عورتیں اور ترقی آخری حصہ
صنعتی انقلاب اور دوسری جنگ عظیم کے بعد عورت نے گھر سے باہر نکل کر مرد کے ساتھ باہر کی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں
صنعتی انقلاب اور دوسری جنگ عظیم کے بعد عورت نے گھر سے باہر نکل کر مرد کے ساتھ باہر کی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں لیکن مرد اس کے ساتھ گھریلو ذمے داریاں سنبھالنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ سرمایہ داری اور پدر سری نظام نے مل کر عورت کو اقتصادی سرگرمیوں میں تو شامل کرلیا ہے مگر اس سے عورت کے مقام اور مرتبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
مرد مجازی خدا کے مقام سے نیچے اتر کر عورت کا دوست اور ساتھی بننی پر تیار نہیں۔ عالمگیریت اورکثیر القومی کارپوریشنوں کو سستی مزدوری کی تلاش ہوتی ہے، اس لیے وہ خواتین کارکنوں کو نوکریاں دیتی ہیں۔عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں معاوضہ بھی کم دینا پڑتا ہے اور وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ دلجمعی سے اور بہتر کام کرتی ہیں۔
ماہرین اقتصادیات کا یہی کہنا ہے کہ عورت جب پیسا کماتی ہے توگھر اور معاشرے میں اس کی حیثیت بہتر ہو جاتی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کام کرنے والی عورت کو دہرا تہرا بوجھ اٹھانا پرتا ہے۔
قدرت نے افزائش نسل کا فریضہ عورت کو سونپا ہے، اس لیے اس کی پہلی ذمے داری یہی ہے۔ چوں کہ وہ اپنے بچوں کو ایک بہتر معیار زندگی بھی فراہم کرنا چاہتی ہے اس لیے وہ پیداواری سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی ہے۔ پھر رشتے داریاں، محلے داری اور سماجی ذمے داریاں بھی نبھاتی ہے۔
یعنی وہ تہرا بوجھ اٹھاتی ہے۔ لیکن ترقی کے منصوبے بنانے والے ماہرین اقتصادیات یہ بات بھول جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر عورت مرد کی طرح با معاوضہ کام کرے گی تو دونوں کا مقام برابر ہو جائے گا اور ملک ترقی کرے گا۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ مرد صرف اقتصادی ذمے داری کا بوجھ اٹھاتا ہے جب کہ عورت اس کے مقابلے میں تین مختلف طرح کی ذمے داریوں کا بوجھ اٹھاتی ہے، یہ تو وہی بات ہوئی کہ آپ ایک میدان میں دو کھلاڑیوں کو دوڑ لگانے کے لیے کہیں اور ایک کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیں تو ظاہر ہے پھر دوسرا کھلاڑی ہی دوڑ میں آگے نکلے گا۔
لیکن کیا اقتصادی دوڑ ہی سب کچھ ہے؟ کیا زندگی صرف اقتصادی دوڑ کا نام ہے؟ بہت سے لوگ اس کا جواب ہاں میں دیں گے اور کہیں گے کہ اگر پیسا نہیں کمائیں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟ پھر تو بھوکے ہی مریں گے۔ جس نظام کے تحت ہم زندگی گزار رہے ہیں یعنی نیو لبرل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام میں پیسا ہی سب کچھ ہے۔ پیسے کی خاطر ایک دوسرے کا گلا کاٹنا بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام میں صرف عورتیں ہی نہیں بلکہ عوام کی وسیع اکثریت ظلم و زیادتی اور استحصال کا شکار رہتی ہے اور ایک چھوٹا سا گروہ سارے وسائل اور ساری دولت پر قابض رہتا ہے۔
سرمایہ داری معاشروں میں لوگوں کے مقام و مرتبے میں جو اونچ نیچ اور فرق نظر آتا ہے اس کا انفرادی صلاحیتوں یا استعداد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ فرق سرمایہ دارانہ سماج کے اداروں میں پنہاں ہوتا ہے۔ بیسویں صدی تک لوگوں کو یقین تھا کہ سوشلزم یا کمیونزم کی بدولت ایک مختلف طرح کا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جس میں منظم نابرابری اور ظلم و جبر کا خاتمہ ہوسکتا ہے لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مارگریٹ تھیچر کے اس نعرے کو مزید حمایت ملی کہ ''اب کوئی نعم البدل نہیں ہے'' بہر حال مارکسی مفکرین اور بائیں بازو کے کارکن اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ اور بات کہ اب وہ کمزور پڑ گئے ہیں۔
اس مسئلے کو اگر ہم تحریک نسواں کے حوالے سے دیکھیں تو دنیا بھر میں تحریک نسواں کی کارکنوں کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ عورتوں کو اپنی جنس کی بنا پر کچھ نا انصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحریک نسواں کی کارکن معاشرے میں جنس کی بنیاد پر تقسیم کی اہمیت پر زور دیتی ہیں ان کی رائے میں اس تقسیم کی بنا پر مرد فائدے میں رہتے ہیں۔
گو فیمنٹس جنسی انصاف کی مشترکہ خواہش اور عورتوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے متحد ہیں لیکن ان کے نظریات میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ لبرل فیمنٹس مساوی حقوق پر زور دیتی ہیں۔ ریڈیکل فیمنٹس جنس کی جنگ اور علیحدگی پسندی پر زور دیتی ہے (ان کی رائے میں پدر سری سماج کے ڈھانچے کا اٹوٹ انگ ہے) مارکسی، سوشلسٹ فیمنٹس کی توجہ سرمایہ داری کے اثرات پر مرکوز رہتی ہے۔
تحریک نسواں کے پانچ اہم تصورات درج ذیل ہیں۔
یہ سوال ایک مرتبہ پھر زور و شور سے اٹھایا جانے لگا ہے کہ عورتوں کو اپنے کام اور خاندان کے درمیان توا زن پیدا کرنے کے حوالے سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، مغربی میڈیا میں ہیلری کلنٹن کی اس بات کو بہت اٹھایاگیا تھا جب انھوں نے ایک نوجوان وکیل خاتون اور ایک ماں کی حیثیت سے اپنے تجربات کا ذکر کیاتھا۔
کام اور گھر کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے عورتوں کو آج بھی زیادہ بوجھ اٹھانا پڑتا ہے حالاں کہ اس وقت دنیا بھر میں کام کی جگہ یا اداروں میں صنفی توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر عملی طور پر بچے کی پرورش کی ذمے داریوں کی بنا پر ملازمت پیشہ عورتیں ترقی کی دور میں مردوں سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔
نوجوان خواتین جب ملازمت کا آغاز کرتی ہیں تو انھیں ترقی کے وہی مواقعے حاصل ہوتے ہیں جو مردوں کو حاصل ہوتے ہیں لیکن شادی کے بعد وہ مسلسل گھریلو ذمے داریوں اور دفتری ذمے داریوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کشمکش سے دو چار رہتی ہیں۔ بچوں کی پیدائش کے بعد کچھ خواتین تو نوکری چھوڑ دیتی ہیں یا پھر جز وقتی ملازمت کو ترجیح دیتی ہیں۔ تدریس کے شعبے میں اس لیے زیادہ خواتین نظر آتی ہیں کیوں کہ اسکول اور کالج کے اوقات کار دفتروں کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔
مارکسی مفکرین اس صورت حال کو طبقاتی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک اقتصادی طبقے کا تجربہ کرتے ہوئے جب ہم عورتوں کو ایک علیحدہ سماجی گروہ کے طور پر دیکھتے ہیں تو ایک نئی سیاسی بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔ تحریک نسواں اور مارکسی حلقے نسل، زبان اور طبقاتی امتیاز سے اوپر اٹھ کر عورتوں کے مفادات کے لیے مرد کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ ویسے بھی تحریک نسواں کی بنیاد ہی عورتوں کے مفادات پر رکھی گئی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر غریب اور محنت کش طبقے کی عورتوں کے مفادات متوسط اور بالائی طبقے کی عورتوں کے مفادات سے مختلف ہیں۔ تو متوسط طبقے کی تحریک غریب عورتوں کے مفادات کا تحفظ کیسے کرسکتی ہے۔
مارکسی مفکرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی عالمی اقتصادی ترقی عورتوں کی آزادی سے مطابقت نہیں رکھتی، عورتوں کی آفاقی آزادی کے لیے غریب ترین عورتوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ جب کہ تحریک نسواں کی مفکرین کا کہناہے کہ پیداواری عمل میں شراکت کے علاوہ دیگر عوامل بھی عورت کے سماج مقام اور اختیارات کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحریک نسواں کی کچھ مارکسی مفکرین کہناہے کہ سارے پیداواری طریقوں کا اہم عنصر عورت کا حیاتیاتی اور سماجی تولید و افزائش کا کام ہے جسے عام طور پر مارکسی مرد ماہرین اقتصادیات بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔
کوئی بھی عورتوں کے گھریلو کام کاج کو جو وہ بغیر کسی معاوضے کے انجام دیتی ہیں، کوئی اہمیت نہیں دیتا، ماہرین اقتصادیات اور ماہرین شماریات اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔ اس لیے عورتوں کا کام نہ تو اقتصادی منصوبوں اور پالیسیوں میں نظر آتا ہے اور نہ اعداد و شمار میں پاکستان جیسے ملکوں میں ہیپاٹائٹس سی جیسی بیماریوں کے عام ہونے اور حکومت کی جانب سے صحت کے شعبے کے لیے انتہائی کم بجٹ رکھنے کی وجہ سے عورتوں کے کاموں اور ذمے داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے کیوں کہ گھر کے اندر بیماروں کی دیکھ بھال بھی عورت کی ہی ذمے داری ہوتی ہے۔
ماہرین اقتصادیات کو سرکاری پالیسیاں بناتے وقت عورتوں کے گھریلو کام کاج، بچوں کی پرورش، بوڑھوں کی دیکھ بھال جیسے بلا معاوضہ کاموں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور جب عورت کام کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اس کے دہرے تہرے بوجھ کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ظاہر ہے ایسا صرف ایک فلاحی ریاست میں ہی ممکن ہو گا۔
مرد مجازی خدا کے مقام سے نیچے اتر کر عورت کا دوست اور ساتھی بننی پر تیار نہیں۔ عالمگیریت اورکثیر القومی کارپوریشنوں کو سستی مزدوری کی تلاش ہوتی ہے، اس لیے وہ خواتین کارکنوں کو نوکریاں دیتی ہیں۔عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں معاوضہ بھی کم دینا پڑتا ہے اور وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ دلجمعی سے اور بہتر کام کرتی ہیں۔
ماہرین اقتصادیات کا یہی کہنا ہے کہ عورت جب پیسا کماتی ہے توگھر اور معاشرے میں اس کی حیثیت بہتر ہو جاتی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کام کرنے والی عورت کو دہرا تہرا بوجھ اٹھانا پرتا ہے۔
قدرت نے افزائش نسل کا فریضہ عورت کو سونپا ہے، اس لیے اس کی پہلی ذمے داری یہی ہے۔ چوں کہ وہ اپنے بچوں کو ایک بہتر معیار زندگی بھی فراہم کرنا چاہتی ہے اس لیے وہ پیداواری سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی ہے۔ پھر رشتے داریاں، محلے داری اور سماجی ذمے داریاں بھی نبھاتی ہے۔
یعنی وہ تہرا بوجھ اٹھاتی ہے۔ لیکن ترقی کے منصوبے بنانے والے ماہرین اقتصادیات یہ بات بھول جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر عورت مرد کی طرح با معاوضہ کام کرے گی تو دونوں کا مقام برابر ہو جائے گا اور ملک ترقی کرے گا۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ مرد صرف اقتصادی ذمے داری کا بوجھ اٹھاتا ہے جب کہ عورت اس کے مقابلے میں تین مختلف طرح کی ذمے داریوں کا بوجھ اٹھاتی ہے، یہ تو وہی بات ہوئی کہ آپ ایک میدان میں دو کھلاڑیوں کو دوڑ لگانے کے لیے کہیں اور ایک کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیں تو ظاہر ہے پھر دوسرا کھلاڑی ہی دوڑ میں آگے نکلے گا۔
لیکن کیا اقتصادی دوڑ ہی سب کچھ ہے؟ کیا زندگی صرف اقتصادی دوڑ کا نام ہے؟ بہت سے لوگ اس کا جواب ہاں میں دیں گے اور کہیں گے کہ اگر پیسا نہیں کمائیں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟ پھر تو بھوکے ہی مریں گے۔ جس نظام کے تحت ہم زندگی گزار رہے ہیں یعنی نیو لبرل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام میں پیسا ہی سب کچھ ہے۔ پیسے کی خاطر ایک دوسرے کا گلا کاٹنا بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام میں صرف عورتیں ہی نہیں بلکہ عوام کی وسیع اکثریت ظلم و زیادتی اور استحصال کا شکار رہتی ہے اور ایک چھوٹا سا گروہ سارے وسائل اور ساری دولت پر قابض رہتا ہے۔
سرمایہ داری معاشروں میں لوگوں کے مقام و مرتبے میں جو اونچ نیچ اور فرق نظر آتا ہے اس کا انفرادی صلاحیتوں یا استعداد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ فرق سرمایہ دارانہ سماج کے اداروں میں پنہاں ہوتا ہے۔ بیسویں صدی تک لوگوں کو یقین تھا کہ سوشلزم یا کمیونزم کی بدولت ایک مختلف طرح کا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جس میں منظم نابرابری اور ظلم و جبر کا خاتمہ ہوسکتا ہے لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مارگریٹ تھیچر کے اس نعرے کو مزید حمایت ملی کہ ''اب کوئی نعم البدل نہیں ہے'' بہر حال مارکسی مفکرین اور بائیں بازو کے کارکن اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ اور بات کہ اب وہ کمزور پڑ گئے ہیں۔
اس مسئلے کو اگر ہم تحریک نسواں کے حوالے سے دیکھیں تو دنیا بھر میں تحریک نسواں کی کارکنوں کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ عورتوں کو اپنی جنس کی بنا پر کچھ نا انصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحریک نسواں کی کارکن معاشرے میں جنس کی بنیاد پر تقسیم کی اہمیت پر زور دیتی ہیں ان کی رائے میں اس تقسیم کی بنا پر مرد فائدے میں رہتے ہیں۔
گو فیمنٹس جنسی انصاف کی مشترکہ خواہش اور عورتوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے متحد ہیں لیکن ان کے نظریات میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ لبرل فیمنٹس مساوی حقوق پر زور دیتی ہیں۔ ریڈیکل فیمنٹس جنس کی جنگ اور علیحدگی پسندی پر زور دیتی ہے (ان کی رائے میں پدر سری سماج کے ڈھانچے کا اٹوٹ انگ ہے) مارکسی، سوشلسٹ فیمنٹس کی توجہ سرمایہ داری کے اثرات پر مرکوز رہتی ہے۔
تحریک نسواں کے پانچ اہم تصورات درج ذیل ہیں۔
- ... پدر سری: یعنی معاشرے میں مرد کی حاکمیت اور مرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے عورت پر ظلم و جبر۔ مثال کے طور پر خاندان بھی پدر سری ہے کیوں کہ عورتیں بلا معاوضہ گھریلو کام کاج کرتی ہیں۔
- ... امتیاز، تفریق: عورتوں کے ساتھ نا منصفانہ اور غیر مساوی سلوک، کبھی قانون، کبھی پالیسیوں، کبھی رویوں کی صورت میں۔
- ... صنفی اسٹرپوٹائپس: منفی عمومیت پسندی یا عورتوں کے بارے میں غلط تصورات، یہ تصورات میڈیا اور تعلیمی نظام کے ذریعے عام کیے جاتے ہیں۔ مثلاً عورتیں ڈرپوک اور مرد بہادر ہوتے ہیں۔
- ... اقتصادی محتاجی: عورتیں بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو کام کاج کی وجہ سے ملازمت نہیں کر پاتیں اور پیسوں کے لیے شوہر کی محتاج رہتی ہیں۔
یہ سوال ایک مرتبہ پھر زور و شور سے اٹھایا جانے لگا ہے کہ عورتوں کو اپنے کام اور خاندان کے درمیان توا زن پیدا کرنے کے حوالے سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، مغربی میڈیا میں ہیلری کلنٹن کی اس بات کو بہت اٹھایاگیا تھا جب انھوں نے ایک نوجوان وکیل خاتون اور ایک ماں کی حیثیت سے اپنے تجربات کا ذکر کیاتھا۔
کام اور گھر کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے عورتوں کو آج بھی زیادہ بوجھ اٹھانا پڑتا ہے حالاں کہ اس وقت دنیا بھر میں کام کی جگہ یا اداروں میں صنفی توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر عملی طور پر بچے کی پرورش کی ذمے داریوں کی بنا پر ملازمت پیشہ عورتیں ترقی کی دور میں مردوں سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔
نوجوان خواتین جب ملازمت کا آغاز کرتی ہیں تو انھیں ترقی کے وہی مواقعے حاصل ہوتے ہیں جو مردوں کو حاصل ہوتے ہیں لیکن شادی کے بعد وہ مسلسل گھریلو ذمے داریوں اور دفتری ذمے داریوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کشمکش سے دو چار رہتی ہیں۔ بچوں کی پیدائش کے بعد کچھ خواتین تو نوکری چھوڑ دیتی ہیں یا پھر جز وقتی ملازمت کو ترجیح دیتی ہیں۔ تدریس کے شعبے میں اس لیے زیادہ خواتین نظر آتی ہیں کیوں کہ اسکول اور کالج کے اوقات کار دفتروں کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔
مارکسی مفکرین اس صورت حال کو طبقاتی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک اقتصادی طبقے کا تجربہ کرتے ہوئے جب ہم عورتوں کو ایک علیحدہ سماجی گروہ کے طور پر دیکھتے ہیں تو ایک نئی سیاسی بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔ تحریک نسواں اور مارکسی حلقے نسل، زبان اور طبقاتی امتیاز سے اوپر اٹھ کر عورتوں کے مفادات کے لیے مرد کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ ویسے بھی تحریک نسواں کی بنیاد ہی عورتوں کے مفادات پر رکھی گئی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر غریب اور محنت کش طبقے کی عورتوں کے مفادات متوسط اور بالائی طبقے کی عورتوں کے مفادات سے مختلف ہیں۔ تو متوسط طبقے کی تحریک غریب عورتوں کے مفادات کا تحفظ کیسے کرسکتی ہے۔
مارکسی مفکرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی عالمی اقتصادی ترقی عورتوں کی آزادی سے مطابقت نہیں رکھتی، عورتوں کی آفاقی آزادی کے لیے غریب ترین عورتوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ جب کہ تحریک نسواں کی مفکرین کا کہناہے کہ پیداواری عمل میں شراکت کے علاوہ دیگر عوامل بھی عورت کے سماج مقام اور اختیارات کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحریک نسواں کی کچھ مارکسی مفکرین کہناہے کہ سارے پیداواری طریقوں کا اہم عنصر عورت کا حیاتیاتی اور سماجی تولید و افزائش کا کام ہے جسے عام طور پر مارکسی مرد ماہرین اقتصادیات بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔
کوئی بھی عورتوں کے گھریلو کام کاج کو جو وہ بغیر کسی معاوضے کے انجام دیتی ہیں، کوئی اہمیت نہیں دیتا، ماہرین اقتصادیات اور ماہرین شماریات اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔ اس لیے عورتوں کا کام نہ تو اقتصادی منصوبوں اور پالیسیوں میں نظر آتا ہے اور نہ اعداد و شمار میں پاکستان جیسے ملکوں میں ہیپاٹائٹس سی جیسی بیماریوں کے عام ہونے اور حکومت کی جانب سے صحت کے شعبے کے لیے انتہائی کم بجٹ رکھنے کی وجہ سے عورتوں کے کاموں اور ذمے داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے کیوں کہ گھر کے اندر بیماروں کی دیکھ بھال بھی عورت کی ہی ذمے داری ہوتی ہے۔
ماہرین اقتصادیات کو سرکاری پالیسیاں بناتے وقت عورتوں کے گھریلو کام کاج، بچوں کی پرورش، بوڑھوں کی دیکھ بھال جیسے بلا معاوضہ کاموں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور جب عورت کام کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اس کے دہرے تہرے بوجھ کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ظاہر ہے ایسا صرف ایک فلاحی ریاست میں ہی ممکن ہو گا۔