تربیت اولاد والدین کا فرض

ہمارے معاشرے کا بنیادی مسئلہ بھی ہے کیونکہ جب سے زندگی کی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے

najmalam.jafri@gmail.com

یہ آج کا اہم ترین موضوع ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا بنیادی مسئلہ بھی ہے کیونکہ جب سے زندگی کی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، انسان مشین بن کر رہ گیا ہے، اسی وقت سے اس مسئلے نے آہستہ آہستہ سر اٹھانا شروع کر دیا تھا، مگر ہماری فطری لاپرواہی اور غفلت کے باعث یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا گیا اور آج عالم یہ ہے کہ اولاد اور والدین آپس میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔

نہ اولاد کی جانب سے والدین کے لیے وہ ادب و احترام اور شکرگزاری کا جذبہ باقی رہا اور نہ والدین کی طرف سے اولاد کے لیے شفقت، توجہ اور رہنمائی رہی۔ نہ ماں کی توجہ بچوں پر ہے اور نہ باپ ان کے اچھے برے کا نگراں نہ ان کے بارے میں فکر مند۔

خاندان آہستہ آہستہ ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ بچے والدین سے پہلے گھر سے نکل جاتے ہیں اور رات بچوں کے سو جانے کے بعد والدین (خاص کر والد) گھر آتے ہیں۔ دن بھر کی مشقت سے ٹوٹے بدن اور بوجھل روح میں اتنی سکت ہی نہیں رہتی کہ وہ اپنے بچوں پر توجہ دے سکیں۔ ایک دوسرے کی دن بھرکی روداد، محبت اور توجہ سے بغور سن سکیں اور یوں آہستہ آہستہ ان پُر خلوص رشتوں کے درمیان اجنبیت کی دیوار حائل ہوتی جاتی ہے۔

جب تک والدین جوان اور تندرست ہوتے ہیں تو وہ اس صورتحال کو محسوس کرتے ہیں نہ اس کے نتائج پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ کبھی کوشش نہیں کرتے کہ اپنے بچوں کے قریب ہو کر ان کے مسائل اور جذبات سے آگاہی حاصل کریں اور نہ ہی انھیں اپنے لیے بچوں کی توجہ خود درکار ہوتی ہے بلکہ وہ بچوں کو خود سے دور کر کے سوچتے ہیں کہ جیسے گاڑی چل رہی ہے چلنے دو، ہم ان ہی کے لیے تو محنت مشقت کر کے کما رہے ہیں، ان کی تمام ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

اب ان سے ان کے مسائل بھی پوچھیں، ان کی باتیں بھی سنیں تو اتنا وقت کہاں سے لائیں؟ مگر جب خود ان کی عمر بڑھتی ہے اور طاقت جواب دے جاتی ہے، صحت خراب ہونے لگتی ہے اور بڑھاپا آہستہ آہستہ اپنے خوفناک جبڑے کھولے ان کی جانب بڑھنے لگتا ہے تو انھیں یاد آتا ہے کہ ماشاء اﷲ ان کی جواں اولاد بھی تو ہے جو ان کے بڑھاپے کا سہارا ہے، ان ہی پر تو ہم نے اپنی جوانی، صحت و طاقت نچھاور کر دی۔ مگر جب وہ اس توقع پر اولاد کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تو وہاں ایک طرح کی سرد مہری اور آنکھوں میں طنزیہ اجنبیت کے سائے لہراتے نظر آتے ہیں، وہ والدین کو بحیثیت والدین پہچاننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔

اس موقعے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سرد مہری اس ادائے بے نیازی کی قصوروار کیا اولاد ہے؟ ہم اس پر جتنا بھی غور کریں، اس مسئلے کی گہرائی میں جھانکیں تو بچے یعنی اولاد اس سلسلے میں بالکل بے قصور نظر آئے گی، کیونکہ یہ بے نیازی و اجنبیت تو خود والدین ہی کی دین ہوتی ہے۔ اولاد کی پرورش فرض کے ساتھ ساتھ قرضِ حسنہ بھی ہوتی ہے جو اس وقت وصول ہوتا ہے جب اولاد جوان اور والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں۔


قرض کی واپسی تو اسی صورت میں ہوتی ہے جس طرح یہ قرض دیا گیا تھا۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ آپ اناج قرض دیں اور واپس سونا ملے۔ چنانچہ جو کچھ والدین نے اولاد کو دیا ہوتا ہے وہی ان کو واپس ملتا ہے۔ اب اگر والدین اس وقت کو پیش نظر رکھتے اور ابتدا ہی میں اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کرتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ سمجھ دار والدین اس کا خیال رکھتے ہیں اور پھر ان کو اس کا صلہ بھی ملتا ہے۔

معصوم بچہ اپنے والدین کی توجہ کا محتاج ہوتا ہے۔ حقیقتاً وہ بے سہارا ہوتا ہے، اس کو قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ دنیا کے نشیب و فراز سے از خود واقف نہیں ہوتا یہ والدین ہی ہوتے ہیں جو بچے کو ایک مکمل شخصیت بناتے ہیں۔ شخصیت کے مکمل ہونے میں کچھ موروثی اثرات کارفرما ہوتے ہیں کچھ ماحول اور زیادہ دخل تربیت کا ہوتا ہے، اچھی تربیت برے ماحول کے اثرات کو بھی زائل کر سکتی ہے جب کہ اچھے موروثی اوصاف بھی ناقص تربیت کے باعث فنا ہو جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بچے کی شخصیت اور کردار پر سب سے زیادہ اثر والدین کے کردار کا پڑتا ہے کیونکہ بچہ پیدائش سے لے کر سنِ شعور تک سب سے زیادہ والدین ہی سے قریب ہوتا ہے، مگر جب یہ قربت فاصلے میں بدل جائے تو پھر بچہ ایک خود رو پودے کی مانند ہوتا ہے جو ارد گرد کی فضا اور ماحول کے زیر اثر پروان چڑھتا ہے۔

اپنی ابتدائی عمر سے لے کر جوانی تک وہ جن افراد کے درمیان رہتا ہے (آیا، نوکر وغیرہ) ان ہی کے اثرات قبول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں کہ اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ، اسمگلنگ، ڈکیتی اور کسی فراڈ کے الزام میں گرفتار یا کسی اعلیٰ آفیسر کا بیٹا گاڑی چوری کرنے والے گروہ کا سرغنہ ثابت ہوا، کیا کبھی کسی نے ان وجوہات کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ جی ہاں ان تمام برائیوں کی سب سے اہم وجہ والدین کی اولاد کی تعلیم و تربیت سے غفلت ہے۔

ماں کی آغوش بچے کا پہلا مکتب، باپ بچوں کا اولین اور معتبر محافظ و نگران، استاد ایک مشاق جوہری، جو ہیرے کو اس کی قدر و قیمت کے مطابق تراشتا ہے۔ اب اگر یہ سب اپنی اپنی ذمے داریوں سے غفلت برتیں تو پھر اس معصوم بچے کا کیا انجام ہو گا جس کا ذہن کورا کاغذ جس کا دل شفاف آئینہ اور خود اپنی ذات میں ایک بیج کی مانند جو اپنے اندر مکمل درخت بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر ہر بیج تن آور درخت نہیں بن جاتا، بھلا کیوں؟ اس لیے کہ جس بیج کو مواقف آب و ہوا اور سازگار ماحول، اچھی نگہداشت نہ ملے تو وہ درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جاتا ہے اور اگر وہ ناسازگار ماحول میں پروان چڑھ بھی جائے تو بار آور نہیں ہوتا۔

کچھ یہی حال بچے کا ہے کہ انھیں عمر کے لحاظ سے، ذہنی تقاضوں کے مطابق اگر مناسب دیکھ بھال محبت و رہنمائی نہ میسر آئے تو یہی بچہ جو قوم کا نامور سپوت بن سکتا تھا، ناموافق حالات میں ننگِ خاندان، غدار وطن اور انسانیت پر بدنما داغ بھی بن سکتا ہے، صرف والدین کی غفلت و لاپرواہی کے باعث ہزاروں صلاحیتوں کا خون ہو جاتا ہے۔
Load Next Story