پر اس قابل رحم جنس کے حوالے سے کچھ پروگرام اور کچھ ٹاک شوز کیے گئے۔ جن میں نوید دی گئی کہ حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے، لیکن یہ ٹاک شوز محض ٹی وی کا پیٹ بھرنے کے لیے تھے۔ اور سابق چیف جسٹس نے ایسے بیانات دیے تھے کہ تیسری جنس کے لوگوں سے نادہندگان سے قرضوں کی وصولی کا کام لیا جائے ۔
عملی طور پر تو کچھ نہ ہوا سوائے تیسری جنس کی اس خوبرو گرو کی جلوہ آرائی کے جس کا مستقل ٹھکانہ پنڈی ہے اور اس نے جو حقائق بیان کیے وہ اس بات کے غماز اور ترجمان تھے کہ وزیر اور ارکان اسمبلی تک بھی بعض خواجہ سراؤں کی پہنچ ہے۔لیکن اکثریت کا مقدر محض بھیک مانگنا، تالی بجاکر دعا دینا یا مجبوری کی بنا پر دوسرے غیر اخلاقی کام کرنا۔ البتہ بھارت نے اس حوالے سے اتنا تو کیا کہ تعلیمی اداروں تک ان کو رسائی دی۔ لکشمی نارائن بھی ایک ایسی ہی خواجہ سرا ہیں۔
جنھوں نے ممبئی کے ایک کالج سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی۔ رقص میں مہارت پیدا کی اور نام کمایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ خواجہ سراؤں پہ بنائی جانے والی ایوارڈ یافتہ ڈاکیومنٹری فلم ''انڈیا کی تیسری جنس'' میں کام کیا اور بیشتر رئیلٹی شوز میں بھی انھیں مدعو کیا گیا۔ اسی طرح منابی بندیو پڈھیا نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کرشن گڑھ ویمن کالج میں لیکچرر ہوئیں۔ پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوئیں اور اب اسی کالج کی پرنسپل ہیں۔ ذرایع ابلاغ بتاتے ہیں کہ کالج کا اسٹاف اور طالبات ان سے بہت مطمئن اور خوش ہیں۔ یہ چند مثالیں خواجہ سراؤں کے لیے مستقبل میں امید کی کرن ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق نوکریوں اور تعلیم کے میدان میں اقلیتوں کی طرز کا کوٹا متعارف کرانے کا حکم دے دیا گیا ہے اور وہاں اس پر عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ لیکن اس ساری کامیابی کا سہرا یقینا ان فلم میکرز کے سر بھی جاتا ہے جنھوں نے خواجہ سراؤں کی زندگی پہ فلم بنا کے ناظرین کو رُلا دیا اور حکومت کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان کی مظلومیت کو سمجھے۔ شاید نہیں بلکہ یقینا اگر 'درمیان،تمنا اور شبنم' جیسی فلمیں نہ بنتیں تو انھیں ان کی شناخت نہ ملتی۔
لیکن افسوس کہ پاکستان میں صورت حال ویسی ہی ابتر ہے۔ بلکہ ان بدنصیبوں کو گزشتہ دو تین سال سے ایک نئے عذاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ یہ کہ کچھ بہروپیے اور بھکاری زیادہ بھیک ملنے کی آس میں ہیجڑوں کا سوانگ بھر کے، چوراہوں اور بازاروں میں لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت ہی میں نہیں، تیسری جنس کے افراد پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ انھیں بھی اسی پروردگار نے پیدا کیا ہے جس نے کل عالم کی تخلیق کی ہے، لیکن مغربی ممالک میں انھیں عجوبہ سمجھ کر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ افتخار نسیم (افتی) بھی یہی تھے۔ وہ بھی چونکہ باہر رہتے تھے اس لیے اپنے بارے میں خود بتا دیتے تھے۔
افتی شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی۔ لیکن ذات کے حوالے سے ان کا وجود بھی کرچی کرچی تھا۔ ان بدقسمت لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ خود ان کے ماں باپ انھیں قبول نہیں کرتے۔ انھیں اس کمی کی سزا دیتے ہیں جس میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ اسی تکلیف دہ رویے سے دل برداشتہ ہوکر یہ اپنا گھر چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے جیسوں کی بستی میں جا کر رہنے لگتے ہیں۔ جہاں ان کو ان کی ذات کے حوالے سے کوئی طعنہ تشنیع نہیں دیتا۔ البتہ بعض امیر گھرانوں میں جنم لینے والے ایسے بچے اتنے بدقسمت نہیں ہوتے وہ زیادہ تر فیشن انڈسٹری سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔
خواتین سے متعلق اشیا میں انھیں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ پیسے اور تعلقات کے بل بوتے پر وہ میڈیا میں بھی جگہ بنا لیتے ہیں اور کسی بیگم نما کردار کا روپ دھار لیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ہم نے سنا ہے کہ تقسیم سے پہلے گھروں میں خواجہ سراؤں کو نوکر رکھ لیا جاتا تھا۔ یہ باہر کے کام بحسن و خوبی انجام دیتے تھے۔ 70 کی دہائی میں نرسری پر ایک جاننے والوں کے گھر میں ایک ایسا ہی شخص ملازم تھا۔
وہ کھانا پکاتا، صفائی کرتا، کپڑے دھوتا، بازار سے سودا سلف بھی لاتا۔ ہم نے اکثر اپنے گھر سے پہاڑی اترکر نرسری بس اسٹاپ کی طرف جاتے اسے روزانہ کُرتے پاجامے میں چوٹی باندھے اور کپڑے کا تھیلا لیے مارکیٹ جاتے دیکھا تھا۔ ایک بار وہ تاج بک اسٹال پہ نظر آیا۔ ہم وہاں سے ''نقوش'' خریدا کرتے تھے۔ وہ بھی خواتین سے متعلق کچھ رسالے خرید رہا تھا۔ اس نے جب ہمارے ہاتھ میں ''نقوش'' کا افسانہ نمبر دیکھا تو اس نے بھی پرچے رکھ کے نقوش خرید لیا۔شکل و صورت سے وہ بھی کسی ایسے گھر کا فرد لگتا تھا جس کی پیدائش پہ ماں بھی شرمندہ ہو اور باپ بھی کسی کے آگے نظریں نہ اٹھا سکے۔
کتنی تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے یہ بات کہ جن کی اولاد اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہو جو ملک کی اعلیٰ ترین اور مال دار شخصیت ہونے کے باوجود غیر ممالک سے تحفے میں ملنے والی قیمتی اشیا چوری کرنے میں عار نہ محسوس کریں۔ جو نکاحی بیویوں کی موجودگی میں گانے والیوں، ناچنے والیوں اور چوباروں پہ بیٹھنے والیوں کو عارضی بیویاں بناکر رکھیں ان سے اولاد بھی جنم لیں تو ڈھول تاشے بجائیں۔
لیکن ایک ایسے بچے کو قبول نہ کریں جو نہ عورت ہے نہ مرد۔ بلکہ مخنث ہے، کھسرا ہے، ہیجڑا ہے،خواجہ سرا ہے۔ لیکن وہ خود تو اس کا ذمے دار نہیں۔ ان کو بھکاری بنانے اور غیر اخلاقی جرائم میں ملوث کرنے کا ذمے دار یہ معاشرہ ہے۔ جو انھیں کہیں جینے نہیں دیتا۔ آخر یہ جائیں تو جائیں کہاں۔ کیا کبھی کوئی حکومت ان کے لیے بھی کچھ سوچے گی؟
2013 کے الیکشن میں سات خواجہ سرا بھی امیدوار تھے لیکن ہم بحیثیت قوم مجموعی طور پر ابھی اتنے بالغ نظر نہیں ہوئے کہ انھیں اپنی نمایندگی کے لیے چنتے لہٰذا یہ سب بے چارے ہار گئے۔ لیکن انھوں نے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور 2009 میں ہی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کے لیے چند اہم فیصلے کیے، جن میں شناختی کارڈ میں ان کی جنس کے تعین کا خانہ اور سرکاری ملازمتوں میں ان کے لیے کوٹا رکھنے کی ہدایت کی اور انھیں ووٹ دینے کا حق بھی دیا۔ لیکن ''ہنوز دلّی دور است'' والی کہاوت صادق آتی ہے۔
بھارت اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہے۔ پہلے انھوں نے ان ازلی بدقسمتوں پر فلمیں بنائیں، جن میں 'تمنا، درمیان اور شبنم قابل ذکر ہیں۔ شبنم نامی فلم دراصل خواجہ سرا شبنم موسیٰ کی زندگی پر مبنی ہے جو اسمبلی کی رکن بھی بنیں۔ اسی طرح پدمنی پرکاش جو ایک ٹیلی ویژن ٹاک شوکی میزبان بنیں، وہ بھی تیسری جنس سے تعلق رکھتی ہیں۔ بھارت میں کافی حد تک شعور بیدار ہوچکا ہے کہ یہ جو ''تیسری جنس'' نامی مخلوق ہے اس کی تعمیر میں خرابی کی جو صورت مضمر ہے وہ قدرت کا ستم ہے ان کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ اسی لیے متعدد شعبوں میں انھیں پذیرائی ملی۔
صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک جو ان کے ساتھ برتا گیا اور برتا جاتا ہے وہ کم تکلیف دہ نہیں۔ کسی بس یا ویگن میں انھیں نہ مردانے حصے میں بیٹھنے دیا جاتا ہے نہ زنانے میں۔ کسی شاپنگ سینٹر یا پبلک پلیس پہ اگر یہ نظر آجائیں تو خواتین کو خوف زدہ ہوتے دیکھا ہے جب کہ یہ خود قابل رحم ہیں۔ ہمارے ہاں ایک زمانے میں ٹیلی ویژن پر اس قابل رحم جنس کے حوالے سے کچھ پروگرام اور کچھ ٹاک شوز کیے گئے۔ جن میں نوید دی گئی کہ حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے، لیکن یہ ٹاک شوز محض ٹی وی کا پیٹ بھرنے کے لیے تھے۔ اور سابق چیف جسٹس نے ایسے بیانات دیے تھے کہ تیسری جنس کے لوگوں سے نادہندگان سے قرضوں کی وصولی کا کام لیا جائے ۔
عملی طور پر تو کچھ نہ ہوا سوائے تیسری جنس کی اس خوبرو گرو کی جلوہ آرائی کے جس کا مستقل ٹھکانہ پنڈی ہے اور اس نے جو حقائق بیان کیے وہ اس بات کے غماز اور ترجمان تھے کہ وزیر اور ارکان اسمبلی تک بھی بعض خواجہ سراؤں کی پہنچ ہے۔لیکن اکثریت کا مقدر محض بھیک مانگنا، تالی بجاکر دعا دینا یا مجبوری کی بنا پر دوسرے غیر اخلاقی کام کرنا۔ البتہ بھارت نے اس حوالے سے اتنا تو کیا کہ تعلیمی اداروں تک ان کو رسائی دی۔ لکشمی نارائن بھی ایک ایسی ہی خواجہ سرا ہیں۔
جنھوں نے ممبئی کے ایک کالج سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی۔ رقص میں مہارت پیدا کی اور نام کمایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ خواجہ سراؤں پہ بنائی جانے والی ایوارڈ یافتہ ڈاکیومنٹری فلم ''انڈیا کی تیسری جنس'' میں کام کیا اور بیشتر رئیلٹی شوز میں بھی انھیں مدعو کیا گیا۔ اسی طرح منابی بندیو پڈھیا نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کرشن گڑھ ویمن کالج میں لیکچرر ہوئیں۔ پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوئیں اور اب اسی کالج کی پرنسپل ہیں۔ ذرایع ابلاغ بتاتے ہیں کہ کالج کا اسٹاف اور طالبات ان سے بہت مطمئن اور خوش ہیں۔ یہ چند مثالیں خواجہ سراؤں کے لیے مستقبل میں امید کی کرن ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق نوکریوں اور تعلیم کے میدان میں اقلیتوں کی طرز کا کوٹا متعارف کرانے کا حکم دے دیا گیا ہے اور وہاں اس پر عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ لیکن اس ساری کامیابی کا سہرا یقینا ان فلم میکرز کے سر بھی جاتا ہے جنھوں نے خواجہ سراؤں کی زندگی پہ فلم بنا کے ناظرین کو رُلا دیا اور حکومت کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان کی مظلومیت کو سمجھے۔ شاید نہیں بلکہ یقینا اگر 'درمیان،تمنا اور شبنم' جیسی فلمیں نہ بنتیں تو انھیں ان کی شناخت نہ ملتی۔
لیکن افسوس کہ پاکستان میں صورت حال ویسی ہی ابتر ہے۔ بلکہ ان بدنصیبوں کو گزشتہ دو تین سال سے ایک نئے عذاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ یہ کہ کچھ بہروپیے اور بھکاری زیادہ بھیک ملنے کی آس میں ہیجڑوں کا سوانگ بھر کے، چوراہوں اور بازاروں میں لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت ہی میں نہیں، تیسری جنس کے افراد پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ انھیں بھی اسی پروردگار نے پیدا کیا ہے جس نے کل عالم کی تخلیق کی ہے، لیکن مغربی ممالک میں انھیں عجوبہ سمجھ کر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ افتخار نسیم (افتی) بھی یہی تھے۔ وہ بھی چونکہ باہر رہتے تھے اس لیے اپنے بارے میں خود بتا دیتے تھے۔
افتی شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی۔ لیکن ذات کے حوالے سے ان کا وجود بھی کرچی کرچی تھا۔ ان بدقسمت لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ خود ان کے ماں باپ انھیں قبول نہیں کرتے۔ انھیں اس کمی کی سزا دیتے ہیں جس میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ اسی تکلیف دہ رویے سے دل برداشتہ ہوکر یہ اپنا گھر چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے جیسوں کی بستی میں جا کر رہنے لگتے ہیں۔ جہاں ان کو ان کی ذات کے حوالے سے کوئی طعنہ تشنیع نہیں دیتا۔ البتہ بعض امیر گھرانوں میں جنم لینے والے ایسے بچے اتنے بدقسمت نہیں ہوتے وہ زیادہ تر فیشن انڈسٹری سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔
خواتین سے متعلق اشیا میں انھیں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ پیسے اور تعلقات کے بل بوتے پر وہ میڈیا میں بھی جگہ بنا لیتے ہیں اور کسی بیگم نما کردار کا روپ دھار لیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ہم نے سنا ہے کہ تقسیم سے پہلے گھروں میں خواجہ سراؤں کو نوکر رکھ لیا جاتا تھا۔ یہ باہر کے کام بحسن و خوبی انجام دیتے تھے۔ 70 کی دہائی میں نرسری پر ایک جاننے والوں کے گھر میں ایک ایسا ہی شخص ملازم تھا۔
وہ کھانا پکاتا، صفائی کرتا، کپڑے دھوتا، بازار سے سودا سلف بھی لاتا۔ ہم نے اکثر اپنے گھر سے پہاڑی اترکر نرسری بس اسٹاپ کی طرف جاتے اسے روزانہ کُرتے پاجامے میں چوٹی باندھے اور کپڑے کا تھیلا لیے مارکیٹ جاتے دیکھا تھا۔ ایک بار وہ تاج بک اسٹال پہ نظر آیا۔ ہم وہاں سے ''نقوش'' خریدا کرتے تھے۔ وہ بھی خواتین سے متعلق کچھ رسالے خرید رہا تھا۔ اس نے جب ہمارے ہاتھ میں ''نقوش'' کا افسانہ نمبر دیکھا تو اس نے بھی پرچے رکھ کے نقوش خرید لیا۔شکل و صورت سے وہ بھی کسی ایسے گھر کا فرد لگتا تھا جس کی پیدائش پہ ماں بھی شرمندہ ہو اور باپ بھی کسی کے آگے نظریں نہ اٹھا سکے۔
کتنی تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے یہ بات کہ جن کی اولاد اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہو جو ملک کی اعلیٰ ترین اور مال دار شخصیت ہونے کے باوجود غیر ممالک سے تحفے میں ملنے والی قیمتی اشیا چوری کرنے میں عار نہ محسوس کریں۔ جو نکاحی بیویوں کی موجودگی میں گانے والیوں، ناچنے والیوں اور چوباروں پہ بیٹھنے والیوں کو عارضی بیویاں بناکر رکھیں ان سے اولاد بھی جنم لیں تو ڈھول تاشے بجائیں۔
لیکن ایک ایسے بچے کو قبول نہ کریں جو نہ عورت ہے نہ مرد۔ بلکہ مخنث ہے، کھسرا ہے، ہیجڑا ہے،خواجہ سرا ہے۔ لیکن وہ خود تو اس کا ذمے دار نہیں۔ ان کو بھکاری بنانے اور غیر اخلاقی جرائم میں ملوث کرنے کا ذمے دار یہ معاشرہ ہے۔ جو انھیں کہیں جینے نہیں دیتا۔ آخر یہ جائیں تو جائیں کہاں۔ کیا کبھی کوئی حکومت ان کے لیے بھی کچھ سوچے گی؟