حامدمیرابصارکیس میںمیڈاس کے کردارپرتحفظات کااظہار

اشتہاری ایجنسی کے ذریعے میڈیا اداروں کو نوازا جاتاہے،پٹیشنرزکاسپریم کورٹ میںموقف

اشتہاری ایجنسی کے ذریعے میڈیا اداروں کو نوازا جاتاہے،پٹیشنرزکاسپریم کورٹ میںموقف۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز اور دیگر اداروںکے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی حد تک وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈ کے استعمال پر عائد پابندی ختم کر دی ہے اور مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کیلیے ملتوی کر دی ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی خصوصی بینچ نے وفاقی حکومت میں وزارت اطلاعات کے وجودکی آئینی حیثیت کے بارے میں سوال اٹھاتے ہوئے وزارت کے وکیل کو ہدایت کی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وزارت کی قانونی حیثیت کیا ہے اس کی وضاحت کی جائے۔درخواست گزاروں نے ایک دفعہ پھر وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈکے حوالے سے سوالات اٹھائے اورکہا بجٹ پبلسٹی، ٹیکس ریفارمز کے نام پرکروڑوں روپے مختص کیے گئے لیکن یہ رقم کہاں گئی اس کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔

درخواست گزاروں ابصار عالم اور حامد میر نے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس ) کوسیکرٹ فنڈ سے دی جانے والی رقم پر بھی اعتراض کیا اورکہا کہ صحافیوںکی بہبودکے نام پر یہ رقم دی گئی لیکن کسی صحافی کی مدد نہیںکی گئی،انھوں نے کہا یہ اقدام شفاف اورمنصفانہ نہیں اور نہ ہی اس رقم کا استعمال صحیح ہو رہا ہے۔ انھوں نے اشتہاری ایجنسی میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈکے کردار پر تحفظات کا اظہارکیا اورکہا کہ ایجنسی حکومت کیلیے اشتہاری مہم چلاتی ہے ،میڈاس کے ذریعے اخبارات اور ٹی وی چینلوںکو اشتہارات کی مد میں نوازا جاتا ہے۔


عدالت کو بتایا گیا کہ میڈاس کے خلاف حکومت پنجاب نے ایف آئی آر درج کر لی ہے لیکن نیب نے تمام ریکارڈ اینٹی کرپشن سے منگوا لیاہے جس سے ریکارڈ ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔عدالت نے آبزرویشن دی کہ ریکارڈکی نقل ہمیشہ محفوظ کر لی جاتی ہے ریکارڈکسی اور ادارے میں جانے سے ضائع نہیں ہو سکتا۔ جسٹس جواد نے کہا بجٹ مختص کرنا اور اسے استعمال کرنا حکومت کا اختیار ہے لیکن کہاں اورکیسے استعمال ہوا اس بارے میں معلومات حاصل کرناہرشہری کاحق ہے کیونکہ یہ عوام کا پیسہ ہے۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا آڈیٹر جنرل آفس کاکام یہی ہے کہ وہ خرچ ہونے والی رقم کا آڈٹ کرے۔

فاضل جج نے کہا کہ اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو تو حکومت اور پارلیمنٹ نوٹس لینے کیلیے موجود ہیں، جج ہیڈ ماسٹر نہیںکہ ہر چیزکو دیکھیں۔عدالت نے درخواست گزار سے اے پی این ایس کی ساخت اور اس کی قانونی حیثیت کے بارے میں تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ڈان نیوزکے وکیل منیر اے ملک نے کہا اظہار رائے کی آزادی کا حق تمام حقوق کی ماں ہے اس پر قدغن نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی عدالت کو میڈیا کیلیے کوئی گائیڈلائن دیناچاہیے،انھوںنے کہا معلومات حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے اور معلومات پہنچانا میڈیا کی ذمے داری،رائے دینا غیر قانونی نہیں لیکن پیسے اور لفافہ لے کر رائے دینے پر اعتراض ہو سکتا ہے ۔

وزارت اطلاعات کے وکیل ذوالفقار ملوکہ نے درخواست گزاروںکی طرف سے خفیہ فنڈکے اعداد و شمار پر اعتراض کیا اورکہا کہ چند فنڈ ایسے ہیں جو خفیہ رکھے جاتے ہیں لیکن یہ کروڑوں میں ہیں ۔انھوں نے کہا انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز ،انٹرنیوز اور چند دیگراداروں کے ملازمین کوخفیہ فنڈ سے تنخواہ دی جاتی ہے عدالت کے حکم کی وجہ سے انھیں دو مہینے کی تنخواہ نہیںملی جس پر عدالت نے اپنے حکم میں ترمیم کر لی۔عدالت نے پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کی جانب سے فریق بننے کی درخواست بھی منظورکر لی۔
Load Next Story