شکریہ عدالتی کمیشن شکریہ

ان 126 دنوں میں عوام کو جمہوریت، پارلیمنٹ اور سیاستدانوں سے متنفر کرانے کی کوشش کی گئی۔

zahedahina@gmail.com

126 دنوں تک اسلام آباد میں دھرنا سیاست ہوئی، کئی ہزار گھنٹے سیاسی مخالفین بالخصوص نواز شریف کی توہین، تضحیک اور تذلیل پر صرف کیے گئے۔ پی ٹی آئی کے پُرجوش کارکن نواز مخالف ترانوں پر دیوانہ دار رقص کرتے رہے۔ موقف صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ 2013ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے، ایک منظم دھاندلی کے ذریعے نواز لیگ کو فتح دلائی گئی ہے اور اس منظم سازش میں بہت سے لوگ شامل تھے۔

سازشیوں کی فہرست میں سب سے پہلا نام نواز شریف کا تھا۔ عمران خان نے ان پر ایک یا دو نہیں بلکہ 220 بار دھاندلی کا الزام عاید کیا۔ اس کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو نشانہ بنایا گیا۔ ان پر 73 مرتبہ یہ الزام لگایا گیا، پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ اور ایک زمانے میں عمران کے جگری دوست نجم سیٹھی پر 65 مرتبہ 35 پنکچر لگانے کا الزام لگایا گیا۔ جسٹس (ر) ریاض کیانی اور جسٹس (ر) رمدے پر 12 اور 7 مرتبہ یہ الزامات عائد کیے گئے۔

حد تو یہ ہے کہ سابق چیف الیکشن کمشنر اور پاکستان کی انتہائی قابل احترام اور معزز شخصیت جناب فخرالدین ابراہیم جیسے درویش کو بھی نہیں بخشا گیا اور کنٹینر پر ٹہل ٹہل کر ان پر دھاندلی میں شریک ہونے کا الزام 6 بار عائد کیا گیا۔ یہ تو صرف چند شخصیات کا ذکر ہے، الزامات کے زہریلے تیر بہت سے دوسرے لوگوں اور متعدد اداروں پر بھی برسائے گئے۔

ان 126 دنوں میں عوام کو جمہوریت، پارلیمنٹ اور سیاستدانوں سے متنفر کرانے کی کوشش کی گئی۔ دوسرے لفظوں میں 2013ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے والے پاکستان کے کروڑوں ووٹروں پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ ایک جعلی پارلیمنٹ کو وجود میں لانے کے جرم میں شریک ہیں۔ ملک میں غیر یقینی صورتحال اس انتہا کو پہنچا دی گئی کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ انتہا تو یہ ہوئی کہ چین کے صدر کو بھی اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ یہ ایک ایسا دورہ تھا جس کی کئی ملک صرف آرزو ہی کر سکتے ہیں۔ یہ دورہ اپنے ساتھ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی لا رہا تھا۔

دورہ موخر ہوا لیکن خیر یہ ہوئی کہ چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا ارادہ ترک نہیں کیا۔ دھرنے کے خاتمے کے کئی مہینے بعد چین کے صدر پاکستان آئے، 26 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط ہوئے اور یہ طے پایا کہ اگلے چند برسوں میں 20 ارب ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کی جائے گی۔ کسی ملک میں اور وہ بھی پاکستان جیسے ایک ترقی پذیر اور ہر طرح کی مشکلات میں گھرے ہوئے ملک میں فوری طور پر 26 ارب ڈالر یعنی 26 کھرب روپے کی سرمایہ کاری کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔

دھرنوں کے دوران بار بار یہ درخواست کی گئی کہ چین کے صدر کا دورہ پاکستان طے شدہ ہے، آپ اسلام آباد پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں، دھرنا ختم نہیں کرتے تو اسے کم از کم چند ہفتوں کے لیے ملتوی کر دیں تا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے اس متوقع عمل میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو سکے، یہ بھی استدعا کی گئی کہ حضور خطے کے کئی ملک پاکستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری بالخصوص پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں۔

ان کی پوری کوشش ہے کہ اس منصوبے کو ناکام بنا دیا جائے۔ حکومت سے یا نواز شریف سے آپ کی لڑائی اپنی جگہ، ملک کا وزیر اعظم بننے کی خواہش بھی سر آنکھوں پر لیکن ذرا ملک کے بارے میں سوچیے اور دھرنے میں وقفہ دیجیے۔ لیکن کسی کی ایک نہ سنی گئی۔ دھرنا جاری رکھا گیا اور یہ اہم ترین دورہ ملتوی ہو گیا۔ یہ غور کرنے کی بات ہے کہ ملک کی معیشت پر منفی اثر ڈالنے والا دھرنا تو ملتوی نہیں ہوا البتہ پاکستان میں 46 کھرب کی سرمایہ کاری کے عمل کو موخر ضرور کرا دیا گیا۔ اس واقعے نے دھرنے کے اغراض و مقاصد کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات پیدا کر دیے اور لوگوں نے پوری صورتحال پر مختلف زاویوں سے غور و فکر کرنا شروع کر دیا۔

پاکستان کے وہ لوگ جو کسی نہ کسی حوالے سے نواز شریف سمیت دیگر بہت سے سیاستدانوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے اور اس لیے وہ ایک بہتر متبادل کے طور پر عمران خان کی حمایت کر رہے تھے، انھیں بھی اس بات سے گہرا صدمہ ہوا کہ چینی صدر کے پاکستان کے دورے کے دنوں میں اسلام آباد پر کیوں یلغار کی گئی اور اگر یہ محض ایک اتفاق تھا تو پھر مختصر وقت کے لیے دھرنوں کو ملتوی کر کے چینی صدر کے دورے کو ممکن کیوں نہیں بنایا گیا؟ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس نوعیت کی سنگین غلطی کی توقع ایک ایسے سیاستدان سے ہرگز نہیں کی جا سکتی تھی جسے بہت سے لوگ پاکستان میں ایک متبادل وزیر اعظم کے طور پر دیکھنے کے آرزو مند تھے۔


پی ٹی آئی کے مخالفین نے بھی اس غلط سیاسی حکمت عملی کا خوب فائدہ اٹھایا اور یہاں تک کہنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا کہ عمران خان دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ایک ایسی لابی کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں جو پاکستان میں جمہوریت اور معیشت دونوں کو بحران میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے تا کہ ان کے مخصوص مفادات پورے ہوتے رہیں۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب دھرنوں میں عوام کی شرکت تیزی سے کم ہونے لگی اور طاقتور حلقوں کی طرف سے بھی یہ واضح پیغام دے دیا گیا کہ بات اب سیاست سے آگے نکل چکی ہے، بہت ہو چکا، آپ ہم سے اگر کوئی امید وابستہ کیے بیٹھے ہیں تو یہ آپ کی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔

وہ انگلی نہیں اٹھے گی جس کا آپ کو انتظار ہے۔ عوام کی بیزاری اور ''اہم پیغام'' نے کام دکھایا، دھرنا سمیٹا گیا اور شرمندگی سے بچنے کے لیے عدالتی کمیشن کی تجویز پر بھی رضامند ہونا پڑا۔ عدالتی کمیشن اتفاق رائے سے قائم ہوا۔ چیف جسٹس جناب جسٹس ناصر الملک تین رکنی کمیشن کے سرابرہ تھے، دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس امیر ہانی مسلم شامل تھے۔

کمیشن کارروائی کے دوران بھی بار بار کہا گیا کہ منظم دھاندلی کے ثبوتوں سے بھرے کئی ٹرک تیار کھڑے ہیں۔ عبدالحفظ پیرزادہ نے شخصیات اور اداروں پر الزامات کے بارے میں ثبوت مانگے تا کہ وہ انھیں کمیشن میں پیش کر سکیں تو انھیں بھی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے جا سکے لہٰذا تمام تر کاوشوں کے باوجود پیرزادہ صاحب جیسے ذہین اور قابل وکیل کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

عدالتی کمیشن نے 85 روز کی کارروائی کے بعد 237 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں آخری نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے جو تین بنیادی الزامات عائد کیے تھے وہ انھیں ثابت کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور انتخاب مجموعی طور پر شفاف اور قانون کے مطابق ہوئے ہیں، عوام کے درست مینڈیٹ کی ترجمانی کرتے ہیں اور کسی شخصیت یا ادارے کی طرف سے منظم دھاندلی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آ سکا۔

عدالتی کمیشن کے فیصلے کے بعد ہر قسم کا ابہام ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان کو بدترین سیاسی بے یقینی کی صورتحال سے نجات مل چکی ہے۔ ہمیں اعلیٰ عدلیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے خالص میرٹ اور عدالت میں پیش کیے جانے والے ثبوت و شواہد کی بنیاد پر تحقیقات کیں اور ''اگر، مگر'' سے ہٹ کر دو ٹوک فیصلہ صادر کیا۔

یہ سیاسی جنگ جو دھرنوں سے شروع ہوئی اور بالآخر عدالتی کمیشن کے فیصلے پر اختتام پذیر ہوئی، دراصل دو زاویہ نگاہ اور نقطہ ہائے نظر کے درمیان ایک معرکہ تھا۔ ایک سوچ یہ تھی کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے، ان کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کو تسلیم کیا جائے جب کہ دوسرا خیال یہ تھا کہ عوام جاہل ہیں، وہ ہمیشہ غلط فیصلہ کرتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مسیحا آئے جو آہنی ہاتھوں سے ساری خرابیوں کا خاتمہ کر دے، اس کام کے لیے آئین، پارلیمنٹ اور قانون سمیت ہر چیز کو قربان کر دینا چاہیے۔ شکر ہے کہ اس سوچ کو کامیاب کرانے میں ماضی کی طرح عدلیہ سمیت کسی ادارے نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

عمران خان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں یا نہیں یہ ان کا معاملہ ہے۔ تاہم اپنی ضد، ہٹ دھرمی، سیاسی عدم بلوغت اور عاقبت نااندیش ''افراد'' کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے جب انھوں نے ملک کے آئینی اور جمہوری نظام کو داؤ پر لگاتے ہوئے اہم آئینی اور ریاستی اداروں کو آزمائش میں ڈال دیا تو اس کا نتیجہ ان کے سیاسی مفاد میں یقیناً نہ سہی لیکن پاکستان کے قومی مفاد میں ضرور نکل آیا۔

اب یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ تمام اداروں نے ماضی کے تجربوں سے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کو ہر قیمت پر قبول کرنا سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ دانش کا یہ وہ نکتہ ہے جو عدالتی کمیشن نے اپنے فیصلے سے تعلیم کیا ہے۔

شکریہ! عدالتی کمیشن شکریہ!
Load Next Story