سو سال سے جاری جنگ قسط نہم
مسلمانانِ ہند کے ایک وفد نے اتاترک سے اپیل کی کہ عثمانی خلیفہ کو علامتی طور پر ہی سہی مگر برقرار رکھا جائے
NEW YORK:
گذشتہ قسط میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے جنگ میں نوآبادیاتی انسانی خام مال کو جھونکنے کے لیے آس و امید کے مارے غلاموں سے شمالی افریقہ سے لے کر ہندوستان تک کیسے کیسے دل خوش کن وعدے کیے اور جب فتح نصیب ہوگئی تو اپنی ہی نوآبادیات کو مزید خود مختاری دے کر خوشیوں میں شریک کرنے کے بجائے انھیں نئی ڈنڈا بیڑیاں پہنانے کی کوشش کی۔
مگر وہ یہ نہ دیکھ پائے کہ انھیں تو جرمنی اور اس کے اتحادیوں پر فتح نصیب ہوگئی لیکن ساتھ میں یہ بھانڈا بھی پھوٹ گیا کہ مغربی تہذیب دیگر تہذیبوں سے کوئی زیادہ مہذب یا برتر نہیں ہے۔نوآبادیات نے عملاً دیکھا کہ اگر غلام صاحب کی مدد نہ کرتے تو صاحب جانے کہاں پڑے ہوئے پائے جاتے۔مگر آقا ممالک اپنی نوآبادیات میں پیدا ہونے والی تیز رفتار ذہنی تبدیلی محسوس نہ کر پائے اور جن عربوں کو ترکوں کی غلامی سے نجات دلانے کا وعدہ کیا گیا انھیں فاتحین کی قائم کردہ لیگ آف نیشن کی مہر سے مینڈیٹ کی زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔افریقہ اور بحرالکاہل کی جرمن نوآبادیوں کو آزادی تو خیر کیا ملتی الٹا انھیں لیگ آف نیشن نے فاتحین کے حوالے کردیا۔گویا آقا بدل گیا قسمت نہ بدلی۔
ہندوستان میں جنگ کے فوراً بعد رولٹ ایکٹ نافذ کردیا گیا جس کے تحت کسی بھی دیسی کو محض شک کی بنا پر غیرمعینہ مدت کے لیے حراست میں لیا جا سکتا تھا۔اس ایکٹ کے خلاف تحریک نے ہی جلیانوالہ باغ قتلِ عام کا خونی ڈرامہ پیدا کیا۔
ایسا قتلِ عام غلاموں میں دو طرح کے ردِ عمل جنم دیتا ہے یا تو وہ مزید دب جاتے ہیں یا پھر ان پر طاری رہا سہا دبدبہ بھی ہوا ہوجاتا ہے۔خوش قسمتی سے ہندوستانیوں پر دوسری قسم کا اثر ہوا یعنی ان پر پوری طرح کھل گیا کہ برطانیہ فتح کے باوجود اس قدر خوف زدہ ہے کہ صرف مظاہروں اور جلسوں سے ہی اس کے ہاتھ پاؤں ایسے پھول جاتے ہیں جیسے ایک بار پھر اٹھارہ سو ستاون کی فضا بن رہی ہو۔جلیانوالہ باغ نے ہندو مسلمان پر یکساں اثر کیا اور انگریز کی اٹھارہ سو ستاون کے بعد کی لڑاؤ اور حکومت کرو والی پالیسی کے باوجود ساجھے غم (جلیانوالہ ) نے انھیں ایک پلیٹ فارم پر مختصر عرصے کے لیے ہی سہی مگر مجتمع کردیا۔
اس کا فوری ثبوت ہمیں تحریکِ خلافت کی شکل میں نظر آتا ہے۔انیس سو بیس تا بائیس تک شدت سے چلنے والی اس تحریک کا تعلق اگرچہ مرحوم خلافتِ عثمانیہ کو کسی نہ کسی شکل میں زندہ رکھنے کی ہندوستانی مسلمانوں کی خواہش سے تھا۔بظاہر یہ ہندو اکثریت کا مسئلہ نہیں تھا تاہم گاندھی نے اس تحریک کا اس لیے ساتھ دیا کیونکہ اس سے ہندوستان میں انگریزی اقتدار مزید کمزور ہو سکتا تھا۔
گو کمال اتاترک کو خلافت کا خبط نہیں تھا۔اس کا ویژن خالصتاً قوم پرستانہ تھا اور اس کی دلچسپی سابق عثمانی نوآبادیات کے حصول کا مقدمہ لڑنے کے بجائے بس اتنی تھی کہ کسی طرح جزیرہ نما ترکی کا تیا پانچا نہ ہو اور ترک قوم ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ماضی پرستی کے بجائے جدید دنیا کے نئے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے قابل ہو سکے۔
ویسے بھی پہلی عالمی جنگ نے پان اسلامک ازم کی قلعی کھول کے رکھ دی تھی۔ورنہ عرب کاہے کو عثمانیوں سے بغاوت کرتے ، ترک عربوں کی خود مختاری کی خواہش کیوں دباتے اور ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اور تمام ہندوستانی مسلمان ریاستیں جنگ میں کیوں انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیتیں۔کیا ان کی قیادت کو نہیں معلوم تھا کہ انگریز کس سے جنگ آزما ہے؟ تاہم ہندوستان کا مسلمان اتنی اتھل پتھل کے باوجود سنہرے ماضی میں ہی اٹکا رہا۔اقبال جیسا وژنری بھی بدلے ہوئے ترکی اور عربوں کی امنگوں کو ناپنے کے بجائے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر میں ہی الجھا رہا۔یہ وہ ہندوستان تھا جو اتاترک کی سمجھ سے بالاتر تھا جیسے اتاترک اور اس کا نظریہ ہندوستانی مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تھا۔
چنانچہ مسلمانانِ ہند نے اپنے طور پر خلافت بچانے کا بیڑہ اٹھایا۔متعدد وفود لندن بھیجے گئے تاکہ فاتحین سے شکست خوردہ ترکی پر ہاتھ ہولا رکھنے کی درخواست کی جاسکے۔مگر وہ فاتح ہی کیا جو کمزور کی بات مان لے۔ یورپی طاقتوں نے معاہدہ سیورے میں ترکوں کے سامنے کڑی شرائط رکھیں۔ ترک نوآبادیات سب کی سب چھین لی گئیں۔ جزیرہ نما اناطولیہ کی بندربانٹ کا بھی فیصلہ ہوچکا تھا مگر کمال اتاترک اور ان کے معتمد عصمت انونو کی سخت سودے بازی کے نتیجے میں جزیرہ نما ترکی بچ گیا۔
مسلمانانِ ہند کے ایک وفد نے اتاترک سے اپیل کی کہ عثمانی خلیفہ کو علامتی طور پر ہی سہی مگر برقرار رکھا جائے کیونکہ یہ غیر ترک بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک جذباتی علامت ہے۔تاہم اتاترک نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا۔البتہ مسلمانوں کو انگریزوں پر ضرور غصہ تھا جنہوں نے جنگ میں مدد کے عوض بھی مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر ترکوں پر سخت شرائط تھوپنے میں اہم کردار ادا کیا۔جئیو پولٹیکل سفاکیوں کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہندوستانی مسلمانوں کی تمام امیدیں اب تحریکِ خلافت کی کامیابی سے وابستہ ہو گئیں۔
اس غصے کی ایک شکل کمہار پہ بس نہ چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دیے کے مصداق تحریکِ ترکِ موالات کی صورت میں نکلی۔جمعیت علمائے ہند سے وابستہ اکابرین نے فتویٰ جاری کیا کہ اگر مسلمانوں کو اپنا دین بچانا ہے تو پھر دارلحرب (برٹش انڈیا )سے دارلسلام(مسلمان ممالک)کی جانب ہجرت کرنی ہوگی۔تاہم اتنے زیادہ مسلمان کیسے ہجرت کریں گے اور کون کون سا مسلمان ملک انھیں اپنانے پر تیار ہوگا ؟ یہ کسی نے بھی نہ سوچا۔سادہ لوح دینداروں نے لبیک کہتے ہوئے دھڑا دھڑ سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دینا شروع کردیا۔بچوں کو اسکولوں سے اٹھا لیا گیا۔عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ شروع ہوگیا اور ہجرت کے لیے بوریا بستر بندھنے لگا۔
اگست انیس سو بیس تک اٹھارہ ہزار مسلمان عورتوں اور بچوں سمیت افغانستان پہنچ گئے تو افغان حکومت نے گھبرا کر سرحدیں بند کردیں۔جو پہنچ گئے ان کی کچھ لوگوں نے انفرادی سطح پر توکچھ روز مہمانی کرنے کی کوشش کی لیکن کب تک۔ افغانستان خود ایک غریب ملک تھا۔لہذا فاقہ کشی اور دربدری سے اکتا کر وطن واپسی کا سفر شروع ہوا اور اس دوران کئی جانیں بھی تلف ہوئیں۔ پیچھے جو ملازمتیں خالی ہوئیں وہ فوراً پر ہوگئیں۔تحریکِ ترکِ موالات نے ہزاروں مسلمانوں کو معاشی غربت میں دھکیل دیا۔مگر جنہوں نے فتویٰ دیا وہ مصر رہے کہ ان حالات میں یہ درست تھا۔
انیس سو بائیس میں کانگریس تحریکِ خلافت سے علیحدہ ہوگئی۔مسلم لیگ تو خیر کبھی اس میں شامل تھی ہی نہیں۔انیس سو چوبیس میں جب ترکی کو باضابطہ سیکولر جمہوریہ بنانے کا اعلان ہوا تو تحریک سے رہی سہی روح بھی نکل گئی۔تاہم اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ مسلمان بھی جدید ایجی ٹیشنل سیاست کے گر سیکھ گئے جس کا سن چالیس کے بعد چلنے والی تحریکِ پاکستان میں بڑا فائدہ ہوا۔
جلیانوالہ باغ نے ایک عام پنجابی مسلمان اور غیر مسلم کے سامنے انگریزی راج کی قلعی کھولی اور اس کی ایک مزاحمتی شکل سن بیس کے عشرے کے اواخر میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی شکل میں سامنے آئی۔اس گروہ میں ہندو مسلم سکھ سب طرح کے نوجوان شامل تھے۔پہلی عالمی جنگ نے ہندوستانی مسلمانوں میں یہ شعور بھی بیدار کیا کہ ہر مسلمان قابلِ تعظیم نہیں۔بالخصوص وہ جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی عام مسلمانوں کے حقوق کا سودا انگریز سرکار سے کر کے صرف اپنا الو سیدھا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
پہلی عالمی جنگ نے روس میں کیونسٹ انقلاب کی راہ بھی ہموار کی۔اس انقلاب کے نتیجے میں ہندوستانیوں کو بھی اپنی دنیا طبقاتی عینک سے دیکھنے کی سہولت ملی اور پہلے جو چیزیں انھیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں اور جنھیں وہ اوپر والے کی رضا سمجھ کے برداشت کر جاتے تھے۔اب انھیں صاف صاف دکھائی دینے لگا کہ زمین پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے ضروری نہیں کہ اس میں اوپر والے کی رضا بھی شامل ہو۔اس سوچ کے تحت ترقی پسند ادبی تحریک وجود میں آئی ، ٹریڈ یونین تحریک پنپنے لگی ، کسان منظم ایجی ٹیشن کرنا سیکھ گیا اور پڑھے لکھے لوگوں کو عالمی سیاسی کرتب بازیاں پہلے سے بہتر سمجھ میں آنے لگیں۔ ہندوستان کا تو جنگ کے خاتمے کے انتیس برس بعد بٹوارا ہو گیا مگر مشترکہ تجربات کا بٹوارا نہ ہو سکا اور پہلی عالمی جنگ کے بعد حاصل ہونے والی یہ آگہی برِصغیر کی مشترکہ میراث ٹھہری۔ (داستان جاری ہے)۔
گذشتہ قسط میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے جنگ میں نوآبادیاتی انسانی خام مال کو جھونکنے کے لیے آس و امید کے مارے غلاموں سے شمالی افریقہ سے لے کر ہندوستان تک کیسے کیسے دل خوش کن وعدے کیے اور جب فتح نصیب ہوگئی تو اپنی ہی نوآبادیات کو مزید خود مختاری دے کر خوشیوں میں شریک کرنے کے بجائے انھیں نئی ڈنڈا بیڑیاں پہنانے کی کوشش کی۔
مگر وہ یہ نہ دیکھ پائے کہ انھیں تو جرمنی اور اس کے اتحادیوں پر فتح نصیب ہوگئی لیکن ساتھ میں یہ بھانڈا بھی پھوٹ گیا کہ مغربی تہذیب دیگر تہذیبوں سے کوئی زیادہ مہذب یا برتر نہیں ہے۔نوآبادیات نے عملاً دیکھا کہ اگر غلام صاحب کی مدد نہ کرتے تو صاحب جانے کہاں پڑے ہوئے پائے جاتے۔مگر آقا ممالک اپنی نوآبادیات میں پیدا ہونے والی تیز رفتار ذہنی تبدیلی محسوس نہ کر پائے اور جن عربوں کو ترکوں کی غلامی سے نجات دلانے کا وعدہ کیا گیا انھیں فاتحین کی قائم کردہ لیگ آف نیشن کی مہر سے مینڈیٹ کی زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔افریقہ اور بحرالکاہل کی جرمن نوآبادیوں کو آزادی تو خیر کیا ملتی الٹا انھیں لیگ آف نیشن نے فاتحین کے حوالے کردیا۔گویا آقا بدل گیا قسمت نہ بدلی۔
ہندوستان میں جنگ کے فوراً بعد رولٹ ایکٹ نافذ کردیا گیا جس کے تحت کسی بھی دیسی کو محض شک کی بنا پر غیرمعینہ مدت کے لیے حراست میں لیا جا سکتا تھا۔اس ایکٹ کے خلاف تحریک نے ہی جلیانوالہ باغ قتلِ عام کا خونی ڈرامہ پیدا کیا۔
ایسا قتلِ عام غلاموں میں دو طرح کے ردِ عمل جنم دیتا ہے یا تو وہ مزید دب جاتے ہیں یا پھر ان پر طاری رہا سہا دبدبہ بھی ہوا ہوجاتا ہے۔خوش قسمتی سے ہندوستانیوں پر دوسری قسم کا اثر ہوا یعنی ان پر پوری طرح کھل گیا کہ برطانیہ فتح کے باوجود اس قدر خوف زدہ ہے کہ صرف مظاہروں اور جلسوں سے ہی اس کے ہاتھ پاؤں ایسے پھول جاتے ہیں جیسے ایک بار پھر اٹھارہ سو ستاون کی فضا بن رہی ہو۔جلیانوالہ باغ نے ہندو مسلمان پر یکساں اثر کیا اور انگریز کی اٹھارہ سو ستاون کے بعد کی لڑاؤ اور حکومت کرو والی پالیسی کے باوجود ساجھے غم (جلیانوالہ ) نے انھیں ایک پلیٹ فارم پر مختصر عرصے کے لیے ہی سہی مگر مجتمع کردیا۔
اس کا فوری ثبوت ہمیں تحریکِ خلافت کی شکل میں نظر آتا ہے۔انیس سو بیس تا بائیس تک شدت سے چلنے والی اس تحریک کا تعلق اگرچہ مرحوم خلافتِ عثمانیہ کو کسی نہ کسی شکل میں زندہ رکھنے کی ہندوستانی مسلمانوں کی خواہش سے تھا۔بظاہر یہ ہندو اکثریت کا مسئلہ نہیں تھا تاہم گاندھی نے اس تحریک کا اس لیے ساتھ دیا کیونکہ اس سے ہندوستان میں انگریزی اقتدار مزید کمزور ہو سکتا تھا۔
گو کمال اتاترک کو خلافت کا خبط نہیں تھا۔اس کا ویژن خالصتاً قوم پرستانہ تھا اور اس کی دلچسپی سابق عثمانی نوآبادیات کے حصول کا مقدمہ لڑنے کے بجائے بس اتنی تھی کہ کسی طرح جزیرہ نما ترکی کا تیا پانچا نہ ہو اور ترک قوم ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ماضی پرستی کے بجائے جدید دنیا کے نئے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے قابل ہو سکے۔
ویسے بھی پہلی عالمی جنگ نے پان اسلامک ازم کی قلعی کھول کے رکھ دی تھی۔ورنہ عرب کاہے کو عثمانیوں سے بغاوت کرتے ، ترک عربوں کی خود مختاری کی خواہش کیوں دباتے اور ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اور تمام ہندوستانی مسلمان ریاستیں جنگ میں کیوں انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیتیں۔کیا ان کی قیادت کو نہیں معلوم تھا کہ انگریز کس سے جنگ آزما ہے؟ تاہم ہندوستان کا مسلمان اتنی اتھل پتھل کے باوجود سنہرے ماضی میں ہی اٹکا رہا۔اقبال جیسا وژنری بھی بدلے ہوئے ترکی اور عربوں کی امنگوں کو ناپنے کے بجائے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر میں ہی الجھا رہا۔یہ وہ ہندوستان تھا جو اتاترک کی سمجھ سے بالاتر تھا جیسے اتاترک اور اس کا نظریہ ہندوستانی مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تھا۔
چنانچہ مسلمانانِ ہند نے اپنے طور پر خلافت بچانے کا بیڑہ اٹھایا۔متعدد وفود لندن بھیجے گئے تاکہ فاتحین سے شکست خوردہ ترکی پر ہاتھ ہولا رکھنے کی درخواست کی جاسکے۔مگر وہ فاتح ہی کیا جو کمزور کی بات مان لے۔ یورپی طاقتوں نے معاہدہ سیورے میں ترکوں کے سامنے کڑی شرائط رکھیں۔ ترک نوآبادیات سب کی سب چھین لی گئیں۔ جزیرہ نما اناطولیہ کی بندربانٹ کا بھی فیصلہ ہوچکا تھا مگر کمال اتاترک اور ان کے معتمد عصمت انونو کی سخت سودے بازی کے نتیجے میں جزیرہ نما ترکی بچ گیا۔
مسلمانانِ ہند کے ایک وفد نے اتاترک سے اپیل کی کہ عثمانی خلیفہ کو علامتی طور پر ہی سہی مگر برقرار رکھا جائے کیونکہ یہ غیر ترک بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک جذباتی علامت ہے۔تاہم اتاترک نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا۔البتہ مسلمانوں کو انگریزوں پر ضرور غصہ تھا جنہوں نے جنگ میں مدد کے عوض بھی مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر ترکوں پر سخت شرائط تھوپنے میں اہم کردار ادا کیا۔جئیو پولٹیکل سفاکیوں کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہندوستانی مسلمانوں کی تمام امیدیں اب تحریکِ خلافت کی کامیابی سے وابستہ ہو گئیں۔
اس غصے کی ایک شکل کمہار پہ بس نہ چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دیے کے مصداق تحریکِ ترکِ موالات کی صورت میں نکلی۔جمعیت علمائے ہند سے وابستہ اکابرین نے فتویٰ جاری کیا کہ اگر مسلمانوں کو اپنا دین بچانا ہے تو پھر دارلحرب (برٹش انڈیا )سے دارلسلام(مسلمان ممالک)کی جانب ہجرت کرنی ہوگی۔تاہم اتنے زیادہ مسلمان کیسے ہجرت کریں گے اور کون کون سا مسلمان ملک انھیں اپنانے پر تیار ہوگا ؟ یہ کسی نے بھی نہ سوچا۔سادہ لوح دینداروں نے لبیک کہتے ہوئے دھڑا دھڑ سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دینا شروع کردیا۔بچوں کو اسکولوں سے اٹھا لیا گیا۔عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ شروع ہوگیا اور ہجرت کے لیے بوریا بستر بندھنے لگا۔
اگست انیس سو بیس تک اٹھارہ ہزار مسلمان عورتوں اور بچوں سمیت افغانستان پہنچ گئے تو افغان حکومت نے گھبرا کر سرحدیں بند کردیں۔جو پہنچ گئے ان کی کچھ لوگوں نے انفرادی سطح پر توکچھ روز مہمانی کرنے کی کوشش کی لیکن کب تک۔ افغانستان خود ایک غریب ملک تھا۔لہذا فاقہ کشی اور دربدری سے اکتا کر وطن واپسی کا سفر شروع ہوا اور اس دوران کئی جانیں بھی تلف ہوئیں۔ پیچھے جو ملازمتیں خالی ہوئیں وہ فوراً پر ہوگئیں۔تحریکِ ترکِ موالات نے ہزاروں مسلمانوں کو معاشی غربت میں دھکیل دیا۔مگر جنہوں نے فتویٰ دیا وہ مصر رہے کہ ان حالات میں یہ درست تھا۔
انیس سو بائیس میں کانگریس تحریکِ خلافت سے علیحدہ ہوگئی۔مسلم لیگ تو خیر کبھی اس میں شامل تھی ہی نہیں۔انیس سو چوبیس میں جب ترکی کو باضابطہ سیکولر جمہوریہ بنانے کا اعلان ہوا تو تحریک سے رہی سہی روح بھی نکل گئی۔تاہم اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ مسلمان بھی جدید ایجی ٹیشنل سیاست کے گر سیکھ گئے جس کا سن چالیس کے بعد چلنے والی تحریکِ پاکستان میں بڑا فائدہ ہوا۔
جلیانوالہ باغ نے ایک عام پنجابی مسلمان اور غیر مسلم کے سامنے انگریزی راج کی قلعی کھولی اور اس کی ایک مزاحمتی شکل سن بیس کے عشرے کے اواخر میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی شکل میں سامنے آئی۔اس گروہ میں ہندو مسلم سکھ سب طرح کے نوجوان شامل تھے۔پہلی عالمی جنگ نے ہندوستانی مسلمانوں میں یہ شعور بھی بیدار کیا کہ ہر مسلمان قابلِ تعظیم نہیں۔بالخصوص وہ جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی عام مسلمانوں کے حقوق کا سودا انگریز سرکار سے کر کے صرف اپنا الو سیدھا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
پہلی عالمی جنگ نے روس میں کیونسٹ انقلاب کی راہ بھی ہموار کی۔اس انقلاب کے نتیجے میں ہندوستانیوں کو بھی اپنی دنیا طبقاتی عینک سے دیکھنے کی سہولت ملی اور پہلے جو چیزیں انھیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں اور جنھیں وہ اوپر والے کی رضا سمجھ کے برداشت کر جاتے تھے۔اب انھیں صاف صاف دکھائی دینے لگا کہ زمین پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے ضروری نہیں کہ اس میں اوپر والے کی رضا بھی شامل ہو۔اس سوچ کے تحت ترقی پسند ادبی تحریک وجود میں آئی ، ٹریڈ یونین تحریک پنپنے لگی ، کسان منظم ایجی ٹیشن کرنا سیکھ گیا اور پڑھے لکھے لوگوں کو عالمی سیاسی کرتب بازیاں پہلے سے بہتر سمجھ میں آنے لگیں۔ ہندوستان کا تو جنگ کے خاتمے کے انتیس برس بعد بٹوارا ہو گیا مگر مشترکہ تجربات کا بٹوارا نہ ہو سکا اور پہلی عالمی جنگ کے بعد حاصل ہونے والی یہ آگہی برِصغیر کی مشترکہ میراث ٹھہری۔ (داستان جاری ہے)۔